Home » برٹرینڈرسل کی ہیگل کی منطق پر تنقید
شخصیات وافکار فلسفہ

برٹرینڈرسل کی ہیگل کی منطق پر تنقید

عمران شاہد بھنڈر

منطق کے طالبِ علم جانتے ہیں کہ منطق کا علم صرف تجربہ سے ہی حاصل نہیں کیا جا سکتا، یعنی صرف وہی اصول منطق نہیں ہوتے کہ جو استقرا کے ذریعے سے حاصل کیے جاتے ہیں، بلکہ منطق کو ہیگل جیسے فلسفی جب ”سوچ کی سائنس“ کہتے ہیں تو اس صورت میں منطقی اصولوں کا استخراج بھی سوچ کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ منطق میں سوچ اپنا معروض خود تشکیل دیتی ہے، نہ کہ حسیات سے اخذ کرتی ہے۔ ہیگل نے منطق کا ایک بڑا حصہ صرف اس نکتے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے مختص کیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہیگلیائی منطق میں خیال کا معروض کائنات نہیں ہے، بلکہ سمجھنا اس مشکل قضیے کو ہے کہ ہیگلیائی منطق میں خیال کا موضوع، اگرچہ، خیال ہی ہے جس میں کائنات بھی بطورِ کلیہ خیال ہی ذریعے زیرِ بحث آتی ہے یعنی سوچ کی مقرونیت سوچ کے معروض یا کائنات بطور کلیہ سے تشکیل پاتی ہے۔ ہیگل انہی منطقی اصولوں کو، بعد ازاں، تاریخ اور سماج پر منطبق کرتا ہے۔ برٹرینڈرسل منطق اور بالخصوص ہیگلیائی منطق کے اس پہلو سے بخوبی آگاہ ہے کہ اس میں اگرچہ سوچ کا معروض کائنات ہے، یعنی ہیگلیائی منطق کائنات کی ماہیت کی تحقیق ہے۔ میں، بہرحال، اس میں یہ اضافہ کروں گا کہ ہیگلیائی منطق کائنات اور خود سوچ کے قوانین کی ماہیت کو دریافت کرتی ہے۔ 

برٹرینڈ رسل کہتا ہے کہ ہیگلیائی منطق میں استدلال کی حیثیت خواہ صحیح بھی ہو، اس کے باوجود یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ اس کا تعلق منطق کے ساتھ ہے۔ یعنی رسل کے نزدیک ہیگلیائی جدلیاتی منطق دراصل منطق نہیں ہے۔ رسل نے اس اعتراض کی وجہ نہیں بتائی کہ اگر جدلیاتی منطق میں پیش کیا گیا استدلال صحیح ہے تو اسے منطق کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ رسل اسی قضیے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک اعتراض یہ بھی کرتا ہے کہ ہیگلیائی منطق کو”حقیقی دنیا پر منطق کا اطلاق گرداننا چاہیے۔“ رسل کا یہ نکتہ شاید خود رسل کی سمجھ میں بھی نہ آیا ہو کہ اگر ہیگلیائی منطق کو منطق نہیں کہا جا سکتا تو اس کا منطق کے نام پر کائنات یا حقیقی دنیا پر اطلاق بھی کیسے گردانا جا سکتا ہے، جبکہ خود رسل یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ ہیگلیائی منطق کائنات کی ماہیت کی دریافت کرتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ رسل ہیگلیائی منطق کے سب سے بنیادی قضیے کو سمجھنے میں غلطی کرتا ہے اور وہ قضیہ منطق کا آغاز ہے۔ آغاز ”وجودِ محض“ سے ہوتا ہے، یعنی ایسا وجود جو ابھی خصائص کا حامل نہیں ہے، اسی وجودِ محض کو ہیگل ”لاوجود“ یا ”لاشے“ کہتا ہے۔ ”لاشے“ سے آغاز کرنا انتہائی مشکل کام تھا اور اس لاشے کو خیال کے اندر دکھانے کا مطلب یہی تھا کہ یہ لاشے دراصل خود خیال ہے جب تک کہ وہ مقرون وجود کی صفت کا حامل نہ ہو۔ یعنی خیال ایک طرف “ہے بھی” اور “نہیں بھی۔” جب یہ کہا جاتا ہے کہ خیال ہے یا وجود ہے تو پھر خیال اور وجودِ محض کی وضاحت ناگزیر ہو جاتی ہے۔

رسل کہتا ہے،

”منطق کا تعلق اس قسم کے سوالات سے ہے کہ یکسانیت کی حقیقت کیا ہے؟ جہاں تک مجھے معلوم ہے ہیگل اس کو زیرِ بحث نہیں لاتا۔“

میرا خیال ہے کہ رسل کا یہ اعتراض غیر ضروری ہے، کیونکہ ہیگل نے منطق کا آغاز جس ”وجود“ سے کیا ہے وہ فہم کا مقولہ ہے اور فہم ابتدا میں یکسانیت کی حامل اس لیے ہے کہ اسے محض وجود کے ہونے کی تصدیق کرنی ہے۔ ابتدا میں افتراقات اور امتیازات سے بالا وجود کا ہونا ہی اس کی یکسانیت ہے اور بعد ازاں اسی یکسانیت کی نفی اس کے اندر سے ظاہر ہوتی ہے۔ میرے خیال میں رسل نے اس پہلو کو یکسر انداز کیا ہے۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ رسل ہیگلیائی منطق کو ایک مخصوص سوچ کے تحت پڑھ رہا تھا۔ وہ یہ نہیں دیکھ رہا تھا کہ ہیگلیائی منطق میں مقولات خود کو منکشف کیسے کرتے ہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ ہیگل نے کائنات پر منطق کا اطلاق خارج سے کیا ہے، درست نہیں ہے۔رسل مزید کہتا ہے،

“میرے خیال میں ہیگل کے کام میں جس طریقہ سے سادہ منطق کو پہلے تسلیم کرنے کے بعد تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اس کی مثال مقولات کے عمومی تصور سے دی جا سکتی ہے، جس پر وہ کام کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی طور پر یہ منطقی ابتری کا شاخسانہ ہے لیکن کسی قدر یہ ”کُلی طور پر حقیقت“ کی صفات کے تصور کی جگہ لے لیتا ہے۔“

رسل کا یہ کہنا صحیح ہے کہ ہیگل عمومی منطق کو پہلے تسلیم کرتا ہے۔ تاہم یہ بھی درست ہے کہ ہیگل عمومی منطق کو قبول کرنے کے بعد اس کی حدود متعین کرتا ہوا اس کی نفی کرتا ہے۔ نفی کا مفہوم، ہیگلیائی منطق میں یہ نہیں کہ جس کی نفی مقصود ہو اس کو تہہ و بالا کر دیا جائے، یا اس کا نام و نشان تک مٹا دیا جائے، یا جیسا کہ رسل سمجھتا ہے کہ اس سے نجات حاصل کر لی جائے یعنی اسے نظر انداز کر دیا جائے، یا اسے موضوع ہی نہ بنایا جائے۔ ہیگل ’کلیت‘ کا قائل تھا اور اس کی منطق کا تقاضا تھا کہ فکر اور فکر سے تشکیل پائے ہوئے وجود کے منطقی انکشاف کے دوران اس کی فکر اور وجود سے باہر یا ماورا کوئی تصور یا ایسا خلا باقی نہ رہ جائے کہ جس سے ’کلیت‘ کی عدم تکمیل کا امکان پیدا ہو۔ اس لیے وہ اس کے اندر سے تضادات اور شگاف وغیرہ دکھاتا ہے جو اس منطق کی حدود کو متعین کرتے ہیں اور بعد ازاں ہیگل انہی تضادات کی تحلیل اور شگافوں کی تکمیل مربوط اور منطقی انداز میں کرتا ہے۔ جہاں تک مقولات کا تعلق ہے تو کانٹ کے برعکس ہیگل ان کو پہلے سے تصور نہیں کرتا اور نہ ہی ان کو تصور کر کے ان کا کوئی نقشہ تشکیل دیتا ہے اور بعدازاں ان کا کائنات پر اطلاق کرتا ہے۔ ہیگلیائی منطق میں مقولات درجہ بہ درجہ خود کو ظاہر کرتے ہیں اور جونہی کوئی مقولہ خود کو ظاہر کرتا ہے وہ منطق کا حصہ متصور ہوتا ہے۔ مقولات کا ظہور ہی ان کے استخراج کا باعث بنتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ جرمن فلسفی، ماہرِ منطق اور ریاضی دان گوتلوب فریگے (Gottlob        Frege) جس کا برٹرینڈرسل کی فکری تشکیل میں فیصلہ کُن کردار تھا، اس کے ’معنی‘ اور ’حس‘ کے فلسفے کو ہیگل کے ’وجودِ محض‘ اور ’لاوجود‘ کی منطقی تفریق و ترتیب سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک دِقت طلب مسئلہ ہے، لیکن لاینحل نہیں ہے۔ ہیگل کی جدلیاتی منطق کو سمجھنے میں سب سے دشوار پہلو یہ ہے کہ کیسے کسی شے یا وجود کا ہونا ہی اس کا نہ ہونا ہوتا ہے۔ عام طور پر کسی شے کے ہونے سے یہی مراد لی جاتی ہے کہ وہ شے ’موجود‘ ہے۔ لیکن موجود ہونا اور اس موجودی کی کوئی صفت ہونا دو مختلف پہلو ہیں۔ ہیگلیائی منطق چونکہ سوچ کی سائنس ہے جس میں وجود خارج سے سوچ میں داخل نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ منطق کا کوئی تقاضا ہے، بلکہ منطقی تقاضے کے تحت وجود کو سوچ کے ذریعے، سوچ کے اندر اور سوچ کے لیے تشکیل پانا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ سوچ محض تجریدات کا مجموعہ ہے، بلکہ بقول ہیگل سوچ کنکریٹ ہوتی ہے۔ رسل ہیگلیائی منطق کے اس “کنکریٹ کلیت” کے پہلو سے آگاہ تھا۔ میں، بہرحال، اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ منطق میں ایک اہم نام ہونے کے باوجود رسل نے ہیگلیائی منطق کے چند اہم اور بنیادی پہلوؤں کی نشاندہی ضرور کی ہے، لیکن بحیثیت مجموعی رسل کی ہیگل کی منطق پر تنقید میں تفہیم کا فقدان ہونے کے علاوہ منطقی اعتبار سے بھی درست نتائج کی حامل نہیں ہے۔اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ رسل کو ہیگلیائی منطق کی تصحیح مطلوب نہیں تھی، بلکہ اس کو اس منطقی خاکے سے غرض تھی، جو اس کے ذہن میں جرمن فلسفی گوتلوب فریگے کی ریاضیاتی منطق کے زیرِ اثر تشکیل پا رہا تھا۔

نوٹ: میں نے رسل کی ہیگل پر تنقید کا جو تنقیدی جائزہ لیا ہے، اس کی بنیاد رسل کے تین مضامین ہیں۔ ایک “منطق بطور خلاصہ فلسفہ”۔ دوسرا اس کا مضمون

The            Philisophy             of            Logical           Atomism

اور تیسرا

“Logic         And            Mysticism”

ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں