یہ زندگی کا تیسرا اہم فیصلہ تھا جو تقدیر کی دی ہوئی محدود سی گنجائش میں انسان کر سکتا ہے۔
درس نظامی سے میری فراغت کے متصل بعد برطانیہ کے ایک بڑے دینی جامعہ کے مہتمم کو، جو والد گرامی کے بے تکلف دوست بھی تھے، اپنے لیے ایک انتظامی معاون کی ضرورت تھی۔ یقیناً والد گرامی کے ساتھ پہلے مشورہ ہوا ہوگا۔ وہ میرے نام کا ایک اسپانسر لیٹر لے کر ہمارے گھر تشریف لائے اور مجھے پاس بٹھا کر کام کی نوعیت بتائی اور ویزا اپلائی کرنے کے لیے کہا۔ ایک غریب طالب علم کے لیے جس کو گھر کے دگرگوں مالی حالات بھی معلوم ہوں، ولایت جانے اور پاؤنڈ میں کمانے کی کشش کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن میں نے ایک ہی سوال ان سے پوچھا کہ کیا کام کے ساتھ مجھے فاضل وقت میں کسی کالج یا یونیورسٹی میں اپنے طور پر تعلیم جاری رکھنے کا موقع ملے گا؟ انھوں نے صاف کہا کہ نہیں، اس کی اجازت نہیں ہوگی۔ ان کے جانے کے بعد میں نے والد گرامی سے معذرت کر لی جس پر ان کے دوست ان کے ساتھ بہت نالاں ہوئے۔ یہ میری زندگی کا پہلا بڑا فیصلہ تھا جو میں نے خود کیا۔
سنہ 2001 میں کافی وقفے سے میں نے کچھ لکھنے لکھانے کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا تو ذہن میں جو سوالات یا موضوعات تھے، وہ ماحول کے لیے اجنبی یا موجب اضطراب تھے۔ چنانچہ ایک تدریج سے ردِعمل منظم ہوتا چلا گیا۔ فکری آزادی تو زمانہ طالب علمی سے اختیار کر لی تھی، لیکن اس مرحلے پر ایک اور سوال سامنے تھا: تیار گدی اور فکری آزادی میں سے کس کا انتخاب کیا جائے؟ خدا کا شکر ہے کہ یہاں بھی ایک لمحے کا تردد فیصلے میں حائل نہیں ہوا اور یہ میرا زندگی کا دوسرا اہم فیصلہ تھا۔
مجھے انھی ایام میں والد گرامی کے ساتھ ہونے والی گفتگو یاد ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں جس راستے کا انتخاب کر رہا ہوں، اس میں زیادہ دیر آپ کے طریقے کے ساتھ تطبیق قائم رکھنا ممکن نہیں ہوگا، اس لیے مجھے ابھی سے اپنا میدان عمل الگ کر لینا چاہیے۔ والد گرامی کا خیال تھا کہ تطبیق ممکن ہے۔ چنانچہ اگلے بیس سال میں انھوں نے مجھ پر کسی فکری جبر کے بغیر اپنے پورے حلقے کے فکری جبر کا خود سامنا کرتے ہوئے اس تطبیق کو ممکن بنائے رکھنے کی کوشش کی جس کی اذیت کا اندازہ بس انھی کو ہو سکتا ہے اور اس کا اجر بھی انھیں اللہ ہی دے سکتا ہے۔
میرے لیے اس میں ضمیر کے اطمینان کی بات یہی ہے کہ میں نے اپنی رائے مختلف ہوتے ہوئے بھی کوئی یک طرفہ فیصلہ نہیں کیا۔ جب تک والد گرامی کے لیے یہ انتظامی تعلق قابل قبول رہا، میں نے ازخود ذمہ داری سے الگ ہونے کا فیصلہ نہیں کیا۔ جب خود ان کو یہ محسوس ہوا کہ اب یہ ناقابل قبول شکل اختیار کر رہا ہے اور اس کا حل ہونا چاہیے تو میں نے اس کی صورت عرض کر دی جو حالیہ فیصلے کی صورت میں ہے۔
میرے نقطہ نظر سے، انسان زندگی میں اپنے فیصلوں کی صحت یا غلطی کا ذمہ دار نہیں ہے۔ انسان اس کا ذمہ دار ہے کہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کرے۔ مجھے اطمینان ہے کہ میں نے زندگی کے تینوں اہم فیصلے اپنے ضمیر کے مطابق کیے ہیں۔ ان میں امکانی غلطی کا جتنا بھی عنصر ہے، اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ اس سے درگزر فرمائے گا۔
اللھم الھمنا رشدنا واعذنا من شرور انفسنا۔ آمین
کمنت کیجے