Home » مفتی واجدی صاحب اور اویس اقبال کے مناظرے پر تاثرات
سائنس شخصیات وافکار فلسفہ کلام

مفتی واجدی صاحب اور اویس اقبال کے مناظرے پر تاثرات

جناب مفتی واجدی صاحب اور اویس اقبال کا مناظرہ سنا۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ مفتی صاحب بحث میں غالب رہے اور اویس اقبال موضوع سے غیر متعلق امور پیش کرتے رہے، ماسوا چند ایک نکات۔ اویس اقبال کو وجود باری، صفات باری اور افعال باری کی بحث میں فرق کا علم نہیں تھا اور اسی لئے خلط مبحث کرتے رہے۔ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ اویس صاحب کو موضوع سے متعلق فلسفیانہ منہج پر بھی گرفت نہیں تھی۔

اویس اقبال پہلے سوال پر ہی زیر ہوگئے تھے جب مفتی صاحب نے سوال پوچھا کہ آپ کے نزدیک سچائی معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ اس کے جواب میں اویس اقبال کو اپنی علمیات بتانا تھی مگر وہ ادھر ادھر کی باتیں کرکے کامن سنس کو معیار بنانے پر آکر رکے جو ایک لغو بات تھی (اگرچہ بعد میں ایک موقع پر انہوں نے یہ کہا کہ “موجود وہ ہے جو حس میں آئے”)۔ مناظرے کا پہلا اصول یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ سچائی کی بابت کس ماخذ پر مبنی دعوے کو معتبر سمجھا جائے گا تاکہ اس کے مطابق دلیل پیش کی جائے۔ اس کے بعد دونوں کافی دیر اس پر بحثتے رہے کہ برڈن آف پروف یعنی دلیل دینے کی ذمہ داری کس پر ہے۔ اویس اقبال کا کہنا تھا کہ یہ ذمہ داری ذات باری کے مدعی پر ہے نہ کہ ملحد پر اور مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ ملحد پر بھی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانیت کی ڈیفالٹ پوزیشن خدا کو ماننا رہی ہے اور الحادی دعوی (کہ “خدا نہیں ہے”) بعد میں آیا۔ لہذا ملحد کو بھی اس بات کی دلیل دینا ہوگی کہ “خدا موجود نہیں” کیونکہ عدم دلیل عدم وجود کی دلیل نہیں۔ مفتی صاحب کی یہ بات بھی درست تھی، تاہم اس کے لئے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وجود باری ماننا تاریخی طور پر ڈیفالٹ موقف ہے، اصولی طور پر عدم کا دعوی کرنے والے کو بھی اسی طرح دلیل دینا ہوتی ہے جیسے ہونے کا دعوی کرنے والے کو۔ البتہ اگر کوئی اگناسٹک موقف اختیار کرے کہ نہ میں ہونے کا مدعی ہوں اور نا نہ ہونے کا، جو اکثر ہوشیار ملحد اختیار کرتے ہیں، تو پھر اس پر برڈن آف پروف نہیں رہ جاتا اور یہ دلیل کارگر نہیں رہتی کہ تاریخی طور پر ڈیفالٹ پوزیشن فلاں بات ہے۔ اویس اقبال نے یہ بات کافی دیر بعد جاکر کہی کہ میں اگناسٹک ہوں لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی ملا دی کہ سائنس کے ذریعے ہم مذھبی خدا کی تردید کرسکتے ہیں، لیکن یہ ایک کمزور دعوی تھا۔ مذھبی خدا سے ان لوگوں کی مراد صفات والی ذات (یعنی personal God) ہوتی ہے۔

مفتی صاحب نے وجود باری پر دو دلائل دئیے، یقینا وقت کی قلت کی بنا پر مزید مضبوط دلائل کی جانب بات نہ جاسکی ہوگی۔ ان کی جانب سے پیش کردہ دونوں دلائل (مورل آرگومنٹ اور آنٹالوجیکل آرگومنٹ) کمزور تھے اور فریقین ان میں الجھے رہے۔ مورل آرگومنٹ کی ساخت یہ بنائی گئی کہ:

الف) اگر کائنات از خود ہوتی تو اس میں یا صرف خیر ہوتا اور یا صرف شر
ب) کائنات میں یہ دونوں موجود ہیں
ج) لہذا کائنات از خود نہیں بنی

آنٹالوجیکل آرگومنٹ کی ساخت یہ پیش کی گئی کہ:

الف) ہم آبجیکٹو انداز میں ایک سپریم بینگ کا تصور قائم کرسکتے ہیں
ب) سپریم بینگ کا ہونا ممکن ہے
ج) لہذا سپریم بینگ موجود ہے

انسانی سطح پر نہ خیر و شر کے متنوع قضایا موجود ہونے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کائنات کا کوئی بنانے والا ہے اور نہ ہی ایک پرفیکٹ یا سپریم بینگ کا تصور قائم کرسکنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسا وجود خارج میں متحقق ہے۔ مورل آرگومنٹ کے ضمن میں سام سنگ موبائیل کی مثال پر جو گفتگو ہوتی رہی اس سے طرفین میں سے کسی کا مقدمہ ثابت نہیں ہوتا تھا (اگرچہ مناظرے میں اس قسم کی غیر متعلق گفتگو در آنا معمول کی بات ہے)۔ مورل آرگومنٹ پر نقد کرتے ہوئے اویس اقبال کنفیوژ دکھائی دئیے، کبھی وہ اخلاقی قضایا کو سبجیکٹو اور کبھی آبجیکٹو کہتے رہے۔ شاید اویس اقبال کو یہ ادراک تھا کہ اخلاقی قضایا کو سبجیکٹو کہنے سے وہ “مسئلہ شر” والا اعتراض نہیں لاسکیں گے (آگے اس کا ذکر آرہا ہے)، اس لئے وہ اس پر ملی جلی و مبھم باتیں کرتے رہے۔ آنٹالوجیکل آرگومنٹ پر اویس اقبال کا یہ اعتراض درست تھا کہ کسی شے کا خیال کئے جاسکنے سے اس کا وجود ثابت نہیں ہوتا اور اس کے جواب میں مفتی صاحب کی جانب سے یہ کہنا مفید نہیں تھا کہ یہ خیال آبجیکٹولی کیا جاسکتا ہے۔ الغرض ان دونوں دلائل میں قضایا کی صحت متعین کرنے کا طریقہ ،یعنی وجہ استدلال، اور طریق استدلال واضح نہیں تھا۔ ممکن ہے مفتی صاحب نے تدریج کی بنا پر زیادہ مضبوط دلائل کو مؤخر رکھا ہو تاہم زیادہ مضبوط دلائل سے بات شروع کرنا شاید زیادہ مناسب ہوتا۔

اویس اقبال نظریہ ارتقا سے وجود باری کے عدم پر استدلال کرنے کی کوشش میں تھے، لیکن یہ غیر متعلق استدلال تھا اور مفتی صاحب نے درست طور پر یہ سوال پوچھا کہ آخر ارتقا سے خدا نہ ہونے کی بات کیسے ثابت ہوتی ہے؟ اس پر اویس اقبال کا یہ کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا کہ عام طور پر نظریہ تخلیق والے ایسا سمجھتے ہیں۔ اویس اقبال کی جانب سے ایک دلیل مشہور زمانہ “مسئلہ شر” پیش کرنا تھا کہ “شر کی تخلیق سے خدا شریر ثابت ہوتا ہے”۔ مفتی صاحب نے اس کا ٹو دا پوائینٹ جواب دیا کہ تخلیق شر سے شریر ہونا لازم نہیں آتا۔ اوپس اقبال اس غلط فہمی کا شکار بھی پائے گئے کہ “کائنات سے قبل خدا عدم میں کیسے تھا نیز وہ زمان و مکان کی تخلیق سے قبل کس زمان و مکان میں تھا؟” مفتی صاحب کا جواب برمحل تھا کہ خدا زمان و مکان میں نہیں ہوسکتا کہ اگر ایسا ہو تو وہ مخلوق ہوگا۔ اویس صاحب کی جانب سے ایک دلیل، جس پر زیادہ بات نہ ہوسکی، یہ تھی کہ آخر غیر مادی وجود نے مادی کائنات کو کیسے تخلیق کردیا؟ کم از کم ارتقا پر یقین رکھنے والے ملحد کو یہ دلیل زیب نہیں دیتی جو یہ مانے بیٹھا ہو کہ بے شعور و بے جان مادے سے حیات، شعور، سماعت و بصارت، گویائی اور متنوع جذبات وجود میں آگئے۔ اویس اقبال بار بار قرآن و حدیث میں درج بعض امور کی سائنسی تفصیلات سے غلطی ثابت کرنے کی کوشش میں تھے جیسے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا واقعہ وغیرہ۔ یہ اکثر ملحدین کا منھج بحث ہے کہ وہ قرآن (یا عیسائی کے ساتھ بحث کرتے ہوئے بائبل) میں سائنسی غلطیاں ثابت کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ اس سے مقصود یہ کہنا ہوتا کہ:

• قرآن خدا کی نازل کردہ کتاب نہیں بلکہ انسان کی لکھی ہوئی کتاب ہے جو پرانے علم پر مبنی تھی
• چونکہ قرآن مجید سائنسی علم کی روشنی میں غلط ہے
• اور پرسنل گاڈ ثابت کرنے کا طریقہ الہامی کتب ہیں
• لہذا الہامی کتاب سے ثابت ہونے والا پرسنل گاڈ غیر ثابت شدہ ہے

چنانچہ ملحد جب یہ کہتے ہیں کہ سائنس کے ذریعے خدا کا عدم وجود ثابت کیا جاسکتا ہے تو یہ دعوی اس معنی میں ہوتا ہے اور اویس اقبال بھی اسی کوشش میں تھے۔ لیکن یہ طریقہ استدلال بھی ملحدین کی اس غلطی فہمی پر مبنی ہے کہ اہل اسلام کے نزدیک پرسنل گاڈ کا ثبوت الہامی کتاب یعنی قران مجید پر مبنی ہے۔ متکلمین ذات باری کے لئے جن صفات ذاتیہ کو ثابت کرتے ہیں وہ دلیل عقلی (یعنی دلیل حدوث) سے ثابت ہیں۔ پس اگر برسبیل تنزیل ایک لمحے کے لئے یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ الہامی کتاب میں کوئی سائنسی غلطی ہے تب بھی اس سے یہ لازماً ثابت نہیں ہوتا کہ ایک پرسنل گاڈ موجود نہیں۔ الغرض اویس اقبال کی جانب سے اختیار کردہ یہ طریقہ استدلال بھی غیر مؤثر تھا لیکن اکثر ملحدین کی طرح انہیں بھی اس کا ادراک نہیں تھا۔ اویس اقبال صاحب اسی ضمن میں یہ غیر متعلق استدلال بھی کرتے رہے کہ “بتاؤ فلاں بارے میں تمہیں اللہ نے کیا بتایا اور فلاں بات کے بارے میں کیا بتایا؟” ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ چونکہ اللہ کی کتاب میں یہ تفصیل درج نہیں لہذا یہ اللہ کی نہیں بندے کی کتاب ہے۔ مفتی صاحب نے اس استدلال کے غیر متعلق ہونے کو واضح کیا۔ ہمارے نزدیک “مطلق ذات باری” اور “مذھبی خدا” کی تقسیم قائم کرکے بحث کرنا (جیسا کہ اس بحث کے آغاز میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا) غیر مفید ہے کیونکہ اہل اسلام کے نزدیک ایسی کوئی بامعنی تقسیم موجود نہیں۔ تاہم اگر حکمت عملی (مثلا تدریج یا مخاطب کے ذہن کی رعایت) کے تحت ایسا کیا جائے تو اس میں حرج نہیں اور مناظرے میں ایسا کرنا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں