دی ماڈرن ریویو (کلکتہ) کے ۱۹۳۵ کے شماروں سے پنڈت نہرو کی جو تین تحریریں نقل کی گئیں، وہ بالترتیب ۲۰، ۲۱ اور ۲۳ اگست ۱۹۳۵ء کو لکھی گئی ہیں جب نہرو اترکھنڈ کی المورا جیل میں قید تھے۔ نہرو نے تینوں میں ایک منطقی ترتیب سے اپنے مقدمے کو پیش کیا ہے۔ ان کا اپنا زاویہ نظر تو تیسری تحریر میں نکھر کر سامنے آتا ہے، جبکہ پہلی دو تحریروں میں نہرو کا مطمح نظر اسلام کی اعتقادی وحدت کے حوالے سے علامہ اقبال کے نقطہ نظر کی تفہیم حاصل کرنا ہے۔
پہلی تحریر میں نہرو یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اقبال جس راسخ العقیدہ اسلامی تعلیم کی بنیاد پر قادیانیوں کے اخراج از اسلام کا تصور پیش کر رہے ہیں، مسلم دنیا میں قوم پرستی کے جدید رجحانات کے تناظر میں اس کی معنویت کیا ہے اور وہ کتنا قابل عمل ہے؟ نہرو کا کہنا ہے کہ مصر، ترکی اور ایران میں ہر جگہ مسلمانوں میں روایتی راسخ العقیدہ اسلام کی جگہ علاقائی ونسلی شناختوں کا رجحان فروغ پذیر ہے اور اس کے لیے وہ قبل از اسلام کے مختلف تہذیبی تصورات سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
نہرو کے خیال میں قوم پرستی اور اسلامی وحدت دو متضاد رجحانات ہیں، اس لیے اگر دنیائے اسلام عموماً ایک دوسری ڈگر پر چلنا چاہ رہی ہے، جبکہ اقبال اس عہد میں بھی مخصوص بنیادی عقائد پر مبنی اسلامی وحدت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ان کے ذہن میں اس تضاد کا کیا حل ہے؟ (غالباً اسی سوال سے مولانا مودودیؒ نے ’’قادیانی مسئلہ’’ میں یہ اشارہ اخذ کیا ہے کہ نہرو اپنے قوم پرستانہ رجحان کی وجہ سے ایک ’’ہندوستانی اسلام’’ کے لیے دلی ہمدردی رکھتے ہیں)۔
دوسری تحریر میں نہرو نے اقبال کے موقف میں ایک دوسرے تضاد کی نشان دہی کی ہے جو سر آغا خان کی اسلامی حیثیت کے حوالے سے ہے۔ نہرو سمجھنا چاہتے ہیں کہ سر آغا خان کا فرقہ کسی بھی حوالے سے راسخ الاعتقاد اسلام کا حصہ نہیں مانا جاتا، لیکن اس کے باوجود ان کو ایک نمایاں مسلمان لیڈر کا درجہ حاصل ہے اور اقبال بھی ان کی یہ حیثیت تسلیم کرتے ہیں تو آخر اس کی کیا بنیاد ہے اور یہ چیز اس ’’اسلامی وحدت’’ کے منافی کیوں نہیں جس کے پیش نظر اقبال قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانا چاہتے ہیں؟
علامہ سے دو سوال پوچھنے کے بعد نہرو نے تیسری تحریر میں جس کا عنوان Orthodox of All Religions, Unite! (ہر مذہب کے راسخ العقیدہ لوگو، متحد ہو جاو) ہے، اپنی اصل الجھن کی وضاحت کی ہے۔ نہرو نے اس مشترکہ ردعمل کی تفصیل بیان کی ہے جو ۱۹۲۹ء کے سول میرج ایکٹ (جسے شاردا ایکٹ بھی کہا جاتا ہے) کے خلاف ہندووں اور مسلمانوں کی طرف سے سامنے آیا۔ ہندوستان میں کم سنی میں لڑکیوں کی شادی کا رواج عام تھا، جبکہ اس ایکٹ میں لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر چودہ اور لڑکوں کی اٹھارہ سال مقرر کی گئی تھی۔ دونوں گروہوں کا مشترک استدلال یہ تھا کہ یہ پابندی ان کے مذہبی قانون کے خلاف ہے جو کم سنی کی شادی کی اجازت دیتا ہے۔
نہرو کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہندوستانی سماج میں جو ضروری اصلاحات مطلوب ہیں، صدیوں سے چلے آنے والے مذہبی رواج ان کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور وہ حیرت ظاہر کرتے ہیں کہ علامہ اقبال جیسا روشن خیال آدمی قدامت پسند ہندووں کے اس مطالبے کی تائید کرتا ہے کہ آئین وقانون کی نئی تشکیل کے عمل سے مذہبی مصلحین کو دور رکھا جائے۔ نہرو کے اعتراض کا حاصل یہ ہے کہ مذہبی بنیاد پر قانون سازی کے مطالبے سے قدامت پسند مذہبی طبقے کو تقویت ملتی ہے جو ہندوستانی سماج کی تشکیل نو میں رکاوٹ ہے۔
قادیانیوں کے اسلام سے اخراج کے حوالے سے علامہ کے مطالبے پر نہرو کا دوسرا اعتراض ان کے لامذہبی نقطہ نظر پر مبنی ہے۔ نہرو کہتے ہیں کہ ہندو مت میں صحیح یا بدعتی عقیدے کی تعیین کا مسئلہ نہیں ہے اور سیکڑوں مختلف قسم کے عقیدے تاریخی طور پر ہندو مت کا حصہ چلے آ رہے ہیں۔ یہ مسئلہ بنیادی طور پر کیتھولک چرچ کا ہے جو خود کو اوپر سے چلے آنے والے صحیح اور معیاری مسیحی عقیدے کا نمائندہ سمجھتی ہے اور اس سے انحراف پر بدعتیوں کو سزائیں دینے اور مسیحیت سے خارج کر دینے کا اختیار بھی استعمال کرتی ہے۔ اسلام میں پوپ کا منصب تو نہیں ہے، لیکن مسلمانوں کا عمومی رویہ بھی مذہبی انحرافات کے حوالے سے کیتھولک چرچ جیسا ہی ہے۔
یہاں نہرو صاف گوئی سے اعتراف کرتے ہیں کہ ایک لامذہبی آدمی ہونے کی وجہ سے ان کے لیے دوسری دنیا کا سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور وہ مذہبی چیزوں کو موجودہ دنیا کے زاویے سے ہی دیکھتے ہیں، اس لیے انھیں کسی کے مذہبی عقیدے کی وجہ سے اس کے خلاف تعزیری اقدام کا طریقہ غلط معلوم ہوتا ہے۔
نہرو کا اگلا نکتہ مذہبی قانون کو ریاستی قانون کی بنیاد بنانے سے سامنے آنے والی عملی پیچیدگیوں سے متعلق ہے۔ نہرو کہتے ہیں کہ اگر مسلمان کچھ مخصوص عقیدوں کو اسلامی وحدت کی بنیاد بناتے ہوئے ریاستی طاقت کو منحرف گروہوں کے خلاف اقدام کے لیے بروئے کار لانا چاہتے ہیں تو اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ کیا جمعیۃ العلماء کا کوئی کمیشن ایسے معاملات میں حکومت کو تجویز دیا کرے گا؟ لیکن اقبال تو خود مولویوں کی موجودہ نسل کے مخالف ہیں، پھر وہ اس بندوبست کی کیسے حمایت کریں گے؟
نہرو کہتے ہیں کہ چلیے، مذہبی عقیدے کے معاملات میں ایسا کوئی بندوبست کر بھی لیا جائے تو بات اس پر رکے گی نہیں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر قدیم مذہبی قوانین کے مطابق پرسنل لاء کے مکمل نفاذ کا بھی مطالبہ کیا جائے گا۔ نہرو کا کہنا ہے کہ برطانوی نظام کے تحت ہندوستان میں ریاستی قانون بتدریج مذہبی اور رواجی قوانین کے دائرے سے نکل رہا ہے اور فوجداری قوانین کے دائرے میں مذہبی قانون کا اثر بہت کم رہ گیا ہے۔ پرسنل لاء میں ابھی تک مذہبی قوانین کا غلبہ ہے، لیکن یہاں بھی اہم تبدیلیوں نے اپنی جگہ بنائی ہے۔ نہرو کی رائے میں اس عمل کو آگے بڑھنا چاہیے، لیکن اگر قدامت پسند مذہبی گروہوں کو راستہ دیا گیا تو یہ پیش رفت رک جائے گی۔
نہرو ایک اور پیچیدگی کی نشان دہی کرتے ہیں کہ اسلامی قانون کے مطابق مسلمانوں کے معاملات کا فیصلہ مسلمان جج ہی کر سکتا ہے۔ اگر یہ شرط قبول کر لی جائے تو دوسرے مذہبی گروہوں کو اس سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ یوں ہر ہر مذہب کی اپنی اپنی عدالتیں اور اپنے اپنے قانونی پروسیجر ہوں گے اور جب مختلف معاملات میں ایک سے زائد مذاہب کے پیروکار فریق ہوں گے تو فیصلوں میں کئی طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔ نہ صرف اس سے انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں کھڑی ہوں گی بلکہ مذہبی تصادم اور مخاصمت کے بھی امکانات پیدا ہوتے چلے جائیں گے۔
آخر میں نہرو پھر اپنا سیکولر زاویہ نظر بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مذہبی قوانین کے ریاستی نفاذ سے ہندوستانی سماج دوبارہ قدامت پسندی کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ راسخ العقیدہ مسلمان کو عورتوں سے پردے کی پابندی ہٹانے پر اعتراض ہوگا اور ہندووں کے لیے مختلف ذات کے لوگوں کی باہمی شادیاں قابل اعتراض ہوں گی۔ وہ ایک ہندو سوامی کا بیان نقل کرتے ہیں کہ ’’مخلوط تعلیم، طلاق کی اجازت اور بلوغت کے بعد شادی کی شرط یہ ہندو مت کے خاتمے کے لیے کافی ہیں۔’’ نہرو کو حیرت ہے کہ اقبال جیسا عالم اور مفکر ایک ایسے مقدمے کی ترجمانی کر رہا ہے جو آج کے دور کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔
کمنت کیجے