Home » احمدی مسئلہ: سماجی اور اخلاقی پہلو
اسلامی فکری روایت سماجیات / فنون وثقافت سیاست واقتصاد فقہ وقانون

احمدی مسئلہ: سماجی اور اخلاقی پہلو

ابو الحسین آزاد

احمدیوں کو ہمارے آئین نے جو حیثیت دی ہے اور قانونی اعتبار سے اُن پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں ہمیں اُنھی پر اکتفا کر لینا چاہیے۔ اِس سے زیادہ کا مطالبہ یا اُنھیں معاشرے میں اچھوت کی حیثیت دے دینا ایک ایسا عمل ہے جس کی کوئی بھی اخلاقی توجیہ بہت مشکل ہے۔ ہمارا آئین اُنھیں ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیتا ہے اور ہمارا قانون اُن پر یہ پابندی لگاتا ہے کہ وہ شعائرِ اسلام کو استعمال نہ کریں اور اپنی دینی تعلیمات کی مسلمانوں میں ترویج نہ کریں۔
شعائرِ اسلام سے مراد اسلام کی وہ علامات ہوتی ہیں جن کا عَلانیہ اظہار ہوتا ہے مثلا بہ آوازِ بلند اذان دینا یا مسجد کے طرز پر عبادت گاہ تعمیر کرنا وغیرہ۔ کوئی شخص اپنے گھر یا اپنی کمیونٹی کے اندر اگر کوئی فعل انجام دیتا ہے تو اُسے شعائرِ اسلام کے زمرے میں لانا درست نہیں ہوگا۔ کیوں کہ احمدیوں کو شعائرِ اسلام سے روکنے کا مقصد یہ ہے کہ اُنھیں مسلمانوں کی مشابہت سے روکا جائے تا کہ کوئی غلط فہمی میں نہ پڑے اور احمدیوں کی جداگانہ دینی حیثیت اسلام میں مدغم نظر نہ آئے۔
اس سے آگے کے سارے رویے مثلا قادیانیوں کا سماجی بائیکاٹ، اُن کی مصنوعات کا بائیکاٹ، اُنھیں اپنے گھروں اور اپنے اداروں میں عبادات (مثلاقربانی وغیرہ )سے روکنا، اُنھیں اپنادینی لٹریچر اپنے لوگوں میں بانٹنے سے روکنا، اُنھیں اور اُن کے پیشواؤں کو گالیاں دینا، اُن پر عرصۂ حیات تنگ کرنا، اُن کے ناموں کی لسٹیں چھاپ کر علاقے بھر میں تشہیر کرنا کہ اِن سے قطع تعلقی کرو، اُنھیں گ،س،ت،ا،خِ، رسول اور ملک دشمن قرار دینا، گلی محلوں میں یہ لکھنا کہ ”یہاں قادیانی ک، ت، و، ں کا داخلہ منع ہے۔“ اُن کی قبروں کے کتبے اکھاڑنا، اُن سے شدید نفرت کی تعلیم دینا اورمکالمے اور شائستہ روابط کی تمام راہیں مسدود کردینا ، یہ وہ سب باتیں ہیں جو کسی کا شخصی ذوق تو ہو سکتی ہیں، کسی کی باطنی تلخی کا ثمرہ تو ہو سکتی ہیں لیکن پورے سماج کے دل و دماغ میں انھیں پیوست کرنا اور اِنھیں بھی ایمان و دیانت کا ناگریز تقاضا قرار دیناکوئی مستحسن عمل نہیں ہے۔
ہمارا احمدیوں سے یہ مطالبہ بھی رہتا ہے کہ وہ آئین کو مانیں اور اپنے آپ کو غیر مسلم سمجھنا شروع کردیں۔ آئین ریاست کا عقیدہ ہوتا ہے انسانوں کے حق میں اُس کا قانونی اور عملی پہلو اصل ہوتا ہے۔ آئین کے زیرِ اثر بننے والے قانون پر ہر شخص کو چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے عمل کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس میں ماننے یا نہ ماننے کا سوال نہیں ہوتا۔جب آئین کسی ایک گروہ کو غیر مسلم قرار دیتا ہے تو وہ خود بخودعملی قانون کے اعتبار سے غیر مسلم کی کیٹگری میں آجاتا ہے اور تکفیر کے مذکورہ مقاصد حاصل ہونے لگتے ہیں۔ اب کوئی گروہ خود اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے تو یہ آئین کا یا ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا میں اربوں لوگ اپنے عقیدوں اور نظریوں کے متعلق لاکھوں قسم کےتصورات رکھتے ہیں اور رکھتے رہیں گے۔ كل حزب بما لديهم فرحون.
آئینِ پاکستان کے متعلق ہمارے مذہبی رویے جس ژولیدگی اور تشویش کا شکار ہیں اُس کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ ہمارا احمدیوں کے متعلق ”اصلی“ موقف یہ ہے کہ یہ زندیق ہیں۔ زندیق وہ شخص ہوتا ہے جو مسلمان ہونے کی جملہ شرائط پوری نہ کرنے کے باوجود مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے۔ زندیق کی سزا قدیم فقہی کتابوں میں قتل لکھی گئی ہے، لہذا ہماری اجتماعی مذہبی دانش دل ہی دل میں یہ نظریہ بھی رکھتی ہے کہ احمدیوں کی موجودہ پوزیشن تو عبوری ہے، جب حقیقی اسلامی نظام آئے گا تو اِن سب کو تہِ تیغ کیا جائے گا۔ (یا اگر حقیقی اسلام نظام ہوتا تو اِن سب کو تہِ تیغ کیا جاتا۔) یہ تقیہ کردہ نظریہ ہی اس سے آگے کی تمام بے اعتدالیوں کا سبب ہے۔
بات یہ ہے کہ زندیق کیا ہے؟ کون ہے؟ اور اُس کی سزا کیا ہونی چاہیے؟ یہ سب اجتہادی امور ہیں اور اسلام میں اجتہاد کا حقیقی منصب حکمران کے پاس ہوتا ہے۔حاکم کا اجتہاد قولِ فیصل ہوتا ہے۔ پاکستان کی حکومت نے جملہ اہلِ علم کی راہنمائی میں احمدیوں کی ایک مذہبی حیثیت متعین کی ہے، اس نے اِنھیں زندیق قرار دیا ہے نہ ہی اِن پر زندیق والے احکام لگائے ہیں۔ لہذا اس بحث کی گنجائش ہی ختم ہو جاتی ہے کہ اِن کا اصلی حکم تو وہ تھا جو مسیلمہ اور اُس کے پیروکاروں کا تھا۔ بات بالکل واضح ہے کہ احمدیوں کی اصلی حیثیت وہی ہے جو ریاست نے اُنھیں دے دی ہے، اَب یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اُنھیں کسی بھی سماجی دباؤ اور جان، مال اور آبرو کے خطرے سے محفوظ ایک پُر امن زندگی مہیا کریں۔
دنیا میں ہر شخص اُسی مذہب کو حق سمجھتا ہے جس پر وہ پیدا ہوتا ہے الا ما شاء اللہ۔ ختمِ نبوت تو بہت بعد کا معاملہ ہے اس دنیا میں نفسِ رسالت اور توحید کے منکرین کتنے زیادہ ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کا یہ ماننا ہے کہ خدا کی توحید اور پیغمبر کی رسالت ہر طرح کے عقلی و نقلی دلائل سے ثابت ہے اور سورج کی طرح واضح اور بے غبار ہے۔ اگر اتنی روشن بات کو اربوں انسان نہیں مانتے تو ختمِ نبوت کے متعلق یہ کیسے توقع رکھی جائے کہ اُسے دنیا کا ہر انسان تسلیم کرے گا۔ یقینا یہ بات کسی انسان کے باطل پر رہنے کا جواز نہیں ہو سکتی لیکن عمومی انسانی نفسیات ایسی ہی ہیں۔ ہر انسان کا مذہب اُس کی نظر میں ایک معروضی سچائی ہی ہوتا ہے۔
یہ ظاہرہ (Phenomena) ختمِ نبوت کے حوالے سے ہماری ذمہ داریوں سے ہمیں عہدہ برآ نہیں کردیتا۔ لیکن ختمِ نبوت ایک وسیع ایمانی، شعوری ، عقلی اور تہذیبی مظہر ہے ، رد قادیانیت اس بحرِ بے کراں کی محض ایک موج ہے۔ ہم نے ساری طغیانیاں اور سونامیاں اسی ایک لہر ہی میں برپا کر رکھی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابوالحسین آزاد صاحب جامعہ دارالعلوم کراچی کے فاضل ہیں ۔آج کل مختلف عربی کتب کے تراجم کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں