Home » عظیم انسانی تجربہ
انگریزی کتب تہذیبی مطالعات سیاست واقتصاد شخصیات وافکار

عظیم انسانی تجربہ

حافظ حسن علی

ابتدائے آفرینش سے انسانوں نے مختلف ادوار میں بحثیت مجموعی کچھ عظیم تجربات کا سامنا کیا ہے ۔ جن تجربات نے انسانیت و اسکے متعلقات و مترادفات پر گہرے نقوش ثبت کیے ہیں ۔ انسانی معاشرت و معیشت ، سیاست و حکومت نے ان تجربات کی تناظر میں مختلف شکلیں و صورتیں اختیار کی ہیں۔اگر گزشتہ چند صدیوں کے ان چند عظیم انسانی تجربات کی  فہرست تیار کی جائے جنہوں نے نسل انسانی کے ہر گوشے گوشے و کونے کونے کو متاثر کیا ہے ۔ اور اپنے تئیں انسانیت کی ایک نئی تعریف متعین کی ہے۔ اور اسکے خدو خال و اوصاف و خصوصیات کو سابقہ مسلمات کے برعکس ایک نئے اسلوب و قالب میں ڈھالا ہے ۔ تو ایسے عظیم تجربات کی  طویل ترین فہرست  کے نمایاں ترین تجربات و سانحات میں “استعمار”کا انتہائی اہم انسانی تجربہ  بھی شامل ہے ۔ جس نے مختلف تعقلی و اخلاقی بنیادوں کو جواز بنا کر ماضی قریب کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں پر متعدد انواع کے اثرات چھوڑے ہیں ۔ اور مسائل انسانی کی لامتناہی فہرست میں چند نئے پیچیدہ و گنجھلک مسائل کا اضافہ کیا ہے ۔  دراصل استعمار کے پیچھے جو سوچ و فکر بطور اساس کار فرما تھی وہ اپنی نوعیت میں ایک

مخصوص نسلی و قومی تفاخر کے مرہونِ منت تھی۔ جو نسلی و قومی تفاخر زندگی و متعلقات زندگی کے کئی اہم گوشوں میں عظیم تر کامیابیاں و کامرانیاں سمیٹنے کے بعد عظیم یورپی اقوام کے دل و دماغ پر حاوی ہوا تھا ۔ اس نسلی و قومی تفاخر کے پیش نظر وہ ہر اس علاقے و خطے کو اپنی تسخیر کا ایک جائز محل تصور کرتے تھے جنکے بارے انکا گمان تھا کہ وہاں بسنے والی اقوام تہذیب و ثقافت کے ان مخصوصiجنہیں و و متعین معیارات پر پورا نہیں اترتی جنہیں مغربی اقوام  بحثیت مجموعی پورے عالم میں پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہے ۔ پس اس نفسیاتی و روحانی برتری کے مزعومہ و فرسودہ خیال کے پیش نظر استعماری اقوام نےکئی خطہ ہائے دنیا  پر براہ راست فوج کشی کی۔ اور اس امکان کو حقیقت کا روپ دینے کی پوری کی سعی کہ غیر یورپی اقوام یعنی مشرقی اقوام و ملل کو ایسے طرزِ حیات و بود و باش کا پابند بنایا جائے جس سے مشرقی اقوام مغربی استعماریت کے لیے مفید بن سکیں ۔ مشہور مفکر ایڈورڈ سعید اپنی مشہور زمانہ کتاب “THE          QUESTION          OF         PALESTINE “میں رقمطراز ہیں ۔”صیہونی اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہو پاتے اگر اہل یورپ میں یہ پیشتر رجحان نہ ہوتا کہ وہ ابتدا ہی سے مقامی باشندوں کو غیر متعلق عنصر سمجھنے . لگے تھے۔ یہ الفاظ دیگر، یہ مقامی باشندے اس قابل قبول منظم درجہ بندی کے چارٹ میں صحیح بیٹھتے تھے جس کے مطابق وہ بے شمار طور پر مغربی یا سفید فام باشندوں سے کم تر ٹھہرتے درجہ بندی کا یہی وہ چارٹ (نقشہ) ہے جسے ہرزل جیسے صیہونیوں نے چرا کر اپنا بنا لیا۔ ہرزل اور اس پیروکاروں کا کمال یہ ہے کہ ان کے زمانے میں ثقافت کی جو عمومی فضا قائم تھی ، اس کے اندر انھوں نے اس درجہ بندی کی کچھ اس طرح تراش خراش کی کہ وہ ایک ترقی پذیر یہودی قومیت کی بے نظیر ضرورتوں کے مطابق ڈھل گئی۔ یہاں اس بات کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کر دینا چاہیے کہ صیہونیت یہودی روایت کے جائز اور برحق مقاصد کے حصول میں ممد و معاون ثابت ہوئی۔ مقاصد یہ تھے: یہودیوں کو ایک قوم کی حیثیت سے بے خانمانی اور یہود دشمنی سے بچانا اور ان کی قومیت بحال کرانا۔

اس کے ساتھ یہ اس ( صیہونیت) کا غالب مغربی ثقافت ( جس میں صیہونیت بطور ایک ادارہ سانس لیتی تھی) کے ان پہلوؤں کے ساتھ پورا گٹھ جوڑ تھا، جو اہلِ یورپ کے لیے یہ سمجھنا ممکن بنا دیتے تھے کہ غیر یورپی (ان کے مقابلے میں ) کمتر، گھٹیا ، حقیر اور غیر متعلق ہیں۔ چنانچہ یہی وہ گٹھ جوڑ ہے جو فلسطینی عربوں کے لیے بہت اہم ثابت ہوا، نہ کہ وہ فوائد جو اس گٹھ جوڑ کے نتیجے میں یہودیوں کو حاصل ہوئے ۔ شفیق اور مہربان صیہونیت کا جس کے فوائد صرف یہودیوں تک محدود رہے عربوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، البتہ انھیں مغرب کے کلچر کی جو بنیادی طور پر ناروا تفریق کا قائل ہے اور نہایت طاقتور ہے اور جس کی صیہونیت فلسطین میں ایجنٹ ہے۔ مارضرور سہنا پڑی۔”

ایڈورڈ سعید نے اپنی اس تصنیف میں صیہونیت کا اس مذکورہ بالا نفسیات کے تناظر میں خوب جائزہ لیا ہے ۔ اور اس امر کو بخوبی واضح کیا ہے کہ جس عہد میں خطہ فلسطین پر یہودی آباد کاری کے مضبوط منصوبے برطانوی حکومت تشکیل دے رہی تھی اور پوری دنیا کو اس خبط میں مبتلا کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی کہ مشرق وسطیٰ کے ایک علاقے کی عظیم تر ،برتر ،و خوب تر مقصد کی خاطر تعمیر نو و تشکیل نو کی جائیگی ۔ اس عہد میں اس حقیقت سے کامل اغماض برتا گیا کہ اس مخصوص خطہ زمین پر پہلے سے ہی صدیوں سے ایک قوم یا بالفاظ دیگر ایک اگروہانسانی آباد ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ خطہ فلسطین کے بارے مستقبل کے عظیم منصوبے ترتیب دیتے وقت وہاں کے مقامی باشندوں کو کچھ یوں نظر انداز کیا گیا کہ اول انکی موجودگی کو ہی عدم موجودگی کے مترادف قرار دے دیا گیا یا اگر بادل ناخواستہ انکی موجودگی کا اعتراف بھی کیا گیا تو انہیں انتہائی کمتر ، رذیل ، حقیر ، و اس درجے غیر مہذب بتلایا گیا کہ گویا انہیں اپنی ہی زمین پر مستقل آباد ہونے کا کوئی حق حاصل  نہیں ۔ ایڈورڈ سعید اس مخصوص استعماری سوچ کا فلسطینی تناظر میں حوالہ یوں    دیتےہیں

کہ ایک امریکی طالبہ مریم روزن کے مقالے”The         Last         crusade: British            Archeology            in          Palestine”

سے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں ۔ جو اپنی نوعیت میں فلسطینیوں سے متعلق برطانوی رویوں کی ایک روح فرسا لرزہ خیز داستان ہے ۔ اور جو ساتھ ساتھ عمومی استعماری سوچ کی بھی انتہائی اعلیٰ نمائندگی کرتی ہے اور واضح کرتی ہے  کہ استعماری یورپی غیر یورپین اقوام بالخصوص مشرقی اقوام کو کس زاویہ ہائے نظر سے دیکھتے ہیں ۔ ان میں پہلا اقتباس کچھ اس طرح ہے ۔

“ٹرائی وٹ ڈریک، جس نے مغربی فلسطین کا سروے کیا تھا تحریر کیا : فلاحین کا یہ خوف کہ ملک کی تسخیر نو کے لیے ہم نے خفیہ منصوبے ترتیب دے رکھے ہیں، ہمارے راستے میں مشکلات کا پہاڑ کھڑا کر دیتا ہے۔ اگر ان کا یہ اندیشہ دور کر دیا جائے تو پھر ہمیں نری بونگی حماقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے چنانچہ وہ سیدھے سادے سوالوں کا سیدھا جواب نہیں دیتے۔

وہ ان سوالوں کا صحیح مقصد سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ الٹا وہ خود سوال داغ دیتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آخر ایک فرنگی کو کیا ضرورت پیش آئی ہے کہ وہ ہمارے ملک کی کسی غیر اہم وادی یا پہاڑی کا نام پوچھتا پھرتا ہے۔

مشرق میں مجھ جس قسم کے انسانوں سے واسطہ پڑا ہے، فلاحین ان میں بدترین لوگ ہیں ۔ فلاحین ہر نوع کے اخلاقی احساس سے بالکل عاری ہیں”

اقتباسات میں سر فلنڈرز پیٹری کا اقتباس انتہائی قابل اہم ہے ۔ سر فلنڈرز پیٹری کے الفاظ یہ ہیں ۔ ان

“عربوں کے ساتھ خواہ مخواہ اتنی رومانی داستانیں وابستہ ہوگئی ہیں، حقیقتا دوسری وحشی اقوام کی طرح وہ اس قدر نا اہل اور سکتے ہیں کہ ان سے کراہت ہونے لگتی ہے۔ جس طرح براعظم امریکا کے ریڈ انڈین یا نیوزی لینڈ کے ماؤری باشندوں کے ساتھ کوئی رومانی کہانیاں منسوب کرنا ممکن نہیں، اسی طرح یہ عرب بھی اس قابل نہیں کہ ان کے ساتھ ایسی داستانیں وابستہ کی جائیں۔ ان کے مقابلے میں مصری زیادہ سمجھ دار اور زیرک ہیں اور ان کے ہاں دوبارہ جانے میں مجھے بہت خوشی محسوس ہو گی ۔”

اس کتاب میں مصنف نے مذکورہ نفسیاتی استعماری سوچ کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے اس پر کافی شرح و بسط سے کلام کیا ہے ۔ انہوں نے لکھا ثکہ استعماری سوچ کی برہانی آبیاری جان ویسٹ لیک و ایمر ڈی ویٹل جیسے مفکرین نے اپنے افکار کے ذریعے کی۔ جنہوں نے دنیا کے مختلف علاقوں کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کیا۔جن میں کچھ خطے ایسے تھے جو نہیں تھے۔ یعنی وہاں خانہ بدوش و ایک قسم کے فروتر لوگ آباد تھے ۔ جبکہ کچھ ایسے خطے تھے جہاں مغربی تہذیب یافتہ اقوام آباد تھیں ۔ لہٰذا انہیں حق حاصل تھا کہ وہ اول الذکر خطوں کو اپنی تحویل میں لے لیں۔

مزاحمتی تصورات کی اہانت ،

استعمار و نوآبادیاتی دور کی ایک اہم ترین و انتہائی دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ ایک طرف جہاں استعماری طاقتیں اپنی تہذیبی و تمدنی عظمت و وقار و انسانیت کی ترقی کے مغربی لائحہ عمل کے نفاذ کو بنیاد بنا کر اقوام عالم کو محکوم و مغلوب بنانے کے عمل میں زور و شور سے مشغول تھیں وہیں دوسری طرف استشراق کی فکری لانچ کے ذریعے مغلوب اقوام کے ان تصورات و خیالات نظریات و افکار کی کھلی توہین بھی کی جاتی تھی جو مغربی مفادات کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے ۔ مثلاً اسلامی تصور تصور جہاد کی انتہائی وسیع پیمانے پر بے توقیری کی گئی اور اسکی کئی من گھڑت تعبیرات و تشریحات بیان کی گئیں اور یہ بتلانے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان جہاد کے ذریعے اپنے افکار و خیالات کو زبردستی نظام کائنات پر تھوپنا چاہتے ہیں ۔ جو اپنی نوعیت میں انتہائی قبیح عمل ہے ۔  مغربی فکر کا مذکورہ تضاد دیکھیے کہ جہاں ایک طرف تصور جہاد پر اسکی ساری تنقید و تحقیر کی بنیاد “ناجائز توسیع” پر استوار تھی ۔وہیں دوسری طرف اسکے اپنے خیالات و نظریات توسیع پسندانہ عزائم کے لیے بہترین محرک بن رہے تھے ۔

بہرحال ، تصور جہاد سے متعلق یورپی اقوام کا ناروا فکری تعصب قابلِ فہم ہے کہ مذکورہ تصور انکے عظیم تر مقاصد کے کامیاب نفاذ کی راہ میں اک عظیم رکاوٹ تھا  مگر جو امر قابل صد تعجب و حیرت ہے وہ یہ ہیکہ کہ اس فکری و نظری پروپیگنڈے کا شکار ہو کر بہت سے مسلم مفکرین نے بھی تصور جہاد کی کئی ایسی نئی تشریحات و تعبیرات پیش کی جو مغربی مفکرین کے لیے کے لیے تصور جہاد کو موزوں بنا تی تٗ۔ چنانچہ اس نئی علمی مہم میں جہاد کو اپنی ایک قسم محض دفاعی جہاد میں محصور کر دیا گیا ۔ اور یوں یورپی فکری استعماری کے شکار مشرقی و بالخصوص اسلامی تصورات کے علمی تعاقب میں جوانتہائی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا گیا ۔ وہ خارج میں مکمل سیاسی و سماجی معاشی و معاشرتی شکست پر منتج ہوا ۔جبکہ عین اسی وقت استعماری طاقتوں کے فکری حامیوں کی  بلندی اظہار و مکمل بانکپن کیساتھ استعماری پراجیکٹ کی فکری پشت پناہی قابل دید تھی۔۔ ذیل میں اس فکری جسارت کی کچھ متعین مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔

مشہور ناول ” قلب ظلمت میں لکھتا ہے۔ جوزف کونریڈاپنے

جسے محترم ایڈورڈ سعید نے بطور خاص ذکر کیا ہے ۔ اسکے الفاظ کچھ یوں ہیں۔

“زمین کی تسخیر ، جس کا زیادہ تر مطلب یہ ہے کہ آپ اسے ان لوگوں سے چھین رہے ہیں جن کا رنگ ہمارے رنگ سے قدرے مختلف ہے اور یا جن کی ناکیں ہماری ناکوں سے ذرا چپٹی ہیں، جب اسے خوب کھنگال کر دیکھیں ، تو یہ آپ کو اچھا کام نظر نہیں آئے گا۔ اس ( حرکت ) کی جو چیز تلافی کرتی ہے، وہ محض ایک خیال ہے۔ ہاں اس ( حرکت ) کی جو چیز تلافی کرتی ہے، وہ محض ایک خیال ہے۔ ہاں اس (حرکت) کے پیچھے ایک خیال کار فرما ہے۔ کوئی جذباتی حیلہ نہیں بلکہ صرف ایک خیال … ایک ایسی چیز ، جس کی آپ تنصیب کر سکتے ہیں، جس کے سامنے اپنا سر جھکا سکتے ہیں اور جسے بھینٹ پیش کر سکتے ہیں ”

s کونریڈ کے اس ناول پر ایڈورڈ سعید تبصرہ کرتے لکھتے ہیں کہ جوزف کونریڈ نے اس میں ایک کردار کرٹز پیش کیا ہے جو تاریک مقامات سے متعلق خواب دیکھتا ہے ۔ اور ایک اور کردار مارلو  کو بھی یوں ذکر کیا ہے کہ وہ گھنٹوں  گھنٹوں جنوبی امریکہ افریقہ ، آسٹریلیا کے نقشوں میں کھویا رہتا ہے اور نئے نئے علاقوں میں سے ان علاقوں میں بڑے ہو کر جانے کی خواہش کرتا ہے جو اسے خاص طور پر جاذب نظر دکھائی دیتے ہیں ۔ آپ لکھتے ہیں کہ اس عہد میں محض کرٹز ہی تاریک مقامات پر جانے کی خواہش نہیں رکھتا تھا بلکہ پورا یورپ ہی ایسے سہانے خواب دیکھ رہا تھا ۔

فاضل مصنف نے اس پیرائے میں پال لیرائے بولیو کے فیصلہ کن الفاظ بھی بطور دلیل ذکر کیے ہیں ۔

پال لیرائے رقمطراز ہے ۔

جب کوئی قوم نو آبادیاں قائم کرنا شروع کرتی ہے، تو اس سے اس کی وسعت پذیر قوت کا اظہارہوتا ہے۔ یہ ( نو آبادیاں قائم کرنا ) اس کی افزائش نو کی قوت ہے۔ یہ اس کا وہ فعل ہے جس کے ذریعے وہ دھرتی پر اپنی توسیع کرتی ہے اور اپنی تعداد کو پہلے کی کئی گنا بڑا بناتی ہے۔ اس کے ذریعے کا ئنات یا کائنات کا ایک وسیع و عریض حصہ اس قوم کی زبان ، رسوم، خیالات اور قوانین کے زیر نگیں لایا جاتا ہے۔

ان اقتباسات کو نقل کر کے فاضل مصنف استعماریت و نو آبادکاری سے متعلق اپنی رائے اسطرح قلمبند کرتے ہیں کہ استعماریت ایک نظریہ تھا اور نو آبادیت ایک عمل ایک ایسا عمل جسکے ذریعے بے مصرف پڑی خالی سرزمینوں کو اس انداز میں تبدیل کرنا مقصود تھا کہ وہ یورپی معاشروں کے لیے مفید بن سکیں ۔ اور وہ  امکانی طور پر بے پناہ دولت کمانے کا ذریعہ بن سکیں ۔ باقی انکے مقامی باشندوں کو یا توخاردار کیمپوں میں دھکیل دیا جانا تھا یا انہیں وہیں محدود کر کے ان پر ٹیکس لاگو کیا جانا  تھاتاکہ انہیں منفعت بخش طریقے سے استعمال کیا جا سکے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حافظ حسن علی ادارہ علوم اسلامی سترہ میل سے فارغ التحصیل اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایم-فل علوم اسلامیہ کے طالب علم ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں