٫مسجد استقلال‘ کے خطیبِ اعظم نے جب اسے ’سسٹم‘ کانام دیا تو میں چونکا۔تفصیل بتائی تو حیرت میں ڈوب گیا۔
جکارتہ میں واقع یہ جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔اس کا ایک وسیع و عریض ہال ہے۔مرد اور خواتین اسی ہال میں اکٹھے نماز پڑھتے ہیں،اس اہتمام کے ساتھ کہ درمیان میں علامتی سی تقسیم ہے۔انڈونیشیا میں خواتین کو نارمل انسان سمجھا جا تا ہے،خطرہ ء ایمان نہیں۔وہ زندگی کے ہر شعبے میں متحرک ہیں۔اُن پر بازار کا راستہ بند ہے نہ مسجد کا دروازہ۔اکثر خواتین شائستہ اور باوقار لباس میں دکھائی دیتی ہیں۔اگرکوئی نہیں ہے تو لوگ صرفِ نظر کرتے ہیں۔نہ آنکھیں ان کا پیچھا کرتی ہیں نہ دوسروں کو انہیں مزید ساتر بنانے کی فکر پریشان رکھتی ہے۔
یہ مسجد ایک ’سسٹم‘ کیسے ہے؟ایک تو یہ کمیونٹی سنٹر ہے۔یہاں ورزش کی جگہ بنائی گئی ہے۔تقریبات ہوتی ہیں اور اس کے ساتھ تعلیم کا اہتمام ہے۔مسجد کی انتظامیہ نے بلاسودی کاروبار کا ایک نظام وضع کیا ہے جس میں لوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں۔یہ کاروباری سرگرمیاں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔اس کا سب سے اہم پہلو دیگر مساجد کے آئمہ و خطبا کو روزگار کی سہولت فراہم کر نا ہے۔
دیگر مسلم ممالک کی طرح،یہاں بھی دو طرح کی مساجدہیں۔ایک جامع مسجد ہے اور ایک مصلیٰ۔جامع مسجد وہ ہے جہاں نمازِ جمعہ کا اہتمام ہو تا ہے۔اس کے لیے حکومت کی اجازت لازم ہے۔مصلیٰ عام نماز کی جگہ ہے جو کہیں بھی مختص کی جا سکتی ہے۔بازاروں،دفاتر اورعوامی مقامات پر لوگ اپنی سہولت کے تحت مصلیٰ بنا لیتے ہیں۔بالعموم لوگ اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔پاکستان شایدعالمِ اسلام کا واحد ملک ہے جہاں جامع مسجد بنانے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں۔جو جہاں چاہے جمعہ کی نماز شروع کر سکتا ہے۔
مسجد استقلال نے ملک بھر کی جامع مساجد کو غیر رسمی طور پر اپنے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے۔خطبا اور آئمہ کے لیے تربیتی پروگرام ترتیب دیے جا تے ہیں۔خطبہ جمعہ کے لیے موضوع کی کوئی پابندی نہیں مگر مسجد استقلال سے انہیں سال بھر کے لیے موضوعات فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ خطبا ان کو پیشِ نظر رکھیں۔یہ تربیت کی ایک صورت ہے۔
غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات بھی اس ’سسٹم‘ کا ایک اہم حصہ ہے۔مسجد کے قریب ایک بڑی مسیحی عبادت گاہ ہے۔مذہبی ہم آہنگی کے اظہار کے طور پر انہیں ایک سرنگ سے جوڑا گیا ہے۔مسجد کے پاس وسیع پارکنگ ہے۔جب مسیحیوں کی کسی بڑی تقریب کا موقع ہوتا ہے تو اس پارکنگ کے دروازے ان کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔ انڈونیشیا میں مسلم غیر مسلم تعلقات مثالی ہیں۔اس میں ریاست کی حکمتِ عملی کے ساتھ مذہبی جماعتوں اور مسجدِ استقلال جیسے ’سسٹم‘ کا اہم کردار ہے۔
اس مسجد نے دنیا بھر کے اسلامی اداروں کے ساتھ بھی تعلق قائم کر رکھا ہے۔خطیب صاحب پاکستان کے ساتھ بھی ایسے موثر تعلق کے خواہاں تھے۔انہیں اسلامی مالیات اور معیشت کے ماہرین کی ضرورت ہے۔ان کا خیال ہے کہ اس ضمن میں پاکستان ان کا مدد گار ہو سکتا ہے۔انہیں افسوس تھا کہ اسلامی علوم کے جیسے ماہرین غیر مسلموں میں ہیں،مسلمانوں میں نہیں۔ان کا تاثر تھا کہ جو شراب پیتا ہو اور نماز جیسی عبادت سے دورہو،اس کے علم میں برکت نہیں ہو تی۔کیا اچھا ہو کہ علومِ اسلامیہ کے ایسے سکالرز ہوں جو کردار میں بھی اس کا نمونہ ہوں۔
اس سسٹم کا اپنا تعلیمی نظم بھی ہے۔یہ ملک کے نظامِ تعلیم اور نصاب سے جڑا ہوا ہے۔اس کے تحت،طلباو طالبات کو دین سکھایا جا تا ہے۔اس کے ساتھ وہ اس قابل بھی ہوتے ہیں کہ آسانی کے ساتھ ریاستی نظام کا حصہ بن سکتے ہیں۔یہ انڈونشیا کی عمومی دینی تعلیمی کا خاصہ ہے جو اس سسٹم میں بھی پایاجاتا ہے۔اس طرح یہ محض ایک مسجد نہیں بلکہ ایک سماجی ادارہ ہے جس کے لیے سسٹم کا لفظ موزوں ہے۔
ہم جس خطیبِ اعظم سے ملے،ان کی داڑھی نہیں تھی۔انڈونیشیا میں شوافع کی اکثریت ہے۔وہاں داڑھی کے بارے میں وہ حساسیت نہیں ہے جو ہمارے ہاں پائی جاتی ہے۔وہاں کے اکثر علما کی داڑھی نہیں ہے اورمعاشرے میں اسے عالمِ دین کے لیے لازمی شرط کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔نہضۃ العلما اور محمدیہ کے علما کا معاملہ بھی یہی ہے۔ تاہم نماز اور دیگر عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ان علما میں دین کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔عام طور پر یہ لوگ ٹوپی کا اہتمام کرتے ہیں۔سماجی سطح پرٹوپی شرفاکے لباس کا حصہ ہے۔علما و عوام ایک ہی طرح کی ٹوپی پہنتے ہیں۔یہ جناح کیپ سے ملتی جلتی ہے اور صدر سوکارنو اس کا اہتمام کیا کرتے تھے۔
مسجد استقلال کے خطیب نے اس سسٹم کے بارے میں ایک اہم بات بتائی۔ان کا کہنا تھا کہ وہ مسجد کے اس کردار کو بحال کرنا چاہتے ہیں جو عہدِرسالت میں تھا۔نبی ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں،مسجد ستائیس کاموں کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتی تھی،ہم چاہتے ہیں کہ آج بھی مسجد ان تمام امور کے لیے مرکز بنے۔ان میں مذہبی اور سماجی نوعیت کے بہت سے کام شامل ہیں۔ان میں سے بعض کا،میں نے اس کالم میں ذکر بھی کیا ہے۔
خطیب صاحب کی گفتگوکے دوران میں اور مسجد میں گھومتے پھرتے،میں مسلسل سوچتا رہا کہ بچپن سے، میں مسجد کے جس تصور سے آشنا ہوں،وہ اس سے تصورسے اتنامختلف کیوں ہے؟یہاں مسجد خواتین کے لیے جائے ممنوعہ ہے۔دیہات اور شہر،دونوں مقامات پر ہمارا رویہ یکساں ہے۔ مسجد نماز کے علاوہ ایک حد تک دینی تعلیم کی جگہ بھی ہے مگر یہ کسی طرح بھی سسٹم نہیں بن سکی۔اس پر مستزاد مسلکی جھگڑے ہیں جنہوں نے مسجد کے تقدس ہی کو مجروح نہیں کیا،خوددین کی افادیت پر سوالات ا ٹھا دیے ہیں۔اس کاذمہ دار دین نہیں،ہم ہیں۔
ماضی میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے مسجد میں نکاح کی تحریک اٹھائی تھی۔یہ ایک اچھا قدم تھامگر محترم ڈاکٹر صاحب نے اسے شادی بیاہ کی سماجی تقریبات سے وابستہ کرتے ہوئے، ایک ایسے پیکج میں بدل دیا،جس نے بحث کو نیا رخ دے دیا اور مسجد کی مرکزیت کا معاملہ پس منظر میں چلا گیا۔اگر اصلاحِ رسوم اور مسجد کی مرکزیت کو الگ رکھا جاتا تو شاید دونوں باتوں کی تفہیم آسان ہو جا تی۔
ہمارے ہاں بعض لوگوں نے اپنے طور پر مسجد کے کردار کو مفید تر بنانے کی کوشش کی۔یہ قابل تحسین کوششیں مگر انڈونیشیا کی طرح کلچر نہیں بن سکیں۔مسجد کی صفائی اس کلچر کا اہم حصہ ہے۔افسوس کہ ہم اس بارے میں بھی حساس نہیں ہیں۔حکومت کی تو اس بات کی جرات نہیں کرتی کہ مساجد کا رخ کرے۔اگر محراب و ومنبر کے ذمہ داران خود ہی اس جانب توجہ دیں توہم مسجد کو ایک سسٹم میں بدل سکتے ہیں۔
’خدا مرکز‘ سوچ اسی وقت پیدا ہوگی جب سماج ’مسجد مرکز‘ ہوگا۔مسجد،اللہ کے لیے ہیں۔جو مسجد اللہ کے لیے نہیں ہے،وہ مسجد ضرارہے۔جب مسجد اللہ کے لیے خاص ہوتی ہیں تو وہ عباد اللہ کا مستقر بنتی ہیں۔ہمارے لیے اس حوالے سے معاصر مسلم معاشروں میں بڑا سبق ہے۔ہمیں ان سے سیکھنا چاہیے۔اس کے لیے سوچ میں ایک بڑ ی تبدیلی لازم ہے۔مسجد کی یہ حیثیت ایک داعی ہی سمجھ سکتاہے۔داعی کی نفسیات مسلکی نفسیات سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ہمارے ہاں مسلکی نفسیات غالب ہے۔نتیجتاً مساجد بھی مسلکی ہیں۔
عوام اگر سماج اور مسجد کے باہمی تعلق کو جان جائیں تو مساجدکا کردار تبدیل ہوسکتاہے۔معلوم نہیں،اس تبدیلی کے لیے مزید کتنی محنت کرنا ہو گی۔
کمنت کیجے