”غامدی صاحب: سوسائٹی کی دانش ہی کرپٹ ہو جاتی ہے، بے بصیرت ہو جاتی ہے۔
سوال: دانش کیسے کرپٹ ہوتی ہے؟
جواب: دانش ہی کرپٹ ہوتی ہے۔ یعنی وہ لوگ جن کو خدا نے پیدا کیا ہوتا ہے برتر ذہانت دے کر، جو صاحب مطالعہ ہوتے ہیں، چیزوں پر غور و خوض کرتے ہیں، جو رہنمائی کے لیے پیدا کیے جاتے ہیں۔ قدرت صلاحیتوں میں فرق پیدا کرتی ہے۔ وہ کچھ لوگوں کو اس لیے پیدا کرتی ہے کہ وہ دست و بازو بنیں اور کچھ کو اس لیے پیدا کرتی ہے کہ وہ دماغ بنیں۔ تو جن کو دماغ بننے کے لیے پیدا کیا جاتا ہے وہ اپنے اس شرف کو بعض اوقات پامال کر بیٹھتے ہیں۔ ہمارے ہاں اصل مسئلہ یہاں سے پیدا ہوا ہے۔ ہماری دانش کرپٹ ہے۔ وہ سچ نہیں بولتی، سچائی کی شہادت نہیں دیتی اس کے اندر تہذیبی شعور نہیں ہے۔ وہ کسی چیز کے بارے میں جب گفتگو کرتی ہے تو جذبات کی زبان استعمال کرتی ہے۔
سوال: پاکستان کی جو intelligentia ہے وہ اپنی intellect کو، اپنی دانش کو اپنے قومی مفاد کی بجائے اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
غامدی صاحب: میں یہ علی الاطلاق نہیں کہتا، زیادہ تر یہی صورت حال ہے۔ میں آپ سے عرض کروں کہ اصل مسئلہ یہی ہے۔ یعنی اس وقت ہماری جو اس وقت دانش ہے وہ کرپشن کے نتیجے میں اس مقام پر پہنچ چکی، کرپشن صرف یہ نہیں ہوتی کہ آپ نے پیسے لے لیے کسی سے، اصل میں آپ جس وقت اپنی ذہانت کے ساتھ دیانت دار نہیں ہوتے، اپنے علم کے ساتھ دیانت دار نہیں ہوتے، اپنے عقائد کے ساتھ دیانتدار نہیں ہوتے، اپنے نظریات کے ساتھ، اور اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قومی طور پر ہم بے شعور قوم ہیں تو لوگ خوف میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اگر انہوں نے سچی بات کہہ دی تو کسی کو امریکہ کا ایجنٹ کہا جائے گا، کسی کو روس کا ایجنٹ کہا جائے گا، اور کوئی تہمت لگائی جائے گی۔ کوئی کسی بات کی بنیاد پر کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ محرکات تلاش کیے جاتے ہیں، نیت پر حملہ کیا جاتا ہے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اس پوری قوم کو قرآن مجید کی سورۂ حجرات صبح و شام پڑھنی چاہیے اور اپنے ہاں یہ ماحول پیدا کرنا چاہیے کہ سچ بول سکیں اور سچی بات کہہ سکیں اور سچی بات کہنے کے بعد دنیا میں۔“
چند دن قبل میں نے محترم غامدی صاحب کا ایک کلپ فیس بک پر شیئر کیا تھا، اور اوپر اس گفتگو کا متن دیا گیا ہے۔ اس کلپ میں انہوں نے کہا کہ ”ہماری دانش کرپٹ ہے۔“ محترم غامدی صاحب اس کرپشن کی نوعیت اور اسباب کو تو سامنے نہیں لائے لیکن اس کے خواص اور مظاہر پر گفتگو کی ہے اور اس پر ایک اخلاقی ججمنٹ دی ہے۔ یہ کہنا کہ ہماری دانش کرپٹ ہے ایک انتہائی ججمنٹ ہے اور اس سے موقع پا کر احباب نے انہیں پر دانش میں کرپشن کا الزام عائد کیا ہے جو میرے خیال میں درست نہیں ہے۔ اگر دانش کی گفتگو جذبات میں نہیں کی جا سکتی تو دانش پر کرپشن کی اخلاقی ججمنٹ دے کر بھی اس مسئلے کو سلجھانے میں کوئی پیشرفت ممکن نہیں ہو سکتی۔ میں ان کی تحریریں بھی پڑھتا رہتا ہوں جو غامدی صاحب سے اختلاف یا سخت اختلاف رکھتے ہیں، اور اس سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ فکرِ غامدی کو اب گالی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کچھ حلقوں میں یہ کوشش کامیاب بھی ہو چکی ہے۔ لیکن اس اپروچ سے فکرِ غامدی کی تغلیط تو کجا، اس کی مقبولیت کو بھی نہیں روکا جا سکا۔ دینی، علمی اور اخلاقی اعتبار سے میں اس اپروچ کو مسترد کرتا ہوں۔ اب تک میری یہ رائے بن چکی ہے کہ غامدی مخالف حلقوں میں وہ صلاحیت موجود نہیں ہے جو ان کی فکر کو علمی بنیادوں پر مسترد کر سکے۔ مطعون کرنا تو بہت آسان ہے اور وہ سبھی بساط بھر کر رہے ہیں۔
اول کام یہ ہے کہ دانش کی تعریف متعین کی جائے۔ اس سے سادہ علم بھی مراد لیا جا سکتا ہے لیکن دانش علم سے فزوں تر کوئی چیز ہے۔ میرے خیال میں اگر کسبی علوم میں فراست بھی داخل ہو جائے تو بصیرت (insight) ایسے علوم کی بڑی صفت بن جاتی ہے۔ فراست دنیا کے انسانی تجربے اور مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے اور کوئی ضروری نہیں ہے کہ کسبی علوم اس کا جزو ہوں، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ کسبی علوم سے انسان میں فراست یا بصیرت بھی پیدا ہو جائے۔ تو دانش سے میری مراد ایسا علم ہے جس میں بصیرت جزو اعظم کے طور پر داخل ہو۔ بصیرت وہ ’نظر‘ ہے جو انفس اور آفاق کا یکساں ادراک رکھتی ہے، اور دنیا میں وجود کی گہری نسبتوں سے واقف ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ دانش کسی بھی معاشرے کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتا ہے، اور اس سے محرومی یا اس کی کرپشن معاشرے کی حیات و موت سے کم اہم مسئلہ نہیں ہے۔
محترم غامدی صاحب کی یہ رائے کہ ”ہماری دانش کرپٹ ہے“ درست ہے۔ لیکن احباب کو اس بات کی فکر لگ جاتی ہے کہ اگر یہ بات درست ہے تو فوری طور پر کسی نہ کسی پر اس کی ذمہ داری ڈال دی جائے اور اس کام کے لیے دماغ سے فوراً چھٹی لے لی جاتی ہے اور اسے reflex action کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔ ہر آدمی سمجھتا ہے کہ میں تو عین دانش مند ہوں اور دانش کی کرپشن کا ذمہ دار میرا مخالف ہے۔ ظاہر ہے غامدی صاحب نے بڑے بڑے لوگوں اور مذہبی حلقوں کی مخالفت مول لی ہے اس لیے انہیں کو دانش میں کرپشن کا ذمہ دار ٹھہرانا ایسا کام ہے جس کے لیے دماغ تو درکار ہی نہیں ہے بس چند پٹھوں کی حرکت ہی کافی ہے۔
دانش نہ صرف معاشروں کی مشترک میراث کا نام ہے بلکہ یہ تمام انسانیت کی مشترک میراث ہے۔ اس لیے غامدی صاحب جو ہماری تمہاری فرما رہے ہیں وہ بالکل ہی نادرست بات ہے۔ اس میں سوال یہ ہے کہ آیا صرف مسلمانوں کی دانش کرپٹ ہے یا یہ سلسلہ ”دانش حاضر“ تک پھیلا ہوا ہے۔ کرپشن کا مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اول یہ تسلیم کر لیا جائے کہ دانش موجود تو ہے لیکن کرپٹ ہے۔ عصر حاضر میں مسلم امہ کے بارے میں یہ خوش فہمی پالنا کہ وہ اہل دانش تو ہیں لیکن چند ایک اخلاقی مسائل کی وجہ سے ان کی دانش کرپٹ ہو چکی ہے بہت ہمت کی بات ہے۔ یہ ہمارے عقیدے کا جزو ہے کہ مسلم امہ حاملِ ہدایت ہے، لیکن یہ کہ وہ اہل دانش اور شاید اہل حکمت بھی ہیں حقیقت سے ہٹی ہوئی بات معلوم ہوتی ہے۔ اگر دانش اور اس کی کرپشن کی بات کرنی ہے تو اس کا درست تناظر صرف عصر حاضر کی دانش کا ہے۔
غامدی صاحب کی گفتگو کا پہلا پیراگراف بہت دلچسپ ہے اور مسلم تجدد کے schizophrenia کا زبردست اظہار ہے۔ وہ ایک ہی پیراگراف میں ”خدا“ اور ”قدرت“ کے الفاظ کو باہم متبادل (interchangeably) کے طور پر استعمال کرتے ہیں حالانکہ موضوع زیربحث کے لیے ان دونوں لفظوں کو استعمال کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کے لیے معاشروں کے فطری نظم (natural order) کا حوالہ کافی ہے جو روزمرہ مشاہدے اور تجربے سے معلوم ہوتا ہے۔ پھر وہ جن لوگوں کی تشقیق کرتے ہیں انہیں بھول جاتے ہیں اور دانش کی تجسیم کرتے ہوئے اس پر اخلاقی ججمنٹ دینا شروع کرتے ہیں اور اسے یعنی دانش کو کرپٹ قرار دیتے ہیں، حالانکہ وہ لوگ جنہوں نے دماغ بن کر یہ دانش پیدا کی ہے ججمنٹ ان لوگوں پر آنی چاہیے۔ وہ دانش کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ وہ سچ نہیں بولتی، اس کرپٹ دانش میں تہذیبی شعور نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ علم میں زیربحث وہ ”دماغ“ آنے چاہئیں جنہوں نے یہ کرپٹ دانش پیدا کی ہے اور اخلاقی ججمنٹ کے سزاوار بھی وہی ہیں۔ یہاں تک کہ یہ دانش ”جذبے“ کی حامل بھی ہے اور ”جذباتی“ ہو کر کسی چیز کے بارے میں جب گفتگو کرتی ہے تو جذبات کی زبان استعمال کرتی ہے۔ پہلے پیراگراف میں غامدی صاحب نے جو ملیدہ سا بنایا اس میں خدا اور قدرت، معاشرہ اور دانش، انسان اور فکر، دماغ اور جذبات وغیرہ کے امتیازات ہی باقی نہیں رہتے۔ ان کے خیال میں اصل مسئلہ ”قدرت“ کے پیداکردہ دماغوں کی طرف سے اپنے شرف کو پامال کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ شرف کن لوگوں کو حاصل ہے اس کا تعین تو شاید ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ یہ بھی نہیں بتاتے کہ یہ نامعلوم دماغ اپنے شرف سے خود آگاہی بھی رکھتے ہیں یا نہیں، یہ شرف دانش سے کیونکر جڑا ہوا ہے، اور شرف کی پامالی اور دانش کی کرپشن کی باہمی نسبتیں کیونکر قائم کی جا سکتی ہیں۔ مذہبی تجدد کی ہرمینیات ہر طرح کے بنیادی سوالات سے اغماض سے پیدا ہوتی ہے۔ دانش کو کرپٹ کہنے کے لیے جو مقدمہ غامدی صاحب نے قائم کیا ہے وہ بالکل ہی بے بنیاد ہے۔ وہ اس سوال کا جواب کہ دانش کیسے کرپٹ ہوتی ہے یہ دیتے ہیں کہ دانش ہی کرپٹ ہوتی ہے، اور یہ نہایت مضحکہ خیز جواب ہے۔ مقدمہ بعد ازاں ہے اور اس کا بھی کوئی سر پیر نہیں ہے۔
قارئین بخوبی آگاہ ہیں کہ میں تجدد کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہوں اور غامدی صاحب اس وقت متجددین کے سرخیل ہیں۔ لیکن دیانت داری کی بات یہ ہے کہ ان کی تعبیر دین جس ہرمینیات (hermeneutics) پر کھڑی ہے ان کے مخالفین کو ابھی تک اس کی ہوا بھی نہیں لگی۔ ان کے سارے مخالفین اگر سر جوڑ کر بیٹھ جائیں تو ان کا دماغ دولے شاہ کے سائیں کے دماغ سے چند گرام ہی زیادہ ہو گا اور اتنے دماغ سے تو میزان کے اصول و مبادی کا جواب بھی نہیں دیا جا سکتا۔ میں اصول و مبادی ہمیشہ خندۂ زیر لب سے پڑھتا ہوں کیونکہ ساتھ ساتھ مجھے ان روایتی علما کا خیال بھی آ رہا ہوتا ہے جو ”ردِ غامدیت“ میں بڑے بڑے تمغے حاصل کر چکے ہیں۔ اور تو اور غامدی صاحب نے صوفیہ کو بھی صاف کر دیا ہے، حالانکہ صوفیہ جس روایت علم میں کھڑے ہوتے ہیں کوئی متکلم یا عالم ان کا سامنا نہیں کر پاتا۔ لگتا ہے کہ یہاں کے تو صوفیہ بھی دو نمبر نکلے اور سب کے سب گھگھیائے پھرتے ہیں۔ دعووں فتووں سے زنبیلیں سب کی پر ہیں لیکن مجال ہے جو کوئی غامدی صاحب کے آگے بند باندھ سکا ہو۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آقائے سرسید سے علم و عمل میں شکست فاش کے بعد ہمارے مذہبی علما کبھی سنبھل نہیں پائے۔ روایت پر دعویٰ تو تب جتایا جا سکتا ہے کہ اپنی طویل روایت کے مہمات متون ہی سنبھال لیے گئے ہوں، اور ان پر علمی اور تحقیقی کام کو جاری رکھا گیا ہو۔ یہاں کیا متجدد اور کیا روایتی، سب اپنی تاریخ پر شرمندہ ہیں، اور ہماری علمی روایت جس تہذیبی شان سے ظاہر ہوئی تھی اس کی کوئی خبر نہیں رکھتے۔ اہلِ روایت نے ایک کام بہرحال بہت بڑا کیا ہے کہ غامدی صاحب کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور یہ کام بھی انہوں نے powers that be کی آشیرباد سے کیا ہے۔ غامدی صاحب کی جلاوطنی سے ان کی فکر مضبوط ہوئی ہے اور اہل روایت کی شکست مزید گہری ہو گئی ہے۔
ہمارے مذہبی اہل علم آقائے سرسید کے سامنے ہی نہیں ٹھہر سکے تو کیا ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ مغرب کا براہ راست سامنا کر سکتے ہیں؟ اس میں کیا شک ہے کہ مذہبی تجدد ہمارے گھر آنگن میں پہنچا ہوا مغرب کا ہراول دستہ ہے جس میں تمام کی تمام بھرتیاں مقامی ہیں۔ جس طرح جنگ عظیم اول کی لام بندی میں برصغیر کے مسلمان سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے میں برطانوی اور یورپی استعمار کا دست و بازو بنے تھے اور فلسطین پر قبضے میں برصغیر سے گئی ہوئی مسلمان فوجوں کا کلیدی کردار رہا، بعینہٖ جدالِ علم میں بھی مقامی اہل علم کی لام بندی جس طرح سامنے آئی ہے اس سے حرم بھی تقریباً فتح ہو چکا ہے۔ کفر کے سامنے کھڑے ہونے میں اب ہمارے اہل علم کا دل نہیں لگتا کیونکہ ہمارے اپنے معاشروں میں کافر کافر کا کھیل بہت زیادہ ترقی کر چکا ہے اور ان کو ادھر ادھر دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ تفہیم مغرب کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے دین کے دفاع میں مغرب پر ایک critique پیدا کی جائے۔ مثلاً ہمارے عقیدے کے جو اس وقت احوال ہیں ان پر کوئی بھی علمی گفتگو کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جب میں نے ساورنٹی کے سیاسی تصور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کے شرکیہ نتائج کی بات شروع کی تو احباب نے خفگی کا اظہار کیا۔ ہم ایک دوسرے کے خلاف فوراً پوزیشن لے لیتے ہیں لیکن جب مغرب کے خلاف علمی پوزیشن لینے کی بات ہوتی ہے تو سناٹا چھا جاتا ہے۔
آخر میں صرف یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ دانش کی کرپشن یہ ہے کہ وہ اقدار سے منقطع ہو جائے، اقدار کو اپنی وجودیات بنانے سے انکار کر دے، یا اقدار کا حصار بننے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے، یا اقدار کے دفاع سے پسپائی اختیار کر لے۔ دانش کی کرپشن کا دوسرا نام Nihilism ہے۔ اس اصول پر دانش حاضر کرپٹ ہے، صرف مسلم دانش پر کرپشن کا الزام درست نہیں۔ وہ مسلم دانش جس پر غامدی صاحب کرپشن کا الزام عائد کرتے ہیں وہ اٹھائی گیروں کے مال مسروقہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے جو مسلم اہل دانش نے آنکھ بچا کر دانش حاضر سے اکا دکا اٹھایا ہوا ہے۔ دانش کے ہونے کے لیے عقل کے کسی نہ کسی ثقہ تصور کی ضرورت ہوتی ہے اور عقل دشمنی میں مسلم امہ اس وقت تمغۂ امتیاز رکھتی ہے۔ جب عقل کی عملداری ہی ختم ہو گئی تو کہاں کی دانش اور کہاں کی کرپشن۔
میں تو کسی دانش یا علم یا عقل کا دعویٰ نہیں کرتا لیکن جذبات کے بغیر میں فکرِ غامدی پر گفتگو کا ارادہ رکھتا ہوں۔ غامدی صاحب بڑے آدمی ہیں اور ان سے علمی ہم کلامی تو شاید ہمارے نصیب میں نہ ہو لیکن ان کے کاڈر کے درجہ دوم کے لوگوں کو میں ضرور engage کرنا چاہوں گا اور سب سے پہلے ہم ان کے اصول و مبادی کو دیکھیں گے۔ لیکن یہ چیزیں میری صحت اور استعداد کار سے مشروط ہیں اور میں بارگاہِ الہی سے منتظر ہوں کہ خیر و کرم کی ارزانی ہو اور میں اس کام کے قابل ہو جاؤں۔ مجھے امید ہے کہ محترم عمار خان ناصر صاحب میری گزارش پر ضرور توجہ دیں گے اور فکر غامدی پر ہم کوئی تحریری سلسلہ شروع کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
کمنت کیجے