ڈاکٹر زاہد مغل
مشرف بیگ
جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے ہاں “تبیین” کی بحث بہت کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور آپ کی رائے میں بیان وہ امر ہے جو لفظ یا صیغہ نیز سیاق کلام وغیرہ سے سمجھا جا سکتا ہو وگرنہ وہ نسخ یا ترمیم کہلائے گا جو کسی صورت بیان نہیں۔ اس کے لیے آپ کا دعوی یہ ہے کہ عربی لفظ “بیان” کی وضع ہی میں یہ امور شامل نہیں۔ اس کے برعکس فقہائے اسلام اور اصولیین کے ہاں “بیان” جس طرح بیان ابتدائی اور بیان تفسیر کے لیے برتا جاتا ہے اسی طرح بیان تغییر اور تبدیل یعنی نسخ کے لیے بھی برتا جاتا ہے، قطع نظر اس سے کہ مختلف اقسام کے بیان کی شرائط مختلف ہو سکتی ہیں۔ یہ استعمال لفظ بیان کی لغوی وضع سے پوری طرح ہم آہنگ ہے ہی، قرآنی استعمال بھی اس پر صاد کرتا ہے۔ یہاں ہم نے “وضع” اور “استعمال” کی فرق کی طرف ابتدا ہی میں دانستہ اشارہ کیا کیونکہ لغوی “وضع” کے لحاظ سے بیان صرف “ظہور” سے عبارت ہے اور اس کے مصداقات میں نسخ بلا ادنی تکلف شامل ہے جو انتہائے مدت کے بیان کے لیے استعمال کردہ تعبیر ہے۔ چنانچہ قرآن سے اس کی مثال پیش کرنے سے یہ ثابت کرنا مقصود نہیں کہ لغوی لحاظ سے اس لفظ میں نسخ پر صادق آنے کی گنجائش ہے یا نہیں کیونکہ اس کا انکار نصف نہار پر موجود سورج کا انکار ہے، بلکہ یہاں محض یہ دکھانا ہے کہ وضع سے ایک قدم آگے بڑھ کر قرآنی استعمال میں بھی یہ لفظ جس طرح بیان ابتدائی کے لیے آتا ہے اسی طرح بیان نسخ کے لیے بھی وارد ہوا ہے۔
اس مقصد کے لیے ہم یہ دکھائیں گے کہ بدکاری کی سزا سے متعلق جو احکام سورة النساء (آیت ۱۵) اور سورۃ النور کی ابتدائی آیات میں بیان ہوئے وہ نسخ کی صورت ہیں اور قرآن کی رو سے یہ بیان ہے۔ ہمارا نتیجہ ان دو مقدمات پر استوار ہے:
1۔ یہ نسخ کی صورت ہے،
2۔ نیز از روئے قرآن یہ بیان ہے۔
- زنا کی سزا کے ابتدائی حکم کا منسوخ ہونا
سورۃ النسا کی مندرجہ ذیل آیت میں قرآن پاک نے زنا کی سزا مقرر کی اور اس کے آخر میں یہ تبصرہ کیا کہ جو سزا مقرر کی گئی وہ نافذ کرو یہاں تک کہ “انہیں موت آلے یا اللہ تعالی ان کے لیے ایک نیا واضح حکم مقرر فرما دیں (یہاں لفظ “سبیل” ایک واضح حکم کے لیے مستعار ہے، التحرير والتنوير لابن عاشور)
وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا [النساء: 15]
چنانچہ اس آیت میں سزا کو جس غیر معلوم “نئے حکم” کے ساتھ مقید کیا گیا تھا وہ بعد میں سورۃ النور میں بیان کر دیا گیا۔ اس طرح، سورۃ النساء کا حکم سورۃ النور کے حکم سے منسوخ ہوا (یعنی اس کے بعد بدکاروں کو محض ایذا دینا جائز نہ رہا کہ شارع نے ان کے لئے خاص طرح کی ایذا مقرر کردی)۔ امت کے فقہا واصولی حضرات بھی اسے نسخ ہی قرار دیتے آ رہے ہیں۔ مثلا علامہ جصاص رازی (م 370 ھ ) کی عبارت ملاحظہ ہو:
«لم يختلف السلف في أن ذلك كان حد الزانية في بدء الإسلام وأنه منسوخ غير ثابت الحكم»
اسی طرح مشہور مالکی مفسر ابن عطیہ (م 542 ھ) نے بھی یہی فرمایا:
«وأجمع العلماء على أن هاتين الآيتين منسوختان بآية الجلد في سورة النور»
اس پر محترم غامدی صاحب کو بھی بظاہر کوئی اختلاف نہیں جیسا کہ وہ اپنی تفسیر میں رقمطراز ہیں:
“اس سے واضح ہے کہ یہ ایک عارضی حکم تھا۔ چنانچہ اِس میں جس راہ نکالنے کا ذکر ہے، وہ بعد میں اِس طرح نکلی کہ قحبہ ہونے کی وجہ سے اِن عورتوں کو زنا اور فساد فی الارض، دونوں کا مجرم قرار دیا گیا اور اِن جرائم کی جو سزائیں سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۲ اور سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۳۳ میں بیان ہوئی ہیں، وہ بعض روایتوں کے مطابق اِن پر نافذ کرنے کی ہدایت کی گئی۔”
اس کے بعد سورۃ النور میں ان کا کہنا ہے:
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم نبوت کے بعد یہ صورت حال چونکہ تبدیل ہونے والی تھی، اِس لیے قانون میں بھی تبدیلی کردی گئی۔ چنانچہ پہلے بغیر کسی تعیین کے ایذا کا حکم دیا گیا۔ یہ حکم سورۂ نساء (۴) کی آیت ۱۶ میں بیان ہوا ہے۔ اِس کے بعد سو کوڑے کی یہ سزا مقرر کی گئی جو اب ہمیشہ کے لیے خدا کا قانون ہے۔”
مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی بھی یہی رائے ہے کہ سورۃ نساء کا حکم عارضی نوعیت کا تھا جو سورہ نور کی آیت سے منسوخ ہوگیا۔
- اس نسخ کا “بیان” ہونا
ہمارے موقف کا دوسرا مقدمہ اس پر قائم ہے کہ قرآن نے سورۃ النور میں جو مجموعہ احکام بیان کیا اسے وصف “بیان” کا عنوان دیا۔ سورۃ النور میں احکام کا ایک مجموعہ بیان کیا گیا ہے جن میں سب سے پہلا اسی ناسخ حکم کا بیان ہے جس نے سورۃ النساء میں مذکور زنا کے حکم کو منسوخ کیا۔ اس مجموعے کے بعد آیت النور (35) کا آغاز ہوتا ہے کہ جس پر اس سورۃ کا نام ہے۔ اس مجموعہ احکام کا آغاز کرنے سے قبل سورہ نور کا آغاز اس آیت سے ہوا ہے:
سُورَةٌ أَنزَلْنَاهَا وَفَرَضْنَاهَا وَأَنزَلْنَا فِيهَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
یہاں تین اوصاف بیان ہوئے ہیں: انزال، فرض اور بیان اور انتہا پر بھی تین اوصاف بیان کیے: آیات بینات، مثل اور موعظہ (سورة النور ،34)۔ آغاز وانتہا میں ایک امر مشترک ہے اور وہ ان احکام پر مشتمل آیات کو “بینات” یا “مبینات” قرار دینا۔ اس طرح یہ بلاغت کا مشہور اسلوب “رد العجزعلى الصد” بن گیا۔ (ملاحظہ ہو: التحرير والتنوير لابن عاشور) ۔ غامدی صاحب سورہ نور کی پہلی آیت کے تحت واضح کرتے ہیں کہ اس میں آگے آنے والے احکام کی بات ہے:
“(یہ) اِسی نوعیت کے احکام تھے جو پچھلی امتوں کے لیے مزلۂ قدم ثابت ہوئے اور اُنھوں نے اُن سے گریز و فرار کے راستے تلاش کرنا چاہے۔ چنانچہ تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ سفارشات نہیں ہیں، بلکہ خدا کے عائد کردہ فرائض اور اُس کے قطعی احکام ہیں جن کی ہر جگہ اور ہر زمانے میں بے چون وچرا تعمیل ہونی چاہیے۔ اِن میں کسی کے لیے بے پروائی یا سہل انگاری کی گنجایش نہیں ہے۔”
مولانا اصلاحی صاحب اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
“یہ احکام جو دیے جا رہے ہیں پورے اہتمام کے ساتھ ان کی پابندی کرو ورنہ یاد رکھو کہ خدا کی پکڑ بڑی ہی سخت چیز ہے۔ اس سورہ میں ان تنبیہات کی ضرورت خاص طور پر اس وجہ سے تھی کہ اس میں خاندان و معاشرہ اور تعزیرات و حدود سے متعلق جو احکام دیے گئے ہیں وہ پچھلی امتوں کے لیے مزلّۂ قدم ثابت ہوئے جس کے سبب سے وہ امتیں خدا کے عتاب میں آئیں۔ اس امت پر اللہ تعالیٰ کا عظیم فضل و احسان ہے کہ اس نے احکام کے ساتھ ان کی خلاف ورزی کے نتائج سے بھی بار بار آگاہ فرما دیا تاکہ لوگ اچھی طرح بیدار و ہوشیار رہیں۔”
نیز ہمارے مفسرین بھی یہ بات لکھتے آئے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ سورہ نور میں جو متعدد احکام مذکور ہیں قرآن کی ابتدائی آیت میں انہیں “بینات” قرار دیا گیا ہے اور اوپر یہ بات واضح کی جاچکی کہ آیت نمبر 2 میں جو پہلا حکم مذکور ہے وہ ناسخ ہے۔ اس سے یہ بات وثوق تک پہنچتی ہے کہ قرآن لفظ بیان کو نسخ کے تناظر میں بھی استعمال کرتا ہے۔
- خلاصہ
اس گفتگو سے چند نتائج سامنے آتے ہیں:
۱: جس طرح عربی وضع کے لحاظ سے لفظ “بیان” ظہور سے عبارت ہے اور اس میں نسخ شامل ہے، اسی طرح قرآنی استعمال کے لحاظ سے بھی نسخ کو بیان کی لڑی میں پرویا گیا۔ چنانچہ ہمارے اصولی حضرات کا تین امور کو بیان میں شامل کرنا قرآنی استعمال سے پوری طرح ہم آہنگ ہے: بیان ابتدائی، بیان تفسیر اور بیان تغییر و نسخ۔
۲: خود غامدی صاحب کے عائد کردہ پیمانے کے مطابق بھی قرآن نے ناسخ کو مبین یا بین قرار دیا ہے۔
۳: ہماری روایت نے جب نسخ، تخصیص وتقیید کو بیان کے لباس میں شامل مانا تو دراصل ان کی نگاہ میں یہ سب استعمالات تھے اور جب ایک روایت پختہ ہو جاتی ہے تو بعض اوقات اصل مصادر سے اس کا تعلق آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے اور یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید زیر بحث روایت نے ان چیزوں کی رعایت ہی نہیں کی۔ تاہم جب ایک طالب علم ان کے لیے قرآنی استعمالات کی طرف رجوع کرتا ہے تو اسے اطمینان قلب اور انشراح صدر حاصل ہوتا ہے کہ جو روایت اس تک نکھر کر پہنچی اس میں تمام مصادر کی رعایت موجود ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ ایک یا دو دماغوں کی کاوش نہیں بلکہ کئی نسلوں کا ریاض ہے۔
۴: قرآن مجید میں بیان و تبیین وغیرہ غامدی صاحب کے نظام اصطلاح کے مطابق صرف “بیان فرع” نہیں بلکہ بیان شرع کے لیے بھی آتا ہے کیونکہ ناسخ بطور ایک نیا حکم بیان شریعت ہوتا ہے نہ کہ کسی سابقہ حکم کی فرع یا اطلاق (غالبا اس نتیجے سے انہیں بھی کوئی اختلاف نہیں ہوگا کیونکہ وہ خود بھی بیان فطرت، بیان شریعت اور بیان فقہ و فرع کی اصطلاحات برتتے ہیں)۔
۵: مسئلہ بیان و تبیین، جو غامدی صاحب کی دینی فکر میں ایک عمود کی حیثیت رکھتا ہے، اس کا قطب دراصل رجم کا مسئلہ ہے اور اس ہی پر ہونے والے اعتراضات کے جواب میں انہوں نے بہت تفصیل سے کئی اقساط پرمشتمل اپنا نظریہ واضح کیا۔ تاہم جب اس نقطہ نگاہ کے پیش نظر ہم نے ان کے متعلقہ تفسیری مقامات کا دروازہ کھٹکھٹایا تو وہاں سے آنے والی آواز سے یہی تاثر ابھرا کہ ایک فکری خلا موجود ہے جسے انہیں اس نظریے کے تحت پر کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مقامات کو پڑھتے ہوئے قاری کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ صاحب البیان نے “بیان” کے قرآنی استعمالات کی اپنے نظریے کے ساتھ ہم آہنگی کو یقینی بنایا ہو۔ البتہ مسئلہ رجم پر اپنی تحریر میں انہوں نے ایک دو قرآنی مقامات اور بعض عربی اشعار سے استدلال کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن قرآن میں بیان اور اس کے مشتقات کا استقرا نہیں کیا۔
- سورۃ النساء کے حکم کا نسخ ہونا: ایک ضمی سوال پر تبصرہ
یہاں اگرچہ بات مکمل ہوجاتی ہے، تاہم ایک ضمنی سوال کا جائزہ لینا مناسب ہے تاکہ امکانی حد تک یہ تحریر جامع ہو جائے۔ اوپر یہ بات گزر چکی کہ سورۃ النساء کا حکم منسوخ ہے اور اس حوالے سے دو ائمہ کا کلام پیش کیا گیا۔ تاہم علامہ ابن عربی مالکی (م 543 ھ)، احکام القرآن کے مصنف، کا موقف بھی نتیجے کے لحاظ سے اگرچہ دیگر فقہا کی طرح ہے، تاہم انہوں نے اس کی اصولی تکییف میں کہا کہ سورہ نور میں مذکورہ حکم نسخ کی صورت نہیں کیونکہ یہاں جب پہلا حکم آیا تو اسے ایک مدت تک روا رکھا گیا تھا اور جس کے بعد وہ خود بخود ختم ہو گیا۔ گویا ان کا کہنا ہے کہ اگر یوں کہا جائے کہ “چار دن تک یہ سزا دو، اس کے بعد نیا حکم آئے گا” تو وہ نسخ نہیں کہلائے گا کیونکہ وہاں پہلے حکم کی مدت مقرر ہے اور وہاں ظاہری تعارض جنم ہی نہیں لیتا کہ اس کے لیے نسخ کا رخ کرنا پڑے کہ نسخ امکان تعارض کی فرع ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
«اجتمعت الأمة على أن هذه الآية ليست منسوخة، لأن النسخ إنما يكون في القولين المتعارضين من كل وجه، اللذين لا يمكن الجمع بينهما بحال، وأما إذا كان الحكم ممدودا إلى غاية، ثم وقع بيان الغاية بعد ذلك فليس بنسخ؛ لأنه كلام منتظم متصل لم يرفع ما بعده ما قبله، ولا اعتراض عليه»
تاہم یہ علامہ ابن العربی مالکی کا تسامح ہے کیونکہ آیت میں اس حکم کی انتہائے مدت بیان ہی نہیں کی گئی بلکہ یہ کہا گیا کہ اگلے حکم کے آنے تک اس پر عمل کرو اور یہ واضح بات ہے کہ سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیست مبارک میں ہر حکم ہی اصولاً اس قید سے مقید تھا کہ اس میں نسخ کا امکان موجود تھا (سوائے ان چند احکام کے جو ماتریدیہ، معتزلہ اورغالبا غامدی صاحب کے نزدیک بھی حسن وقبح عقلی سے ثابت ہیں جیسے کذب کا برا ہونا وغیرہ، برخلاف اشاعرہ کے جن کے نزدیک عقلاً سب احکام میں نسخ کا احتمال، نبی کی زندگی میں، موجود تھا)۔ پس کسی حکم کی بابت یہ کہہ دینا کہ کسی نئے حکم تک نافذ ہے اس کے منسوخ ہونے کے منافی نہیں۔ چنانچہ مشہور مالکی مفسرعلامہ ابن عطیہ کی بات اوپر گزر چکی اور متاخر مالکی مفسر علامہ ابن عاشور نے باقاعدہ ابن عربی کے اس تسامح کی طرف توجہ دلائی۔ آپ فرماتے ہیں:
«وليس تحديد هذا الحكم بغاية قوله: أو يجعل الله لهن سبيلا بصارف معنى النسخ عن هذا الحكم كما توهم ابن العربي، لأن الغاية جعلت مبهمة، فالمسلمون يترقبون ورود حكم آخر، بعد هذا، لا غنى لهم عن إعلامهم به»
الغرض اس پہلو کو بنیاد بنا کر اس حکم کو ناسخ و منسوخ سے باہر قرار دینا ممکن نہیں۔
والله أعلم!
کمنت کیجے