سجاد حمید یوسفزئی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
کم عمری میں شادی کو ریپ کے مترادف نہیں گردانا جاسکتا اور نا ہی کم عمری کی شادی باطل تصور ہوگی: لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج، جناب علی ضیاء باجوا صاحب، کا ایک انتہائی اہم فیصلہ۔
حقائق اس کیس کے کچھ یوں ہیں کہ بچی کے والد نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور کہا اس کی بچی کو اس کے شوہر نے اغوا کیا ہوا ہے لہذا اس کی بچی کو اس کے شوہر سے بازیاب کرایا جائے۔
ساتھ ہی عدالت سے یہ بھی گزارش کی کہ چوں کہ یہ شادی کم عمری میں ہوئی ہے لہذا اس کی بچی کے شوہر پہ ریپ کا دفعہ بھی لگایا جائے۔ اور اس شاید کو باطل قرار دیا جائے۔
عدالت نے ان گذارشات پہ تفصیل کے ساتھ بات کی اور قرار دیا کہ کم عمری میں شادی کو نہ تو ریپ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے اور نا ہی اسے ریپ کے مترادف گردانا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ حنفی فقہ کے تحت شادی بلوغت کے ساتھ جڑی ہے نہ کہ کسی خاص عمر کے ساتھ۔ یعنی جب لڑکا اور لڑکی بالغ ہو جائیں تو وہ دونوں شادی کے اہل ہوجاتے ہیں۔ ہاں یہ بالکل ہی ایک الگ امر ہے کہ ریاست شادی کے لیے کوئی مخصوص عمر طے کر دے۔
ہمارے ملک میں کم عمری (اٹھارہ سال سے کم عمر) میں شادی پہ Child Marriage Restraint Act, 1929 پابندی لگاتا ہے۔ مگر یہ قانون کم عمری میں شادی کو کسی بھی صورت باطل نہیں قرار دیتا بلکہ صرف مخصوص عرصے کے لیے قید کرنے کی بات کرتا ہے اور بس۔
اگر مقننہ کی نیت کم عمری میں شادی کو باطل قرار دینا ہوتا تو مقننہ ضرور اس حوالے سے قانون میں صراحت کرتی مگر ایسا نہیں ہے۔ لہذا اس کا واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ کم عمری میں شادی پہ زیادہ سے زیادہ قید کی سزا دی جاسکتی ہے مگر نکاح کو کسی صورت باطل نہیں قرار دیا جاسکتا۔
عدالت اپنے اس استدلال کے لیے مسلسل سپریم کورٹ کے ایک مشہور کیس
Yousuf Masih alias Bagga Masih and another vs. The State – 1994 SCMR 2102
کا حوالہ دیتی ہے اور قرار دیتی ہے کہ ملکی عدالتوں کی متفقہ فقہ یہی ہے کہ کم عمری میں شادی باطل نہیں بلکہ قابل تعزیر جرم ہے۔ جس کی سزا مقرر ہے۔ مگر اس سے نکاح باطل نہیں ہوتا۔
عدالت اسی کیس سے اقتباس نقل کرتی ہے اور استدلال کرتی ہے کہ شادی کے لیے بلوغت شرط ہے نہ کہ عمر کی کوئی قید ہے۔
…All the original texts of Hanafi jurisprudence are unanimous on the point that 9 years is the minimum age on which the declaration of a girl about her puberty can be accepted. For example Allama Shami, the well known Hanafi jursit, writes in his Radd-ul-Muhtar, volume 5,—page 107 . . . . And the minimum age of puberty for a boy is 12 years and for a girl is 9 years.
اسی بنیاد پہ عدالت بچی کے والد کی یہ عرض مسترد کرتی ہے کہ بچی کی عمر چوں کہ 13/14 سال ہے وہ کم عمر ہے لہذا نہ صرف یہ کہ شادی باطل ہے بلکہ یہ ریپ کے زمرے میں آتی ہے۔
عدالت پھر اس سوال کا رخ کرتی ہے کہ لڑکی بلوغت تک پہنچ گئی ہے تو اس کا تصدیق کون کرے گا اور یہ ہمیں کیسے پتہ چلے گا۔ اس پہ عدالت کہتی ہے کہ یہ جانچنے کے لیے سادہ اصول اسی لڑکی کا بیان ہے۔ اگر وہ کہتی ہے کہ وہ بالغ ہوچکی ہے تو اسے تب تک بالغ ہی تصور کیا جائے گا جب تک اس کے برخلاف کوئی ٹھوس شواہد موجود نہ ہوں۔
عدالت پھر ایک اور اہم سوال کا رخ کرتی ہے۔ وہ یہ کہ بچی کے والد نے یہ کہا کہ اس کی بیٹی چوں کہ کم عمر ہے لہذا وہ سی آر پی سی کے سیکشن 164 کے تحت بیان ریکارڈ نہیں کروا سکتی۔ اس پہ عدالت نے کہا کہ گواہ بننا یا گواہی کی اہلیت کے لیے قانون شہادت نے بھی عمر کی کوئی شرط نہیں رکھی بلکہ سمجھ کی شرط رکھی ہے یعنی کہ بھلے کوئی شخص کم عمر ہو اس کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہو لیکن اس کو اگر چیزوں کی سمجھ ہو تو اس کی گواہی قبول تصور ہوگی۔ لہذا مذکورہ بچی کا بیان بھی قبول تصور ہوگا۔ بھلے وہ کم عمر ہے۔
آخر میں عدالت نے بچی کے والد کی درخواست مسترد کردی۔
جج: علی ضیاء باجوا صاحب، لاہور ہائی کورٹ
حوالہ:
Writ Petition No.57371 of 2023
(Nazar Muhammad vs. DPO, etc)
کمنت کیجے