ڈاکٹر خضر یسین
جب آپ کسی موضوع کو اپنی علمی اور علمیاتی انتقاد کا موضوع بناتے ہیں تو آپ پر لازم ہے؛
پہلے مرحلے میں اپنا مؤقف اس طرح بیان کریں کہ موضوع کا سلبی تعین negative determination ہو جائے، اسے تمیز یا distinction بھی کہا جاتا ہے۔
دوسرے مرحلے میں ایجابی تعین positive determination ہو جائے، اسے تعین یا determination بھی کہا جاتا ہے۔
تیسرے مرحلے میں آپ پر لازم ہے کہ سلبی و ایجابی تعین یافتہ حقیقت یا فضیلت reality or value کے شرائط ہستی مکمل احصاء exhaustive enumeration کے ساتھ بیان کریں۔
چوتھے اور آخری مرحلے میں اپنے بیان کردہ تصور کی حدود صحت بیان کر کے اپنی انکوائری ختم کر دیں۔
مثلا آپ “علم” science جو ایک فضیلت value ہے، اسے لیں۔
پہلے مرحلے میں اسے آپ مماثل فضائل سے ممتاز کریں۔ یہ کام آپ صرف اور صرف سلبی تعین سے انجام دے سکتے ہیں۔ یعنی آپ نے یہ بتانا ہے کہ علم کیا نہیں ہے۔ لہذا پہلے مرحلے میں ہم علم کا سلبی تعین کرتے ہیں۔
“علم” خیال نہیں ہے، رائے نہیں ہے، مسلمہ postulate نہیں ہے اور مفروضہ نہیں ہے۔
سلبی تعین سے ہم نے علم کو دوسرے مدرکات سے ممتاز کیا ہے۔ خیال، رائے، مسلمہ اور مفروضہ میں ہم کچھ سمجھ رہے ہوتے ہیں اور علم میں بھی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جس طرح خیال، رائے سے، رائے مسلمہ سے اور مسلمہ مفروضے سے ممتاز ہوتا ہے، اسی طرح علم خیال، رائے، مسلمہ اور مفروضہ سے ممتاز و منفرد ہے۔
دوسرے مرحلے میں ہم نے علم کا ایجابی تعین کرنا ہے۔ ہم نے اس مرحلے میں یہ بتانا ہے کہ “علم” کیا ہے؟ اس سے پہلے مرحلے میں ہم نے یہ بتایا ہے کہ علم کیا نہیں ہے۔ اب یہ بتانا ہے کہ علم کیا ہے؟
“علم” حقیقت کا ایسا ادراک ہے جو حقیقت کے عین مطابق ہو، فضیلت کے عین مطابق ہو۔ میرا وہ ادراک جس کی نسبت مجھے یہ یقین حاصل نہ ہو کہ اس کے متوازی خارج حقیقت ہے اور بالکل اسی طرح ہے جس طرح میرے ادراک میں آئی ہے، میرا وہ ادراک “خیال” ہو سکتا ہے، “رائے” ہو سکتا ہے، مفروضہ ہو سکتا ہے۔ بہرحال علم نہیں ہو سکتا۔
تیسرے مرحلے میں ہم نے علم کے شرائط وجود کو مکمل احصاء exhaustive enumeration کے ساتھ اس طرح بیان کرنا ہے کہ اس سے باہر کچھ باقی نہ رہے۔
پہلی شرط :ناظر subject
دوسری شرط :منظور object
تیسری شرط: ناظر سمجھنے کی صلاحیت و اہلیت کے ساتھ سمجھنے کی آرزو رکھتا ہو اور اسی آرزو کے ساتھ منظور کی جانب متوجہ ہو کر سوال کرے؛ یہ کیا ہے؟
چوتھی شرط :منظور ایسا ہو جو ناظر کی صلاحیت و اہلیت کے دائرہ عمل میں آ سکے۔ ایسا معروض جو ناظر کی صلاحیت و اہلیت ability and capability کی رینج میں نہ آئے، موجود ہو تو بھی اس کے علم کا موضوع نہیں بن سکتا۔
چوتھے مرحلے میں ہم نے اپنی علمیاتی انکوائری کی حدود صحت طے کرنی ہیں۔ اس میں ہم نے یہ بتانا ہے کہ ہماری انکوائری کے نتائج کب تک اور کہاں درست یا valid رہتے ہیں۔ اس مرحلے میں ہم اب تک کی انکوائری سے جس نتیجے تک پہنچے ہیں وہ ہمیں اس بات پابند بناتے ہیں کہ ہمارے علم کی حدود صرف اور صرف وہیں تک محدود ہیں جہاں تک معروض ہمارا منظور ہے۔ میں اپنے جس ادراک کی تصدیق و تکذیب معروض علم سے مطابقت و مخالفت کے ذریعے فراہم نہیں کر سکتا وہ میری علمی تصدیق و تکذیب سے خارج ہے۔
میری گزارش یہ ہے کہ فراہی صاحب کے نظریہ نظم کلام پر تنقید سے قبل ہمیں نظم کلام کے متعلق ایک معیاری تصور پیش کرنا چاہئے۔ جس کے بعد فراہی صاحب کے نظم کلام پر مفید انتقاد ممکن ہو سکے گا۔ بصورت دیگر یہ تنقید ایک ادبی تنقید ہو گی اور علمی اور علمیاتی انتقاد ہرگز نہیں ہو گی۔
بالفرض نظم کلام کوئی شے نہیں ہے تو بھی اس مؤقف کو پورے علمی وثوق کے ساتھ بیان ہونا چاہئے۔ میرا ذاتی احساس یہ ہے کہ فراہی صاحب کے ہاں نظم کلام کا تصور پوری طرح نکھرا ہوا نہیں ملتا اور نہ ہی اصلاحی صاحب نے اس تصور کی علمی تشکیل کی ہے۔ غامدی صاحب کے ہاں تو اس تصور کی علمی تشکیل کی طرف التفات بھی نظر نہیں آتا۔ بہرحال ایک تصور اگر پیش کیا گیا ہے اور اسے آپ علمی دیانت کے ساتھ تنقید کا موضوع بناتے ہیں تو آپ کو چاہئے کہ پہلے
“اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرو”
کمنت کیجے