Home » سیکولرازم کیا ہے؟ اور یہ کیوں نافذ ہونا چاہیئے؟
تہذیبی مطالعات فلسفہ

سیکولرازم کیا ہے؟ اور یہ کیوں نافذ ہونا چاہیئے؟

سجیل کاظمی

جب ایک ملک کے نظام کی بات آتی ہے تو جہاں بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، وہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں جو مذہبی تنوع پایا جاتا ہے۔ اس سے کیسے ڈیل کیا جائے؟ اس کا جواب ہمیں سیکولرازم کی صورت میں ملتا ہے تو سیکولرازم کیا ہے؟

لفظ سیکولر عام طور پر مذہبی کے الٹ کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے non-practicing        muslims کو ہم اکثر سیکولر کہتے ہیں لیکن بطورِ سیاسی نظریہ سیکولرازم کچھ مختلف ہے، عام الفاظ میں یہ مذہب و ریاست کی علیحدگی ہے۔ سیکولرازم کے بہت سے ورژن موجود ہیں:

1) Laïcité:

یہ سیکولرازم کی وہ شکل ہے جو فرانس میں نافذ ہے، جس میں تمام انسان مذہبی معاملات میں آزاد اور برابر ہیں لیکن وہ اپنے مذہب کا اظہار پبلک میں نہیں کرسکتے بلکہ وہ اپنے مذہب کا اظہار اکیلے میں یا عبادت کے لیے مختص جگہ پر ہی کرسکتے ہیں یعنی سیکولرازم کی اس شکل میں ریاست نہ صرف قانونی طور پر سیکولرازم کو اختیار کرتی ہے بلکہ اپنے ملک کا ظاہری کلچر بھی سیکولر رکھنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ مذہب کے نام پر لوگ بٹیں نہیں۔ یہ شکل خاصی radical مانی جاتی ہے کیونکہ اس میں شخصی آزادیاں بھی ثقافت کو سیکولر رکھنے کے بعد آتی ہیں۔ اسی کو مصطفی کمال پاشا اتاترک نے بھی اپنے دورِ حکومت میں اپنایا تھا۔ یہ شخصی آزادیوں کو بھی اپنے ثقافتی سیکولرازم کو برقرار رکھنے کے لیے داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کرتی اسی لیے فرانس میں حجاب اور دیگر مذہبی کپڑوں جیسے نن کے لباس پر پابندی عائد ہے۔ اس کی اکثر سیکولر بھی حمایت نہیں کرتے، یہاں تک کہ الحاد جدید کے قائد کی حیثیت رکھنے والے رچرڈ ڈاکنز نے بھی حجاب کو ویسے تنقید کا نشانہ بنایا لیکن اس پر حکومتی پابندی کی مخالفت کی۔ فرانس میں اس سیکولرازم کی نفاذ کی وجہ اس کا تاریخی طور پر کیتھلک چرچ سے اختلاف اور پادریوں کی بدعنوانیاں ہیں۔

2) State          Atheism:

ریاستی الحاد ایک ایسی پالیسی ہے جس میں حکومت فکری، مالی اور عسکری لحاظ سے مذہب کو کچلنے کی کوشش کرتی ہے۔ یعنی ایسی ریاست میں مذہب اور ریاست حالتِ جنگ میں ہوتے ہیں اور ریاست الحاد پھیلانے اور مذہب کے مکمل خاتمے کی کوشش میں ہوتی ہے۔ یہ زیادہ تر مارکسسٹ اور کمیونسٹ حکومتوں کی طرف سے کیا جاتا ہے جس کی مثالیں ہمیں ازبکستان میں مارکسسٹوں کی حجاب، مذہبی کتب جلانے اور مساجد گرانے والی حرکت کی صورت میں ملتی ہیں اور اس کے علاوہ جو انہوں نے ایک مشہور چرچ کو ڈھا دیا تھا اور سینٹ پیٹرزبرگ کا نام بدل کر لینن گراڈ کردیا تھا۔ تقریباً تمام سیکولر اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے سیکولرازم کی شاخ بھی نہیں سمجھتے۔ یہاں تک اب تو بہت سے مارکسسٹ بھی یہی نظریہ رکھتے ہیں کہ مذہب سے مقابلہ صرف فکری ہوگا نہ کہ مالی و عسکری۔

3) Liberal           Secularism:

سیکولرازم کی اس شکل کے اکثر لبرلز حامی ہوتے ہیں اور یہ زیادہ امریکہ اور برطانیہ میں دیکھنے کو ملتی ہے اس میں شخصی آزادیوں کے تقدس کو سب سے پہلے دیکھا جاتا ہے مذہبی عقائد سے بالاتر ہوکر۔ اس کے تین بنیادی اصول ہیں:

• برابری:

کسی کو بھی کسی بھی معاملے میں اس کے مذہبی عقائد کی وجہ سے پیچھے یا آگے نہیں کرنا چاہیئے یعنی ایسا نہ ہو کہ مسلمان کے بچے کی تعلیم تو فری ہو لیکن عیسائی کے بچے سے فیس لی جائے۔

• آزادی:

دوسروں کو نقصان پہنچائے بنا اپنے مذہب پر عمل کرنے کی، اسے چھوڑنے یا بدلنے کی مکمل آزادی یعنی اگر آپ کسی کو نقصان نہیں پہنچا رہے تو آپ اپنے مذہب پر ہر طرح سے عمل کرسکتے ہو۔

• مذہب و ریاست کی علیحدگی:

مذہبی اداروں کو ریاستی معاملات سے اور ریاست کو مذہبی معاملات سے الگ رکھنا، مثال کے طور پر یہ مذہبی اداروں کا کام نہیں کہ یہ بتائے کہ آیا ملک میں اس فلم پر فلاں چیز پر پابندی لگنی چاہیئے کہ نہیں، اسی طرح ریاست بھی مذہبی معاملات میں دخل نہیں دے سکتی۔

یہ سیکولرازم کی ایک ایسی شکل ہے جو نہ تو ریاستی الحاد کی طرح مذہب کو مکمل ختم کرنے کی بات کرتی ہے نہ ہی فرانسیسی ماڈل کی طرح ایک سیکولر ثقافت کی حمایت کرتی ہے بلکہ یہ مذہبی کی ثقافتی اہمیت کو سمجھتے ہوئے پبلک مقامات پر بھی ایک حد تک اس کے اظہار کی اجازت دیتی ہے جیسے رستے میں نماز پڑھنا یا مذہبی لباس پہننا وغیرہ مگر یہ کسی کے مذہب کو کسی پر تھوپنے کی مخالفت کرتی ہے اور مذہب کو قانونی معاملات سے دور رکھتی ہے۔ ایسی شکل میں ریاستی لیول پر ممکن ہے مذہبی تہواروں کو منایا جائے تاکہ آپسی اتحاد پیدا ہو لیکن قانونی طور پر کوئی ایسا قانون نہیں بنتا جس سے مذہب نافذ ہو یا اس پر عمل مشکل ہو۔ اس تحریر میں زیادہ اسی قسم کو ڈسکس کریں گے۔

— سیکولرازم کے حق میں تین بنیادی دلائل:

سیکولرازم کے حق میں تین بنیادی دلائل ہیں جو عام طور پر دیے جاتے ہیں:

1) Argument          from          freedom:

اس دلیل کے مطابق ہر انسان حقِ خود ارادیت چاہتا ہے، اس حقِ خود ارادیت کے لیے آزادی لازم عنصر ہے یعنی انسان کو ایک ایسا نظام چاہیئے جو اسے اس کے خیالات کے مطابق زندگی بسر کرنے دے (چاہے وہ مذہبی خیالات ہو) ایسا تبھی ممکن ہے جب ریاست کسی مذہب جو کہ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے کو تمام شہریوں پر تھوپے نہ بلکہ ان کو انکی آزادی دے تاکہ وہ اپنی مرضی سے زندگی گزار سکے۔

2) Argument         from           fairness:

اس دلیل کے مطابق ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے ساتھ ہر معاملے میں انصاف کیا جائے تو سب لوگوں کی یہ خواہش تبھی پوری ہوسکتی ہے جب ان کے درمیان جو mediator ہے وہ کسی خاص طرف جھکاؤ نہ رکھتا ہو۔ یعنی ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ دو مختلف نظریات رکھنے والے لوگوں میں ایک ایسے شخص کو جج بنا دیا جائے جو واضح طور پر کسی ایک کے نظریے کی طرف جھکاؤ رکھتا ہو جو کہ اپنے آپ میں ہی ایک ناانصافی ہے۔

3) Argument               from           peace:

اس دلیل کے مطابق جب بھی ریاست کوئی مذہبی قانون بناتی ہے تو نتیجہ کسی ایک گروہ کی persecution میں نکلتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ گروہ باغی ہوجاتا ہے اور پھر ریاست میں بدامنی پیدا ہوتی ہے مختلف گروہوں میں ریاست پر اثر ڈالنے کے لیے رسہ کشی ہوتی رہتی ہے لہٰذا اگر ریاست سیکولر ہوگی تو لوگوں کو یہ خطرہ نہیں رہے گا اور ملک میں امن و امان کی فضاء برقرار رہے گی۔

— سیکولرزم کے متعلق چند غلط فہمیوں کا ازالہ:

1) سیکولرزم الحادی نظریہ ہے جو کہ اسلام اور دیگر مذاہب کو مغلوب کرنے کے لیے مغرب میں ایجاد ہوا۔

سیکولرازم اور الحاد کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ سیکولرازم الحاد کو اتنا ہی فائدہ دیتا ہے جتنا ایک اقلیتی مذہب کو اس سے زیادہ الحاد کو سیکولرازم کا کوئی فائدہ نہیں۔ سیکولرازم کسی مذہب کی حقانیت کو کسی قسم کا چیلنج نہیں کرتا یہ اپنی نوعیت میں ایک خالصاً سیاسی نظریہ ہے۔

2) یہ ریاستی معاملات میں اخلاقیات کو پسِ پشت ڈالنے کا نام ہے۔

سیکولرزم ریاستی معاملات میں اخلاقیات کو پسِ پشت نہیں ڈالتا بلکہ ان اخلاقیات کو ضرور مدنظر رکھتا ہے جو تمام مذاہب میں متفقہ ہے جیسے چوری، جھوٹ، فریب، دھوکا دینا وغیرہ سے اجتناب اور سچ، ایمانداری، انسانیت کی عزت کی حوصلہ افزائی۔

3) سیکولرازم ہر ایک کو اپنے کام سے کام رکھنے کا درس دیتا ہے جو کہ اسلام جو ہمیں اچھائی کی دعوت اور برائی سے روکنے کی ترغیب دیتا ہے اس کی نفی ہے۔

ایک سیکولر ریاست میں بھی اگر آپ اچھے اخلاق سے کسی مسلمان کو تبلیغ یا کسی غیر مسلم کو بھی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں تو آپ ایسا کرسکتے ہیں۔ کوئی آپ کو ایسا کرنے سے نہیں روک سکتا جب تک آپ طاقت استعمال نہیں کرتے۔

4) سیکولرازم کفریہ عقائد رکھنے والے گروہوں جیسے احمدیوں اور نصیریوں کو مسلمان ثابت کرنے کی ایک ناپاک سازش ہے۔

سیکولر ریاست صرف اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کی طرف توجہ دیتی ہے اور کسی کو مسلمان ثابت کرنے سے نہ سروکار رکھتی ہے اور نہ یہ اختیار اپنے پاس رکھتی ہے۔ سیکولرازم میں کون مسلمان ہے اور کون نہیں یہ مذہبی علماء کے کرنے کا فیصلہ ہے نہ کہ ریاست کا۔

5) سیکولرازم ہم پر مغربی ثقافت کا نفاذ ہے اور ان تمام چیزوں پر پابندی لگا دے گا جو مغرب میں نہیں ہوتی جیسے خاندان میں شادی یا ایک سے زیادہ شادیاں وغیرہ۔

سیکولرزم گو کہ اب مغربی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے لیکن یہ مغربی ثقافت نہیں بلکہ اگر فریقین کی رضامندی شامل ہے تو وہ کسی قسم کا بھی رشتہ قائم کرسکتے ہیں۔

6) سیکولرازم گناہوں کی آزادی دیتا ہے۔

گناہوں کی نہیں درست بات یہ ہوگی کہ سیکولرازم آزادی دیتا ہے۔ جیسے مثال کے طور پر شراب پینے میں (اگر آپ کسی کو کسی لحاظ سے خطرے میں نہیں ڈالتے) آپ آزاد ہیں لیکن اسی طرح اگر آپ پورا دن مسجد میں گزارنا چاہتے ہیں تو بھی آپ آزاد ہیں۔ یعنی ریاست کسی چیز پر پابندی نہیں لگاتی کیونکہ ایک چیز آپکے ہاں منع ہے تو دوسرے کے ہاں جائز ہے لیکن آپ کو تو پتہ ہے نا کہ آپ مذہب کیا کہتا ہے آپ عمل کریں۔

7) سیکولرازم مسلمان ممالک کو کمزور کرنے کے لیے ایجاد ہوا تھا۔

اگر ہم مان لیتے ہیں کہ سیکولرازم ممالک کو کمزور کرنے کے لیے ایجاد ہوا تھا تو سب سے پہلے ایجاد کرنے والوں نے اسے خود کیوں اپنایا؟ یہ تو ایسا ہی ہے کہ آپ کہو کہ فلاں شخص نے اپنے دشمن کے لیے زہر بنایا لیکن کھا سب سے پہلے خود ہی لیا۔

8) سیکولر ریاستوں میں ارتداد عام ہوتا ہے۔

کیا کوئی شخص جب اسلام چھوڑتا ہے تو یہ سوچتا ہے کہ سیکولرازم ہے کہ نہیں؟ وہ تو بس اسلام چھوڑ دیتا ہے تو جو کہا جاتا ہے کہ سیکولر ریاستوں میں ارتداد عام تو وہ اس لیے عام معلوم ہوتا ہے چونکہ وہاں وہ سامنے آجاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سجیل کاظمی کراچی میں مقیم انجنئیرنگ کے طالب علم ہیں اور فلسفہ و سائنس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں