Home » حدیث رسول : روایت و درایت
تفسیر وحدیث کلام

حدیث رسول : روایت و درایت

عام طور پر کسی بھی حدیث کو مستند ماننے کے لیے سند پر اعتماد کیا جاتا ہے. اب آسانی کے لیے ان کتب احادیث کا حوالہ دے دیا جاتا ہے جنہیں بالعموم مجموعہ احادیث کی صحیح ترین کتب سمجھا جاتا ہے. جب کوئی حدیث کسی ایسے مجموعہ میں ہو تو ہمارا عمومی رویہ یہ ہے کہ ہم اس کی روشنی میں کتاب اللہ کی قطعی الدلالة نص میں، سنت صحیحہ متواترہ میں، اسلامی شریعت کے قطعی احکام میں، اجماع امت میں تاویل کر لیتے ہیں. سند کی بنا پر حدیث کو صحیح قرار دے دیا جاتا ہے خواہ وہ عقلیت عامہ اور تامہ کے خلاف ہو، قیاس جلی کے خلاف ہو، منصب نبوت، عصمت رسالت، طہارت ازواج مطہرات، مقام سابقین اولین اور عظمت آل بیت اطہار سے متصادم ہو. اگر کوئی شخص اس پر نقد کرے تو اسے منکر حدیث کے لقب سے مشہور کر دیا جاتا ہے
جبکہ کسی بھی روایت کے مستند ہونے کے لئیے ضروری ہے کہ وہ سند اور متن دونوں اعتبار سے درست ہو یعنی روایت اور درایت دونوں کے ضوابط پر پوری اترتی ہو.
سند کے حوالے سے ہمیں بہت مفصل مباحث علوم الحدیث کی تالیفات میں ملیں گی لیکن متن یعنی درایت کے اعتبار سے اگر بات کی جائے تو آپ کو جواب ملے گا کہ جب محدثین نے کسی حدیث کو صحیح قرار دے کر اپنی کتب میں درج کر دیا تو انہوں نے اس امر کا جائزہ لیا ہے کہ روایت متنا بھی درست ہو. اور اس میں کوئی علت نہ ہو اور نہ وہ شاذ ہو.
درایت حدیث کا موضوع بہت تفصیل طلب ہے اور بحمد اللہ میرے پاس اس موضوع پر بہت سا مواد موجود ہے
تاہم آج کی نشست میں، میں صرف ایک مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 7023،کتاب التوبہ، باب براۃ حرم النبی من الریبہ میں حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک ام ولد تھیں. ان پر ناجائز تعلقات کا الزام تھا. آپ نے حضرت علی سے کہا، جاؤ اور اس شخص کا سرقلم کردو، حضرت علی گئے تو دیکھا کہ وہ ایک تالاب میں نہا رہا ہے، حضرت علی نے اسے باہر نکالا تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس کا مردانہ عضو تناسل ہی نہیں ہے. حضرت علی نے اسے چھوڑ دیا اور واپس آکر رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتایا کہ
اس کا تو عضو تناسل ہی نہیں.
اس روایت کے تمام طرق جمع کئے جائیں تو اور بھی گل کھلائے گئے ہیں.
لیکن اگر مسلم کی روایت کو ہی سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ
آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی ولدیت میں شبہ کیا جا رہا تھا
آپ نے تحقیق و تفتیش کے بجائے ایک شخص کے قتل کا حکم دے دیا
وہ تو سیدنا علی کی دانش کام آ گئی ورنہ اس نے بے گناہ ہونے کے باوجود مارے جانا تھا.
کیا یہ ساری کہانی منصب نبوت، عدل پیمبری اور طہارت ام ولد رسول سے ہم آہنگ ہے.
کیا درایت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اس نوع کی کہانیوں پر اعتبار نہ کیا جائے.
اگر یہی حدیث ہے تو ہم منکر حدیث ہی بھلے.
کسی بھی حدیث کی صحت پرکھنے کے لیے دوگونہ معیار ہوتے ہیں، ایک یہ کہ اسے روایت کرنے والے علم، دیانت، اخلاق اور ذہنی صحت کے ایک خاص معیار پر ہوں. راویوں کے اس سلسلے کو سلسلہ سند کہتے ہیں. بدقسمتی سے وضع حدیث کے فتنہ کی مزاحمت کے دوران یہ چلن عام ہو گیا کہ جس حدیث کے راوی قابل اعتماد ہیں وہ حدیث صحیح ہے لیکن اس دوران بالعموم ایسا ہوا کہ متن حدیث پر اس قدر غور و خوض اور اس کی تحقیق نہیں کی گئی جس ک ضرورت تھی، جس کی وجہ سے ہر دور میں کسی بھی حدیث کے متن پر مختلف نوعیت کی تنقید بھی ملتی ہے جبکہ ہمارے عہد میں اس رجحان میں خاصا اضافہ ہوا. اہل علم کا ایک طبقہ یہ کافی سمجھتا ہے کہ فلاں حدیث فلاں مستند کتاب میں موجود ہے لہذا اس پر بحث کرنا درست نہیں لیکن حقیقی اہل علم نے ہر دور میں سند کی طرح متن حدیث کی قبولیت کو بھی موضوع بحث بنایا اور متن حدیث کی صحت کے پرکھنے کے لیے “اصول درایت” مقرر کئیے . عہد صحابہ سے ہی جب کہ ایک دوسرے کذب بیانی کا الزام نہیں لگایا جاتا تھا مختلف وجوہ و اسباب سے ایک دوسرے کی بیان کردہ روایات کو رد کرنے کا چلن شروع ہوگیا تھا جو عہد بعہد ارتقا پذیر رہا. مولفین علوم الحدیث جا بجا اپنی تالیفات میں ان اصول و معیارات پر روشنی ڈالتے رہے. دمشق کے علمی خانوادے کے چشم و چراغ، نامور محقق مصطفی السباعی نے “السنۃ و مکانتھا فی التشریع الاسلامی” میں متن حدیث پر تنقید یا درایت حدیث کے پندرہ معیارات نقل کئے ہیں جو درج ذیل ہیں :
کسی بھی روایت کی سند خواہ کتنی بلند پایہ ہو، اس کامتن تب قابل قبول ہوگا جب کہ :
1_ حدیث اللہ تعالیٰ اور انبیاء و رسل کی صفات سے متعارض نہ ہو.
2-قران حکیم، سنت صحیحہ ثابتہ، اجماع امت اور ضروریات دین کے خلاف نہ ہو.
انسان اور کائنات کے بارے میں قوانین فطرت (سنۃ اللہ) کے خلاف نہ ہو.3_
4-ایسے رکیک الفاظ پر مشتمل نہ ہو جو فصیح و بلیغ افراد استعمال نہ کرتے ہوں بلکہ قرآن و سنت کی متداول زبان اور تعبیرات سے ہم آہنگ ہو.
5-عقلی بدیہیات اور منطقی استدلال کے اس طرح خلاف نہ ہو کہ اس کی تاویل نہ کی جا سکتی ہو یعنی قطعی سائنسی حقائق کے خلاف نہ ہو.
6-آداب و اخلاق، مقاصد شریعت اور حکمت تشریع کے عام قواعد سے معارض نہ ہو.
7_محسوسات و مشاہدات سے معارض نہ ہو.
8-طب و حکمت کے عمومی قواعد کے خلاف نہ ہو.
9_مخالف شریعت کسی گھٹیا بات پر انگیخت نہ کر رہی ہو.
10_بے عقلی کی باتوں اور خرافاتی قصے کہانیوں پر مشتمل نہ ہو.
11_عہد نبوی کی سیرت و تاریخ سے متعارض نہ ہو.
12_کسی ایسے واقعے کا ایک ہی راوی نہ ہو جو بہت بڑے اجتماع میں پیش آیا ہو.
13-راوی نے کسی نفسیاتی انگیخت پر روایت نہ کی ہو.
14_روایت کسی فرقے کے داعی کے افکار کے موافق نہ ہو.
15_معمولی نیکی اور چھوٹے گناہ پر بڑے ثواب اور سخت سزا پر مشتمل نہ ہو ۔

ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی

ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی ممتاز ماہر تعلیم اور محقق ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد اور ہائی ٹیک یونیورسٹی ٹیکسلا میں تدریسی وانتظامی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔
tufailhashmi@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں