عمران شاہد بھنڈر
ملحدین کے علاوہ آج تک جتنے بھی فلسفی گزرے ہیں، انہوں نے خدا کا اپنا مخصوص تصور پیش کیا ہے جو مذہب کے شخصی، ذاتی اور انتقامی خدا سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ اقبال کے ہاں بھی خدا کا ایسا ہی تصور ملتا ہے کہ جو قرآن میں پیش کیے گئے خدا کے تصور سے براہِ راست متصادم ہے۔ مثال کے طور پر اقبال جنت اور دوزخ کو مقامات تسلیم نہیں کرتا۔ اگر جنت اور دوزخ مقامات نہیں ہیں تو پھر جسدِ خاکی کا نہ اٹھایا جانا یقینی ہے۔ اسی طرح اقبال کے لیے وحی محض ایک داخلی تجربہ ہے اور لوگ خود ہی مصائب میں اپنی سمت کو درست کر لیتے ہیں۔ اقبال کہتا ہے:
”حیاتِ دنیا وجدانی طور پر اپنی ضروریات کا خیال رکھتی ہے اور مشکل وقت میں خود ہی اپنی سمت درست کر لیتی ہے۔ یہی وہ شے ہے جسے مذہب کی زبان میں پیغمبرانہ وحی کہا جاتا ہے۔“ (نئی تشکیل، چھٹا لیکچر، ص، 178)۔
مطلب یہ کہ خارج سے کسی رہنمائی کی ضرورت نہیں ہوتی، انسان داخلی سطح پر مسائل کا حل تلاش کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اقبال مزید لکھتا ہے کہ ”پیغمبر کی تعریف یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک طرح کا متصوفانہ شعور ہے۔“ (نئی تشکیل، پانچواں لیکچر، ص، 154)۔ یہاں بھی چھٹے لیکچر میں کہی گئی بات کو دہرایا گیا ہے۔ متصوفانہ شعور، حقیقت میں داخلی شعور ہوتا ہے۔ اقبال نے قطعی طور پر واضح الفاظ میں وحی کے آسمانی یا خارجی تصور کو یوں رَد کیا ہے،
”جس طریقے سے وحی قرآن میں استعمال ہوتا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ قرآن اسے زندگی کی ہمہ گیر صفت سمجھتا ہے۔ اگرچہ اس کی نوعیت اور کردار زندگی کے ارتقا کے مختلف مدارج پر مختلف ہوتے ہیں۔ پودا مکان میں آزادانہ طور پر نشو و نما پاتا ہے، حیوان نئے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے کوئی نیا عضو تشکیل دے لیتا ہے اور انسان باطنی زندگی سے روشنی حاصل کرتا ہے، یہ سب وحی کی مثالیں ہیں جو اپنی نوع میں مختلف ہیں۔ مگر وصول کنندہ کی ضرورت کے مطابق ہیں یا اس نوع کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں جس نوع کا وصول کنندہ رُکن ہے۔ انسانوں کی چھوٹی سی اقلیت ایک نفسی توانائی کی نشو و نما کرتی ہے جسے میں پیغمبرانہ وحی کہتا ہوں۔(پانچواں لیکچر، ص، 154)۔
ان تینوں اقتباسات میں جو خیال مشترک ہے، وہ داخلی شعور ہے جو حقیقی زندگی سے متعلق ہے۔ اقبال نے اپنی بات کی وضاحت کرنے کے لیے پودوں کی مثال بھی دی ہے کہ جس طرح پودا آزادانہ نشو و نما پاتا ہے اسی طرح انسان بھی داخلی سطح پر یہ توانائی حاصل کرتا ہے۔ اس اقتباس میں دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ وحی صرف ایک انسان تک محدود نہیں رہتی، بلکہ بقول اقبال ”انسانوں کی چھوٹی سی اقلیت ایک نفسی توانائی کی نشو و نما کرتی ہے۔“ یعنی یہ ضروری نہیں کہ خارجی حالات کا داخلی شعور کسی ایک شخص کو ہو رہا ہو، بلکہ یہ شعور یا وحی بیک وقت کئی لوگوں کو ہو سکتی ہے۔ حقیقی اقبالین موقف کا فہم حاصل کرنے کے لیے اس نکتے کو پوری توجہ سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وحی کسی ایک وقت میں کئی لوگوں کو بھی ہو سکتی ہے۔ یہاں وہ تمام خدشات دور ہو جاتے ہیں جن کے پیش نظر ماہرینِ اقبالیات گزشتہ کئی دہائیوں سے اقبال کے موقف کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے چلے آ رہے ہیں۔
جب یہ بنیادی نکتہ ایک بار عیاں ہو جائے تو پھر اقبال کے تصورِ خدا کو سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ اقبال کہتا ہے:
”حقیقت اساسی طور پر روح ہے، البتہ روح کے درجات ہیں۔۔۔ جدید عہد میں ہمیں اس کی بہت بڑے پیمانے پر تفصیل ہیگل کے فلسفے میں ملتی ہے۔“ (تیسرا لیکچر، ص، 96)۔
اس اقتباس سے یہ بھی واضح ہوا کہ اقبال روح سے متعلق جس حقیقت کی بات کر رہا ہے، وہی ہیگلیائی فلسفہ روح ہے۔ یعنی اقبال روح کو انہی معنوں میں سمجھ رہا ہے جن مفاہیم میں ہیگل اپنا تصور روح پیش کر چکا تھا۔ اس کا تفصیلی تجزیہ ہم بعد میں کریں گے، پہلے اقبال کے روح سے متعلق مزید خیالات کو سمجھ لیتے ہیں۔ اقبال کے الفاظ میں ”قرآن کے نزدیک حقیقت مطلق روحانی ہے۔(چھٹا لیکچر، ص، 185)۔ یہ واضح ہونے کے بعد کہ حقیقت مطلق روحانی ہے، ہم پر لازم ہے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ اس روحانی کی نوعیت کیا ہے۔ بجائے اس کے کہ ماہرینِ اقبالیات کی طرح اپنے خیالات اقبال پر مسلط کیے جائیں، بہتر ہے کہ اقبال کے اپنے الفاظ میں اس نکتے کو سمجھ لیا جائے۔ اقبال کہتا ہے،
”حقیقت کے تمام تجربات کی جامع فلسفیانہ تنقید اپنے فعال اور قدر آشنا پہلو کے ساتھ ہمیں اس نتیجے پر لے جاتی ہے کہ مطلق حقیقت عقل سے سمت حاصل کرنے والی تخلیقی زندگی ہے۔ اس زندگی کی توجیہہ ایگو کے طور پر کرنا خدا کو انسان کی شبیہ میں دیکھنا نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ سادہ سی تجرباتی حقیقت کو قبول کرنا ہے کہ زندگی کوئی بے شکل سیال شے نہیں ہے بلکہ ایک منظم کرنے والی وحدت ہے۔“ (دوسرا لیکچر، ص، 85-86)۔
اس اقتباس میں فی الوقت ہمارے لیے اہم دو باتوں کو سمجھنا ہے: ایک یہ کہ مطلق حقیقت عقل سے سمت حاصل کرتی ہے، وحی سے نہیں۔ دوسری اہم بات یہ جاننا ہے کہ اقبال کی ایگو سے کیا مراد ہے؟ ایگو کی تفہیم کے لیے بھی یہی ضروری ہے کہ اقبال کے اپنے الفاظ میں اس تصور کو واضح کیا جائے۔ اقبال کہتا ہے:
”میں نے مطلق حقیقت کا تصور ایگو کے طور پر کیا ہے اور یہاں میں یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ مطلق ایگو سے صرف ایگو ہی وارد ہوتے ہیں۔“ (تیسرا لیکچر، ص، 96-97)۔
اس اقتباس سے یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ مطلق حقیقت یا مطلق ایگو ایک ہی شے کے دو نام ہیں۔ اور مطلق حقیقت روح ہے۔ لہذا ایگو بھی روح ہے۔ جو ایگو مطلق حقیقت سے وارد ہوتے ہیں ان کی حقیقت بھی جسم نہیں بلکہ روح ہے۔ اگر مطلق حقیقت کی نوعیت عقلی ہے، جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا ہے تو پھر انسان جو کہ مطلق حقیقت سے وارد ہوئی ایگو ہے، اس کی نوعیت بھی عقلی ہے نہ کہ اس کے علاوہ کچھ ہے۔ ان اقتباسات کا تفصیلی تجزیہ کرنے سے پہلے میں مختصر الفاظ میں اقبال کے فکری دھارے کو واشگاف الفاظ میں سمیٹنا چاہتا ہوں تاکہ قاری کے لیے اگلے تجزیات کی تفہیم آسان ہو سکے۔
حقیقت یا مطلق حقیقت روحانی ہے۔ چونکہ انسان مطلق حقیقت سے وارد ہوا ہے، لہذا اس کی حقیقت بھی روحانی ہے نہ کہ جسمانی۔ اور اگر مطلق حقیقت عقلی ہے تو اس سے وارد ہوا انسان بھی عقلی ہے، نہ کہ ماورائے عقل کسی شے کے ماتحت ہے۔ کیونکہ ماورائے عقل کوئی شے سرے سے موجود ہی نہیں ہے، وجہ یہ کہ مطلق حقیقت خود عقلی ہے، اس لیے انہی معنوں میں انسان یا متناہی ایگو بھی عقلی ہے۔
نوٹ: اگلی تحریر میں ہم یہ واضح کریں گے کہ اقبال کا تصورِ خدا، مطلق حقیقت، مطلق خودی جرمن فلسفے سے کیا تعلق رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے