Home » صوفیہ ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود : قسط اول
اسلامی فکری روایت فلسفہ کلام

صوفیہ ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود : قسط اول

ڈاکٹر زاہد مغل

سہیل طاہر مجددی

اللہ تقدس و تعالی کی حمد و ثناء ہے جس نے ہم سب کو خاتم النبیین والمرسلین ﷺکے ذریعے نورہدایت عطا کیا اور حضرت محمد ﷺپر کروڑوں درود جنہوں نے ہمیں خُدا سے اقرب ترین راہ وصل سمجھایا اور خود اس پر عمل فرما کر ہماری عقول کو وہم کے فتنوں سے بچایا!

ہم نے یہ مختصر رسالہ صوفیہ کرام کے بعض ایسے مقامات اور کلام کی وضاحت کے لئے لکھا ہے جسے سمجھے بغیر لوگ ان کے متعلق بدگمانی کا شکار ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہ ہماری محنت کو قبول فرمائے آمین ثُم آمین ۔ اس مقالے کی خصوصیت یہ ہے کہ اردو زبان میں ان حقائق کو اس ترتیب کے ساتھ موضوع نہیں بنایا گیا، اگرچہ بمبئی سے شائع ہونے والے شمارے “انوار القدس” میں مراتب وجود کے تین مراتب پر بحث ملتی ہے، تاہم یہ شمارہ فسادات تقسیم ھند 1947 کی نذر ہوگیا۔  اس شمارے کا کچھ مواد محمد ذوقی صاحب کی کتاب “سردلبراں” کے ضمیمہ میں نشر کیا گیا ہے مگر وہ بیان گنجلگ  ہونے کی بنا پر حصول مقصد کے لئے نارسا ہے۔ اس موضوع پر ڈاکٹر محمد خان صاحب کی کتاب “اعیان ثابتہ “بھی اہم ہے، تاہم مختصر ہونے کے علاوہ اس کے بیان میں بعض غلطیاں بھی ملتی ہیں۔  اس رسالہ کی تیاری میں ہم نے حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی “مراۃ العارفین”،ابوسعید مبارک کی “تحفہ مراسلہ”، شیخ اکبر کی “فصوص الحکم “اور “الفتوحات المکیہ”،عبدالرحمٰن جامی کی “لوائح “، مجددالف ثانی کی “معارف لدنیہ “اور “مکتوبات شریف”، داراشکوہ کی “حق نما”، اور  عبدالرحمٰن لکھنوی کی “تنزلاتِ ستہ   “وغیرہ سے مدد لی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ قاری کو وہ بنیادی کلید ہاتھ آجائے گی جس سے وہ فکری طور پر صوفیہ کرام کے معاملات کو سمجھ سکے اور بدگمانیاں زائل ہوجائیں ، اگرچہ ان کے قدم پر ذوق نصیب ہو یا نہ ہو مگر اس کی برکت سے کچھ نا کچھ اس ذوق و شوق میں برکت کے آثار ضرور پیدا ہوجائیں گے جو کہ محمود و مطلوب ہیں۔

قدیم ذات کا مخلوق کے ساتھ ربط کیا و کیسے قائم ہے؟ تمام مذاہب کی مباحث الہیات نیز فلسفے کی مباحث وجودیات میں یہ چوٹی کا سوال رہا ہے جس کے متعدد جوابات دئیے گئے۔ بعض گروہ ثنویت (duality) کے قائل ہوئے (کہ مثلاً خدا کے علاوہ مادہ بھی قدیم ہے یا ایک کے بعد دوسری مخلوق کا سلسلہ ازل سے اس طرح جاری ہے کہ ایک مخلوق دوسری مخلوق ہی سے وجود پزیر ہوتی ہے) جبکہ بعض نے کہا کہ عالم حادث ہے جو عدم سے وجود پزیر ہوا (یعنی یہ نہ تھا اور پھر ہوا)۔ محقق صوفیائے کرام نے بھی اپنے مخصوص زاویہ نگاہ کے ساتھ اس بحث میں اپنا حصہ ڈالا، ان کے موقف کو “توحید وجودی” یا “وحدت الوجود” جیسے نام دئیے جاتے ہیں۔ اس تحریر میں صوفیہ کے اس موقف پر روشنی ڈالی جائے گی تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ  ان کی عبارات کو کس نظام فکر پر پیش کرکے پڑھا جانا چاہئے۔  صوفیہ کا موقف سمجھنے کے لئے مراتب وجود سمجھنا ضروری ہے جس سے متعدد غلط فہمیاں خود بخود کافور ہوجاتی ہیں جیسے یہ کہ صوفیہ ذات باری کے عالم کے ساتھ اتحاد یا اس میں حلول کے قائل ہیں یا تنزلات کے نتیجے میں خدا ہی کائنات بن گیا ہے وغیرہ۔ اس مقالے کے دو حصے ہیں، پہلے حصے میں “مراتب وجود” جبکہ دوسرے میں اس پر متفرع ہونے والے توحید وجودی کے بعض مسائل پر گفتگو کی جائے گی۔

1۔ مراتب  ِ وجود

ابتدائی تعارف

وجودی و شہودی فکر میں مراتب وجود چھ[1]  (اور بعض کے مطابق پانچ[2])ہیں: [3]  (1) مرتبہ لاتعین یا ذات، (2) وحدت یا وجود مطلق، (3) وحدانیت، (4) عالم امر و روح، (5) عالم مثال اور (6) عالم ناسوت (یہ زمان و مکان سے متعلق مخلوقات کا عالم ہے)۔ ہر مرتبہ وجود اپنے ماقبل سے “لاعین ولا غیر” (he-not he) کی نسبت رکھتا ہے، یعنی خود اپنے تشخص (identification) میں ایسے احکام (particularities) سے عبارت ہے جو اسے ماقبل مرتبے سے ممیز و الگ (distinguish) کرتا ہے جبکہ بعض احکام یا جہات میں یہ ماقبل کے ساتھ متصل بھی ہوتا ہے تاکہ نچلے مراتب میں عالم قائم رہے۔ ہر اوپری مرتبے کے لحاظ سے نچلا مرتبہ اعتباری یا حکمی (relative) ہے: یعنی پہلے کے لحاظ سے دوسرا اور دوسرے کے لحاظ سے تیسرا درجہ اعتباری ہے کہ ہر درجے میں احکام آہستہ آہستہ مشخص و متعین (identifiedیعنی زیادہ عام سے کم عام) ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اشیاء کی تشخیص اور غیریت (otherness / distinction) ان احکام سے عبارت ہے جو ان پر نچلے درجے میں متحقق ہیں۔ اس کے برعکس (یعنی نیچے سے اوپر کی جانب) ترتیب میں دیکھا جائے تو مشخص اشیاء کے احکام کی نفی کرنے سے وہ اپنے سے اوپری یعنی وسیع تر مرتبہ وجود کے حقائق میں جمع ہوتی چلی جائیں گی یہاں تک کہ مرتبہ احدیت اور لاتعین آجائے جو کسی بھی حکم کو قبول نہیں کرتا اور جہاں انسانی عقل و فہم کا کوئی گزر نہیں۔ اسی طرح نیچے کی جہت میں عالم ناسوت کے بعد عدم آجاتا ہے۔

شیخ ابن عربی  (م  1240 ء )نے ان تنزلات سے متعلق امور کو مختلف مقامات و عبارات میں بیان کیا ہے، اگرچہ انہیں اس تفصیل کے ساتھ کسی ایک مقام پر نہ لکھا ہو۔ جس طرح کوئی کلامی یا فقہی مذہب کسی ایک شخص کے خیالات کا نام نہیں ہوتا اسی طرح صوفی افکار ہیں، لہذا کسی ایک ہی شخصیت کے ہاں سب امور کا تذکرہ پایا جانا ضروری نہیں۔  جس طرح اصول فقہ کی تعلیم کے لئے طلبا کو وہ جامع اصولی نظام پڑھایا جاتا ہے جو کئی اہل علم کی صدیوں کی محنت کے بعد تیار ہوا، اسی طرح صوفی فکر کی تعلیم بھی ایک جامع نظام فکر کے ذریعے کرائی جاتی ہے اور یہاں ہم اسے ہی پیش نظر رکھیں گے۔ مجدد الف ثانی (م  1624  ء ) “مکتوبات” میں فرماتے ہیں کہ شیخ اکبر نے کمالِ معرفت سے اس مُشکل مسئلہ (یعنی توحیدِ وُجُودی) کو واضح اور تشریح والا بنایا نیز اسے ابواب اور فصلوں میں تقسیم کیا اور صرف و نحو کی طرح اسے مدون کیا۔[4] یہاں ہم اختصار کے ساتھ درجات وجود کا ذکر کرتے ہیں تاکہ صوفی فکر قابل فہم ہوسکے۔ ہر مرتبے کے لئے صوفیہ قرآن و سنت سے استدلال کرتے ہیں، اس تعارفی تحریر میں بعض دلائل ذکر کئے جائیں گے۔

مرتبہ اول: مقام لاتعین

مرتبہ لاتعین (unconditioned          or           unqualified) سے مراد ذات باری ہے جو وجود مطلق سے بھی ماوراء ہے (“وجود مطلق” دوسرا مرتبہ ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے)۔ لاتعین وہ مرتبہ و مقام ہے جہاں اندیشہ، قیاس، وہم اور گمان کا گزر نہیں اور عقل و الفاظ یہاں ناپید ہیں۔ وجودیہ کے لٹریچر سے یہ تاثر جنم لیتا ہے کہ لاتعین ذات اور وجود مطلق گویا ہم معنی ہیں اور لاتعین ان کے نزدیک مطلق یا نرا وجود ہے جبکہ شہودیہ کے نزدیک لاتعین ذات اور وجود مطلق الگ مراتب ہیں، یعنی ذات باری وجود مطلق سے ماوری ہے۔ تاہم یہ تاثر اصطلاحات کے خلط مبحث سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ بعض وجودیہ دو مراتب کے لئے ایک ہی لفظ استعمال کردیا کرتے تھے، اصلاً دونوں کے موقف میں فرق نہیں۔

مرتبہ لاتعین کے مفہوم کی ادائیگی کے لئے یہ الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں، ہر لفظ خاص جہت سے اس مفہوم کو ادا کرنے والا ہے:

۱۔ ذاتِ بَحت، ۲۔ ذَاتِ ساذَج، ۳۔ ذَاتِ بِلاِ اعتِبار، ٤۔ غَیب ہُوَیَّة، ٥۔ غَیب الغُیُوب، ٦۔ الغَیب المَسْکُوت عَنْهٗ، ۷۔ مُنقَطِع اَلوِجدانی، ۸۔ مُنقَطِع اَلإِشَارات، ۹۔ مَرتَبَةُ ہُوَیَّة، ۱۰۔ اَزَلُ لااَزال، ۱۱۔ مَجہُول اَلنَعت، ۱۲۔ عَینِ کافُور[5]

مرتبہ دوئم: تجلی اول یا دائرہ وحدت (یا عالم ھاھوت[6])

تجلی کا مفہوم

ذات باری نے اپنا ظہور بذریعہ تجلی فرمایا ہے۔ اس ضمن میں پہلی تجلی کو “تعین اول” یا “وحدت” کہتے ہیں جس نے لاتعین ذات کو باقی تمام تجلیات سے الگ کردیا ہے اور بطور برزخ تمام تجلیات اور لاتعین کے مابین حائل ہوگئی ہے۔ تجلی سے لغوی مراد جلوہ دکھانا ہے جس کا ایک طریقہ ظاہر ہونا اور دوسرا پردہ ھٹا دینا ہے۔ مگر صوفی فکر کے اندر تعینات میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ الله نے خود اپنی ذات سے ایک وجود کو جلوہ بخشا جو صفات الٰہیہ کے وجود و قیام کی وجہ بن گیا ہے۔ تجلی کی اصطلاح قرآن میں مذکور ان الفاظ سے ماخوذ ہے جو اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کی اس خواہش کے جواب میں ارشاد فرمائے کہ اے اللہ مجھے اپنا آپ دکھا۔ ارشاد ہوا:

فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ[7] (پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی)

تجلی کو صوفیہ “تنزل” بھی کہتے ہیں۔ یہاں یہ اپنے لغوی مفہوم میں نہیں ہے کیونکہ تنزل میں کسی شے کا اوپر سے نیچے آنے کا مفہوم ہے جبکہ صوفیہ کے نزدیک بھی ذات باری “الانَ كَمَا كَانَ” ہے، یعنی الله متغیر نہیں ہوا، نیز وہ جہات سے پاک ہے۔ یہاں یہ مجازی معنی میں ہے، یعنی چونکہ بااعتبار لاتعین یہ تجلی ہے اس لیے اس کو تنزل قرار دیا گیا ہے۔ یہ پہلی تجلی اور تجلی اعظم ہے یعنی وہ تجلی جس نے تمام تجلیات کو ذات باری سے بلاواسطہ تعلق سے روک دیا ہے یا جو حجاب بن گئی ہے۔

اس مرتبہ تعین کو سمجھانے کے لیے صوفیہ نے اس کو ایک دائرہ بنام “وحدت” سے بیان کیا ہے۔ ذیل کی صورت میں اس کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اس دائرے کی دو قوسیں ہیں جن کے درمیان ایک برزخ ہے جو دونوں قوسوں کو جدا کرتی ہے جیسا کہ اس شکل سے ظاہر کیا گیا ہے۔ دو قوسوں پر محیط اس دائرے کا نام “وحدت” ہے۔ اوپری اور نچلی قوسوں کا نام علیٰ الترتیب “احدیت” اور “واحدیت” ہے اور جو دو مراتب کو ظاہر کررہی ہیں، دونوں کے مابین جو خط ہے وہ “برزخِ کُبریٰ” کہلاتا ہے۔ مقام “لاتعین” کو دائرے سے باہر دکھایا گیا ہے جو یہ ظاہر کررہا ہے کہ ذات باری اس پہلی تعیین سے ماوراء ہے۔ دو قوسوں اور برزخ کی تفصیل یوں ہے:

شکل 1: دائرہ وحدت

الف) مرتبہ احدیت

احدیت تعین اول ہے، یعنی پہلی تجلی۔ یہ پہلی تعیین “ہونے” (یعنی وجود) کی ایک ایسی قابلیت محضہ ہے جو سب قابلیتوں پر مشتمل ہے، بشمول وہ جمیع صفات و اعتبارات جو وجود اور عدم دونوں سے متعلق ہیں۔ فرض کریں کہ آپ ہر قید، حکم اور نسبت کو ختم کردیں تو آخر میں ایک ایسا وجود باقی رہ جائے گا جو نسبتوں و قیود سے پاک ہوگا، اسے وجود مطلق، ناقابل عدم اور واجب کہتے ہیں۔ اس کے برعکس جس وجود پر عدم جائز ہو اسے ممکن کہتے ہیں۔ باالفاظ دیگر جمیع تعیینات، صفات و اعتبارات کو نظر انداز کرنے کے بعد جو قابلیت محضہ باقی بچے وہ مرتبہ احدیت ہے، اسے اولیت بھی کہتے ہیں اور باطن بھی۔ اس بالائی قوس کی حقیقت اندیشہ یا وہم و گمان یا قیاس یا کسی بھی ادراکی ذریعہ سے ناقابل گرفت ہے، البتہ یہ تجلی اعظم یعنی “وجود” انسانی فکر یا سوچ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اس کا قیام کب، کہاں اور کیسے سے بالکل آزاد ہے، اسی لئے صوفیہ لاتعین کے تعین اول کے تعلق کو تجلی اعظم کے مفہوم کے سوا کسی اور طرح سوچنے سے منع کرتے ہیں کیونکہ مثالیں یہاں ہیچ ہیں۔ اوپری قوس کے برعکس زیریں قوس کا رخ مخلوق کی طرف ہونے کی وجہ سے شئون ہم انسانوں پر ظاہر ہوگئے ہیں، جیسا کہ آگے ذکر ہوگا۔ اس مقام پر صفات اور شئون کی تمیز بھی ختم ہے (نوٹ: تمیز قائم نہ ہونے کا مطلب معدوم ہونا نہیں)۔  اس مرتبے کو  ذات باری کا تنزیہی پہلو بھی کہتے ہیں، سورہ اخلاص میں لفظ “احد” تنزیہی تقاضوں کے بیان کے لئے ہی استعمال ہوا ہے جہاں ذات باری کی شان ضمیر غائب “ھو” سے بیان ہوئی، یعنی وہ ذات جو تعین و ادراک سے ماوراء ہے وہ “احد” ہے، اس سے متعلق ہر ادراک اس کی شان “واحدیت” پر مبنی ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے ۔  حدیث شریف میں آتا ہے:

يا رسولَ الله أين كان رَبُّنا عزَّ وجلَّ قَبلَ أنْ يَخلُقَ خَلقَهُ؟ قال: كان في عَماءٍ ما تَحتَهُ هَواءٌ، وما فَوقَهُ هَواءٌ ثم خلَقَ عَرشَهُ على الماءِ[8]

مفہوم: ایک صحابی نے پوچھا اے اللہ کے رسول مخلوق کو پیدا کرنے سے قبل ہمارا رب کہاں تھا تو آپ نے فرمایا “عماء” میں جس کے نہ نیچے ہوا تھی اور نہ اوپر، پھر اس نے پانی پر اپنا عرش پیدا کیا

“عماء” کا ایک معنی بادل ہے، حدیث کے لفظ “عماء” سے شیخ مرتبہ احدیت مراد لیتے ہیں۔ بادل اپنے سے اوپر اور نیچے ہوا میں معلق ہوتا ہے، شیخ کہتے ہیں کہ “عماء” میں موجود اس تشبیہہ کی ذات باری سے تنزیہہ بیان کرنے کے لئے آپﷺ نے فرمایا کہ اس سے اوپر اور نیچے البتہ ہوا نہ تھی۔ [9]اسی طرح ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ “اللہ تھا جبکہ کچھ اور نہ تھا” ( كَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ غَيْرُهُ[10]

یاد رہے کہ وجود کا معنی “ہونا” ہے اور یہ معنی اسی ذات کے لئے درست ہوسکتے ہیں جو “از خود” ہو (کہ یہ از خود ہونا وجود کے مفہوم میں شامل ہے) اور از خود ہونا صرف ذات واجب کی شان ہے۔ اس کے برعکس جس کا ہونا کسی کے رہین منت ہو وہ “موجود” تو ہوسکتا ہے لیکن “وجود” نہیں، اس لئے کہ وہ ہوتا نہیں بلکہ “ہونا کیا جاتا “ہے۔ اسی لئے صوفیہ کہتے ہیں کہ وجود تنہا ذات باری کو سزا وار ہے، اس کے سوا جو کچھ ہے وہ وجود نہیں (ماسوا اللہ کے ہونے کی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے مختلف پیرائے استعمال کئے جاتے ہیں، مثلاً وجود کا خیال، وجود کا شہود، وجود کی پرچھائی، وجود کا عکس وغیرہ، تحریر کے مناسب مقام پر اس پر بات ہوگی )۔

ب) مرتبہ واحدیت اور اعتبارات شئون

مرتبہ “واحدیت” (یعنی زیریں قوس) میں وجود و عدم کے بعض تعینات شامل ہوجاتے ہیں، یعنی یہاں ذات واحد کی صفت وجود بعض اعتبارات سے جمع یا کثرت کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ عدم کا مطلب وجودی قضئے کی نفی ہے، وجود مطلق کے مدمقابل عدم محض آتا ہے (یعنی “وجود ہے” کے حکم کی نفی “وجود نہیں ہے” بنتی ہے)۔ پھر جوں جوں وجود مطلق کے ساتھ تخصیص کرنے والے احکام لاگو ہوتے جاتے ہیں، “وجود مطلق” متعین و مقید بن جاتا ہے۔ مثلاً “گھر ہے” ایک مطلق حکم ہے، جبکہ “نیلا گھر ہے” یا “چھوٹا گھر ہے” وغیرہ مقید احکام ہیں۔ اسی طرح “گھر نہیں ہے” کے مقابلے میں “نیلا گھر نہیں ہے” مقید نفی یا عدم ہے۔ اسی طرز پر وجود مطلق اگر “نرا ہونا ہے” تو مثلاً “قدرت کا ہونا” وجود مقید ہے (یعنی وجود قدرت کی قید کے ساتھ پایا جارہا ہے)، وجود محض کی نفی اگر عدم محض ہے تو “قدرت نہیں ہے” عدم خاصہ ہے (عدم کا تصور یہاں علمی ہے نہ کہ وجودی)۔ تمام تخصیصی تفصیلات یا احکام اگرچہ کسی مقید چیز کے وجود کے تابع ہوتے ہیں، تاہم مرتبہ اطلاق میں وہ ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً “گھر نہیں ہے” میں “نیلا گھر نہیں ہے” شامل ہے، اسی طرح “نیلا گھر ہے” کا حکم “گھر ہے” میں شامل ہے (کہ “گھر ہوگا” تبھی وہ نیلا ہوگا، اگر گھر ہی نہیں تو نیلے کا سوال نہیں)۔

مرتبہ احدیت و واحدیت میں اطلاق و تقیید کا اسی طور پر فرق ہے، موخر الذکر میں بعض کثرتی اعتبارات پائے جاتے ہیں۔ واحدیت کے یہ کثرتی اعتبارات چار ہیں جنہیں “شناخت شئون” بھی کہتے ہیں (شئون  لفظ شان  سے ہے)۔ اگلے تنزلات میں ان شئون کے تحت صفات ہیں اور اس کے تحت اسماء اور اس سے افعال کا صدور ہے۔ واحدیت کے چار اعتبارات یہ ہیں: وجود، نور، علم و شہود۔[11]

  • وجود: کُل اسمائے غیر مشروطی کی قابلیتِ محض کو کہتے ہیں
  • نور: کُل اسماء مشروطی کی قابلیتِ محض ہے
  • شہود: قابلیتِ شرائط اسماء ہے
  • علم: ان تینوں پر محیط ہے

اسمائے مشروطی اور غیر مشروطی سے مراد اپنے معنی کے لحاظ سے متعددی و غیر متعددی مفہوم رکھنے والے اسماء ہیں۔ جہاں توجہ سیدھی الله کی جانب ہو وہ غیر مشروطی اسماء ہیں، ان کے ظہور کی جہت ذات باری خود ہی ہے۔ مثلاً الحی کا معنی غیر متعددی ہیں نیز اسکے مفہوم کے لئے ذات باری کے سوا کسی غیر کا تصور ہونا ضروری نہیں، اس لئے یہ غیر مشروطی اسم ہے جبکہ المحی (حیات دینے والا) مشروطی اسم ہے کیونکہ المحی میں خیال ذات کے علاوہ کسی غیر کی طرف بھی جاتا ہے جبکہ الحی میں توجہ غیر کی جانب نہیں جاتی۔ جو المحی ہے وہ الحی سے حیات لے کر کسی کو عطا کرتا ہے۔ پس ایسا اسم جو کسی تعین یا تقیید کا تقاضا کرتا ہو وہ مشروطی ہے اور جو اسماء ایسے نہیں ہیں وہ غیر مشروطی ہیں۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اسمائے مشروطیہ کسی پر اثر کرنے یا فعل کی صلاحیت سے عبارت ہیں۔ “قابلیتِ شرائط اسماء” کا مطلب ان دو قسم کی اسماء کی قابلیتوں کا فرق ذات کو معلوم ہونا ہے۔ وجود اور نور میں تفریق شہود نے قائم کی ہے۔ شہود کی تعریف یوں بھی ہے کہ یہ خود اپنی ذات کا خود پر حاضر ہونا ہے، جیسے ہم خود پر خود حاضر ہیں غائب نہیں البتہ نیند میں غائب ہوجاتے ہیں۔ علم کی چادر نے ان تینوں کو گھیر رکھا ہے اور یہ ذات کا اپنے بارے میں علم ہے۔ تفہیم کی خاطر ان میں یوں بھی فرق کیا جاسکتا ہے:

  • از خود پایا جانا وجود ہے
  • غیر کے پائے جانے کو ممکن کرسکنا نور ہے
  • ان دونوں کا حضور شہود ہے
  • ان سب کا احاطہ علم ہے

یاد رہے کہ تعین اولی میں اسماء متحقق و ظاہر نہیں ہیں بلکہ صرف ان کی قابلیتیں باقی رہ جاتی ہیں جو مشروطی اور غیر مشروطی میں منقسم ہیں اور مرتبۂ شُیُون میں یہ اعتباری ہیں۔ شرائطِ اسماء کی قابلیت “اعتباری” ہے جس سے اسماء اعتباری طور پر مشروط اور غیرمشروط قابلیت ہونے والے میں تقسیم ہیں۔ اس سب پر شان العلم اعتباری طور پر حاوی ہے نیز ان اعتبارات اور قابلیتوں کی شناخت کا ماخذ بنی ہوئی ہے۔ اصلاً یہ تفریق مفہوم کی ادائیگی کو ہے ورنہ ان میں باہم داخلی سطح پر ایسی کوئی تفریق نہیں ہے جو حقیقی ہو۔ اسی لیے یہ اعتبارات کہلاتے ہیں۔ یعنی ہمارے (جہت تحت کے) لحاظ سے یہ شہود نور و علم سے جدا مگر بالائی قوس میں کوئی تفریق موجود نہیں ہے (ہم دیکھیں گے کہ اس پہلی تجلی کے زیریں قوس میں اعتبارِ وجود نے تجلی ثانی میں جو تفصیلِ وحدت ہے اسے قیام دیا ہوا ہے جن پر اسماء متفرع ہیں اور ان پر افعال۔ یعنی صفات دوسری تجلی میں اعتبار وجود پر قائم ہیں اور شئون پہلی تجلی میں شان العلم سے ظاہر و قائم ہیں)۔

چونکہ ہر اعتبار یا مرتبہ اپنے سے ماقبل کا لاعین ولا غیر (ھو ولا ھو) ہوتا ہے، یہی معاملہ مرتبہ واحدیت کا احدیت سے ہے۔ یعنی اس لحاظ سے اعتبارات شئون وجود مطلق کے عین ہیں کہ وجود کی بنا پر یہ قائم و موجود ہیں لیکن اس لحاظ سے اس کا غیر ہیں کہ شئون وجود مقید ہیں نہ کہ وجود مطلق۔

ج) برزخ کبری یا حقیقت محمدیہﷺ

اوپر والی قوس کا رخ “لاتعین” کی طرف ہے اور زیریں قوس کا “تعین” کی طرف، دونوں کے اِن احکام کو الگ الگ کرنے کا کام برزخِ کُبریٰ کا ہے جو ذات اور اس کی تجلیات میں فرق کرنے والی تجلی ہے۔ یہاں اتنا سمجھنا کافی ہوگا کہ یہ نچلے مراتب کو اوپری مرتبے سے الگ کرنے والی “فصل” (differentiating          factor) ہے۔ اس برزخ کبری کو حقیقتِ محمدیہﷺ کہتے ہیں۔  برزخ دراصل دو مختلف چیزوں میں واصل اور فاصل شے کو کہتے ہیں، جیسے آخرت اور اس دنیا کی زندگی کے مابین موت برزخ ہے، یا پھر ایک شیشے کا گلاس جو پانی سے لبالب بھرا ہوا ہے وہ اس پانی اور بیرونی ماحول میں تفریق کا ذریعہ بن گیا ہے۔ برزخ کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ دونوں اطراف کے ساتھ متصل ہوتی ہے، اسی لئے یہ انہیں منفصل یعنی الگ کرنے کا کام دیتی ہے۔ کوئی شے دو اشیاء میں حد فاصل (dividing          line) تبھی بنتی ہے جب وہ انہیں ملانے والی ہو، اس کا ایک رخ ایک شے کی طرف اور دوسرا رخ دوسری شے کی طرف ہو، یوں یہ برزخ ایک پہلو سے دونوں کی جامع بھی ہوتی ہے مگر ایک لحاظ سے دونوں سے الگ (یہی وجہ ہے کہ جب دو تصورات کو لاگو کیا جائے تو ان کے مابین باؤنڈری پر ایسی اطلاقی صورتیں جنم لیتی ہیں جو برزخی نوعیت کی ہوتی ہیں، یعنی ان کا جھکاؤ من وجہ ہر دو طرف ہوتا ہے)۔ برزخ کا یہ دوگانہ پہلو شیخ ابن عربی کی فکر کا ایک اہم ستون ہے اور اسے سمجھے بغیر ان کی فکر میں “ھو ولا ھو” کا معاملہ سمجھنا ممکن نہیں رہتا۔ شیخ کی فکر میں دو مراتب وجود کے مابین خلا یا گیپ نہیں ہوتا، ہر درجہ اپنے سے ماقبل اور مابعد کا عین اور غیر دونوں ہوتا ہے (یعنی من وجہ “ھو” اور من وجہ “لاھو”)۔ ارسطوی منطق میں کسی شے کا تصور قائم کرنے کا طریقہ ایسی حد فاصل تلاش کرنا تھا جو ایک شے کو جامع و مانع طور پر دوسری سے الگ کردے۔ شیخ کو حد فاصل کے اس تصور پر اعتراض ہے، آپ کے مطابق یہ حد فاصل دراصل کثرت کو وحدت میں بدلنے والی برزخ ہوتی ہے۔ [12] باالفاظ دیگر ہر برزخ حد فاصل ہونے کے ساتھ ساتھ حد جامع بھی ہوتی ہے۔ اس بنا پر شیخ کا تصور دوئی ارسطوی منطق کے برخلاف کچھ الگ نوعیت کا حامل ہے۔ فی الوقت شیخ کے تصور برزخ کی اتنی تفصیل کافی ہے اگرچہ اس میں کچھ مزید عمیق پہلو بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ شیخ تنزیہہ و تشبیہہ کے مسئلے کو بھی اسی برزخی تصور کے طور پر دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ تنزیہہ بھی ہے اور تشبیہہ بھی جیسا کہ قرآن میں آیا:

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ[13]  (اور اس کی مانند کوئی شے نہیں، اور وہی سننے و دیکھنے والا ہے)

یعنی لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ میں تنزیہہ کا بیان ہے تو وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ میں تشبیہہ کا۔ یہاں بھی خوب دھیان رہے کہ یہ جو برزخ کبری ہے، اسے بھی وجود مطلق سے “ھو ولا ھو” کی نسبت ہے کہ یہ مرتبہ احدیت و واحدیت کی جامع ہے اور مرتبہ واحدیت بہرحال اعتبارات سے عبارت ہے۔ یہاں سے حقیقت محمدیہﷺ اور ذات باری کے تعلق سے متعلق وہ بدگمانیاں صاف ہوجاتی ہیں جن کا شکار صوفی فکر کے انجان ناقدین ہوجاتے ہیں اور وہ اس معاملے کو شرک بنا ڈالتے ہیں۔ چونکہ بزرخ کبری یعنی حقیقت محمدیہﷺ کو دیگر تمام احکام و تعیینات و مراتب کے مقابلے میں تجلی اول سے سب سے زیادہ قرب حاصل ہے، اسی کے لئے کہا گیا: “بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر”۔ قرآنی آیت “فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ” [14] اس قرب کا بیان ہے (نوٹ: قوسین کا تصور آیت کے الفاظ قوسین سے ماخوذ ہے)۔ مخلوقات پر اپنی اولیت کو آپﷺ نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام روح و جسم کے مابین تھے،[15] یعنی نہ صرف یہ کہ آپﷺ موجود تھے بلکہ نبی بھی تھے جبکہ دیگر انبیاء دنیاوی زندگی کے وقت ہی نبی ہوئے۔ [16] ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے آپﷺ کے نور کو مقدر فرمایا۔[17]

ہم آگے دیکھیں گے کہ ہر تعین کی الگ برزخ ہے، لہذا جب برزخ کا ذکر تعین اول میں ہو تو مراد برزخِ کُبریٰ ہوتی ہے جو یہاں اس دائرے کو دو قوسوں میں بانٹ رہی ہے۔ اس برزخ کے نام یہ ہیں: ۱۔ برزخ کُبریٰ، ۲۔ برزخِ اکبر، ۳۔ برزخِ اعظم، ٤۔ برزخِ جامعہ، ٥۔ برزخِ اَوَّل، ٦۔ حقیقتِ مُحمَّدؐیہ، ۷۔ عُلُو

مرتبہ سوئم: تجلی دوئم یا دائرہ وحدانیت (یا عالم لاھوت[18])

دوسری تجلی پہلی تجلی کی تفصیل ہے، یعنی وحدت (تجلی اول) اگر اجمال ہے تو تجلی ثانی یعنی وحدانیت اس کی تفصیل، اور تفصیل کا مطلب وجود مطلق پر تعیین یا تخصیصی احکام کا اضافہ ہونا ہے۔ تعین ثانی کے لئے مختلف مصنفین کے ہاں یہ نام بھی استعمال ہوتے ہیں:

۱۔ تجلیٔ ثانی، ۲۔ حقیقتِ انسانی، ۳۔ منتهی العالمین، ٤۔ حضرت اسماء والصفات، ٥۔ احدیت الکثرت، ٦۔ وُجُودِ اضافی، ۷۔لاہوت، ۸۔ حضرت الوہیت، ۹۔ فلک الحیوٰۃ، ۱۰۔ منشاءالسوےٰ، ۱۱۔ عالم جبروت، ۱۲۔ معدن الکثرت، ۱۳۔ نفس رحمانی، ١٤۔ قابلیت ظُہُور، ١٥۔ منشاءکثرت، ١٦۔ معدن الکثرت، ۱۷۔ حضرت جمع الوجود، ۱۸۔ منتہیٰ العابدین، ۱۹۔ عَما، ۲۰۔ حقیقت انسانی

اس دائرے کی بھی دو قوسیں ہیں اور ایک برزخ جیسا کہ شکل نمبر 2 میں دکھایا گیا ہے۔ اوپری قوس کو “ظاہر الوجود” اور نچلی کو “ظاہر العلم” کہتے ہیں۔ دائرہ دوئم چونکہ پہلے دائرے کے مقابلے میں مقید ہے اس لئے یہ اس کے اندر ہے (آگے ان شاء اللہ ایک جامع شکل پیش کی جائے گی)۔ اس دو قوسوں اور بزرخ کی تفصیل یہ ہے۔

الف) ظاہر الوجود یا بحر الوجود

یہ اس دائرے کی اوپری قوس ہے۔ پہلے تعین میں اس بات کا ذکر ہوا کہ تجلی باری کی بدولت انسانی فکر کا جو بلند ترین شعور ہے وہ وجود ہے اگرچہ اس وجود کی حقیقت و ماہیت سے ہم واقف نہیں ہوسکتے، ماسوا اس سے کہ “وہ ہے”۔ جو وجود مطلق مرتبہ احدیت میں پنہاں تھا، اس قوس میں یہاں بطور “نفس الرحمٰن” (breadth           of            the           merciful) ظاہر ہوگیا ہے اور جو صفات و اسماء اور ان کے تحت مخلوق کے قیام کا سبب بن گیا ہے (دیگر مراتب کی طرح “نفس الرحمن” کی اصطلاح بھی نص سے ماخوذ ہے)۔[19] اس مرتبے میں کثرت مائل بوحدت ہے یعنی مرتبہ بالا کے اجمال کی تفصیل ہے۔ یہ مرتبہ اپنے اوپری مرتبے کے لحاظ سے اعتباری اور نیچے والوں کے لحاظ سے حقیقی ہے۔ علمی اعتبار سے یہاں کثرت حقیقی ہے اور وحدت اعتباری ہے اور یہ تمام اسماء الٰہیہ کو گھیرے ہوئے اور ان کی حقیقت ہے۔ نفس الرحمن کے اسی پہلو کی بنا پرشیخ ابن عربی کہتے ہیں کہ کائنات الله کے کلمات سے عبارت ہے اور از روئے قرآن ان کلمات الله کی تعداد کا شمار ناممکن ہے۔

شکل 2: دائرہ وحدنیت یا حضرت الوہیت

ب) ظاہر العلم یا بحر العلم

دوسری قوس کو “ظاہر العلم” کہتے ہیں، مرتبہ واحدیت میں شئون کا علمی اعتبار یہاں اسماء و صفات کے عدمات خاصہ کی صورت نمایاں ہوگیا ہے (عدمات خاصہ کی تشریح آگے آرہی ہے)۔ اس میں کثرت اعتباری (یعنی ظاہر) ہے اور وحدت حقیقی (یعنی باطن)۔ یہ تمام اسمائے کونیہ یعنی مخلوقات کے اعیان ثابتہ کو گھیرے ہوئے ہے، اعیان ثابتہ اسمائے مشروطیہ کے برعکس انفعالی استعدادات ہیں جس کی تفصیل ذیل میں آرہی ہے۔ چونکہ اس مرتبے پر اعیان ثابتہ وجود خارجی نہیں رکھتیں بلکہ ان کا تحقق مرتبہ علم میں ہے، اس لئے اس قوس کو ظاہر یا بحر العلم کہتے ہیں۔ اس دائرے کی برزخ کی وضاحت سے قبل شان، صفت اور اسم کا مفہوم پیش نظر ہونا مفید ہوگا جو مراتب وجود کی بحث میں تجرید (abstraction) کی مختلف سطحوں کو ظاہر کرتے ہیں۔

مبدا، شان، صفت اور اسم کا فرق

جب شان العلم کہتے ہیں تو “ذی العلم” ذات مراد ہے، اور جب علیم کہتے ہیں تو مراد اگرچہ وہی ذات ہے مگر علم کی نوعیت مخلوق کی معلومات سے عبارت ہے۔ یعنی علم جو کہ صفت ہے، اس کی جہت مخلوق یا معلوم کی جانب ہے جبکہ شان کی نسبت ذات کی جانب۔ “ذی القوۃ” اور “قدیر” ہونے میں یہی فرق ہے، اول الذکر شان جبکہ موخر الذکر صفت ہے۔ شئون میں ملکیت کا مفہوم بھی ہے، یعنی جو ذی القوۃ ہے وہ قوت والا اور قوت کا مالک ہے نیز اس میں خود اپنے اوپر شہودو حضور  ہونے کا مفہوم ہے، پس شان صفت سے قبل  ذات باری کا ادراک و حضور خود اس پر اور اس کے لئے ہونا ہے اور یہ ذات و صفات کے مابین برزخ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ کی شئون ذاتیہ کا ظہور کسی پر نہیں ہوتا اور وہ غیب الغیب میں ہیں۔ صفت شان پر متفرع ہوتی ہے۔ “اعتبارات شئون” چار ہیں (یعنی اعتبارات اربعہ) جن کی تفصیل پیچھے گزر چکی، ان “اعتبارات شئون” کو مبدا شئون بھی کہا جاتا ہے۔ رہے شئونات یا شانیں، تو وہ لامتناہی ہیں جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [20]  (وہ ہر آن نئی شان میں ہوتا ہے)۔ شیخ ابن عربی کہتے ہیں کہ اللہ کی شانوں کی کثرت کا عالم یہ ہے کہ وہ ذات کسی ایک شان کے اظہار دو مرتبہ نہیں کرتی بلکہ ہر آن وہ ایک الگ شان کے ساتھ جلوہ گرہ ہوتا ہے، یعنی نہ تو کسی دو مظاہر میں ایک شان کا ظاہر ہوتا  اور نہ ہی کسی ایک مظہر میں دو مرتبہ ایک ہی شان کا۔ [21]   صفات ذاتیہ سات یا آٹھ ہیں (حسب اختلاف اشاعرہ و ماتریدیہ)، انہیں “امہات صفات” کہا جاتا ہے۔ جمیع صفات فعلیہ کا رجوع ان امہات صفات کی جانب ہے۔ سب صفات کا قیام وجود کے ساتھ ہے مگر یہ وجود پر زائد بھی ہیں اور الگ الگ مفہوم بھی۔ اسی لئے متکلمین کی طرح صوفیہ کے ہاں بھی انہیں لاعین ولا غیر (ھو ولا ھو) کہا جاتا ہے۔ اللہ کا ظہور مخلوق کے لئے بواسطہ یا بحوالہ صفات ہے اور ان صفات کے سوا اس کا کوئی ادراک ممکن نہیں۔  “شان” چونکہ “صفت” کے مقابلے میں ایک درجہ مزید تجرید یا تعین کا کم تر درجہ ہے، لہذا اسے صفت سے اوپری مرتبے پر رکھا گیا ہے۔

اسم کا لغوی معنی “نام” ہے جس کی جمع اسماء ہے۔ جس لفظ یا عبارت سے الله سبحانہ کی طرف اشارہ کیا جائے وہ اسم ہے، چاہے وہ اشارہ باعتبار اس کی ذات ہو یا باعتبار کسی صفت۔ صفت موصوف کا حال بیان کرتی ہے، یہ ایک معنی ہے جو ذات کے ساتھ قائم ہے اور اسماء ان صفات یا معنی کی جانب اشارے کے نام ہیں۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اسماء صفات کا ظہور اور افعال کے بطون ہیں، لہٰذا صفت کسی اسم کا باطن یا حقیقت ہوتی ہے۔ ان کے عکوس (opposites           and          negations) صفات کی نشانیاں اور اسماء کے آثار ہیں۔ صفات کی اصلیت الوہیت اور اسماء کی اصل ربوبیت ہے۔ کل صفات کا اشتقاق اسم “اللہ” سے ہے اور کل اسماء کا اشتقاق “رب” سے ہے۔ انہیں ذات باری کے جمالی اور جلالی حجابات کہتے ہیں۔ صوفیہ کے نزدیک جو شخص ان حجابات سے آگے نظر بڑھاتا ہے وہ حد سے تجاوز کرتا ہے کیونکہ اسماء و صفات الہیہ سے ماوراء حقائق کی نوعیت تک رسائی کا کوئی انسانی ذریعہ موجود نہیں۔

ج) برزخ صغری یا حقیقت آدمیہ

اس دائرے کی برزخ “حقیقت آدم” کہلاتی ہے۔ یہ بھی نہ عین ذات ہے اور نہ غیر، البتہ یہاں اسماء کی تمیز قائم ہے جیسا کہ قوسین کی تفصیل سے واضح ہوا۔ اس کو “حضرت الوہیت” بھی کہتے ہیں اس لئے کہ ذات باری کے “اله” ہونے کا تعلق مخلوق کی جہت سے ہے اور مخلوقات کا پہلا تعین اس دوسری تجلی میں بصورت اعیان ہے (لفظ “حضرت” یہاں “حضور” سے ہے، یعنی  presence)۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ ذات باری کا بلند ترین مرتبہ “اله” ہونا نہیں بلکہ “احد” ہونا ہے، الوہیت کی نسبت مخلوق کے اعتبار سے متحقق ہوتی ہے جبکہ ذات باری “ہونے” کے لئے مخلوق کے اعتبار کی محتاج نہیں۔ پس “اله” اور “احد” میں صوفیہ کی توجہ “احد” پر بھی رہی اور اسی بنا پر “لا اله الا الله” کی آخری منزل وہ “لا موجود الا الله” کہتے ہیں (پہلے دائرے کی اوپری قوس یعنی مرتبہ “احدیت” یاد کیجئے)۔ قرآن میں ہر جگہ “اله واحد”کی ترکیب آئی ہے نہ کہ “اله احد”، یعنی احدیت اور واحدیت دو الگ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور صوفیہ دونوں مراتب میں فرق کرتے ہیں نہ کہ مترادف۔ سورہ اخلاص میں “احد”  کی بات ہوئی ہے۔

اس دائرے کا مرکزی اسم الله ہے جو حقیقت انسانیہ یا آدمیہ کا مرکز ہے۔ سب اسماء کا رجوع اسی اسم کی طرف ہے اور یہی ان سب کا سرچشمہ فیض ہے۔ یہاں اسم سے اسما کو فیض ملنے کی بات ہورہی ہے یعنی وہ فیض جو اسم الله سے باقی تمام اسماء کو ہورہا ہے، نہ کہ اس فیض کی جو اسم سے اس کے مربوب (یعنی عین ثابت) کو حاصل ہوتی ہے، جیسے رب اور مربوب کی نسبت جہاں خلق کو فیض منتقل ہوتا ہے (انہیں “فیض اقدس” و “فیض مقدس” کہتے ہیں جس کی وضاحت آگے آرہی ہے)۔ اسی لئے الله اسما کا مرکز اور ذاتی اسم یعنی فیاض ہے، اکثر کے نزدیک اسم اعظم الله ہے۔ اس تجلی کا نام حضرت الوہیت اسم الله کی وجہ سے ہے۔ اس تعین کو چونکہ نچلے درجات میں موجودات سے خارج میں تحقق کی نسبت ہے اس لئے اسے “وجود اضافیہ” بھی کہتے ہیں۔

برزخ سے اوپر اسمائے الٰہیہ ہیں، نیچے اسمائے کونیہ ہیں اور دائرے کا مرکز حقیقت آدمیہ یا اسم الله ہے کہ تمام اسماء کا باطنی یا ظاہری رجوع اسی کی جانب ہے، اس لئے اسے برزخ کہا گیا ہے۔ صفات اور اسماء اوپری قوس میں ایک دوسرے پر متفرع ہیں اور اسی قوس میں صفات میں سے سات امہات صفات (حیوٰۃ، علم، قدرۃ، ارادۃ، سماعۃ، بصارۃ اور کلام) کا ظہور ہوا۔ حقائقِ الٰہیہ بھی اسی دائرے یا تعین کا نام ہے جو اسمائے الہیہ و اسمائے کونیہ سے عبارت ہیں۔ آدم علیہ السلام چونکہ از روئے آیت عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا[22]  (اللہ نے آدم کو سب اسماء سکھائے) ذات باری کے تمام اسماء و صفات کے جامع ہیں، اس بنا پر اس دائرے کی برزخ حقیقت آدم کہلاتی ہے جو تمام حقائق الہیہ کی جامع مظہر ہے۔ حدیث خلق الله آدم علی صورته[23]  (اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا) کا یہی مفہوم ہے۔ اس جامعیت ہی کے سبب آدم علیہ السلام خلیفہ بننے کے مستحق قرار پائے۔

اعیان ثابتہ کا مفہوم

اعیان ثابتہ حقائق الٰہیہ سے عبارت ہیں جو اسماءِ الٰہیہ پر مشتمل ہیں اور جو اعیانِ ممکنات یا اسمائے کونیہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اسمائے الٰہیہ سے مُراد ایسی فعلی استعدادات (active         potentials) یا وہ خاص معنی ہیں جو حق تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوں۔ اسمائے کونیہ وہ ہیں جن کے معنی مخلوق کے ساتھ قائم ہوتے ہیں اور یہ انفعالیت یا اثر قبول کرنے (passivity) کی استعداد کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسمائے کونیہ کی پرورش اسمائے الٰہی کے تحت ہوتی ہے، اس لیے اسمائے الٰہیہ ارباب ہیں اور اسمائے کونیہ مربوب۔ مثلاً “خالق” اسم الہی ہے جس کا مربوب “مخلوق” ہے۔ “البدیع” اسم الہی ہے، اسمائے کونی میں اس کا مربوب “عقل کل” ہے۔ اسم الٰہی “مُحیط” ہے جس کا مربوب “عرش” ہے۔ الغرض صفات و اسمائے الہیہ کے عکوس (opposites          or negations)  صفات کی نشانیاں اور اسماء کے آثار ہیں۔ مزید وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ اسمائے کونیہ یا ممکنات اسماء الہیہ کی تاثیرات کے مدمقابل وہ انفعالی تراکیب (combinations) ہیں جو علم الہی میں ازل سے مقدر اور ثابت ہیں۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ عالم امکان میں اسمائے الہیہ کی تجلیات سے جو کچھ ظاہر ہونا (یا موجود ہونا) تھا یہ ان سے متعلق علم الہی میں ثابت شدہ صورتیں ہیں۔ مثلاً زید الله کے فلاں فلاں اسماء کی تجلی کا مظہر ہوگا وغیرہ، یوں ہر مخلوق کا عین یا استعداد یا صورت علم الہی میں ثابت ہے۔ اسی لئے اعیان ثابتہ کو اعیان ممکنہ کے حقائق کی علمی صورتیں کہا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اس مرتبے (یعنی تعیین ثانی) پر اسمائے کونیہ مخلوق ہو کر خارج میں موجود نہیں ہیں بلکہ صفت علم میں ثابت ہیں، یعنی اس مرتبے پر یہ اسمائے کونیہ مخلوق ہو کر خارج میں موجود نہیں ہیں بلکہ علم میں بطور صفات الہیہ کے عکوس ثابت ہیں، اگرچہ اپنا رخ یہ مخلوق کی جانب رکھتے ہیں۔ جو شے وجود حاصل نہیں کرسکتی، یعنی ممتنع ہو، وہ اسمائے کونیہ سے محروم ہوتی ہے کہ اگر وہ اسم کونی ہوتا تو یا ظاہر ہوچکتا یا ہورہا ہوتا اور یا ہوجانے والا ہوتا۔ چونکہ اعیان ثابتہ تعیین کے مراتب میں سے ہیں، لہذا اسمائے کونیہ یا اعیان ثابتہ ذات باری کا صرف عین نہیں ہیں جیسا کہ ناقدین شیخ ابن عربی کو شبہ لگا اور انہوں نے شیخ پر خالق و مخلوق کے ایک ہونے یعنی اتحاد کا حکم لگا دیا۔ البتہ یہ اعیان ثابتہ بایں معنی حقائق کی طرح ہیں کہ اگر اسمائے الہیہ بطور تاثیری استعدادات ثابت حقائق ہیں تو ان کے برعکس انفعالی استعدادات بھی ثابت شدہ حقائق ہیں۔ یعنی اگر خدا کا قادر ہونا حقیقت ہے تو اس کے برعکس عاجزی بھی ایک ثابت حقیقت ہے (کیونکہ “قدرت کی نفی” بھی ثابت ہے اور وہی عاجزی کہلاتی ہے)، اگر اس کا بصیر ہونا حقیقت ہے تو بصارت نہ ہونا یعنی  اندھا پن بھی حقیقت ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان اعیان کے خارجی وجود کی نوعیت پر ان شاء الله آگے بات ہوگی۔ یہاں یہ نوٹ کیجئے کہ شیخ کے مطابق از روئے قرآن وجود خارجی یا تخلیق کا معاملہ انہی اعیان ثابتہ سے متعلق ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا:

وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ[24] (اور ایسی کوئی شے نہیں مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم اسے معین مقدار میں نازل کرتے ہیں)

اور “کن” کا حکم بھی انہی سے خطاب ہے:

إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ[25] (اور اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے کہتا ہے ہوجا تو وہ جاتی ہے)

پس اس دائرے میں بالائی قوس کو دیکھیں تو مائل بہ وحدت ہے یعنی ان اسماء کی اصل یا حقیقت صفات الٰہیہ کی طرف لوٹ رہی ہے اور ان صفات کا رجوع نفس الرحمن کی جانب اور نفس الرحمن کا رجوع پہلی تجلی کی اوپری قوس میں وجود مطلق کی جانب، جبکہ زیریں قوس کو دیکھیں تو یہ پہلی تجلی کی زیریں قوس میں اعتبارات شئون کی کثرت کی جانب مائل ہے، اس زیریں قوس میں اعیان ممکنہ مزید کثرت کے ساتھ ہیں اور پھر یہ اگلے مرتبے میں افعال کی طرف نزول کررہی ہے۔ اسی لئے اس دوسرے مرتبہ تعین کو وحدت در کثرت اور کثرت در وحدت، یعنی موصوف کا ایک اور صفات و اسماء کا لامتناہی ہونا، کہتے ہیں۔ وحدت اور کثرت کے اعتباری ہونے کی بنا پر اس دائرے کی بزرخ کو “حضرت الجمع” بھی کہتے ہیں۔ نیچے کی جہت سے دیکھیں تو اس مرتبہ تعین تک اسماء نے وجود کو محجوب کر رکھا ہے (دوسری قوس کو بحر العلم اسی لئے بھی کہتے ہیں، یہاں ہمارے لحاظ سے وجودی حقیقت محجوب اور علمی حقیقت نمایاں ہے)۔ اسی وجہ سے ابتدائی دو تنزلات کو علمی کہا جاتا ہے اور یہاں تک جو بھی ترتیب ہے (یعنی شئون پر صفات کا، صفات پر اسماء کا اور اسماء پر اعیان کا متفرع ہونا) اسے “حرکت علمی” کہتے ہیں نہ کہ زمانی و مکانی۔ مخلوق ذات باری کا جو بھی ادراک کرسکتی ہے وہ اسی مرتبے سے متعلق ہے۔ ایک حدیث قدسی میں آتا ہے :

كُنْتُ كَنْزًا مخفياً فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ خَلْقًا[26] (اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ پہچاناجاؤں تو میں نے مخلوق کو پیدا کیا)

یہاں پہلا حصہ  (كُنْتُ كَنْزًا مخفياً ) مرتبہ احدیت کا بیان ہے اور دوسرا مرتبہ واحدیت کا۔

مرتبہ چہارم : تجلی سوئم یا دائرہ روحانیت (یا عالم جبروت )

ابتدائی دو دائروں کے بعد نچلے تین مراتب کا تعلق امور کونیہ سے ہے، قرآن میں اسے “کن” سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان دائروں میں ایسے اسماء کی تجلیات ہیں جو اسماء کے غیر کا تقاضا کرتی ہیں۔ اسی لئے یہاں اسم خالق اور اس کے تحت صفات فعلیہ کا اثر ظاہر ہے جیسے اسم المصور، اسم الرزاق وغیرہ۔ ہم دیکھیں گے کہ اسی لئے خالق و مخلوق کے مابین یہاں غیریت گہری و حقیقی ہے۔ از روئے آیت وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ[27] (میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے) چونکہ ذات باری کی رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کررکھا ہے، تو “صفت رحمت” یہاں باطن ہے۔ اس بنا پر تیسرے مرتبے کی اوپری قوس کو “الرحمۃ” کہتے ہیں جیسا کہ شکل 3 میں دکھایا گیا ہے۔ اس تیسرے تعین کو “عالم ارواح” و “عالم جبروت” وغیرہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں ارواح کا ظہور ہے، یہاں سب کچھ نور سے متعلق ہے، نور بمعنی منور کرنے یا ظاہر کرنے والا۔

اوپری قوس ظہور ملأ اعلیٰ ہے جہاں انبیاء و صلحاء کی ارواح ہیں۔ لوح، کتاب، قلم و کرسی سب اوپری قوس میں ہیں اور یہیں عرش سے بالا وقوعِ استَوی ہے۔ متکلمین کی اصطلاح میں جنہیں صفات خبریہ یا متشابہات کہتے ہیں جیسے کہ ید (ہاتھ)، ساق (پنڈلی) وغیرہ، وہ بھی اوپری قوس میں ہیں اور اس موقف کی رو سے یہ صفات دراصل خلق و افعال سے متعلق ہیں۔ یعنی ایسی صفات چونکہ نصوص میں کسی شے سے متعلق ہو کر بیان ہوئی ہیں اس لئے انہیں صفات فعلیہ کے تحت رکھا جاتا ہے۔ مثلاً از روئے حدیث “ساق” کی تجلی سے اہل ایمان کو ذات باری کی زیارت ہوگی،[28] “قدم” کی تجلی سے جہنم بھرے گی،[29] “اصابع” (انگلیاں) ایسی تجلی ہے جو مخلوق کے قلوب پلٹ دے،[30] اسی طرح از روئے قرآن “یدان” (دو ہاتھ) سے آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی [31] جس سے مراد اللہ کی صفات جمال و جلال ہیں کہ آدم سب صفات کے مظہر تام ہوئے وغیرہ (صوفیہ ذات باری کی تمام صفات و اسماء کو صفات جمال و جلال میں تقسیم کرتے ہیں)۔ اس دائرے میں دو قسم کے ملائکہ ہیں، ایک وہ جو مشاہدہ وحدانیت میں غرق رہتے ہیں، انہیں قران کی اصطلاح میں “عالین” کہا جاتا ہے اور یہ اوپری قوس میں ہیں۔ [32]زیریں قوس میں کارکنان قضا و قدر سے متعلق ملائکہ ہیں اور عام ارواح انسانیہ بھی یہاں ہیں۔ ذریت آدم سے “عہد الست”[33] نیز  زمین و آسمان اور پہاڑوں پر امانت کا پیش کیا جانا [34] بھی اسی عالم سے متعلق امور ہیں۔

شکل 3: دائرہ روحانیت یا عالم ارواح

دائرے کا مرکز یا برزخ اسم “الخالق” ہے اور یہ اوپری مرتبے یا تعین میں اسمائے کونیہ یا اعیان ثابتہ کو ظہور میں لاتا یا ایجاد کرتا ہے۔ بالائی قوس کا باطن یعنی اسم “الرحمٰن” بتا رہا ہے کہ تخلیق کا فعل اللہ کے لیے اضطراری نہیں بلکہ یہ اس کی رحمت سے ہے۔ یاد رہے کہ خلق کی تجلی نرا صدور نہیں ہے بلکہ ارادی ہے۔ قرآن میں جو ذکر ہوا کہ ہم نے ہر شے کو گن رکھا ہے، وہ اس عالم اور اس سے مابعد تجلیات کا معاملہ ہے کہ یہاں سے افعال کے اثرات شروع ہوگئے ہیں۔ اس کی برزخ کو “عرش” بھی کہتے ہیں جو عالم ارواح سے شروع ہونے والے ایجاد کے تمام سلسلوں کا احاطہ کرنے والا ہے، “استوی علی العرش” بھی اسی سے متعلق ہے اور اسی طرح حاملین عرش فرشتے بھی۔

اس دائرے کی زیریں قوس کو قہر و غضب کہتے ہیں کہ جزا و سزا کا نظام یہاں جاری ہے۔ اس لیے یہاں وہ فرشتے متحقق ہیں جو عالم سفلی سے متعلق یا امور جہنم سے تعلق رکھتے ہیں۔ مخلوق کا وجود رحمت سے ہے، قہر و غضب سے کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ صفات رحمت و محبت کی بنا پر ہیں۔ ذات باری کا کسی سے دشمنی یا اس پر غضب فرمانا اصلاً اپنے محبوب بندوں سے محبت و رحمت کا اظہار ہے۔ یعنی چونکہ ذات باری نے محمؐد ﷺ کو پسند فرمایا تو ان کے دشمن ابتر کے حکم میں آئے اور ابولہب دشمن قرار پایا، حضرت موسی علیہ السلام کی بنا پر ہی فرعون کے ذکر کو بقا ملی وغیرہ۔ پس جو ظاہراً قہر و غضب ہے، باطناً وہ رحمت و محبت ہے۔

فیضِ اقدس اور فیضِ مُقدس کا مفہوم

شیخ ابن عربی کے مطابق فیض اقدس وہ تجلی ذاتی ہے جو اعیان ثابتہ کی صورت اشیاء کے وجود و استعدادِ کا باعث ہوئی۔ فیض مقدس ان تجلیاتِ کو کہتے ہیں جو اعیان کے ظہورِ خارجی، ان کے تمام لوازم اور توابع کی موجب ہیں۔ گویا فیض اقدس اسم الہی سے عین ثابت کا تعلق ہے جبکہ فیض مقدس عین ثابت سے وجود خارجی کا۔ موخر الذکر فیض اول الذکر پر مرتب ہوتا ہے۔ چونکہ اعیان ثابتہ کی حقیقت اسمائے الہیہ ہیں، اس لئے اعیان ثابتہ کے اثبات کے لحاظ سے ذات باری “اول و باطن” ہے۔ اگلی بحث سے واضح ہوگا کہ ان معدوم اعیان کا بطور وجود ظاہر ہونا چونکہ وجود ذات باری کی تجلی سے ہے، اس پہلو سے ذات باری ہی “آخر و ظاہر” ہے۔ فیض اقدس و مقدس کو الگ کرنے کی بنیاد نصوص میں لفظ “خلق” کا استعمال ہے۔ خلق کا مطلب مقدر یا متعین کرنا ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہوا:

أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ[35]  (آگاہ ہوجاؤ کہ خلق اور حکم سب اسی کا کام ہے)

شیخ کہتے ہیں کہ یہاں خلق “تقدیر” کے معنی میں ہے نہ کہ ایجاد کہ ایجاد کا تعلق امر سے ہے جیسا کہ کہا گیا:

إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ[36] (اور اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے کہتا ہے ہوجا تو وہ جاتی ہے) [37]

مرتبہ پنجم:چوتھا تعین یا عالم مثال

یہ وہ عالم ہے جسے اہل عقل یا فلاسفہ مقولات یا “کیٹیگریز”کہتے ہیں۔ مقولات کی تعداد میں مسلم فلاسفہ و متکلمین کے مابین اختلاف ہے۔ یہاں ہم فلاسفہ کے موقف کی رو سے بات کریں گے جن کے مطابق مقولات کی تعداد دس ہے جو اس دائرے کی نچلی قوس میں رکھے جاتے ہیں جبکہ اوپری قوس میں “نفس” بطور ایک الگ کیٹیگری ہے جو ان مقولات کے قیام کا باعث ہے۔ عالم مثال میں عقل عالم ناسوت کی اشیاء کو مجرد صورتوں میں دیکھتی ہے، اسی طرح اعمال کی صورتیں اور خواب سے متعلق امور بھی اسی عالم سے متعلق ہیں، ھادی و مضل کی تجلیات بھی یہاں متحقق ہیں اور امور کرامت بھی۔ شاہ ولی اللہ نے متعدد نصوص کے ذریعے اس عالم کے نظائر پیش فرمائے ہیں۔ اس عالم کو “خیال منفصل” بھی کہتے ہیں اور اس بنا پر اسے “عالم الخیال” بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اسے عالم الخیال کہنے کا مطلب “وھمی” کہنا نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسانی خیال سے متعلق یہ امور بطور حقائق فی نفس الامر موجود ہیں اور اسی لئے یہ انسانی خیال کی آماجگاہ بنتے ہیں (خیال منفصل کے برعکس ایک خیال وہ ہے جو کسی شے کے مشاھدے سے جنم لیتا ہے، مثلا سیب کو دیکھ کر ذہن میں ایک صورت بننا، اسے خیال متصل کہتے ہیں)۔ اس کی برزخ کو “نفس” کہتے ہیں۔ اوپری درجات سے ہر شے عالم مثال سے گزر کر آتی ہے۔

مرتبہ ششم: پانچواں تعین یا  عالم شہادت (یاناسوت)

اس عالم میں جوہر و عرض (طبعیات و کیمیا و توانائی وغیرہ) کے تعینات لاگو ہیں، یعنی مقولات متعین تشخصات کے ساتھ یہاں ظاہر ہیں اور اسی بنا پر یہ عالم حد درجہ کثیف ہے۔ نفس انسانی کی تربیت کے لئے یہاں احکام شرع متحقق ہیں اور اوپری درجے کے حقائق الہیہ کے ادراک کو انبیاء و رسل کی اطاعت کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے۔ اس کی اوپری قوس کا رخ “علم” کی جانب اور نچلی کا “جہل” کی طرف ہے اور اس کا مرکز “انسان” ہے اور اسے “ذھن” بھی کہتے ہیں۔ اس عالم میں نیکوکاروں کو بدکاروں سے الگ کردیا گیا ہے۔ انسان کا جسم اگرچہ “جہل” سے تیار ہوا تاہم اس میں چمکنے والی روح عالم امر یا روح سے ہے۔ نیچے والی قوس جہل اس لئے کہ انسان حقائق سے دور ہوجاتا ہے اور ایسے حقائق بھی سوچ لیتا ہے جو ممکن نہیں۔ جہل جب فعل میں تبدیل ہو تو یہ ظلوم ہے (انسان کی حقیقت میں “ظلوم و جھول” ہونا بھی ہے)۔

شکل نمبر 4 میں ساری گفتگو کا خلاصہ دیا گیا ہے، اس دائرے کو اگر گلوب (globe) کی صورت گول تصور کیا جائے تو شاید زیادہ بہتر منظر کشی ہوسکے۔ یہاں دائرے کی برزخ اور اوپری و نیچی قوس کا نام دیا گیا نیز یہ بتایا گیا ہے کہ ہر دائرے میں کس درجے کا وجود متحقق ہوا۔ نیچے سے اوپر کی جانب سفر کے نتیجے میں ہم متعین وجود سے مطلق وجود کی جانب بڑھتے ہیں، ہر اوپری مرتبہ وجود نچلے مرتبے سے بایں معنی زیادہ حقیقی ہے کہ وہ اس پر مشتمل ہے۔

شکل 4: مراتب وجود یا تنزلات کا خلاصہ

 

علامہ اقبال کے بعض اشعار

اگرچہ علامہ اقبال کے اشعار پر گفتگو سے ہم اپنے موضوع سے دور ہوجائیں گے، تاہم درج بالا فریم ورک میں آپ کے بعض اشعار کی معنویت پوری طرح نکھر کر سامنے آتی ہے۔

  • اوپر اس بات کا ذکر ہوا کہ وجود کے تعیناتی احکام میں وجود مطلق کے ساتھ سب سے زیادہ قرب حقیقت محمدیہﷺ کو حاصل ہے جو تجلی اول کی برزخ کبری ہے،
  • یہ بھی واضح ہوا کہ وجود کا ہر اوپری مرتبہ بایں معنی نچلے مراتب پر حاوی اور ان کا جامع ہے کہ ہر ذیلی تخصیص اپنے سے اوپری تخصیص میں شامل ہے،
  • نیز یہ ابھی واضح ہوا کہ لوح، قلم، کتاب وغیرہ تیسرے تعین یعنی عالم ارواح سے متعلق امور ہیں اور یہ عالم رنگ و بو جس میں ہم سانس لے رہے ہیں یہ پانچویں درجے کی بات ہے۔

اسی لئے شیخ کہتے ہیں کہ آپﷺ کے فلک نے سب افلاک کو گھیر رکھا ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام اللہ کا سب سے جامع کلمہ ہیں جیسا کہ از روئے حدیث آپﷺ نے اپنی ایک خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ “اعطیت جوامع الکلم” [38](مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں)۔ حدیث کے ان الفاظ کو آپﷺ کی فصاحت و بلاغت یا شریعت کی جامعیت وغیرہ کے محدود معنی میں لیا جاتا ہے، تاہم شیخ اسے عالم کے ذات باری کے کلمات ہونے اور ان قرآنی آیات کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں:

قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا[39]‎ (آپ کہہ دیجئے کہ اگر سمندر میرے رب کے کلمات کے لئے روشنائی ہوجائے تو وہ سمندر میرے رب کے کلمات ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے گا اگرچہ ہم اس کے مثل اور سمندر مدد کے لئے لے آئیں)

لَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ [40] (اور زمین میں جتنے درخت ہیں وہ سب قلم ہوں اور سمندر روشنائی ہو اور اس کے بعد سات سمندر اسے بڑھاتے چلے جائیں تو اللہ کے کلمات تب بھی ختم نہ ہوں گے)

آپ کی شریعت کی جامعیت دراصل آپﷺ کی جامعیت کا مظہر تھی کہ آپﷺ کو ایسی کتاب دی جائے جو سب کلمات کی جامع ہو، اس لئے آپﷺ کو قرآن جیسی تمام کتب کی جامع کتاب عطا کی گئی جو ام الکتاب ہے (“ام” ماں کو کہتے ہیں کہ وہ جمع کرنے والی ہوتی ہے)۔ آپﷺ کو اولین و آخرین کا علم عطا ہوا، شیخ کے نزدیک اس علم کی وجہ آپ کی یہ جامعیت اور اللہ سے آپ کا قرب ہی ہے، اولین کے علم سے مراد آدم علیہ السلام کو عطا کیا جانے والا اسماء کا علم تھا۔[41] اسی طرح روز قیامت آپﷺ کو تمام مخلوق کا سردار بنایا جانا،مقام محمود عطا کیا جانا، لوا کے تلے حمد و ثنا فرمانا، آپﷺ کی شریعت کا جامع ہونا، آپ کو خاتم الانبیاء قرار دیا جانا، آپ کا یہ فرمانا کہ اگر آج موسی علیہ السلام  حیات ہوتے تو وہ بھی میری شریعت کے تابع ہوتے۔[42] الغرض یہ سب امور ذات باری کے ہاں آپ کے ایسے خصوصی و جامع مرتبے کی بنا پر ہیں۔  یعنی ان سب امور کا تقاضا صوفیا نے وجودی مراتب میں یہ مقرر کیا ہے کہ آپﷺ ان مراتب میں سب سے اوپر ہیں اور اسی بنا پر آپ ان خصائص کے مستحق ہوئے۔ باالفاظ دیگر یہ آپ ﷺ کے فلک کی وسعت کے نتائج ہیں۔ اب علامہ اقبال کا یہ نعتیہ شعر ملاحظہ کیجئے:

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ

ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب

نیز علامہ اقبال کہتے ہیں:

نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر

وہی قُرآں، وہی فُرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواشی :

[1] لائحہ پنجم، از لوایحِ جامیؒ

[2] تنزلاتِ ستہ از عبدالرحمٰن لکھنویِ، نیز رسالہ حق نما از داراشکوہ

[3] مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی نورالخلائق، مکتوب اول، “تنزلاتِ ستّہ” از عبدالرحمٰن لکھنویؒ، نیز “حق نما ” از داراشکوہ

[4] مکتوبات امام ربانیؒ  (مختلف مقامات سے کشید کیا گیا)

[5] مکتوب ۸۹، جلد سؤم، معرفۃالحقائق

[6] فرھنگ اصطلاحات تصوف173، نیز سر دلبراں 399

[7] القرآن: الاعراف 143

[8] سنن جامع ترمذی: رقم الحدیث 3109 نیز ابن ماجہ: : رقم الحدیث 182

[9] الفتوحات المکیۃ: 2 / 310

[10] صحیح بخاری  : رقم الحدیث 3019 نیز 6982

[11] اعیانِ ثابتہ 15 از ڈاکٹر محمد خان چشتی

[12] الفتوحات المکیۃ: 3 / 518

[13] القرآن: الشوری 11

[14] القرآن: النجم 9

[15] مسند الإمام أحمد: 16623 نیز ترمذی: 3609۔  ایک اور روایت میں “پانی و مٹی کے مابین” کے الفاظ آئے ہیں، تاہم علمائے ظاہر کے ہاں یہ الفاظ ثابت نہیں مگر اہل کشف کےہاں مضمون کے لحاظ سے درست ہیں، واللہ اعلم۔

[16] الفتوحات المکیۃ: 3 / 141

[17] روایت کے الفاظ یہ ہے: یَاجَابِرُ اِنَّ اللهَ قَدْ خَلَقَ قَبْلَ الْاَشْیَاءِ نُوْرَ نَبِیّکَ مِنَ نُوْرِه (اےجابرؓ! بےشک اللہ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبیؐ کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا) ، کشف الخفاء، جلد ۱، تحت الحدیث ۸۲٦، ص ۲۳۷۔

علمائے ظاہر کے نزدیک یہ حدیث ثابت نہیں مگر اہل کشف اس مضمون کی متعدد احادیث سے تمسک کرتے ہیں نیز یہ دیگر نصوص میں مذکور احکام کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ مثلا ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:  اعطیت جوامع الکلم(مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں)، شیخ اس حدیث کو “کائنات اللہ کے کلمات ہیں” کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں۔

[18] فرھنگ اصطلاحات تصوف 148 نیز سر دلبراں 354

[19] قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، بُوهِيَ بِالْخَيْلِ وَأُلْقِيَ السِّلاحُ، وَزَعَمُوا أَنْ لَا قِتَالَ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَذَبُوا، الآنَ حَانَ الْقِتَالُ، لَا تَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرَةٌ» وَقَالَ وَهُوَ مُوَلِّي ظَهْرِهِ إِلَى الْيَمَنِ: «إِنِّي أَجِدُ نَفَسَ الرَّحْمَنِ مِنْ هَاهُنَا، وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنِّي كَفُوفٌ غَيْرُ مُلَبَّثٍ، وَلْيَتْبَعُنِّي أَفْنَادًا، وَالْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَأَهْلُهَا مُعَانُونَ عَلَيْهَا  (مسند سلمة بن نفيل السكوني، التاریخ الکبیر للبخاری: 4 / 70)، نیز یہ الفاظ بھی منقول ہیں: قال: قال النبي، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ألا إن الإيمان يمان والحكمة يمانية وأجد نفس ربكم من قبل اليمن

[20] القرآن: الرحمن 29

[21] الفتوحات المکیۃ: 1 / 292، نیز  2 / 384 ، نیز  2 / 639 ، نیز 3 /199

[22] القرآن: البقرۃ  31

[23] صحیح بخاری : 6227 ، صحیح مسلم: 7163

[24] القرآن:الحجر  21

[25] القرآن: یس 82

[26] اس روایت کی سند علمائے ظاہر کے نزدیک ثابت نہیں تاہم اہل کشف کے نزدیک یہ حدیث ثابت ہے،  نیز اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ روایت درست ہے  جیسا کہ آگے اعیان ثابتہ کے تحت آئے گا کہ یہ اعیان ازل سے علم الہی میں مخفی خزانے کی صورت ثابت تھے جنہیں “کن” کے تحت ظاہر کیا جاتا ہے، ارشاد ہوا: وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (اور ایسی کوئی شے نہیں مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم اسے معین مقدار میں نازل کرتے ہیں)۔ ملا علی قاری (1013ھ ) نے بھی اس کے مضمون کو درست قرار دیا ہے (دیکھئے، كشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس، لإسماعيل بن محمد العجلوني الجراحي (1162 ھ ): 2 / 132 )

[27] القرآن: الاعراف 156

[28] القرآن: القلم 42

[29] بخاری: 4850

[30] مشکوۃ المصابیح: 89

[31] القرآن: ص 75

[32] بعض محقق صوفہ ملائکہ کو دو درجات میں رکھتے ہیں، عالین ایک الگ مرتبے کے ملائکہ ہیں، جن فرشتوں کو آدم علیہ السلام کو سجدے کا حکم دیا گیا وہ عالین نہیں بلکہ الگ قسم والے تھے۔ اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب ابلیس نے سجدہ نہ کیا تو اللہ نے اس سے کہا کہ تو نے سجدہ کیوں نہ کیا، کیا تو خود کو عالین میں سے سمجھتا ہے؟ (القرآن: ص 75 )۔  دیکھئے “تنزلات ستہ”

[33] القرآن: الاعراف 172

[34] القرآن: الاحزاب 72

[35] القرآن: اعراف 54

[36] القرآن: یس 82

[37] الفتوحات المکیۃ: 4 / 210

[38]  صحیح مسلم: 523۔  ایک روایت میں آیا: أُوتِيتُ ‌جَوَامِعَ الْكَلِمِ. وَبَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَتْ فِي يَدِي (مجھے جامع کلمات سے نوازا گیا اور میں نیند کے عالم میں تھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے پاس لائی گئیں اور انہیں میرے ہاتھوں میں دے دیا گیا)، صحیح مسلم: 523۔  اس مفہوم کی دیگر روایات بھی ہیں، مثلاً بخاری کے یہ الفاظ: اعطیت مفاتیح الکلم (مجھے سب کلمات کی کنجیاں عطا کی گئیں ہیں)، صحیح بخاری : 6597 ۔

[39] القرآن:الکہف 109

[40] القرآن: لقمان 27

[41] الفتوحات المکیۃ: 2 / 171

[42] الفتوحات المکیۃ: 2 / 171 ،نیز  2/ 88 ، نیز 2 / 134 ، نیز  3 / 141

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں