از مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ
تحقیق وتخریج: ڈاکٹر انعام الحق غازی۔نوید الرحمن داور
مولانا سنامی کی اولاد:
مولانا سنامی کے ایک سے زیادہ صاحبزادے تھے۔ قصر ِعارفاں میں ہے:
“قاضی ضیاء الدین سنامی کے چند نہایت قابل لڑکے تھے۔ ان میں سے ایک زین العابدین تھے جن کے بیٹے قاضی محمد معین الدین ایرجی تھے”۔[1]
ایک اور صاحبزادے امام حاج ہیں، ان کے صاحبزادے تاج مذکر ہے، تاج غالبا تاج الدین کا مخفف ہے۔ مولانا تاج الدین کے دو صاحبزادے ہیں، ایک مولانا کریم الدین دوسرے مولانا شہاب الدین ہیں، ان کی اولاد کاکوری لکھنو میں آباد ہے۔ اس شاخ کے شجرے کے لیے مولانا نور الحسن راشد کی تصریح کے مطابق عباسیانِ کاکوری از محمد حسن عباسی ص نمبر 226 دیکھا جائے[2]۔ مولانا کریم الدین کے صاحبزادے قاضی محمد ہیں۔ ان سے قاضی ضیاء الدین تک کا سلسلہ محمد بن فیروز شاہ تغلق کے فرمان مکتوبہ 22 رجب 793ھ کی پشت پر لکھا ہوا ہے۔ قاضی محمد کے تین صاحبزادے ہیں: (ا) قاضی اللہ دیا، ( ب) قاضی بہاء الدین جن کی اولاد کاندھلہ میں ضیاء خاندان کہلاتی ہے اور(ج) قاضی جمال الدین۔
(ا)قاضی اللہ دیا کی اولاد قاضی محمد ذکی پر ختم ہو گئی، قاضی صاحب لا ولد ہیں۔
(ب)قاضی بہاء الدین کا خاندان یہ ہے:
قاضی بہاء الدین کے صاحبزادے نور محمد کے تین بیٹے تھے:
- مولانا جمال محمد
- مولانا كمال محمد
- شيخ منصور
- مولانا جمال محمد کی اولاد کے نام یہ ہیں: مولانا محمد اشرف، مولانا محمد شریف۔ مولانا محمد شریف کے صاحبزادوں کے نام مولانا فیض محمد اور مولانا عبد القادر ہے۔ مولانا فیض محمد کے صاحبزدےمولانا محمد اسماعیل ، مولانا محمد یحی ، مولانا محمد الیاس اور مولانا محمدہیں۔ مولانا محمد یحی کے صاحبزادے کا نام مولانا ذکریا ہے اور مولانا محمد الیاس کے صاحبزادے مولانا محمد یوسف ہیں[3]۔
- مولانا کمال محمد[4]
- شیخ منصور کے صاحبزادگان کا نام ابو محمد [5]اور محمد فاضل تھے۔ محمد فاضل کے بیٹے روشن علی کے بیٹوں کے نام قاسم علی، عثمان علی اور فضل علی تھے۔
(ب) قاضی جمال الدین المعروف قاضی بڈھ کی اولاد کا سلسلہ یوں ہے:
قاضی عتیق اللہ
قاضی محمد
اسماعیل
قاضی نصر اللہ
قاضی چاہلہ
قاضی عبد اللہ
قاضی حافظ
قاضی عتیق اللہ
قاضی حبیب اللہ
محمد دائم
حکیم حفیظ اللہ
حکیم عزیز اللہ
حکیم رحیم اللہ
شیخ عبد اللہ
منشی عبد الکریم
حکیم محمد عبد الرحمن
عبد العزیز
منشی عبد الرحیم
عبد الحکیم
ہمارے خاندانی نسب ناموں میں قاضی جمال الدین کو قاضی بڈھ لکھا ہے۔ قاضی شیخ محمد کے صاحبزادے قاضی جمال عرف قاضی بڈھ نے کاندھلہ سے ترکِ وطن کیا ہے۔ اس ترک ِوطن کی وجوہات کاکوئی پتہ نہیں ہے۔ صرف خاندان کے بزرگوں سے سنی ہوئی بات ہے کہ اُن سے، مغلوب الغضب ہونے کی وجہ سے، کوئی قتل ہو گیا تھا۔ یہ واقعہ کاندھلہ میں اس کا جگہ کا ہے جس کو خونیوں کا محلہ کہتے ہیں۔ تلاش و جستجو کے بہت مرحلے طے کرنے کے بعد مجھے اسی زمانے میں اسی نام کی شخصیت کشمیر میں زین العابدین کے دورَ حکومت میں قاضی القضاۃ کے عہدہ پر فائز ملی۔ تمام مؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ مولانا جمال الدین مضافاتِ آگرہ سے کشمیر تشریف لائے اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ آپ نسبا صدیقی ہیں۔ آیئے مورخین کی زبانی اُن کی پوری کہانی سن لیجئے:
جناب خواجہ محمد اعظم تاریخِ اعظمی کے مصنف لکھتے ہیں:
”عزیز ے از ہندوستان آمدہ و در خانقاہ امیر یہ بادا ئے وظائف مے گذرانید”۔[6]
کشمیر کے مشہور مؤرخ پر غلام احمد شاہ تاریخ ِوقائع کشمیر میں لکھتے ہیں :
“شیخ ملا جمال الدین در عہد سلطان زین العابدین بوجہ کارہائے نمایاں و بوجہ علامہ فہامہ بودن قاضی القضاۃ فائز شدند، علمائے محققین گفتند کہ صدیقی بودند”۔[7]
ملا بہاء الدین نے اپنی کتاب لباب التواریخ میں بات کو ذرا اور کھولا ہے:
”ملا شیخ جمال الدین ازمضافات آگرہ در خانقاہ امیر بہ قیام پذیر شدہ ، در ریاضات مشغول شدند”۔[8]
مولانا شیخ نظام الدین صاحب کشمیری نے کتاب نظام الوقائع میں صاف لکھا ہے کہ:
” ملا شیخ جمال الدین علامہ فہامہ و صید الدہر، حاوی علوم ظاہر ی و باطنی وکاتب الوقت بودند، از مضافات آگرہ بکشمیر نزول ِ اجلال فرمودند”۔[9]
اس پر سب کا اتفاق ہے کہ :
1۔ آپ ہندوستان سے آئے۔
2۔ آپ مضافاتِ آگرہ سے آئے۔
3۔ آپ کو شیخ کہتے ہیں۔
4۔ آپ صدیقی ہیں۔
لیکن یہ بات تشنۂ تحقیق ہے کہ آپ آگرہ کے مضافات میں کس جگہ سے آئے؟ اس کا معلوم کرنا بہت آسان ہے۔ دیکھ لیا جائے کہ مضافاتِ آگرہ میں شیوخ کی اور صدیقیوں کی آبادی کہاں ہے۔ مضافات آگرہ میں کاندھلہ اور دیوبند صدیقیوں اور شیوخ کی آبادیاں ہیں۔ اِن میں کاندھلہ آگرہ سے سے قریب ہے۔ اس لئے یہ کہنے میں کوئی مانع نہیں کہ مولانا شیخ جمال الدین صدیقی کاندھلہ سے تشریف لے گئے ہوں۔ آپ قاضی بہاء الدین کے بھائی اور قاضی محمد کے صاحبزادے ہیں۔ کشمیر میں مولانا جمال الدین سے جو اولاد ہوئی وہ یہ ہے :
مولانا جمال الدین
مولانا محمد اسحاق
مولانا عبید اللہ
مولانا عبد الغفور
مولانا عبد السلام
مولانا عبد الواحد
مولانا کمال الدین سیالکوٹی
مولانا شیخ محمد کا کاندھلہ میں تقرر:
حضرت مولانا ضیاء الدین سنامی کے پڑپوتے مولانا کریم الدین مذکر مراسمِ دینی کی نگرانی اور امامت کے لئے کاندھلہ میں سرکاری طور پر مقرر تھے اور رجب 793 ھ سے پہلے وفات پا چکے تھے ۔ ان کے صاحبزادے مولانا قاضی شیخ محمد کاندھلہ میں مقیم تھے اور جب سلطان ابو الفتح محمد شاہ ابن فیروز شاہ تغلق کا 2 رجب 793 ھ کاندھلہ میں نزول ہوا تو سلطان نے ایک فرمان کے ذریعے مولانا شیخ محمد کو ان کے والد ماجد کی جگہ مقرر کیا ۔ اس موقع پر جو فرمان جاری ہوا تھا اس کی ضروری عبارت حسبِ ذیل ہے:
”چوں حضرت فلک رفعت درگاہ عالی پناہ آسمان جاہ بادشاہانہ با حدیث کہ بر ظہر فرمان ہمایوں اعلی مسطور است بموقف عرض رسانید ند از راہ وفور مرحمت ثبت شدہ۔ عاطفتِ خسراوانہ فرمودہ امر باصحاب مناصب دولت عالی فرماں و امرطلبہا وکارکنان شق مسائل دولت و معاملہ ضج امام افضل لتعالی المذکوران از نقل فرامین بموجب محبینا بدر امام محدود قصبہ تعین داشت و او بر حمت حق پیوستہ دان جملہ متعالی المذکور فرمان از نقل فرامین مذکر محمد پسر او مقرر ومستقر گیرند وحکم فرمان ثبت شد”۔
مظفر نگرگزیٹر، حالاتِ مشائخِ کاندھلہ اور کاندھلہ کی شخصیات و تاریخ سے متعلق جملہ کتابوں میں فرمانِ تغلق مکتوبہ رجب 793ء کے حوالے سے تحریر ہے کہ سلطان نے ایک مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا اور قاضی شیخ محمد کو 20 ہزار بیگہ کا فرمان عطا فرما کر کاندھلہ میں متعین کیا۔
1941ء میں قاضی محمد ذکی کے انتقال کے بعد عدالت میں جو جائیداد کا مقدمہ درج ہوا اس جائیداد کا فیصلہ اسی دستاویز کی بنیاد پر حکیم رحیم اللہ کی اولاد کے حق میں عصبہ بنا کر کیا گیا۔ یعنی قاضی محمد کے تین لڑکے تھے : اللہ دیا، قاضی جمال الدین ، قاضی بہاء الدین۔ اللہ دیا کی اولاد میں سے قاضی محمد ذکی دنیا سے لا ولد گئے۔ قاضی جمال الدین کی اولاد میں سے حکیم رحیم اللہ کی اولاد کو قانونی اور شرعی طور پر وارث قرار دیا گیا۔
لہذا قاضی محمد کو 22 ہزار بیگہ جائداد کا ملنا ایک واقعاتی اور قانونی حقیقت ہے اور عدالت نے یہ فیصلہ اس شجرہ کی بنیاد پر کیا تھا جو 1940 ء میں قاضی ذکی کے گھر سے بر آمد ہوا تھا اور جو قاضی غلام حسین متوفی 1852ء کا مرتبہ ہے اور بعد تصدیق مقدمہ وراثتِ ترکہ قاضی ذکی میں شامل ہوا۔
[1] ۔ قصر عارفاں، مولوی احمد علی، باہتمام ڈاکٹر محمد باقر، اورئنٹل کالج میگزین، لاہور، 1965 ، ص: 181
[2] ۔ عباسیانِ کاکوروی، محمد حسن عباسی، بانکے لال سکسینہ، مطبع نامی، لکھنؤ، بغیرتاریخِ اشاعت
[3] ۔ مصنف نے ان کے نام کے بعدx کا نشان لگایا ہے جس کا ایک مقصد تو یہ ہوسکتا ہے اُن کے کوئی اولاد نہ تھی یا اُن کی اولاد کا ذکر بوجوہ نہیں کیا گیا۔
[4] ۔ ان کے نام کے بعد بھی x کا نشان لگایا گیا ہے۔
[5]۔ اس نام کے بھی x کا نشان لگایا گیا ہے۔
[6] ۔ واقعاتِ کشمیر، تاریخ اعظمی، خواجہ محمد اعظم دیدہ مری، ترجمہ، ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی، اقبال اکادمی ، لاہور، 1995، ص: 105
[7] ۔ بحوالہ تذکرۂ اسلاف، مولانا بہاؤ الحق قاسمی، نویگ پریس ،دہلی، 1986 ص: 23
[8] ۔ لباب التواریخ، ملا بہاؤ الدین، قلمی نسخہ ، حصہ سوم، ص: 330، بحوالہ تذکرۂ اسلاف، مولانا بہاؤ الحق قاسمی، نویگ پریس ،دہلی، 1986 ص: 24
[9] ۔ محولہ بالا،ص:24 ۔ حوالہ جات نمبر 7تا9 میں مذکور تمام معلومات تذکرہ ٔ اسلاف مصنفہ مولانا بہاء الحق قاسمی رحمہ اللہ سے لی گئی ہیں۔ مولانا موصوف دار العلوم الشہابیہ ( سیالکوٹ) کئی بار تشریف لائے ۔ میرےاُن سے دوستانہ مراسم تھے، بہت خوبیوں کے مالک تھے۔
کمنت کیجے