Home » کیا سماجی بائیکاٹ کا فتویٰ بے بنیاد ہے ؟
تفسیر وحدیث سماجیات / فنون وثقافت سیاست واقتصاد شخصیات وافکار

کیا سماجی بائیکاٹ کا فتویٰ بے بنیاد ہے ؟

محمد رضوان عزیز

جناب عمار خان ناصر صاحب کی خدمت میں*

گزشتہ دنوں اقلیتوں کے حقوق کے حوالہ سے جناب حافظ طاہر محمود اشرفی صاحب نے ایک پوسٹ شئیر کی جس میں امت مسلمہ کے اصولی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے یہ کہا کہ کادیانی بھی بحثیت غیر مسلم اقلیت الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں اپنا نمائندہ پارلیمنٹ میں بھیج سکتے ہیں

اس میں کوئ ایسی بات نھیں تھی جو وضاحت یا مزید بیان کی محتاج ہو جب تمام مکاتب فکر کے علماء ور ختم نبوت پر کام کرنے والی تحریکات نے انھیں غیر مسلم اقلیت قرار دلوا کر ان کی آئینی حیثیت واضح کی ہے تو ان کے غیر مسلموں والے حقوق ملنے پر کسی کو کیا اعتراض ؟
لیکن ہمارے مخدوم جناب عمار خان ناصر صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک کوئ اڑتا تیر بغل میں نہ لیں ان کو اپنی علمی قابلیت زنگ آلود ہوتی نظر آنے لگتی ہے حالانکہ موصوف کی رگوں میں جس علمی خانوادے کا خون ہے میرے جیسا ایک طالب علم بھی ان کی کتاب کا اشتہار دیکھ کر کراچی ایکسپو سینٹر میں المورد کے سٹال پر وہ کتاب خریدنے جاپہنچا یہ الگ بات ہے کہ وہ کتاب وہاں سے نہ مل سکی جس کا بہت حال افسوس ہے
تو میں یہ عرض کررہا تھا سب لوگوں کو اخلاقیات کا بھاشن دینا آسان ہے لیکن موصوف نے گفتگو کا سٹارٹ ہی ایسے لیا کہ ختم نبوت کی اجارہ دار جماعتوں ۔۔۔الخ
جناب برادر مکرم اگر انہی الفاظ کو جواب آں غزل کے طور پر
کادیانیت کے غم۔خوار دانش وروں کے الفاظ سے بدل دیا جائے تو آپ بہتر سمجھتے ہیں کن کن مندروں کی گھنٹیاں بجنے لگیں گی لیکن ہم ایسی بات کہہ کر آپ کی اور آپ کے بہی خواہوں کہ دل آزاری نھیں کریں گے
جناب نے اپنی تحریر کے آخر میں دو جملہ انتہائ دل آزاری لکھے کہ کادیانی ووٹ لینے کیلئے رابطہ کریں گے تو ایسا کرنے سے قطعا گنبد خضراء میں رسول اللہ کا دل نھیں دکھے گا ۔۔الخ
جناب خدارا اپنی تحقیقات کا گھوڑا عالم برزخ تک مت دوڑائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے یارانے پر آپ کو تکلیف ہوگی ایسا تو روایات سے مفہوم ہوتا ہے جس کو زبان قال سے نھیں تو زبان حال کی ترجمانی سمجھا جاسکتا ہے مگر آنجناب جو فرما رہے ہیں اس کے پیچھے اگر کوئ ٹھوس دلیل ہے تو ارشاد فرما دیں ہم۔اس نوازش پر ممنون ہوں گے
دوسری بات جناب نہ یہ کی۔
*پس سماجی ترک تعلق کا مذھبی بیانیہ یا فتویٰ بھی بے بنیاد ہے*
آپ کی اور آپ کے محبین کی خیر خواہی کیلیے اپنے مذھبی بیانیے اور فتویٰ کی کچھ بنیادیں کو آپ شاید آپ کی نظر میں نہ ہوں یا ممکن ہے اور عین ممکن ہے کہ نظر میں تو ہوں لیکن جناب کے سمانے اس سے زیادہ مضبوط دلائل اس بات کے ہوں کہ زنادقہ سے سماجی تعلق رکھنے میں کوئ شرعی قباحت نھیں ہے اگر ایسا ہے تو آپ براہ کرم ان دلائل آگاہ فرمائیں تاکہ یہ سماجی بائیکاٹ والا ایک مسئلہ تو آپ حل کروا کر سرخرو ہوں اگرچہ فی الحال کی آپ کی کارگزاری مضامین اور پوسٹون تک محدود ہے
ہم۔بحثیت مسلمان اپنی سماجی زندگی گزارنے کا ایک لائحہ عمل رکھتے ہیں ، اسلام کا دوستی ودشمنی میں مؤقف باکل واضح ہے ہمارے معاملات ہر شعبہ زندگی میں مکمل رہنمائی موجود ہے ۔
کفار سے یہاں کونسا معاملہ کرنا جائز ہے کونسا ناجائز ہے تو یہ بھی احکامات واضح ہے لیکن طبقہ انسانی میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جسے زندیق کہا جاتا ہے یہ طبقہ وہ ہے جو ہوتا کافر ہے مگر خود کو مسلمان ظاہر کرتا ہے ،اور مذہب اسلام جیسے عظیم الشان مذہب کا لیبل لگا کر اپنا کفر فروخت کرتا ہے ، ان سے ہر طرح کا لین دین اور سماجی تعلق ممنوع ہوتا ہےیہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ اسلام میں سے کوئی بھی اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا ۔
حدود وقصاص کا قائم کرنا حکومت کا کام ہے ،رعایاکا کام نہیں ،لیکن اگر معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوجائے ،کچھ افرادجرائم ومعاصی کا ارتکاب کرنے لگ جائیں تو ان کو درست اور سیدھا کرنے کے لئے معاشرے کو برا ئیوں سے پاک وصاف رکھنے کے لئے جرائم پیشہ افراد سے قطع تعلقی (بائیکاٹ)کرنا ان کے ساتھ میل جول لین دین ترک کردینا۱ ان سے رشتہ ناطہ نہ کرنا ،ان کی تقریبات شادی غمی میں شریک نہ ہونا ،ان کو اپنی تقریبات میں شامل نہ کرنا ،نہایت ہی پر امن ،بے ضرر اور مؤثر ذریعہ ہے ۔آج سے تقریباً نصف صدی پہلے تک ہرزمانے کے مسلمان اسی بائیکاٹ کے ذریعے اصلاح ِ معاشرہ کرتے چلے آئے ہیں ، چنانچہ شرح مشکٰوۃ میں ہے۔
*وھٰکذا کان داب الصحابۃ ومن بعدھم من المؤمنین فی جمیع الأزمان فانھم کانو یقاطعون من حاد اللہ ورسولہ مع حاجتھم الیہ واثر وارضاء اللہ تعالیٰ علیٰ ذالک*
(مرقات شرح مشکٰوۃ : ج 1ص 290)
’’یعنی صحابہ کرام ؓ اور ان کے بعد والے ہر زمانے کے ایمان والو ں کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ خدا تعالی اور اس کے رسول اللہﷺ کے مخالف دشمنوں کے ساتھ بائیکاٹ کرتے رہے، حالانکہ ان ایمان داروں کو دنیوی طور پر ان مخالفوں کی احتیاج بھی ہوتی تھی ، لیکن وہی مسلمان خدا تعالی کی رضا کو ترجیح دیتے ہوئے بائیکاٹ کرتے تھے
یہ بائیکاٹ قرآن وحدیث کے عین مطابق ہے ، بلکہ سید عالم ﷺ نے عملی طور پر بھی اس کو نافذ فرمایا ،جب غزوہ خیبر میں یہودیوں کا محاصرہ اور یہودی قلعے میں محصور ہوگئے اور کئی دن گزرگئے تو ایک یہودی آیا اور اس نے کہا کہ اے ابوالقاسم !اگر آپ مہینہ بھر ان کا محاصرہ رکھیں تو ان کو پرواہ نہیں ،کیونکہ ان کے قلعے کے نیچے پانی ہے، وہ رات کے وقت قلعے سے اتر تے ہیں اور پانی پی کراور پانی ساتھ لے کر واپس چلے جاتے ہیں ،تو اگر آپ انکا پانی بند کردیں تو جلدی کامیابی ہوگی ۔ اس پرسید دو عالم ﷺ نے انکا پانی بند کردیا ، تو وہ مجبور ہوکر قلعے سے اتر آئے :
*فسار رسول اللہ ﷺ الی مائھم فقطعہ علیھم فلما قطع علیھم خرجوا۔*
(زاد المعاد ابن قیم ج 3 ص 234، علی ہامش مواہب للزرقانی ج 4ص 205)
اور ایک مرتبہ جبکہ حضرت سیدنا کعب بن مالک صحابی ؓؓ اور انکے ساتھی دو اور صحابیؓ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے ۔واپسی پر سرکار دو عالم ﷺ نے جواب طلبی فرمائی اور تمام مسلمانوں کوحکم دیا کہ ان تینوں کے ساتھ بات چیت ترک کردی جائے ۔حضرت کعب ؓفرماتے ہیں :
*ونھی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم عن کلامی وکلام صاحبی*
(صحیح بخاری ج :2ص 675باب وعلی الثلاثۃ الذین ختلفو ا حتیٰ اذ ا ۔۔۔۔۔۔ الخ )
’’یعنی رسول اللہ ﷺ نے میرے ساتھ اور میرے دو ساتھیوں کے ساتھ بات چیت کرنے سے منع فرمادیا ۔‘‘
*فاجتنب الناس كلامنا*
ہمارے ساتھ کوئی بھی بات نہ کرتا تھا ۔ انتہی ۔
اور اس بائیکاٹ کااثر یہ ہوا کہ زمین باوجود وسیع ہونے کے ان پر تنگ ہوگئی ،بلکہ وہ اپنی جانوں سے بھی تنگ آگئے ۔
حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ‘‘(التوبہ)
یہ بائیکاٹ جب چالیس دن تک پہنچا تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ اب ان کی بیویاں بھی ان سے الگ ہوجائیں ۔ پھر جب پورے پچاس دن ہوگئے تو خدا تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور اس کا حکم بذریعہ وحی نازل فرمایا ۔
(روح البیان )
تنبیہ
یہ صحابہ کرام ؓ حضرات تھے ، ان سے لغزش ہوئی تو اللہ تعالی نے اپنے حبیب پاک صاحب لولاک ﷺ کی برکت سے ان کی لغزش کو معاف فرمایا ، ان کی معافی کی سند قرآن مجید میں نازل فرمائی ان کے درجات بلند کئے ، لہذا اب کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ان حضرات کے متعلق کوئی ادب سے گری ہوئی بات کہے یا دل میں بد گمانی رکھے ، صحابہ کرام ؓ کے ساتھ ایسا کرنا سراسر ہلاکت ہے اور دین کی بربادی ہے ،
قطع تعلقی (بائیکاٹ) کے متعلق قرآن پاک میں ہے :
’’وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ‘‘
(ہود :`13)
یعنی ظالموں کی طرف میلان نہ کرو ،ورنہ تمہیں نار جہنم پہنچے گی ۔
نیز قرآن پاک میں ہے:
’’فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ‘‘
(الانعام )
یعنی یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھو ۔
اورحدیث پاک میں ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا وَقَعَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ فِي الْمَعَاصِي نَهَتْهُمْ عُلَمَاؤُهُمْ فَلَمْ يَنْتَهُوا فَجَالَسُوهُمْ فِي مَجَالِسِهِمْ وَوَاكَلُوهُمْ وَشَارَبُوهُمْ فَضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ وَلَعَنَهُمْ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ قَالَ فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ حَتَّى تَأْطُرُوهُمْ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا ۔‘‘
(ترمذی شریف 3047، )
یعنی رسول ا للہ ﷺ نے فرمایا کہ جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلاہوئے تو ان کو ان کے علماء نے منع کیا ، مگر وہ باز نہ آئے ، پھر ان علماء نے ان کے ساتھ ان کی مجلسوں میں بیٹھنا شروع کردیا اور ان کے ساتھ کھاتے پیتے رہے (بائیکاٹ نہ کیا ) تو خدا تعالی نے ان کے ایک دوسرے کے دلوں پر مار دیا اور حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کی زبانی ان پر لعنت بھیجی ، کیونکہ وہ نا فرمانی کرتے حد سے بڑھ گئے تھے ۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ تکیہ لگائے تشریف فرماتھے ، حضور اکرم ﷺ اٹھ کر بیٹھ گیء اور فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ! جرائم پیشہ لوگوں کو روک لو!‘‘
مذکورہ بالا بائیکاٹ کا حکم ایسے لوگوں کے متعلق ہے جو عملی طور پر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ، لیکن جو لوگ دین کے ساتھ دشمنی کریں اور خدا تعالی اور اس کے پیارے رسول اکرم ﷺ کی شان اور عظمت پر حملے کرے، ایسے بد مذہبوں کیلئے سخت حکم ہے ، ان کے ساتھ بائیکاٹ کرنا ، میل ملاپ ، محبت دوستی کرنا سخت حرام ہے ، اگر چہ وہ ماں باپ ہوں ، یا بیٹے بیٹیاں ہوں، بہن بھائی ہوں ، کنبہ برادری ہو ، قرآن پاک میں ہے :
’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ‘‘
’’یعنی اے ایمان والو ! اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بہن بھائی ایمان پر کفر کو پسند کریں تو ان سے محبت ودوستی نہ کرو ، اور جو تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے گا ، وہ ظالموں میں ہوگا ۔‘‘
نیز قرآن پاک میں ہے:
’’للَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔
’’یعنی تم نہ پاؤ گے کسی ایسی قوم کو جو خدا تعالیٰ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوں وہ دوستی کریں ایسے لوگوں سے جو دشمنی اور مخالفت کریں اللہ تعالی اور اس کے پیارے رسول اللہﷺ سے اگر چہ وہ دشمنی کرنے والے ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں ،بھائی ہوں یا کنبہ برادری ہو، ایسے ایمان والوں کے دلوں میں اللہ تعالی نے ایمان نقش فرمادیا ہے
اور ان کی روح سے مدد فرماتا ہے اور انہیں بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، ان بہشتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے خدا تعالی ان سے راضی وہ خدا سے راضی یہ لوگ خدا تعالی کی جماعت ہیں اور خدا تعالی کی جماعت ہی دونوں جہا ںمیں کامیاب ہے‘‘
آیت مذکورہ کا مفہوم یہ ہے کہ خدا تعالی پر ایمان اور اس کے رسول کے دشمنوں کے ساتھ دوستی یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہو ہی نہیں سکتی ،چناچہ تفسیر روح المعانی میں ہے:
*والکلام علی مافی الکشاف من باب التخییل خیل ان من الممتنع المحال ان تجد قوماً مؤمنین یوادون المشرکین*
یعنی آیت مبارکہ میں تصور دلایا گیا ہے کہ کوئی قوم مؤمن بھی ہو اور کفار ومشرکین کے ساتھ اس کی دوستی ومحبت بھی ہو، یہ محال وممتنع ہے۔
نیز اسی میں ہے :
*مبالغۃ فی النھی عنہ والزجر عن ملابسۃ والتصلب فی مجانبۃ اعداء اللہ تعالی*
(روح المعانی ج 26’ص ۔30تا31)
یعنی آیت مذکورہ میں خدا تعالی اور اس کے پیارے رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں کے ساتھ محبت ودوستی کرنے سے مبالغے کے ساتھ منع فرمایا اور ایسا کرنے والوں کے زجر وتوبیخ ہے ، اور خدا تعالیٰ کے دشمنوں سے الگ رہنے کی پختگی بیان کی گئی ہے۔
خدا تعالیٰ جل مجدہ نے اپنے حبیب پاک ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کے دلوں میں ایسا ایمان نقش کردیا تھا کہ ان کی نظروں میں حبیب خدا ﷺ کے مقابلے میں کسی کی کوئی وقعت ہی نہیں باپ ہو کہ بیٹا ، بھائی ہوکہ بہن ،چناچہ سیدنا امیرالمؤمنین ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے باپ ابوقحافہ کی زبان سے سیدنا دو عالم ﷺ کی شان میں گستاخی سنی تو اس کو ایک ایسا مُکہ رسید کیا کہ وہ گرگیا ،جب حضور ﷺ سے عرض کیا اور حضور ﷺ نے پوچھا :
’’افعلت یاابا بکر ؟:‘‘
اے ابوبکر ! آپ نے ایسا کیا ہے ؟ عرض کیا کہ : ہا ں یارسول اللہ ﷺ !
’’لاتعد! قال : واللہ لوکان السیف قریباً منی لضربتہ‘‘
(روح المعانی ج؛28ص 37)
یارسول اللہ ! خدا کی قسم ! اگرمیرے قریب تلوار ہوتی تو میں اس کو مار دیتا ، اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی ’(روح المعانی ۔اور سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے اپنے باپ کے منہ سے اپنے محبوب آقا کی شان میں کوئی ناپسندیدہ بات سنی تو اسے منع کیا ،وہ باز نہ آیا تو اس نے باپ کو قتل کردیا ، جیسے روح المعانی میں ہے:
*عن انس قال : کان ای ابو عبیدۃ قتل اباہ وھو من جملۃ اساری بدر بیدہ لما سمع منہ فی رسول اللہ ﷺ مایکرہ ونھاہ فلم ینتہ*
(روح المعانی ج 28ص 33)
یوں ہی حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو بدر کے دن اپنے ہاتھ سے قتل کردیا ، اور حضرت علی شیر خدا ؓ اور حضرت حمزہ ؓ اور حضرت عبیدہ بن حارث ؓ نے عتبہ شیبہ کو قتل کردیا ،اورحضرت مصعب بن عمیر ؓ نے اپنے بھائی عبیدہ بن عمیر کو اپنے ہاتھ سے قتل کردیا ۔
خداتعالی ان پاک روحوں پرلاکھوں ،کروڑوں ،اربوں ، کھربوں رحمتیں نازل فرمائے ،جنہوں نے امت کو عشق مصطفی کا درس دیا اور یہ ثابت کردیا کہ ناموس مصطفی کے سامنے سب ہیچ ہیں ۔ حضور رحمت دو عالم ﷺ کی عزت وعظمت کے سامنے نہ کسی استاد کی عزت ہے ،نہ کسی پیرکا تقدس رہ جاتاہے۔ نہ ماں باپ کا وقار ، نہ بیوی بچوں کی محبت آڑ ے آتی ہے، نہ مال ودولت ہی رکاوٹ بن سکتی ہے ،
صحابہ کرام ؓ کے عشق ومحبت ہی کی بنا پر خدا تعالیٰ نے ان کے جذبات کی تعریف فرمائی ہے :
’’أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ‘‘
(الفتح :29)
یعنی وہ کافر وں دشمنوں پر بڑے ہی سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں ۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا ورسول کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی اور شدت کی مقدار پر ہی عشق ومحبت کا دعویٰ قابل قبول ہے لیکن محبوب کے دشمنوں کے ساتھ بغض وعداوت نہ رکھے ،وہ محبت میں سچا نہیں ہے ، وہ محبت محبت ہی نہیں ہے ، بلکہ وہ بربریت ہے، دھوکا ہے، فریب ہے ، الحاصل ! خداتعالیٰ اور اس کے پیارے رسول ﷺ کے دوستوں کے ساتھ دوستی اور ان کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی افضل الاعمال ہیں ، حدیث پاک میں ہے:
أفضلُ الأعمالِ : الحبُّ في اللَّهِ، والبغضُ في اللَّهِ ‘‘
(ابوداؤد شریف ج : 2ص :124،باب حجانبہ اہل الاھواء )
یعنی عملوں میں افضل ترین عمل خدا تعالی کے دوستوں سے محبت کرنا اور خدا تعالی کے دشمنوں سے دشمنی کرنا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ دربار الٰہی میں یوں دعا کرتے ہیں :
’’اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا هَادِينَ مُهْتَدِينَ ، غَيْرَ ضَالِّيْنَ وَلا مُضِلِّينَ ، سِلْماً لأَوْلِيائِكَ ، وَحَرْباً على أَعْدَائِكَ ، نُحِبُّ بِحُبِّكَ مَنْ أَحَبَّكَ ، وَنُعَادِي بِعَدَاوَتِكَ مَنْ خَالَفَكَ.اللَّهُمَّ هَذَا الدُّعَاءُ وَمِنْكَ الإِجَابَةُ ، اللَّهُمَّ هَذَا الجُهْدُ وَعَلَيْكَ التُّكْلانُ.
(ترمذی شریف ج : 2ص :178، باب مایقول اذا قام من اللیل )
’’یا اللہ!ہم کو ہدایت دہندہ، ہدایت یافتہ کر۔ یا اللہ ! ہم کو گمراہ ،اور گمراہ کرنے والانہ کر۔ یا اللہ ! ہم کو اپنے دوستوں کے ساتھ محبت ودوستی کرنے والا ، اور اپنے دشمنوں کے ساتھ دشمنی وعداوت رکھنے والا بنا ۔ یا اللہ! ہم تیری محبت کی وجہ سے تیرے دوستوں سے محبت کرتے ہیں ، اور تیرے دشمنوں کے ساتھ ان کی عداوت کی وجہ سے ہم ان سے عداوت رکھتے ہیں ، یااللہ! یہ ہماری دعا ہے اسے قبول فرما۔‘‘
ان ارشادات عالیہ کو جناب غور سے دیکھیں آپ نے کتنی دیدہ دلیری سے بے سوچے سمجھے جھٹ سے کہہ دیا کہ سماجی بائیکاٹ کا بیانیہ اور فتویٰ بے بنیاد ہے
ارشادمبارک :
’’يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ‘‘
(التوبہ :73)
کے مطابق حکم الٰہی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعمیل کرتے تھے یا نہیں ؟ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ احکام خداوندی کی تکمیل سید دو عالم ﷺ سے بڑھ کر کوئی نہیں کرسکتا ، اور نہ کسی نے کی ہے ۔بنابریں رسول اکرم ﷺ نے مسجد نبوی شریف سے منافقوں کا نام لے کر مسجد سے نکال دیا ،سیدنا ابن
عباسؓ نے فرمایا:
’’قام رسول اللہ ﷺ یوم جمعۃ خطیباً فقال : قم یا فلان ! فاخرج فانک منافق ! اخرج یافلان ! فانک منافق ! فاخرجھم باسمائھم ففضحھم ولم یک عمر بن الخطاب شہد تلک الجمعۃ لحاجۃ کانت لہ فلقیھم وھم یخرجون من المسجد فاختبأ منھم استحیائً انہ لم یشہدالجمعۃ وظن ان الناس قد انصرفوا ، واختبئوا ھم منہ وظنوا انہ قد علم بأمرھم ، فدخل المسجد فأِذا الناس لم ینصرفوا فقال لہ رجل : ابشر یا عمر ! فقد فضح اللہ المنافقین الیوم ۔‘‘
(تفسیرروح المعانی ج : 11 ص : 11، تفسیر مظہری ج: 4ص :289، تفسیر ابن کثیر ج : 3ص:392، تفسیر خازن ج :3 ص115، تفسیر بغوی علی الخازن ج :3 ص 115,، تفسیر روح البیان ج :3ص :493)
’’یعنی رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن جب خطبے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا : اے فلاں ! تو منافق ہے لہذا مسجد سے نکل جا ! اے فلاں ! تو بھی منافق ہے لہذا مسجد سے نکل جا ! حضور ﷺ نے کئی منافقوں کے نام لیکر نکالا اور ان کو سب کے سامنے رسواکیا ۔ اس جمعہ کو حضرت فاروق اعظم ؓ ابھی مسجد شریف میں حاضر نہیں ہوئے تھے ، کسی کام کی وجہ سے دیر ہوگئی تھی ،جب وہ منافق مسجد سے نکل کر رسوا ہوکر جارہے تھے تو فاروق اعظم ؓ شرم سے چھپ رہے تھے کہ مجھے تو دیر ہوگئی ہے ، شاید جمعہ ہوگیا ، لیکن منافق ، فاروق اعظم ؓنماز میں تاخیر سے بچنے کی وجہ سے شرمندگی سے چھپ رہے تھے ، پھر جب فاروق اعظم ؓ مسجد میں داخل ہوئے تو ابھی جمعہ نہیں ہوا تھا ، بعد میں ایک صحابی نے کہا : اے عمر ! تجھے خوشخبری ہوکہ آج خدا تعالیٰ نے منافقوں کو رسوا کردیا ہے‘‘
اورسیرت ابن ہشام میں عنوان قائم ہے :
’’طرد المنافقین من المسجد الرسول ﷺ ‘‘
(سیرت ابن ہشام ج : 1ص : 528)
اور اس کے تحت فرمایا ہے کہ منافق لوگ مسجد میں آتے اور مسلمانوں کی باتیں سن کر ٹھٹے کرتے ،دین کا مذاق اڑاتے تھے ، ایک دن کچھ منافق مسجد نبوی میں اکٹھے بیٹھے تھے اور آہستہ آہستہ آپس میں باتیں کررہے تھے ، ایک دوسرے کے ساتھ قریب قریب بیٹھے تھے ، رسول اللہ ﷺ نے دیکھ کر کہا :
’’ فأمربھم رسول اللہ ﷺ فاخرجوا من المسجد أِخراجاً عنیفاً ‘‘
(سیرت ابن ہشام ج: 1ص: 528)
رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ان منافقوں کو سختی سے نکال دیا جائے ۔ اس ارشاد پر حضرت ابو ایوب ؓ ، حضرت خالد بن زید ؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور عمر بن قیس کو ٹانگ سے پکڑ کر گھسیٹتے گھسیٹتے مسجد سے باہر پھینک دیا ، پھر حضرت ابو ایوب ؓ نے رافع بن ودیعہ کو پکڑا ، اس کے گلے میں چادر ڈال کر خوب کھینچا اور اس کے منہ پر طمانچہ مارا اور اس کو مسجد سے نکال دیا، اور ساتھ ساتھ حضرت ابو ایوب ؓ فرماتے جاتے :
’’افّ لک منافقاً خبیثاً ‘
(سیرت ابن ہشام ج : 1 ص : 528)
ارے خبیث منافق تجھ پر افسوس ہے ! اے منافق ! رسول اللہ ﷺ کی مسجد سے نکل جا ۔ اور ادھر حضرت عمارہ بن حزم ؓ نے زید بن عمر و کو داڑھی سے پکڑ ا ، زور سے کھینچا اور کھینچتے کھینچتے مسجد سے نکال دیا ، اور پھر اس کے سینے پر دونوں ہاتھوں سے تھپڑ مارا کہ وہ گر گیا ، اس منافق نے کہا : اے عمارہ تونے مجھے بہت عذاب دیا ہے ۔ تو صحابی حضرت عمارہؓ نے فرمایا : خدا تجھے دفع کرے ، جو خدا تعالی نے تیرے لئے عذاب تیار کیا ہے وہ اس سے بہت سخت تر ہے !
’’فلا تقربن مسجد رسول اللہ !
( سیرت ابن ہشام ج : 1 ص : 528)
آئندہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد کے قریب نہ آنا۔
اور بنو نجارقبیلے کے دو صحابی ابو محمد ؓجو کہ بدری تھے اور ابو مسعودؓ نے قیس بن عمرو کو جوکہ منافقین میں سے نوجوان تھے گدی پر مارنا شروع کیا حتیٰ کہ مسجد سے باہر نکال دیا ۔ اور حضرت عبد اللہ بن حارثؓ نے جب سنا کہ حضورنے منافقوں کے نکال دینے کا حکم دیا ہے ، حارث بن عمرو کو سر کے بالوں سے پکڑ کر زمین پر گھسیٹتے گھسیٹتے مسجد سے باہر نکال دیا ، وہ منافق کہتا تھا : اے ابن حارث ! تونے مجھ پر بہت سختی کی ہے ، تو انہوں نے جواب میں فرمایا : اے خدا کے دشمن !تو اسی کے لائق ہے ،تو نجس ہے، پلید ہے، آئندہ مسجد کے قریب نہ آنا ۔ادھر ایک صحابی نے اپنے بھائی زری بن حارث کو سختی سے نکال کر فرمایا :افسوس کہ تجھ پرشیطان مسلط ہے۔
( سیرت ابن ہشام ج : 1 ص : 528)
نیز خدا تعالی نے مسلمانوں کو ارشاد فرمایا کہ تم ابراہیم علیہ السلام کی پیروی میں خدا تعالی اور اس کے حبیب ﷺ کے دشمنوں سے ہمیشہ نفرت اور بیزاری رکھو، ارشاد ہے :
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ۔۔الخ (الممتحنہ)
یعنی اے ایمان والوں ! تمہارے لئے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں میں اچھی پیروی ہے ، جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ : ہم تم سے اور تمہارے بتوں سے بیزارہیں ، ہم انکاری ہیں اور ہمارے تمہارے درمیان جب تک تم خدا وحدہ لاشریک لہ پر ایمان نہ لاؤ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دشمنی ٹھن گئی ہے۔
اور تفسیر روح المعانی میں حدیث قدسی منقول ہے ۔
’’یقول اللہ تبارک وتعالیٰ : وعزتی ! لا ینال رحمتی من لم یوال او لیائی ویعاد اعدائی ‘‘
’’یعنی اللہ تعالی فرماتا ہے :
مجھے میری عزت کی قسم ! جو شخص میرے دوستوں کے ساتھ دوستی نہیں کرتا ، اور میرے دشمنوں کے ساتھ دشمنی نہیں کرتا ، وہ میری رحمت حاصل نہیں کرسکتا۔‘‘
تو جناب عمار خان ناصر صاحب
یہ تو تھی ہمارے مذھبی بیانیے جی چند بنادیں جنھیں آپ نے کمال شفقت سے بے بنیاد کہہ دیا اب درخواست ہے غامدی صاحب اور دیگر اس فکر کے حامل لوگوں کی طرح ادھوری بات کر کے شبہات پھیلانے کی بجائے اپنا ایک بیانیہ لانچ کریں کہ ان کفار وزنادقہ سے سماجی تعلق رکھنا جائز ہے پھر اس پر کتاب وسنت سے دلائل دیں جو لوگ آپ کی جمہور اہل اسلام سے کٹی ہوئ آوارہ مصرعوں جیسی تحاریر کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یقینا وہ آپ کے بھر پور مدلل فتوی یا بیانیہ کو بھی سر آنکھوں پر رکھیں گے لیکن اگر آپ کے پاس کوئ دلیل نھیں محض آپ کی تمنا ہے تو خدارا امت کے حال پر اور اپنے بڑوں کی دستارون پر رحم کریں
فقط آپ کا خیر خواہ
محمد رضوان عزیز
مدیر دارالعلوم ختم نبوت عارف والا
24دسمبر 2023

 

منتظمین

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • جب مولانا کے بقول ووٹ لے سکتے ہیں ، تو پھر سماجی بائیکاٹ کیونکر ہے ؟
    باقی یہ لوگ اس بات کو کیونکر نہیں سمجھتے کہ جب آپ نے ان کے “دجل” کو اقلیت کا پہناوا چڑھا دیا ہے ، تو اب ان کے حقوق بھی دینے پڑیں گے،
    ان سے سماجی بائیکاٹ کے فتویٰ بھی آپ کو واپس لینا پڑئیں گے۔