Home » الرحیق المختوم ایک نظر میں
اردو کتب مطالعہ کتب

الرحیق المختوم ایک نظر میں

شیخ صفی الرحمن مبارک پوری کی کتاب الرحیق المختوم کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اس کتاب کو عالمی سطح پر سیرت کا اول انعام ملا۔ شیخ صفی الرحمن مبارکپوری نے پہلے یہ کتاب عربی میں لکھی۔ پہلا انعام بھی عربی کتاب کو ملا اس کے بعد شیخ مبارکپوری نے ہی اس کتاب کا اُردو ترجمہ کیا۔ مصنف کا اپنی ہی کتاب کو ترجمے کرنا زیادہ مفید ہے کیونکہ اس صورت میں مصنف کا طریقہ کار اور اس کی مراد اس کے اپنے ہی قلم سے نقل ہو جاتی ہے جس پر کسی قسم کا سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اس لحاظ سے یہ کتاب اہم ہے۔ بلکہ جب مصنف نے خود اس کا ترجمہ کیا تو یہ از خود ایک الگ کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ ساڑھے چھے سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مکتبہ السلفیہ لاہور نے شائع کیا ہے۔شروع میں مصنف نے مختصر روداد ذکر کی ہے کہ ۱۹۷۶ میں سیرت کے مقابلے کا اعلان ہوا۔ اس دوران کس طرح مصنف نے اپنی کتاب لکھی اور اس کا مسودہ بھیجا۔ انعامات کا اعلان ۱۹۷۸ میں ہوا اور اس کتاب کے اول آنے کی خبر شیخ مبارکپوری کو شیخ عزیر شمس نے دی۔ شیخ مبارکپوری کہتے ہیں کہ ان کے پھوپھا زاد بھائی شیخ عبدالرحمان مبارکپوری نے ان سے اصرار کیا کہ وہ اس مقابلے میں حصہ لیں۔ اس کے بعد مصنف نے اپنا تعارف بھی پیش کیا جس میں اپنی علمی و تدریسی زندگی کا مختصر تعارف پیش کیا ہے اور آخر میں اپنی تصانیف و تالیف کی فہرست پیش کی ہے۔اس کتاب کے بارے میں شیخ صفی الرحمن مبارکپوری نے لکھا ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے ذریعے اپنی بساط کی حد تک سید الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ پر روشنی ڈالی ہے اور یہ ان کی خوش بختی ہو گی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انوار میں سے کچھ سمیٹ سکیں۔ مصنف نے اپنے طریقہ کار کی بھی وضاحت کی ہے کہ انہوں نے زیادہ طوالت اور اختصار دونوں سے بچنے کی کوشش کی ہے اور اس کتاب کی ضخامت کو متوسط رکھنے کی کوشش کی ہے اور میرا خیال ہے کہ مصنف اس بارے میں مکمل کامیاب بھی ہوئے ہیں.
شروع میں مصنف نے عرب کے محل وقوع اور اقوام کی مختصر تاریخ کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ عربوں کی تین اقسام ہے۔
عرب عائدہ: قدیم عرب اقوام جو ناپید ہو گئی ہیں جیسے عاد، ثمود ، عمالقہ وغیرہ
عرب مستعربہ: وہ عرب جو سیدنا اسماعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کی نسل سے ہیں
عرب عاربہ: ان کو قحطانی عرب بھی کہا جاتا ہے ان کا اصل گہوارہ یمن تھا۔مصنف نے دو قحطانی قبائل کا بھی تعارف پیش کیا ہے جنہوں نے شہرت حاصل کی ایک حمیری اور دوسری کہلانی۔ مصنف نے لکھا ہے کہ ممکن ہے کہ دونوں قبائل میں کوئی چشمک رہی ہو۔ کہلانی قبائل نے ترک وطن کیا اور مختلف علاقوں میں آباد ہوئے۔ اوس و خزرج کہلانی قبائل کی شاخ ثعلبہ بن عمرو میں سے تھے۔ بنو خزاعہ جنہوں نے طویل عرصہ مکہ مکرمہ میں حکمرانی کی اور بنو جرہم کو نکلا وہ بھی کہلانی قبیلے سے تھے۔ اس کے علاوہ بھی کئی شاخیں جو کہلانی قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں کا مصنف نے ذکر کیا ہے۔
اس کے بعد شیخ مبارکپوری نے مکہ مکرمہ کے آباد ہونے کی تاریخ کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ حضرت حاجرہ رضی اللہ عنہا بادشاہ کی بیٹی تھیں۔ ان کو اور سیدنا اسماعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کو جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے مکہ مکرمہ میں چھوڑا تو یہ علاقہ ویران اور بے آباد تھا۔ بعد میں حضرت حاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مدد سے یمن سے بنو جرہم مکہ مکرمہ میں آباد ہوئے ، سیدنا اسماعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شادی بنو جرہم کے سردار مضاض کی صاحبزدای سے ہوئی جن سے ان کے بارہ بیٹے ہوئے۔ ان سے بارہ قبیلے وجود میں آئے اور سب نے مکہ مکرمہ میں رہائش رکھی ان کی معیشت کا دارومدار زیادہ تر تجارت پر تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ قبائل مختلف علاقوں میں پھیلتے گئے اور ان میں سے دو قبائل جو نابت بن اسماعیل اور قیدار بن اسماعیل سے تھے کو شہرت حاصل ہوئی۔ نبطیوں نے تمدن کو شمالی حجاز میں فروغ دیا اور اپنی حکومت قائم کی جو بعد میں رومیوں کے ہاتھوں ختم ہوئی۔ مصنف نے لکھا ہے کہ سید سلیمان ندوی کا کہنا ہے کہ اوس و خزرج قحطانی نہیں بلکہ نابت بن اسماعیل کی اولاد سے ہیں۔ قیدار کی نسل مکہ مکرمہ میں ہی پھلی پھولی یہاں تک کے عدنان کا زمانہ آ گیا۔ جناب عدنان اور ان کے بیٹے معد تک سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب صیح طور پر محفوظ ہے۔ جس میں کوئی اختلاف نہیں اس کے پیچھے کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔
قبائل کے تعارف کے بعد شیخ مبارکپوری نے عرب کے سیاسی حالات کا بھی مختصراً جائزہ لیا اور بتایا ہے کہ اس وقت عربوں کی دو طرح کی حکومتیں تھیں ایک وہ جو کسی تاج کے ماتحت تھے جیسے یمن اور عراق اور کچھ وہ تھے جو آزاد اور خودمختار ریاستیں تھیں مکہ مکرمہ کی حیثیت ایک آزاد ریاست سی تھی۔ اس کے بعد مصنف نے یمن، شام اور حیرہ کے سیاسی حالات پر الگ الگ سے مختصر گفتگو کی ہے اور کوشش کی ہے کہ کچھ اہم نکات کو ذکر کر دیا جائے جن سے ان علاقوں کی اس وقت کی سیاسی تاریخ کو سمجھنے میں مدد مل سکے اس کے ساتھ حجاز کی تاریخ پر تھوڑا زیادہ بات کی ہے اور بتایا ہے کہ پہلے اس کا اقتدار بنو جرہم کے پاس تھا جنہوں نے بعد میں سرکشی اور ظلم کا راستہ اختیار کیا تو مقامی قبائل کی مدد سے بنو خزاعہ نے ان کو اقتدار سے دور کر دیا۔ پھر بنو خزاعہ طویل عرصے تک حکمران رہے، جناب قصی کے زمانے میں قریش سیاسی طور پر منظم ہوئے اور اس میں بنیادی کردار جناب قصی کا تھا انہوں نے دارالندوہ قائم کیا جو مجلس مشاورت کا مقام تھا۔ جناب قصی نے ہی خزاعہ سے اقتدار قریش کو دلایا۔ اس بارے میں ایک خیال ہے کہ اس کے لیے انہیں خزاعہ سے ٹکرانا پڑا جبکہ دوسرا خیال یہ ہے خزاعہ خود دستبردار ہو گئے کیونکہ خزاعہ کی جناب قصی کے ساتھ رشتے داری قائم ہو چکی تھی اور پھر ان کی بصیرت پر کوئی دوسری رائے نہیں تھی۔ جناب قصی کے بعد مکہ میں قریش حکومت کرنے لگے اور اس کے مختلف قبائل میں مختلف ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ جیسے سقایہ کی ذمہ داری بنو ہاشم کی تھی، سفارت بنو عدی کی، اشناق یعنی دیت و جرمانوں کا نظام بنو تیم کے پاس تھا، شوری بنو اسد کے پاس، دفاع بنو مخزوم کے پاس تھا۔ بنو عبد شمس یعنی بنو امیہ کی ذمہ داری عقاب یعنی پرچم پکڑنے کی تھی۔
شیخ مبارکپوری نے سرداری نظام پر بھی بات کی ہے اور بتایا ہے کہ سردار کی حیثیت ایک آمر کی سی تھی اس کے قبیلے کے فیصلے کے لیے لامحدود اختیارات تھے۔ جبکہ سماجی طور پر دیکھا جائے تو اس وقت دو طبقات ہی پائے جاتے یا حاکم ہوتے یا محکوم ، جہاں محکوم کے کوئی خاص حقوق نہیں تھے اور وہ پسا ہوا طبقہ شمار ہوتا تھا۔ نیز قبائلی عصبیت عروج پر تھی وہاں پر مخالفت و دوستی کسی اصول پر نہیں بلکہ قبائلی عصبیت پر ہوتی تھی اگر قبیلہ کسی سے ناحق بھی لڑتا تو ہر فرد اپنے قبیلے کا ساتھ دیتا۔
شیخ مبارکپوری نے لکھا ہے کہ گو کہ حجاز کی حکومت کئی لحاظ سے کمزور تھی مگر اطراف عرب میں اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ ایک طرف تو حرم کی وجہ سے مذہبی لحاظ سے بھی اس کی اہمیت تھی دوسری طرف سیاسی لحاظ سے یہاں مشاورت کے اداروں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
اس کے بعد عرب کے مذہبی حالات کا بھی مصنف نے ذکر فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ اس وقت اکثر عرب بت پرستی میں مبتلا تھے اور ہر قبیلے کا اپنا بت تھا۔ جبکہ دین ابراہیمی کے پیروکار بھی مگر اس میں کئی بدعات شامل تھیں جس کی وجہ سے اس کی شکل بھی بگڑی ہوئی تھی۔ مصنف نے ان بدعات میں سے چند کو بیان بھی کیا ہے۔ اس کے ساتھ یہودیت بھی ایک قابل ذکر دین تھا بلکہ مصنف نے عرب کے تناظر میں یہودیت کی مختصر تاریخ بھی بیان کی ہے کہ بخت نصر کے ہاتھوں تباہی کے بعد وہ حجاز میں آباد ہوئے اس کے علاوہ یمن میں بھی یہودیت کو فروغ حاصل ہوا۔ سورہ بروج میں ذونواس کے واقعے کا ذکر ہے وہ بھی یمن ہی میں ہوا۔
عیسائیت بھی عرب میں موجود تھی اس کی ایک بڑی وجہ رومی سلطنت کا پڑوس بھی تھا۔ رومی سلطنت کے پڑوس والے عرب علاقوں اور وہاں کے حاکم جیسے کہ اہل غسان عیسائی تھے، جبکہ اہل فارس کے پڑوسی عربوں میں مجوسیت پائی جاتی تھے اور کچھ عراقی قبائل صابی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔
اس کے بعد مصنف نے جاہلی معاشرے کا ایک نقشہ پیش کیا ہے۔ یہاں مصنف نے انتہائی منصفانہ انداز میں جہاں اس معاشرے کی خامیوں کا ذکر کیا ہے تو اس کے ساتھ وہاں کی خوبیوں کا ذکر کیا ہے۔ مصنف نے بتایا ہے کہ اشراف طبقے میں عورت کافی با اختیار حتی کہ کئی دفعہ عورت کی خاطر قبائل میں تلوار بھی چل جاتی تھی اور عورت کئی قبائل میں صلح بھی کروا دیتی تھی اس کے باوجود کے قبائلی سردار ہمیشہ مرد ہی ہوتے تھے۔ اشراف کے علاوہ دوسرے طبقات میں عورت کی حیثیت ایسی نہیں تھی حتیٰ کہ وہ فحش کاری میں ملوث ہوتی تھیں۔ زمانہ جاہلیت میں نکاح کی مختلف صورتیں تھیں جن میں سے اسلام نے صرف ایک صورت برقرار رکھی باقی سب کو باطل قرار دیا۔ وہاں تعدد ازواج کی بھی پابندی نہیں تھی اور بیک وقت دو سگی بہنوں کو نکاح میں رکھنے کا بھی رواج تھا۔ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسم بھی کہیں کہیں تھی مگر بیشتر عرب اس میں ملوث نہیں تھے۔ قبائلی عصبیت عروج پر تھی اس لیے بھائیوں ، چچوں اور بھتیجوں میں تعلق بہت مضبوط تھا۔ اقتصادیات کا بیشتر حصہ تجارت پر تھا مقامی صنعت کے حوالے سے عرب ساری دنیا سے پیچھے تھے۔
شیخ مبارکپوری نے لکھا کہ اس وقت کے لوگ جود و سخا میں مشہور تھے۔ حتی کہ قحط کے زمانے میں بھی ان کے پاس مہمان آ جاتا تو اس کو بھوکا نہ جانے دیا جاتا حتیٰ کہ اگر اپنے گھریلو کام کاج والی اونٹنی بھی دستیاب ہوتی تو اس کو ذبح کر کے مہمان کو کھانا کھلایا جاتا۔ یہ اس سخاوت کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ جوا کھیلتے تھے تاکہ اس سے نفع حاصل ہو اور وہ اس سے مہمان نوازی کے لیے استعمال کریں۔
عہد کی پاسداری اس سماج میں اس حد تک تھی کہ عہد نبھانے کے لیے وہ لوگ اپنی اور اپنے بچوں کی جان تک قربان کرنے کو تیار ہوتے۔ اس کے علاوہ جب وہ کسی بات کا عزم کرتے تو اس کو بھی وہ پورا کرتے۔ اس کے ساتھ ان میں حلم و بردباری پائی جاتی تھی وہ سنجیدہ مزاج لوگ تھے اور ان میں بدوی سادگی بھی پائی جاتی وہ تصنع سے کافی دور تھے۔ شیخ صفی الرحمن مبارکپوری کہتے ہیں کہ شاید یہ صفات تھیں جن کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ خطہ پیغام الہی کے ابلاغ کے لیے موزوں ترین خطہ تھا جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں تشریف لائے۔
کتاب کے شروع کا یہ حصہ انتہائی اہم ہے جس سے سیرت مقدسہ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور قاری اس پس منظر سے آگاہ ہوتا ہے جس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہوئی تو کیا آس پاس کی سیاسی ، سماجی اور مذہبی صورتحال کیا تھی۔ شیخ صفی الرحمن مبارکپوری نے اس پر جامع انداز میں روشنی ڈالی ہے اور یہ وہ موضوع ہے جس ک اس کتاب میں باقی کتب سیرت کے برعکس خیال رکھا گیا ہے۔
اس کے بعد مصنف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت ہاشم کا ذکر کیا اور بتایا کہ آپ نے قحط کے زمانے میں لوگوں کو کھانا کھلایا۔ آپ تجارت کے لئے شام گئے تو مدینہ میں بنی نجار کے ہاں قیام کیا وہاں آپ نے بنی نجار کی ایک خاتون سلمی بنت عمرو سے نکاح کیا۔ جن سے ان کے بیٹے جناب عبد المطلب ہوئے، یہ کافی عرصہ مکہ مکرمہ سے باہر رہے۔ جب یہ مکہ مکرمہ آئے تو ان کے چچا نوفل نے ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیا تو جناب عبد المطلب ہاشمی نے اپنے ننھیالی قبیلے بنی نجار سے مدد مانگی تو نوفل کو جگہ جناب عبد المطلب ہاشمی کو واپس کرنی پڑی۔ بعد میں بنی نوفل نے بنو عبد شمس سے اتحاد قائم کیا جبکہ بنو خزاعہ نے بنی عبد شمس اور بنی نوفل کے خلاف دارالندوہ میں جاکر بنو ہاشم سے پیمان کیا۔
ہجرت کے لیے مدینہ منورہ کا انتخاب بیشک رب تعالیٰ کا انتخاب تھا لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا کا یہ ننھیال تھا اور پھر انہوں نے غاصبانہ قبضے کو چھڑانے میں ساتھ دیا تھا تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس سرزمین مقدس کا انتخاب کے پیچھے ایک تاریخ بھی موجود تھی۔ حضرت عبد المطلب ہاشمی شرف و فضیلت والی شخصیت تھی انہوں نے زم زم کا کنواں دوبارہ سے دریافت کیا۔ نیز واقعہ فیل میں بھی آپ کا کردار بہت واضح نظر آتا ہے جس کو مصنف نے ذکر کیا۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عبد المطلب ہاشمی کا ذکر ہے اور مصنف نے بتایا ہے کہ حضرت عبد المطلب ہاشمی کی اولاد میں آپ سب سے زیادہ شرف و سیادت اور پاکیزہ کردار کے حامل اور خوبصورت تھے۔ آپ کے ذبیح ہونے والے واقعے کو بھی مصنف نے ذکر کیا ہے۔ آپ کی وفات پر حضرت آمنہ کے اشعار بڑے درد انگیز ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے
“بطحا کی آغوش ہاشم کے صاحبزادے سے خالی ہو گئی وہ بانگ و خروش کے درمیان ایک لحد میں آسودہ خواب ہو گیا۔ اسے موت نے ایک پکار لگائی اور اس نے لبیک کہہ دیا۔ اب موت نے لوگوں میں ابنِ ہاشم جیسا کوئی انسان نہیں چھوڑ (کتنی حسرت ناک تھی) وہ شام جب لوگ انہیں تخت پر اٹھائے لے جا رہے تھے اگر موت اور موت کے حوادث نے ان کا وجود ختم کر دیا ہے (تو ان کے کردار کے نقوش نہیں مٹائے جا سکتے) وہ بڑے دانہ اور رحم دل تھے”
حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے ان اشعار میں حضرت عبداللہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہم کی سیرت کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ جس میں ان کی دانائی اور رحمدلی کا ذکر ہے۔
اس کے بعد مصنف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت اور پہلے چالیس سال کی زندگی پر لکھا ہے۔ مصنف کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ ولادت ۹ ربیع الاوّل ہے۔ مصنف نے بوقت ولادت خلاف معمول واقعات کا ذکر جیسے سیدہ آمنہ کے جسم سے نور کا نکلنا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔ کسری کے ایوان کے کنگروں کا گرنا، آتش کدہ مجوس کا ٹھنڈا ہو جانا۔ اس کے ساتھ یہ بھی یہ ذکر محد الغزالی صاحب فقہ السیرۃ کے نزدیک یہ روایت درست نہیں۔ مصنف جو کہ خود بھی محدث تھے نے اپنی رائے نہیں پیش کی۔ مصنف نے بتایا ہے کہ عرب دستور کے مطابق آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتویں دن ختنے ہوئے ساتھ ہی حاشیہ میں اس بارے میں دوسرا قول بھی ذکر کیا کہ کچھ اہل سیر کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مختون پیدا ہوئے۔ رضاعت کے بارے میں حضرت حلیمہ سعدیہ کے ساتھ کچھ واقعات پیش آئے جیسے کہ ان گدھی جو مکہ آتے ہوئے کافی کمزور تھی مگر مکہ سے جاتے ہوئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساتھ تھے وہ تیز طرار ہو گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے ان کے اونٹنی کے تھن دودھ سے لبریز ہو گئے۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام بکریاں چرانے جاتے تو وہ آسودہ حال اور دودھ سے بھرپور واپس آتیں۔ پھر شق صدر کا واقعہ کا بھی ذکر ہے۔ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے ان کے دادا حضرت عبد المطلب ہاشمی رضی اللہ عنہ کے پیارو محبت کا بھی ذکر کیا اور بتایا ہے کہ اپنے اس پوتے کا وہ خصوصی اکرام کرتے۔ اس کے ساتھ معاہدہ حلف الفضول اور حرب فجار کا بھی ذکر ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرکت کی۔ حرب فجار میں اپنے چچا کو تیر پکڑاتے تھے۔ معاہدہ حلف الفضول جس نے جھوٹی جاہلی حمیت کو مسترد کرتے ہوئے اصول کا راستہ اپنایا ایک بہت بڑا واقعہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شریک تھے۔ اس کے بعد ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کا ذکر ہے۔ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک اس وقت مشہور قول کے مطابق چالیس سال تھی اگر مصنف اس پر زیادہ گہرائی سے غور کرتے تو دوسرے قول کا ذکر بھی کر دیتے جو کہ اٹھائیس سال ہے۔ اس کے حجر اسود کی تنصیب میں جس قدر دور اندیشی اور بصیرت کا مظاہرہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا اس کو بھی ذکر کیا ہے۔ نبوت سے پہلے کی اجمالی سیرت پر بات کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ آپ قریش کے باطل معبودوں سے نفرت کرتے تھے اس وقت بھی آپ غور و خوض کرنے والے شخص تھے۔ آپ نے اپنے کریمانہ اخلاق سے ایک مقام حاصل کیا ہوا تھا۔ آپ کی امانت اور صداقت مسلمہ اور مشہور تھی۔ اس کے علاوہ آپ کی دور اندیشی اور راست گوئی بھی سب کے نزدیک متفقہ تھی۔
میں جناب ابو طالب ہاشمی کا ذکر الگ سے کرنا چاہوں گا۔ مصنف نے جو نقشہ ان کی شخصیت کا کھینچنا ہے اس کے بعد آپ کے دل میں ان کے لیے احترام کا جذبہ ضرور پیدا ہوتا ہے۔ جس طرح سے انہوں نے اپنے بھتیجے کی حمایت کی اور ان کی حفاظت کے لیے اپنا کردار ادا کیا اس کو بہت عمدگی سے مصنف نے ذکر کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھلی تبلیغ کا حکم ملا اور اپنے قرابت داروں سے اس کا ذکر کیا تو جناب ابو طالب ہاشمی تو انہوں نے کہا ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معاونت پسند ہے۔ ہم آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی حفاظت کرتے رہیں گے یہاں تک کہ ہمیں موت آ جائے۔ قریش کئی دفعہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو روکنے کے لیے جناب ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہمیشہ اپنے بھتیجے کی حمایت کی اور ان کے ارادوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ بلکہ ایک دفعہ جناب ابو طالب قریش کی دھمکیوں سے پریشان بھی ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے رب کے پیغام کو پہنچانے کے لیے اپنے عزم و استقلال کا ذکر کیا تو ان کی پریشانی دور ہوئی اور کہا کہ جو چاہو کرو۔ انہوں نے اس موقع پر جو اشعار کہے ان کا ترجمہ یہ ہے
“بخدا وہ لوگ تمہارے پاس اپنی جمیعت سمیت بھی ہرگز نہیں پہنچ سکتے یہاں تک کہ میں مٹی میں دفن کر دیا جاؤں تم اپنی بات کھلم کھلا کہو ۔تم پر کوئی قدغن نہیں تم خوش ہو جاؤ اور تمہاری آنکھیں اس سے ٹھنڈی ہو جائیں”
ایک دفعہ قریش نے جناب ابو طالب کو یہ پیشکش بھی دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے حوالے کر دیں اور اس کے بدلے ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمارہ کو لے لیں۔ جناب ابو طالب نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔
اس علاؤہ بھی جب قریش کا خطرہ بڑھا تو جناب ابو طالب رات کو اکثر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا بستر بدل دیتے تھے اور اپنے بیٹوں کو آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بستر پر سلاتے تھے۔ جناب ابو طالب کی جانثاری کے متعدد واقعات کو مصنف نے ذکر کیا ہے۔ جس سے ان کی شخصیت کا مثبت پہلو نکھر کر سامنے آتا ہے اور آپ کی شخصیت سے ایک احترام کا تعلق پیدا ہوتا ہے۔ اس کو میں مصنف کی منصف مزاجی سے بھی تعبیر کروں گا کیونکہ مصنف ان کے عدم ایمان ہی پر موت اور پھر ان کے لیے دعا مغفرت سے منع کرنے کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے جناب ابو طالب کے مثبت کردار کو پورے انصاف سے بیان کیا ہے۔
کفار میں سے مزید کچھ شخصیات جیسے کہ مطعم بن عدی اور عتبہ بن ربیعہ کے بارے میں ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ شدت پسند نہیں تھے۔ بلکہ عتبہ تو بدر کے دن تک کافی سمجھ دار باتیں کرتا رہا اور وہ بدر کی لڑائی کو شروع کرنے کے بھی حق میں نہیں تھا مگر ابو جہل کے بھڑکانے پر اس پر بدبختی غالب آئی اور اپنی جاہلی حمیت میں بدر میں سب سے پہلے واصل جہنم ہونے والا بنا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مطعم بن عدی اور عتبہ ان لوگوں میں سے تھے جو مقاطعہ بنی ہاشم کے بھی خلاف تھے۔ طائف سے واپسی پر مطعم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امان دی۔
مصنف نے تبلیغ رسالت کے نتیجے میں قریش کی ہٹ دھرمی کے بیان میں ان مشکلات کا ذکر کیا ہے جن کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سامنا کرنا پڑا ۔ ایک طرف آپ کا چچا ابو لہب اول اول منکرین حق میں سے تھا۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی ام جمیل بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھاتی۔ عقبہ بن ابی معیط ایک بدترین دشمن تھا جس نے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ابو جہل بھی مخالفت میں پیش پیش تھا۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت حق پر ایمان لانے والوں پر بھی کفار نے عرصہ حیات تنگ رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اس حوالے سے حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ، سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور ان کے والدین ، سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ، حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور ایک اور صحابی حضرت فکیہہ رضی اللہ عنہ کا مصنف نے ذکر کیا ہے اور ان پر ڈھائے جانے والے مصائب کو بیان کیا ہے مگر یہ مصائب ان کے ایمان کو متزلزل نہیں کر سکے۔ مصنف نے اس بے مثال صبر و استقامت پر الگ سے گفتگو کی ہے اور اس کی وجوہات پر غور کرنے کی کوشش کی ہے جن میں سے سب سے بنیادی وجہ اللہ تعالیٰ پر مضبوط اور کامل ایمان جس کی مدد سے انہوں نے ان مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا پھر دوسرا سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرکشش قیادت کی صورت میں بھی ان کے لیے اطمینان اور استقامت کا سامان موجود تھا۔ وہ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعلیٰ اوصاف کے مالک ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقیناً اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے بندے ہیں پھر جو جو بشارت آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اہل ایمان کو سنائیں ہیں وہ برحق ہیں اس استقامت اور جرات کے پیچھے یہ بھی ایک بنیادی وجہ تھی جس کو مصنف نے ذکر کیا ہے
پہلی وحی کے حوالے سے مصنف نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ یہ واقعہ ۲۱ رمضان بمطابق دس اگست ۶۱۰ عیسوی کو پیش آیا۔ اس بارے میں دیگر اقوال بھی موجود ہیں مصنف نے اپنی تحقیق کو واضح کیا ہے۔ آگے کچھ روز کے لیے جب نزول وحی رک گیا تو اس کو بھی مصنف نے ذکر کیا ہے اس بارے میں بخاری کی روایت جس میں امام زہری کا ادراج ہے اس کو بیان کیا ہے۔ میرے خیال میں اگر مصنف اس کو ذکر نہ کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔ مصنف نے وحی کی مختلف اقسام کا ذکر کیا ہے۔
سورہ مدثر جو کہ نزول کے اعتبار سے اولین سورتوں میں سے ہے جس میں تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے اس کے مضمرات پر مصنف نے بہت قیمتی گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ بظاہر اس مختصر پیغام میں کئی نتائج تھے جیسے کہ اس کام میں پیش آنے والی مشکلات جس میں کئی اہل ایمان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ نیز ظاہری و باطنی پاکیزگی کی اہمیت اور عقیدہ آخرت کی وضاحت شامل ہے۔
مصنف نے اعلان نبوت کے بعد کی مکی زندگی کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا ہے
۱.پس پردہ دعوت کا مرحلہ۔ یہ پہلے تین برس بنتے ہیں
۲.کھلم کھلا دعوت۔ چوتھے سال سے لیکر دسویں سال تک کا عرصہ اس مرحلے سے متعلق ہے
۳۔ مکہ سے باہر دعوت کی مقبولیت اور پھیلاؤ دسویں سال سے لیکر ہجرت تک کا عرصہ اس میں شامل ہے
شیخ مبارکپوری نے شروع میں ان سابقون الاولین کا ذکر کیا ہے جو پہلے مرحلے میں ہی مسلمان ہو گئے جن میں ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تبلیغ سے سیدنا طلحہٰ ، سیدنا زبیر ، سیدنا عبدالرحمان بن عوف ، سیدنا سعد بن ابی وقاص اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔ ان کے علاوہ سیدنا عثمان بن مظعون ، سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح ، سیدنا ابوسلمہ ، سیدنا سعید بن زید سمیت کئی شخصیات کا ذکر کیا جو اس عرصے میں اسلام لائیں۔
دوسرا مرحلہ کافی مشکل تھا کیونکہ یہاں کفار نے ناصرف کھلم کھلا مخالفت کی بلکہ اسلام قبول کرنے والوں کو بھی اذیت دی۔ نیز اس ہی عرصے میں ہجرت حبشہ ہوئی جس کا ذکر موجود ہے۔ اس کے علاوہ قریش کی محاذ آرائیوں کا بھی ذکر ہے۔ اس مرحلے دو بڑی واقعات جن سے اسلام کو طاقت ملی وہ سیّدنا حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنا تھا۔ جس کے غیر معمولی اثرات ہوئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قبولیتِ اسلام کے بارے میں دونوں واقعات مذکور ہیں ایک مشہور واقعہ جب وہ برے ارادے سے نکلے جبکہ دوسرا وہ جب انہوں نے خود سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چھپ کر تلاوت سنی اور ان کے سینے میں اٹھنے والے شکوک وشبہات کا جواب ملتا گیا جس سے ان کے دل میں اسلام کی حقانیت بیٹھ گئی ۔ مصنف نے دونوں واقعات میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔
ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی جدائی سیرت مقدسہ کا ایسا واقعہ ہے جس کا جب بھی ذکر آئے تو میری کیفیت بدل جاتی ہے۔ وہ وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا مشکل ترین وقت تھا جب ام المومنین آپ سے جدا ہوئیں۔ ایک طویل عرصے کی رفاقت اور جو دکھ سکھ کی ساتھی تھیں اور غمخوار تھیں ان کا جدا ہونا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ مصنف نے گو کہ کتاب مختلف جگہ واقعات کا تجزیہ کیا اور خوب کیا ہے مگر یہاں پر انہوں نے بہت اختصار سے کام لیا ہے مگر جو لکھا ہے اس کو نقل کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کروں گا۔ شیخ مبارکپوری لکھتے ہیں
“حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اللہ تعالٰی کی بڑی گرانقدر نعمت تھیں۔وہ ایک چوتھائی صدی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی رفاقت میں رہیں۔اس دوران رنج و قلق کا وقت آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تڑپ اٹھتیں، سنگین اور مشکل ترین حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قوت پہنچاتیں ، تبلیغ رسالت میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مدد کرتیں اور تلخ ترین جہاد کی سختیوں میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شریک کار رہتیں اور اپنی جان و مال سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خیر خواہی و غم گساری کرتیں”
ام المومنین کی سیرت کی ایک جھلک مصنف کے ان جملوں سے واضح ہے۔ یہ فقط ایک جھلک ہے ورنہ آپ رضی اللہ عنہا کے کردار کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ جائیں گے۔
مکی دور کے تیسرا مرحلے میں طائف والا درد ناک واقعہ ہوا۔ جب اہل طائف نے اپنی خوش قسمتی کو بدقسمتی میں بدل دیا۔ وہاں سے واپسی پر جنوں کے قبول اسلام کا واقعہ پیش آیا ۔ اس کے بعد اس ہی دور میں یثرب کے کچھ لوگ ایمان لے آئے اور بیعت عقبہ اولی ، ثانیہ اور ثالثہ ہوئی۔ معراج کا واقعہ بھی اس دور میں ہوا۔ مصنف نے ان سب پر گفتگو کی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت سوید بن صامت ، حضرت ایاس بن معاذ ، حضرت ابوذر غفاری ، حضرت طفیل بن عمرو دوسی ، حضرت ضماد ازدی رضی اللہ عنہم کے قبولیتِ اسلام کو الگ الگ سے ذکر کیا ہے۔ حضرت سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی تبلیغی کاوشوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا ہے جن کی کامیاب تبلیغ سے یثرب میں اسلام پھیلنا شروع ہوا اور جب ہجرت کا واقعہ ہوا تو اکثر اہل مدینہ اسلام لا چکے تھے۔ مصنف نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ایمان قبول کرنے پر سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کا ایک ہی جیسا واقعہ الگ الگ بیان کیا ہے۔ میرے خیال سے ان میں سے درست واقعہ حضرت سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا ہے کیونکہ بنی اوس کے اس وقت سردار آپ ہی تھے۔ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کے بعد سردار بنے۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ دونوں مقدس شخصیات کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہو مگر دیگر کتب سیرت میں یہ واقعہ حضرت سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے قبولیتِ اسلام کے بارے میں لکھا ہے
ایک اہم بات طائف سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطعم بن عدی نے پناہ دی جب ابو جہل کو اس کا پتہ چلا تو اس نے مطعم سے کہا کہ جس کو تم نے پناہ دی اس کو ہم نے پناہ دی۔
مصنف نے مکی دور کو عمدگی اور جامعیت سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ کامیاب بھی ہوئے اور انہوں نے ہر اہم واقعے کو بیان کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ لیکن ایک اہم بات جو نظر انداز ہوئی وہ مکی مواخات ہے۔ مکی مواخات کا باب اکثر اہل سیر نے ذکر نہیں کیا اللہ تعالیٰ راضی ہو ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی صاحب جنہوں نے اس موضوع کو کھل کر بیان کیا۔
ہجرت کے سلسلے میں مصنف نے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر سلایا اور امانتیں ان کے سپرد کیں مصنف کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت رات کے وقت ہوئی جبکہ کچھ روایات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہجرت دن کے وقت ہوئی تھی۔ مصنف کی چونکہ حدیث پر گہری نظر تھی اور پھر اہل سیر کی روایات سے بھی وہ واقف تھے اس پر اگر وہ کچھ معروضات پیش کر دیتے تو اس بارے میں صورتحال مزید واضح ہو جاتی۔ انہوں نے متعدد جگہ اپنی رائے پیش کی ہے اور اپنے موقف کے حق میں دلیل بھی دی ہے اگر وہ اس پر بھی نظر کر لیتے تو یہ ایک مفید گفتگو ہوتی۔
ہجرت کے واقعات کو بھی مصنف نے کھل کر ذکر کیا ہے ان میں ام معبد رضی اللہ عنہا کے گھر جانا اور ان کی کمزور اور مریل بکری کا صحت مند ہو کر دودھ دینا۔اس کے بعد ام معبد کا اپنے شوہر ابو معبد کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف بیان کرنا پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب ہجرت مدینہ ہوئی تو کچھ انصار جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابھی نہیں دیکھا تھا وہ سیدھے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سلام کرتے پھر جب دھوپ آنے پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سایہ کیا تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معلوم ہوا۔ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمال عاجزی پر دلالت کرتا ہے ساتھ ہی یہ نتیجہ بھی نکلا جا سکتا ہے کہ تین روز غار ثور میں قیام کے دوران جب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ماسوائے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے کوئی موجود نہ تھا تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا چہرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس سے نکلنے والی تجلیات سے براہ راست مستفید ہوا اور یہ ان برکات و انوار ہی کا مظہر تھا کہ لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو آ کر سلام کر رہے تھے۔ کیونکہ نورانیت کی کرنیں آپ رضی اللہ عنہ کے چہرے سے بھی ٹپک رہی تھیں جن کو سلام کرنے والے دیکھ رہے تھے۔
مکی دور کی طرح مصنف نے مدنی دور کو بھی تین مراحل میں تقسیم کیا ہے۔
پہلا مرحلہ فتنہ و اضطراب کا دور تھا۔ ہجرت سے لیکر صلح حدیبیہ تک کا عرصہ اس میں شامل ہے
دوسرا دور جس میں شاہان عالم کو اسلام کی دعوت دی گئی۔ یہ صلح حدیبیہ سے لیکر فتح مکہ تک کا عرصہ ہے
تیسرا مرحلہ فتح مکہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کا ہے جب آس پاس کے علاقوں کے لوگ جوک در جوک اسلام میں داخل ہوئے۔
ہجرت مدینہ کے وقت مدینہ کے حالات پر بھی مصنف نے بات کی ہے اور بتایا ہے کہ مکہ مکرمہ میں جو احکامات نازل ہوئے وہ انفرادی سطح کے تھے جن پر ہر کوئی تنہا عمل کر سکتا تھا جبکہ مدینہ میں روز اول سے مسلمان اقتدار میں تھے اس لیے عبادات کے ساتھ ساتھ سماجیات اور عمرانیاتی مسائل کا بھی ان کو سامنا کرنا پڑا تاکہ ایک صالح معاشرت کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔
مصنف نے بتایا کہ اس وقت مدینہ میں تین طرح کے لوگ تھے۔ اول تو اہل ایمان پاکباز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ، دوسری مدینہ میں رہائش مقامی مشرکین یہ جلد ہی دائرہ اسلام میں داخل ہو کر اہل ایمان کا حصہ بن گئے ان میں سے کچھ وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے دل سے ایمان قبول نہیں کیا ان منافقین کا طبقہ بھی اس ہی میں سے ابھر کر سامنے آیا تیسرے یہود تھے، ان کا مدینہ کی معیشت پر غلبہ تھا۔ گو کہ یہ عبرانی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے مگر عربوں میں گھل مل کر یہ ان کی زبان سے بھی واقف تھے مگر یہ ان کو اپنے سے کمتر سمجھتے تھے۔ ان کی معیشت میں سب سے بڑا حصہ سود کا تھا جو یہ عرب باشندوں کو دیتے تھے پھر مذہبی لحاظ سے بھی یہ اپنے آپ کو سب سے برتر تصور کرتے تھے۔ یہ اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی باتیں کرتے تھے جن کو مدینہ کے عربوں نے سن رکھا تھا۔ یہود مکاری اور سازش میں بھی بہت ماہر تھے۔ یہ عربوں کو لڑا کر خاموشی سے تماشا دیکھتے تھے۔ ان کے تین مشہور قبائل تھے
بنو قریظہ
بنو نضیر
بنو قینقاع
اسلام چونکہ بغض و عداوت کو ختم کرنے کی بات کرتا ہے تو اس بات نے ہی ان کے مفادات پر کاری ضرب لگائی وہ اول روز سے اسلام سے دشمنی پر اتر آئے اس کے باوجود کے وہ جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برحق نبی ہیں وہ اپنی دشمنی پر قائم رہے۔
یہ مدینہ کے اندرونی حالات تھے جبکہ قریش مکہ کی شکل میں ایک خطرناک بیرونی دشمن بھی موجود تھا جو کہ اسلام کو مٹانے کے در پے تھا۔ اس لیے مدینہ منورہ کی ریاست کے لیے یہ حالات خوشگوار نہیں تھے یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت کی صورت میں ہی ان مسائل سے نمٹا جا سکتا تھا جن کو براہ تائید الٰہی حاصل تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نورانی بصیرت سے ناصرف صالح معاشرت کو قائم کیا بلکہ بتدریج یہ ریاست مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی اور اس کے دشمن وقت کے ساتھ کمزور ہوتے گئے اور ان کے تمام مکروہ عزائم خاک میں مل گئے۔ نئے معاشرے کے قیام کے لیے مسجد نبوی کی حیثیت بہت اہم تھی۔ یہ فقط مسجد نہیں تھی بلکہ یہاں عبادت کے ساتھ مختلف امور پر مشاورت بھی ہوتی تھی جس کے سماج پر دور رس اثرات مرتب ہوتے تھے۔ پھر اس صالح معاشرے کے قیام کے لیے مواخات مدینہ ہوئی جہاں ایک مہاجر اور انصاری میں ایسا بھائی چارہ قائم ہوا کہ دنیا اس کی دوسری مثال نہیں لا سکتی۔ اس محبت و بھائی چارگی پر بھی مصنف نے بات کی ہے۔
جیسے کہ ذکر ہوا کہ مدینہ کی ریاست کو کئی محاذوں پر مخالفت کا سامنا تھا تو اس کے حل کے لیے یہود سے میثاق مدینہ کا قیام لایا گیا جس میں مدینہ منورہ پر کسی بیرونی حملے کی صورت میں یہود کو ان کا ساتھ دینے سے روکا گیا۔ یہ میثاق اپنے حیثیت میں ایک بہت بڑی فتح تھی جس کی صورت میں دشمنوں کے باہمی اتحاد پر بھی ایک ضرب لگا دی گئی
اس کے بعد غزوات میں سے ہر ہر غزوہ کو مصنف نے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اور اس موقع پر جو قرآن مجید کی آیات نازل ہوئیں ان کو بھی بیان کیا ہے۔ بلکہ قرآن مجید کی آیات کو نقل کرنے کے حوالے سے مصنف کو الگ سے داد بنتی ہے کہ جو آیات کسی واقعے یا غزوہ کے موقع پر نازل ہوئیں ان کو شیخ مبارکپوری نے اس موقع پر ذکر کیا ہے جو کہ ان کے مطالعہ قرآن کی وسعت کو بھی بیان کرتے اور اس واقعے کے بارے درست معلومات کی فراہمی میں یہ ایک بہترین طریقہ کار ہے۔غزوات کے علاؤہ جو سریہ مشرکین کی سرکوبی کے لیے بھیجے گئے مصنف نے ان کو بھی ان کے قائد اور اس کے نتیجے سمیت ذکر کیا ہے۔
غزوہ بدر کے بارے میں مصنف نے سیدنا حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کے واقعے کا ذکر کیا جب ایک جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیمہ نصب کیا تو پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ حکم الٰہی نہیں تو کہا کہ یہ جگہ مناسب نہیں اور ان کی بات مانی گئی اس کے علاوہ غزوہ خیبر میں بھی اس طرح کا واقعہ پیش آیا اور جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑاؤ ڈالنا چاہتے تھے وہاں پر استفسار کیا کہ اگر یہ وحی کا حکم ہے تو ٹھیک اگر مرضی سے ہے تو پھر یہ جگہ جنگی نکتہ نظر سے مناسب نہیں ، یہاں بھی سیدنا حباب بن منذر کی بات مانی گئی۔
غزوات کے ضمن میں ایک اور خصوصیت جو اس کتاب میں ہے مصنف نے کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے اور ثابت کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں کیسے اسلامی دعوت کا مرکز مضبوط ہوا اور دعوت کے نقطہء نظر سے بھی جو جو کامیابیاں حاصل ہوئیں ان کا بہت عمدگی سے تجزیہ کیا ہے۔ مثلاً جنگ موتہ جس میں بظاہر تو کامیابی حاصل نہ ہوئی مگر جب آس پاس کے قبائل نے دیکھا کہ مسلمان اس قدر مضبوط ہو گئے ہیں کہ وہ رومیوں سے جنگ کر سکتے ہیں تو اس نے ان پر نفسیاتی لحاظ سے بڑا اثر ڈالا اور یہ ہی چیز ان کے اسلام لانے کا باعث بنی۔ یوں ہی فتح مکہ کے نتیجے میں بہت سے عرب دائرے اسلام میں داخل ہوئے جنہیں یقین ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور ان کے پیغام میں طاقت ہے جس نے اپنے مخالفین کو مغلوب کر دیا۔ حنین میں کچھ مشکلات پیش آئیں یہ بھی دراصل اصلاح کا ایک طریقہ تھا کیونکہ یہ غلطی چند اہل ایمان کے دلوں میں جنم لے سکتی تھی کہ وہ محض عددی کثرت پر فتح یاب ہو سکتے ہیں۔ وہاں بتایا گیا کہ فتح و نصرت رب تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ غزوہ احد کے نتائج کے بارے میں مصنف نے بتایا کہ قریش کا گروہ جب احد سے واپس چلا گیا تو اس نے ایک بار پھر حملہ آور ہونے کا ارادہ کیا مگر یہ دوبارہ حملے کی طرف نہیں گیا جس کا مطلب ہے کہ جزوی کامیابی کے باوجود ان کے دلوں میں شکست کا خوف موجود تھا۔ غزوہ احزاب میں جب سب دشمن اکھٹے ہو کر سامنے آ گئے اور لشکر اسلام سے شکست کھا گئے تو اس کے بھی نہایت دور رس اثرات مرتب ہوئے قریش کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اب اسلام کا راستہ روکنا ممکن نہیں۔ آگے پھر وہ صلح حدیبیہ پر راضی ہوئے تو اس کے پیچھے یہ اعتراف شکست تھا۔ صلح حدیبیہ کی شرائط بظاہر ان کے حق میں تھیں مگر اس صلح نے بت پرستوں کے جتھے پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ ان کے اہم ترین لوگ جیسے کہ سیدنا خالد بن ولید ، سیدنا عثمان بن طلحہ اور سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم اسلام میں داخل ہو گئے۔
غزوات کے ضمن میں بہت سے واقعات ہیں جن پر الگ الگ گفتگو کی گنجائش موجود ہے جیسے غزوہ احد پر سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا حوصلہ و جانثاری جبکہ ان کے بیٹے سیدنا عمرو بن معاذ رضی اللہ عنہ شہید ہو چکے تو بولیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ لیا تو پھر سب غم ہلکے ہیں۔ ایسے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جانثاری کی کئی اور مثالیں کتاب میں موجود ہیں مگر سب کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ غزوہ احد میں سیدنا طلحہٰ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کی بہادری کو مصنف نے خصوصی طور پر ذکر کیا ہے اس غزوہ میں سیدنا طلحہٰ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خوب دفاع کیا۔ بدر میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی بہادری کا ذکر ہے۔ ایسے ہی سیدنا ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کی جانثاری اور بہادری کو الگ سے بیان کیا گیا ہے
صلح حدیبیہ کے بعد شاہان عالم کی طرف خطوط روانہ کرنا دعوت کے نقطہء نظر سے اہم مرحلہ تھا جو اس بات کا اعلان تھا کہ مرکز اسلام اس حد تک مضبوط اپنے نظریہ حق کو دوسرے ممالک تک پہنچا رہا تھا۔پھر فتح مکہ سے پہلے اور بعد میں کثرت سے وفود کی آمد اور ان کے قبول اسلام نے اسلام کو ناقابلِ تسخیر قوت بنا دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کثرت نکاح پر بھی مصنف نے روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ یہ سب شادیاں دعوت کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی۔ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد بنو مخزوم جن کے پاس مکہ کی دفاعی کمان تھی میں نرمی آ گئی اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا یہ سبب بھی بنا۔ ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی مخالفت کا زور ٹوٹ گیا اور فتح مکہ پر وہ بھی اسلام لے ائے۔ ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح ایک جاہلی رسم اور بدعت کو توڑنے کا سبب بنا جہاں لے پالک کو حقیقی اولاد سمجھا جاتا تھا اور اس کی بیوی سے شادی ممنوع قرار دی جاتی تھی اس نکاح کے سبب سے یہ بدعت اختتام پذیر ہوئی۔ ام المومنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا تو پورے قبیلے کے لیے مبارک ثابت ہوئیں۔ ان کے حق زوجیت میں آنے کے بعد پورے قبیلے کو آزادی نصیب ہوئی اور وہ ایمان بھی لے آئے۔ یہ نکاح بنی المصطلق کی محاذ آرائی کے خاتمے کا سبب بھی بنا۔ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے سبب بنی نضیر نے محاذ آرائی چھوڑ دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعدد نکاحوں کی حکمت پر مختصر مگر عمدہ کلام مصنف نے کیا ہے۔
آخری باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق و اوصاف کا بیان ہے۔ جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور امہات المومنین رضی اللہ عنہم کی جانب سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خوبصورت اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس بارے میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا شعر کا ترجمہ
“آپ امین ہیں ، چنیدہ و برگزیدہ ہیں ،خیر کی دعوت دیتے ہیں، گویا ماہ کامل کی روشنی ہیں جس سے تاریکی آنکھ مچولی کھیل رہی ہے”
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ابوکبیر ہذلی کا شعر پڑھتی تھیں
“جب ان کے چہرے کی دھاریاں دیکھو تو وہ یوں چمکتی ہیں جیسے روشن بادل چمک رہا ہو”
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ زہیر کا یہ شعر پڑھتے جو ہرم بن سنان کے بارے میں کہا گیا
“اگر آپ بشر کے سوا کسی اور چیز سے ہوتے تو آپ ہی چودھویں کی رات کو روشن کرتے”
شیخ صفی الرحمن مبارکپوری کی یہ کتاب کئی خصوصیات کی حامل ہے اور یہ اس چیز کی حقدار ہے کہ اس پر متعدد نشستوں میں بات کی جائے کیونکہ یہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مقدسہ کو بیان کرتی ہے۔ پھر مصنف نے فقط سیرت کے واقعات بیان نہیں کیے بلکہ مختلف واقعات اور حالات کا تجزیہ بھی کیا ہے اور اس سے نتائج اخذ کرنے کی کوشش ہے۔ ممکن ہے مصنف کے نتائج فکر سے اختلاف کیا جا سکے مگر مجموعی طور پر ان سے اختلاف کم ہی کیا جا سکتا ہے۔ مجھے کچھ مقامات پر کچھ باتوں سے اتفاق نہیں اور میرا خیال ہے اس پر مصنف اگر گہرائی سے غور کرتے تو ان پر نظر ثانی کرتے ۔ غزوہ احد کے ذکر میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اس پر حضرت ہند رضی اللہ عنہا کے بارے میں جو کچھ منقول ہے وہ تحقیق طلب ہے۔ مصنف نے مشہور بات کو نقل کیا اور اس کو فتح مکہ مکرمہ کے باب میں دوبارہ دوہرایا بھی ہے۔ ایسے ہی وحی کے رک جانے پر بخاری کی روایت میں امام زہری کی ادراج ہے اس کو بھی ذکر نہ کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ اگر ذکر کر دیا تھا تو اس پر نقد کیا جانا چاہیے تھا۔ ایسے ہی وصال نبوی کی تاریخ مصنف نے بارہ ربیع الاول لکھی ہے یہ بھی تحقیق طلب ہے کیونکہ اس پر دوسرے اقوال بھی موجود ہیں جو کہ زیادہ قوی معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ چند مقامات ہیں جہاں پر اختلاف کی گنجائش موجود ہے مگر اس سے کتاب کی اہمیت ہرگز کم نہیں ہوتی۔
سیرت کا موضوع چونکہ اپنی ذات میں ایک وسیع موضوع ہے تو محض ایک کتاب میں اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا لیکن اتنی ضخامت کی کتاب میں مصنف نے عمدگی سے مضامین کو سمویا ہے۔ مصنف کی زبان تھوڑی ثقیل ہے ممکن ہے کہ قاری شروع میں اس سے مانوس نہ ہو مگر جیسے جیسے مصنف کے اسلوب سے واقفیت ہوتی جاتی ہے پھر قاری آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔
آخر میں مصنف نے جن الفاظ پر کتاب کا اختتام کیا ہے ہم بھی ان کو نقل کر کے اپنی تحریر کا اختتام کرتے ہیں
“آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مجدو شرف اور شمائل و خصائل کی بلندی اور کمال کا یہ عالم تھا کہ ان کی حقیقت اور تہ تک نہ رسائی ممکن ہے نہ اس کی گہرائی ناپی جاسکتی ہے۔
بھلا عالم وجود کے اس سب سے عظیم بشر کی عظمت کی انتہا تک کس کی رسائی ہو سکتی ہے جس نے مجدو کمال کی سب سے بلند چوٹی پر اپنا نشیمن بنایا اور اپنے رب کے نور سے اس طرح منور ہوا کہ کتاب الہی ہی کو اس کا وصف اور خلق قرار دیا گیا یعنی
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن “
اللہ تعالیٰ اس کتاب کے لکھنے پر مصنف کو جزائے خیر عطا فرمائے

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں