مذہبی سیاست پر مجوزہ سلسلہ گفتگو میں یہ حصہ ترتیب توقیفی کے اعتبار سے تو بعد میں آنا چاہیے تھا، لیکن ترتیب نزولی کی رعایت سے جزوا اسے مقدم کرنے میں کوئی حرج دکھائی نہیں دیتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں مذہبی سیاست کو منظم کرنے کے دو ماڈل جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی نے اختیار کیے۔ اہداف میں زیادہ فرق نہیں تھا، اور ریاست کی نظریاتی شناخت طے کرنے نیز اس کے بعد آئینی و قانونی سطح پر اسلامائزیشن کی جدوجہد میں دونوں شریک رہے، تاہم انداز سیاست مختلف تھا۔ جماعت اسلامی نے خالصتاً نظریاتی بیانیے پر مذہبی سیاست کو استوار کرنے کی کوشش کی اور نتیجتا سیاسی میدان میں کبھی بھی کوئی قابل لحاظ قوت نہیں بن سکی۔ جمعیت علماء نے تدریجاً اپنے سیاسی بیانیے اور اہداف کو قومی سیاست کے عمومی دائرے سے ہم آہنگ کر لیا اور مختلف سیاسی قوتوں کے ساتھ تعامل کا راستہ اختیار کر کے قومی سیاست میں اپنی ایک جگہ بنا لی جس کے ذریعے سے اسے اپنے مذہبی اہداف کی طرف بھی پیش رفت کرنے میں سہولت رہی۔
مذہبی سیاست کے جتنے اہداف قابل حصول تھے، وہ کم وبیش سب حاصل ہو چکے ہیں۔ ملک کی نظریاتی شناخت طے ہو گئی ہے، آئین میں اسلامی دفعات شامل ہیں، اہم دائروں میں قانون سازی ہو چکی ہے، اہم آئینی وعدالتی فورم وجود میں آ چکے ہیں جو کسی بھی ایشو پر مذہبی موقف کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ کوئی ایسا مزید ہدف جو عملاً قابل حصول ہو، منظر پر موجود نہیں۔ نتیجتا مذہبی سیاست کی سرگرمی میں پیش قدمی کا عنصر مفقود ہے اور وہ مختلف ایشوز کے حوالے سے اپنی کامیابیوں کے تحفظ اور مخالف بیانیوں کی مزاحمت تک محدود ہو چکی ہے۔ یہ مزاحمت چونکہ مذہبی سیاست پر منحصر نہیں اور معاشرے میں اس کے اور بھی پلیٹ فارم موجود ہیں، اس لیے عوامی پرسیپشن میں بھی مذہبی سیاست کے بیانیے میں زیادہ اپیل نہیں رہی۔
اس صورت حال کا اثر قومی سیاست کے رویوں اور حرکیات پر پڑنا بھی ناگزیر ہے۔ چنانچہ جیسے جیسے سیاسی عمل مذہبی ایشوز کی گرفت سے نکل کر خالص سیاسی ایشوز پر یکسو ہوتا جا رہا ہے، مذہبی سیاسی قوتوں کی اہمیت فطری طور پر کم اور ان کا دائرہ اثر سکڑتا چلا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی تو اپنے انداز سیاست کی وجہ سے پہلے ہی قومی سیاسی عمل سے باہر تھی۔ اب مذہبی سیاست کے لیے پیش قدمی کا کوئی قابل عمل ایجنڈا موجود نہ ہونے کی وجہ سے جمعیت علماء کو بھی اسی قسم کے چیلنج کا سامنا ہے۔
مذہبی سیاست کو درپیش عمومی چیلنج کے ساتھ جمعیت علماء کے اپنے خاص چیلنجز بھی سامنے ہونے چاہییں۔ ان چیلنجز کا تعلق دیوبندی حلقے کی داخلی تقسیم، حریف سیاسی قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔
قیام پاکستان کے بعد دیوبندی جماعت کو دینی فکر اور سیاست کے میدان میں بنیادی چیلنج جماعت اسلامی کی طرف سے درپیش تھا۔ سیاسی میدان میں جماعت اسلامی نے خود اپنے نظریے اور حکمت عملی کی وجہ سے زیادہ مسائل پیدا نہیں کیے اور مذہبی قوتوں کی قیادت اصلاً جمعیت علماء ہی کے پاس رہی۔ دینی فکر کے میدان میں مولانا کے نتائج فکر پر روایتی مذہبی حلقوں نے بھرپور تنقید کی جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو مولانا کی دینی فکر سے ایک فاصلہ پیدا کرنا پڑا۔ یوں دونوں میدانوں میں دیوبندی حلقہ فاتح رہا۔ جماعت اسلامی اب روایتی دینی حلقوں کے طے کردہ حدود میں دینی خدمات اور اس کے باہر سماجی خدمات انجام دے کر ثواب دارین حاصل کرتی ہے۔
داخلی تقسیم کے پہلو سے جمعیت علماء کو تدریجاً اپنی مرکزیت کھونا پڑی ہے۔ مختلف مذہبی ایشوز مثلاً ختم نبوت اور دفاع صحابہ وغیرہ تقسیم ہو کر دوسری جماعتوں کے پاس چلے گئے ہیں اور جمعیت کا کردار ایسے مسائل میں ثانوی ہے۔ دینی مدارس کی تنظیم وفاق کے پلیٹ فارم سے ہوئی جس میں بنیادی کردار جمعیت کا ہی تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہاں بھی دوسرے حلقہ ہائے فکر غالب آتے چلے گئے۔ کچھ عرصہ قبل نئے تعلیمی بورڈز کے قیام سے یہ مرکزیت اور بھی کمزور ہوئی ہے۔ اب جمعیت کو ایک اور طاقتور نظریاتی حریف کا سامنا ٹی ٹی پی کی صورت میں ہے جو اپنا نظریاتی اور سیاسی اثر دیوبندی طبقے میں وسیع کرنا چاہتی ہے۔ یہ چیلنج صرف نظریاتی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ سنگین اور خطرناک بھی ہے۔
یہ ساری تقسیم داخلی عوامل سے بھی ہوئی ہے اور یقیناً اس میں اسٹیبلشمنٹ کی بھی منشا اور رضامندی شامل ہے۔ مقتدرہ کو فطری طور پر کسی ایک منظم سیاسی قوت کے ساتھ معاملہ کرنے کے مقابلے میں تقسیم شدہ اور محدود قوت رکھنے والے سیاسی عناصر سے معاملہ کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ جمعیت کا عمومی سیاسی رجحان اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے، یعنی اس میں خود اپنی سیاسی بقا کا تحفظ بنیادی محرک ہے۔ اس کے علاوہ جمعیت کی قیادت بجا طور پر سمجھتی ہے کہ مقتدرہ یا عالمی قوتوں کے پیش نظر جس نئے سیاسی منظرنامے کی تشکیل ہے، اس میں جمعیت کی بطور ایک سیاسی قوت کے زیادہ جگہ نہیں ہے۔ یہ سیاسی چیلنجز میں سے ایک اور بڑا چیلنج ہے۔
سیاسی قوتوں میں سے زیادہ بڑا چیلنج بدیہی طور پر پی ٹی آئی نے پیدا کیا ہے اور عین اس صوبے میں کیا ہے جو جمعیت کی سیاسی سپورٹ کی آماجگاہ ہے۔ اس تناظر میں پی ٹی آئی کے ساتھ تعاون کی حالیہ پیش رفت کی اہمیت بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے چیلنج کا سامنا کرنے کے حوالے سے ہے۔ ابھی یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ ایک حریف سیاسی قوت کے ساتھ جمعیت کے دیرپا تعلقات کیا نوعیت اختیار کر سکتے ہیں۔
اسلام علیکم سر امید ہے آپ خیریت سے ہو گے
سر مجھے مدارس کی تاریخ چاہئے برصغیر سے پاکستان بننے کے بعد کے تمام مراحل