موجودہ خانقاہی نظام پر احمد جاوید صاحب کی رائے
” وہ فرماتے ہیں کہ احقر یا اس طرح کے لاحقے درست نہیں۔ یہ جان بوجھ کر استعمال کیے جاتے ہیں اور اس کے ذریعے خود کی تعریف کی جاتی ہے۔ نقشبندی حضرات جھوٹ بہت بولتے ہیں “۔ ان کے نزدیک تقریبا سارے ایسے ہی ہیں۔
میرا نقشبندی سلسلے سے تعلق ہے۔ دو جگہوں سے بیعت ہے اور دونوں نقشبندی سلسلے ہیں۔ خاندانی طور پر بھی ہم نقشبندی سلسلے سے وابستہ ہیں۔ میرے والد کے چچا صوفی عبد المجید رح باقاعدہ صاحب اجازت پیر تھے۔ میرے پھوپھا چوہدری رفیق رح بھی سید فتح محمد رح کے خاص مرید تھے اور سلوک کے اعلی درجات پر فائز تھے۔ مجھ سے آپ ذاتی طور پر پوچھیں تو میں دینی تربیت کا آج بھی سب سے بہتر ذریعہ خانقاہی نظام کو سمجھتا ہوں اور مزاجا بھی خانقاہی زیادہ ہوں۔ یہ پس منظر اس لیے ذکر کر رہا ہوں تاکہ معلوم رہے کہ میری رائے اصلا گھر کے آدمی کی رائے ہے جسے خانقاہی نظام سے خاص طرح کی وابستگی ہے۔ میرے خیال میں احمد جاوید صاحب کی رائے کافی حد تک درست ہے۔ وہ ٹھیک فرما رہے ہیں۔ ہم نے باقاعدہ دیکھا ہے کہ پیر صاحب کی خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مرید ہوں۔ اس سے نذرانے بھی زیادہ آتے ہیں اور واہ واہ بھی زیادہ ملتی ہے اور بظاہر مرشد کے کامل ہونے کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔ باقاعدہ مرید اپنے مرشد کے فضائل مبالغہ آمیز حد تک بڑھا کر بیان کرتے ہیں اور ایک سلیقے سے انھیں زبان زد عام کروایا جاتا ہے۔مبالغے کی حد تک جھوٹ بولا جاتا ہے۔حیرت ہوتی ہے ایسی باتیں جن کا تعلق بہت انفرادی معاملات سے ہوتا ہے، وہ جان بوجھ کر جلسوں اور پروگراموں میں بیان کی جاتی ہے جس سے بعض دفعہ شرک کا دروازہ کھل جاتا ہے۔کئی بار دیکھا ہے مرشد کی موجودگی میں ان کے فضائل و مناقب بیان ہوتے ہیں اور وہ اسے باقاعدہ خوشی سے سماعت فرماتے ہیں۔ امیر لوگوں کو زیادہ توجہ اور وقت حاصل ہوتا ہے۔ تربیت کا خاص انتظام نہیں ہے بس مجمع لگانے کا شوق ہے۔ کچھ معلوم نہیں کہ مرید ظاہری و باطنی طور پر کس حال سے دوچار ہے۔ایک اور بات عرض کر دیں کہ سارے ایسے نہیں ہیں۔ میری دوسری بیعت مولانا زاہد الراشدی صاحب سے ہے۔ وہ میری ہر طرح کی نالائقیوں کے باوجود مجھے حقیقی بیٹے کی طرح رکھتے ہیں۔ میری وابستگی ان کے ساتھ بہت گہری ہے۔ میرے غم گسار ہیں اور استاد و رہ نما ہیں۔ میں نے ان سے بیعت کے حوالے سے عرض کی تو فرمایا، میں سوچوں گا، میرے اصرار کے باوجود کئی ماہ وہ غور فرماتے رہے اور پھر ایک روز خدا نے مہربانی کی، انھوں نے مجھے بیعت فرما لیا۔ہمارے مرشد گرامی خواجہ خان محمد رح کے ہاں بھی غیر ضروری تعریفوں کا رواج نہیں تھا بلکہ ان کی خاموشی سب کو خاموش رکھتی تھی۔ پیر ناصر الدین خاکوانی صاحب کا بھی یہی حال ہے۔ سو درست بات یہ ہے کہ سارے ایسے نہیں ہیں۔ بہت سے لوگ اور خانقاہیں آج بھی اس طرح کے مسائل سے پاک ہیں۔ اسی لیے احمد جاوید صاحب کی رائے درست ہے اور وہ اندر کے آدمی ہیں۔ باقی بس یہ ذہن نشین رہے وہ شاعر بھی ہیں۔مبالغے کو شاید جائز سمجھتے ہیں اس لیے انھوں نے تقریبا سبھی کو ایسا کہا ہے جب کہ معاملہ اکثریت کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اتنا بھی خراب نہیں کہ صحیح لوگ صرف ایک فیصد ہیں۔ باقی یہ سوال کہ صرف نقشبندی سلسلے کو ہی زیادہ رگڑا کیوں دیا ہے اس کی وجہ ان کی اپنی وابستگی ہے۔ ان کا تعلق و واسطہ نقشبندی حضرات کے ساتھ زیادہ ہے سو وہ اس کے حوالے سے فکرمند بھی زیادہ ہیں۔