عمران شاہد بھنڈر
ابھی میری نظر سے مولانا صاحب کی ایک تحریر گزری ہے۔ اس میں انہوں نے دوبارہ انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے وہ بات کی ہے جو اس تحریر کا عنوان ہے۔ گمراہ کن تحریر کا جواب ضروری تھا، دینا پڑا۔ ملاحظہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا یونانی فلسفہ ہندوستانی ”فلسفے“ سے ماخوذ ہے؟
ایک محقق کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جب کبھی کوئی دعویٰ کرے تو اس دعوے کے حق میں ثبوت و دلائل بھی پیش کرے۔ صرف دعوے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ورنہ جو انسان چاہے جس فکر و فلسفہ کے متعلق من پسند دعوے کرتا رہے۔مضحکہ خیز صورتحال یہ بنی ہے کہ انیسویں صدی کے فلسفے کے ایک جرمن پروفیسر رچرڈ کارل وون گاربے کا حوالہ دے کر یہ دعویٰ داغ دیا گیا ہے کہ فلسفہ یونان، دراصل، ہندوستانی ”فلسفے“ (اگر اسے فلسفہ کہا جا سکے) سے ماخوذ ہے۔ اس دعوے کے حق میں نہ کوئی دلیل ہے اور نہ ہی فلسفیوں کے افکار ہی پیش کیے گئے ہیں کہ جس سے ان کے دعوے کو قبول کرنا تو بعد کی بات ہے، کم از کم بحث کے لیے ہی موزوں سمجھا جا سکے۔ اگر رچرڈ گاربے نے ایسا کوئی دعویٰ کیا ہے تو اسے مغرب میں انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا۔ مغرب میں اس کو سنجیدگی سے لینا تو دور کی بات ہے اسے ہندوستان میں بھی کسی نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ وجہ اس کی صاف ظاہر ہے کہ ہندوستانی اور یونانی فکری دھاروں میں بعد المشرقین ہے۔ مغرب میں تحقیق کا جو معیار ہے اس سے ساری دنیا اچھی طرح سے آگاہ ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی مفکر ایسا دعویٰ کرے اور اس پر تحقیق نہ ہو۔ فلسفے کے طالبِ علم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہیگل نے اپنی کتاب ”فلسفہ ذہن“ میں جلال الدین رومی اور ہندوستانی فکر کا موازنہ کرتے ہوئے رومی کو کرشن وغیرہ کے ان خیالات پر فوقیت دی ہے جو ”بھگوت گیتا“ میں پیش کیے گئے ہیں۔ اسی طرح ہیگل نے اپنی کتاب ”فلسفہ تاریخ“ میں ہندوستانی فکر پر شاندار تنقید کرتے ہوئے اس میں مضمر نقائص کو عیاں کیا ہے۔ شوپنہاور جو ہندوستانی فکر کا مداح تھا، یہ ہمت اسے بھی نہیں ہو سکی کہ وہ ایسا کوئی دعویٰ کر سکے کہ یونانی فکر ”ہندوستانی فلسفے“ سے ماخوذ ہے۔جہاں تک میں جانتا ہوں رچرڈ گاربے کی مغربی فلسفے پر کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی ہے۔ اس کی تخصیص ہندوستانی ”فلسفہ“ تھا۔ برٹرینڈرسل جو فلسفے کی تاریخ پر گہری نظر رکھتا تھا اس کا کہنا درست ہے کہ فلسفے کا آغاز یونان سے ہوتا ہے۔ مختلف فلسفوں کے درمیان تقابل کرنے سے پہلے یہ سمجھ لینا بہت ضروری ہوتا ہے کہ فلسفہ کیا ہے؟مذہبی فکر کو فلسفہ کہنا شدید قسم کی غلطی ہے۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ بعض مقامات پر سطحی مماثلتوں کو بنیاد بنا لینا سنجیدہ مفکرین کو کام نہیں ہے۔ جہاں دعویٰ کر دیا جائے تو ان خیالات کو پیش کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے جن میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ رچرڈ گاربے کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ
”یونان کے تقریباََ سب بڑے مفکرین جیسے کہ زینوفینز، تھیلس، انیکسی مینڈر، ہیراکلیٹس، ایپیکیورس اور فیثاغورث وغیرہ کے خیالات قدیم انڈین نظریات سے یکسانیت رکھتے ہیں جو ہندو کُتب جیسے کہ اپنشد اور سمکھیا فلسفے میں مذکور ہیں۔“
تھوڑا آگے چل کر رچرڈ گاربے کا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں جس میں وہ یونانی فلسفیوں کے متعلق کہتا ہے کہ اس کا خیال ہے کہ یہ خیالات ہندوستانی فکر سے ماخوذ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن فلسفیوں کے نام پیش کیے گئے ہیں ان کے اپنے خیالات ایک دوسرے کی تنقید پر مشتمل ہیں۔ یعنی ان فلسفیوں کے اپنے خیالات میں کوئی یکسانیت نہیں ہے۔ اگرچہ تفصیل میں جانے کا یہ مناسب موقع نہیں ہے، لہذا میں یہاں ان میں سے چند فلسفیوں کے خیالات کا مختصر احاطہ کروں گا تاکہ یہ بات واضح ہو سکے کہ ان کی ہندوستانی فکر سے کوئی مماثلت قائم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
سب سے پہلے زینوفینز کا نام لکھا گیا ہے اس لیے اسی سے شروع کرتے ہیں۔ زینو فینز جو پانچ سو چھہتر قبل از مسیح میں پیدا ہوا، اس نے پارمینائیڈز ہی کی طرح اپنے خیالات کو ایک نظم کی صورت میں پیش کیا تھا۔ زینوفینز پارمینائیڈز کا استاد تھا اور زینو سمیت ان تینوں کا تعلق ایلیاٹک سکول کے ساتھ تھا۔ زینو فینز نے قدیم شاعر ہومر اور ہیزی اوڈ پر سخت تنقید کی تھی۔ وجہ اس کی یہ کہ ہومر اور ہیزی اوڈ یہ کہا کرتے تھے کہ یونانی دیوتا انسانوں کی شکل میں انسانوں کی طرح رہا کرتے تھے اور انسانی صفات کے مالک تھے۔ وہ انسانوں کی شکل اختیار کیے رکھتے تھے اور انسانوں ہی طرح گھومتے تھے۔ زینوفینز کی تنقید پیش کرنے سے پہلے یہ بات سمجھ لیجیے کہ ہندوستانی دیوتا بھی انسانوں کا روپ دھارتے تھے۔ لہذا یہاں ہندوستانی اور یونانی دیوتاؤں میں مکمل یکسانیت پائی جاتی ہے۔ زینوفینز نے ہومر اور ہیزی اوڈ کی جو تنقید پیش کی وہ باکمال ہے۔ اس نے پہلی بار خدا کا ایک عظیم تصور پیش کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ خدا کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ انسانوں کا روپ دھارے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ زینوفینز کی یہ تنقید یہودیت کے خدا پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ کیونکہ بائبل کہتی ہے کہ خدا انسانی شکل میں جناب ابراہیم کے گھر گئے۔ ان سے کہا کہ دنبہ لاؤ۔ ابراہیم دنبہ لائے، ان کی بیوی نے روٹیاں بنائیں اور خدا نے کھانا کھایا اور محترمہ سارا کو برکت دی۔ زینوفینز نے خدا کا جو تصور پیش کیا تھا، میں چاہوں گا کہ اسے زینوفینز کے الفاظ میں اسی طرح پیش کر دیا جائے۔ زینوفینز اپنی نظم میں لکھتا ہے:
There is one God, greatest among gods and men
similar to mortals neither in shape nor in thought
But the mortals think that the gods are born
and have clothes and speech and shape like their own
زینوفینز آگے چل کر لکھتا ہے،
He sees as a whole, he thinks as a whole, he hears as a whole
If it sees, it sees both white things and black
اس طرح انسان کی فکری تاریخ میں پہلی بار زینوفینز نے خدا کا یکتا اور لاثانی تصور پیش کیا جو کسی دنیا کے کسی بھی مذہب سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔ ہندوازم اور یونان کے دیوتا شکل و صورت میں انسانوں جیسے تھے، وہ پیدا بھی ہوتے تھے، کپڑے پہنتے تھے اور لوگوں سے باتیں کیا کرتے تھے۔ تاہم زینوفینز نے واضح کیا کہ خدا جسم نہیں بلکہ روح ہے۔
یہاں مختصراََ یہ کہنا غیر ضروری نہیں ہوگا کہ ہندوازم میں کائنات کی تخلیق کا تصور پایا جاتا ہے، جو کچھ یوں ہے کہ ”کرشنا کی ناف سے کنول کا پھول برآمد ہوا۔ برہما نے اسے تین حصوں آسمان، زمین اور کائنات کی صورت دے دی۔“ یونانی فکر میں ایسا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ یونانی کائنات کو قدیم مانتے تھے نہ کہ تخلیق۔ اسی طرح مرد اور عورت کی پیدائش میں بھی زمین آسمان سے زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہندوازم کے مطابق برہما نے خود کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصے میں سے عورت اور دوسرے حصے میں سے مرد پیدا ہوا۔ یہاں اگر صرف انیکسی مینڈر کا نام لیا جائے تو اس کے نظریے کے مطابق انسان کی پیدائش گیلی مٹی سے ہوئی تھی۔ انیکسی مینڈر کہتا ہے کہ امکان اغلب ہے کہ انسان نے ابتدا میں مچھلی سے ارتقا کیا ہو۔ تھیلس کے مطابق کائنات کی ابتدا ایک ازلی حرکت کا نتیجہ ہے۔ تھیلس کہتا ہے کہ کائنات تخلیق نہیں ہوئی، بلکہ یہ ارتقا کی وجہ سے وجود پذیر ہوئی ہے۔ انیکسی مینڈر کی طرح تھیلس بھی یہی کہتا ہے کہ زندگی کا ظہور گیلی مٹی سے ہوا، بنیادی خیال تھیلس کا ہی تھا، جسے انیکسی مینڈر نے بھی پیش کیا تھا۔ انیکسی مینڈر کا یہ خیال بھی تھیلس سے مستعار ہے کہ انسان مچھلیوں کی نسل سے ہے۔ سورج اور گیلی مٹی کے بھاپ بننے سے زندگی کا ظہور کیسے ہوا، اس کی وضاحت تھیلس کے فلسفے میں موجود ہے۔
جہاں تک ہیراکلیٹس کا تعلق ہے تو اس کے نظریات بارے علم ہو جائے تو کوئی احمق انسان ہی انہیں ہندوستانی ”فلسفے“ کے ساتھ جوڑ سکتا ہے۔ہیراکلیٹس اور پارمینائیڈز ہم عصر تھے اور ان کے فلسفے ایک دوسرے سے یکسر اُلٹ تھے۔ میں زیادہ گہرائی میں نہ جاتے ہوئے یہاں مختصراََ بتا دوں کہ ہیراکلیٹس کے نزدیک وجود اور عدم برابر ہیں۔ ان دونوں کی حقیقت ان کے ہونے میں نہیں ہے بلکہ ان کے ”بننے“ (بی کمنگ) میں ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے اس نے بے شمار مثالیں پیش کی ہیں۔ میں یہاں اس کی صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ ہیراکلیٹس کہتا ہے کہ موت اور زندگی اس لیے برابر ہیں کہ ان کا تعلق ایک ہی وجود کے ساتھ ہے۔ یہ زندگی ہے جو موت میں بدل جاتی ہے، کیونکہ تغیر و تبدیلی حتمی ہے، اس لیے ایسا ہونا ہی ہے۔ ہیراکلیٹس لکھتا کہ وہ ایسا نہیں کہتا کہ پہلے ایک شے تھی، پھر وہ شے کسی دوسرے لمحے کسی دوسری میں بدل گئی، بلکہ وہ شے بیک وقت وہ شے ہوتی بھی ہے اور نہیں بھی ہوتی۔ مثال کے طور پر وجود میں بیک وقت زندگی بھی ہوتی ہے اور موت بھی۔ اہم یہ نہیں ہے کہ موت کب آئی، اہم یہ ہے کہ وہ زندگی کے اندر اسی لمحے اس کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ اب بتایا جائے کہ ہندوستانی ”فلسفے“میں یہ فکر کہاں پائی جاتی ہے؟
ان پیش کردہ ناموں میں صرف فیثاغورث ہی ایک ایسا نام ہے جس نے ہندوستان کے آواگان کے نظریے کو قبول کیا اور اس کی بنیاد پر اس کا خوب مذاق اڑایا گیا۔ بعد ازاں ارسطو نے افلاطون پر اپنی تنقید کے دوران لکھا کہ موت کے بعد روح بھی زندہ نہیں رہتی، بلکہ وہ جسم کے ساتھ ہی فنا ہو جاتی ہے۔ کیا یہ ہندوستانی ”فلسفہ“ ہے؟
میں تحریر میں طوالت کی وجہ سے ڈیموکریٹس کے خیالات کا احاطہ نہیں کروں گا۔ ڈیموکریٹس کی جدید سائنس میں جو اہمیت ہے، اس کا ہندوستان کی ماورائے عقل کہانیوں کے ساتھ سرے سے ہی کوئی تعلق موجود نہیں ہے۔ فلسفے کے طالب علم ڈیموکریٹس کے خیالات سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ آخر میں صرف یہی کہوں گا کہ علمی معاملات میں انسان کو اپنے مذہبی تعصبات پر قابو رکھنا چاہیے۔ تحقیق ایمانداری اور سچ کا تقاضا کرتی ہے اور سچائی تحقیق کا اخلاقی نصب العین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے