Home » شیخ ابن عربی کے تصور “نبوت عامہ” پر غامدی صاحب کا تبصرہ
تصوف شخصیات وافکار کلام

شیخ ابن عربی کے تصور “نبوت عامہ” پر غامدی صاحب کا تبصرہ

محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے شیخ کے تصور نبوت عامہ اور تصوف متبادل دین ہونے کے اپنے دعوے پر ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کی اس نئی ویڈیو میں ایسی کوئی نئی علمی بات نہیں جس کا جواب کتاب میں نہ دے دیا گیا ہو اور اس لئے کسی تفصیلی جواب کی ضرورت نہیں۔ تاہم غامدی صاحب نے اپنے دعوے کی توجیہہ و تاویل کے لئے چند دلچسپ اصولوں کا سہارا لیا ہے جس پر یہاں تبصرہ کیا جاتا ہے۔

سب سے پہلے یہ نوٹ کرلیجئے کہ اس ویڈیو میں اصل سوال زیر بحث نہیں لایا گیا اور وہ یہ تھا کہ کیا مرزا قادیان نے بھی شیخ ابن عربی کے بیان کردہ “نبوت عامہ” کے مفہوم میں ہی خود کو نبی کہا تھا یا وہ اس مفہوم میں خود کو نبی کہتے تھے جسے شیخ نبوت خاصہ اور عام علماء اپنی اصطلاح میں نبوت کہتے ہیں، یعنی یہ کہ خدا کا کسی کو شرعی احکام دینا اور اسے تبلیغ کے لئے مبعوث کردینا کہ وہ لوگوں کو مکلف بنائے کہ جو اس کی بات نہ مانے وہ کافر ہو؟ اگر اس کا جواب یہ ہے کہ مرزا نے خود کو نبوت خاصہ کے معنی میں نبی کہا تھا جو کہ امر واقعہ ہے اور جیسا کہ قادیانی سمجھتے ہیں، تو پھر شیخ کا نام مرزا کے ساتھ کیوں اچھالا گیا؟

اب آئیے تصوف کو متوازی دین ثابت کرنے والے غامدی صاحب کے دلچسپ اصولوں کی جانب۔

پہلا اصول: اصطلاح سے التباس پیدا ہونے کا اعتراض

ان کا فرمانا ہے کہ نبوت عامہ کی اصطلاح استعمال کرنے سے دینی حقائق میں التباس پیدا ہوتا ہے اور اس لئے نبوت جیسی بنیادی اصطلاح کے بارے میں ایسی اصطلاح نہیں بنانی چاھئے جس سے دینی مفاہیم و حقائق گڈ مڈ ہوں۔

اس کا اصولی جواب ہم نے اپنی کتاب کے باب نمبر تین میں دیا ہے، یہاں کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں۔ محترم غامدی صاحب اگر عام لوگوں کی بات کررہے ہوتے تو بھی اس بات میں کوئی وزن ہوتا، لیکن اس کا کیا کریں کہ شیخ کی بات کو نہ سمجھ کر وہ خود ہی التباس میں پڑ گئے اور شیخ کی اصطلاح کو سیاق و سباق سے کاٹ کر تصوف کے خلاف مضمون لکھ دیا! کیا ایک محقق کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ایک تصور پر اسلام کے متوازی دین اور عالمگیر ضلالت جیسے فتوے لگانے بیٹھا ہو لیکن اس سے پہلے وہ اصطلاح کے معنی کی تحقیق بھی نہ کرے؟

شیخ کی اصطلاح سے اہل سنت کے ہاں مراد لئے جانے والے کونسے دینی مفاہیم گڈمڈ ہوگئے، انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کیونکہ اہل سنت کے نزدیک حضرت مسیح علیہ السلام کا نزول بھی ہوگا، ان پر وحی بھی ہوگی، بصورت الہام علم و عرفان ہونا بھی ممکن ہے اور اللہ تبارک و تعالی ہر لمحے کائنات کی ہر شے پر اپنا عرفان بھی نازل کرتے ہیں۔ شیخ انہی امور کو نبوت عامہ کہتے ہیں۔ البتہ اگر دین سے مراد اہل سنت کی تعبیری روایت سے باہر “غامدی صاحب کا دین ہے”، تو اس بحث میں ہمیں اس دین سے سروکار نہیں۔

اصطلاح سے پیدا ہونے والے التباس کا یہ اعتراض کم از کم جناب غامدی صاحب افورڈ نہیں کرسکتے جنہوں نے سنت جو کہ ماخذ دین ہے، اس کا اپنا ایک ایسا مفہوم بنایا ہے جسے ملحقین “المورد” کے سوا عرب و عجم میں کوئی نہیں سمجھتا یہاں تک کہ تردد کے ساتھ اسے سمجھایا جائے۔ اگر کوئی ظاہری منہج والے عالم ایسا اعتراض کرتے تو ہم ان کے عذر کو سمجھ سکتے تھے لیکن غامدی صاحب سے ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ اصل بحث کو بدلنے کے لئے وہ اس تنکے کا سہارا بھی لیں گے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ “لامشاحۃ فی الاصطلاح”۔ علم کی دنیا میں الفاظ کے ساتھ بحث نہیں ہوتی بلکہ معنی و تصورات کے ساتھ ہوتی ہے۔ لہذا یہ جو اصطلاح سازی و التباس والا اعتراض بے، جاری بحث میں یہ بے وزن ہے کیونکہ اس سے تصوف کو اسلام سے متوازی دین ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ غامدی صاحب اب جس اصول سے معترض ہورہے ہیں، اگر وہ اس کا مزہ چکھنا چاہتے ہیں تو محترم حافظ زبیر صاحب کی جانب سے ان کے تصور سنت پر نقد ملاحظہ کریں جہاں بالکل اسی اصول پر نقد کیا گیا ہے کہ انہوں نے پوری امت سے الگ اس کا ایسا تصور بنالیا ہے جس سے ذھنی انتشار و التباس جنم لیتا ہے، لہذا دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ غامدی صاحب اپنے تصور سنت کے لئے کوئی الگ نام رکھیں۔ اب اس کا جو جواب ہوگا وہی شیخ کی جانب سے فرض کرلیجئے۔

اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ خود غامدی صاحب کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ اس باب میں انہوں نے امت سے ہٹ کر اصطلاح سازی کی ہے۔ چنانچہ سنت سے متعلق اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے محترم مولانا زاھد الراشدی صاحب کے جواب میں کتاب “مقامات” کی اپنی ایک تحریر میں وہ لکھتے ہیں:

“نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو قرآن دیا ہے۔ اِس کے علاوہ جو چیزیں آپ نے دین کی حیثیت سے دنیا کو دی ہیں، وہ بنیادی طور پر تین ہی ہیں:

۱۔ مستقل بالذات احکام و ہدایات جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی۔

۲۔ مستقل بالذات احکام و ہدایات کی شرح و وضاحت، خواہ وہ قرآن میں ہوں یا قرآن سے باہر۔

۳۔ اِن احکام و ہدایات پر عمل کا نمونہ۔

یہ تینوں چیزیں دین ہیں۔ (۔۔۔) ہمارے علما اِن تینوں کے لیے ایک ہی لفظ ’’سنت‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ میں اِسے موزوں نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک پہلی چیز کے لیے ’’سنت‘‘، دوسری کے لیے ’’تفہیم و تبیین‘‘ اور تیسری کے لیے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنی چاہیے۔ اِس سے مقصود یہ ہے کہ اصل اور فرع کو ایک ہی عنوان کے تحت اور ایک ہی درجے میں رکھ دینے سے جو خلط مبحث پیدا ہوتا ہے، اُسے دور کردیا جائے۔ یہ محض اصطلاحات کا اختلاف ہے، ورنہ حقیقت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو میرے اور ائمۂ سلف کے موقف میں سرمو کوئی فرق نہیں ہے۔”

اگرچہ غامدی صاحب کے تصور سنت و حدیث اور ائمہ سلف کے تصور میں سر مو سے زیادہ فرق ہے، لیکن اسے ایک طرف رکھتے ہوئے بات یہ ہے کہ غامدی صاحب مان رہے ہیں کہ دین کے اس بنیادی ماخذ کے معاملے میں انہوں نے اپنی الگ اصطلاحات وضع کی ہیں لیکن پھر بھی انہیں شیخ سے شکوہ ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا! ہم نے اپنی کتاب میں تفصیل کے ساتھ یہ واضح کیا تھا کہ شیخ کی بات میں اور علمائے اہل سنت کی بات میں صرف اصطلاح کا فرق ہے ورنہ حقیقت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کے اور سلف کے موقف میں کوئی فرق نہیں لیکن یہ بتانے کے بجائے کہ اہل سنت کے مانے ہوئے مفاہیم کی رو سے شیخ کی بات میں کیا غلطی ہے، غامدی صاحب اپنے متوازی دین کے دعوے کو اب “اصطلاح کیوں بنائی” کے مناظرے تک لے آئے ہیں۔ غامدی صاحب نے اس مسئلے میں اپنے ناقدین سے جو شکوہ کیا ہے ہم شیخ کی جانب سے وہی دھراتے ہیں:

“غامدی صاحب اگر میری کتاب ‘الفتوحات المکیۃ’ کا مطالعہ دقت نظر کے ساتھ کرتے تو اِس چیز کو سمجھ لیتے اور اُنھیں کوئی غلط فہمی نہ ہوتی، یہ توقع البتہ ان سے اب بھی نہیں ہے۔ ”

دوسرا اصول: دینی اصطلاح کے لغوی معنی استعمال کرنے کا اعتراض

غامدی صاحب سے سوال پوچھا گیا کہ لفظ “رسول” متعدد نصوص میں لغوی معنی میں استعمال ہوا جبکہ یہ بھی نبوت و نبی کی طرح ایک دینی اصطلاح ہے، تو پھر لفظ نبوت کو اگر اس کے لغوی مفہوم کے عموم کے پیش نظر استعمال کرلیا جائے تو اس میں کیا خرابی ہے؟

اس کے جواب میں محترم غامدی صاحب نے یہ دلچسپ اصول وضع فرمایا کہ بعض الفاظ کے لغوی و اصطلاحی دونوں معنی مستعمل ہوتے ہیں اور بعض صرف اصطلاحی استعمال میں ہوتے ہیں نہ کہ لغوی، پس جس کے لغوی معنی استعمال میں نہ ہوں اسے یوں نہیں برتنا چاہئے۔ لفظ “رسالت و رسول” ان کے مطابق گویا پہلی قسم سے ہے جبکہ “نبوت و نبی” دوسری قسم سے۔

قبل اس سے کہ لفظ نبوت و نبی کے ایسے لغوی استعمالات پیش کئے جائیں، ہم پوچھتے ہیں کہ یہ سنہرا اصول لغت کی کس کتاب یا عقل کی کس دلیل یا شریعت کی کس نص سے نکالا گیا ہے کہ جس لفظ کے اصطلاحی معنی عام ہوجائیں اس کا لغوی معنی مراد لینا شرعا ناجائز ہوجاتا ہے جبکہ استعمال کرنے والا قدم قدم پر اپنی مراد واضح کررہا ہو؟ پھر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ “رسول”، جو نبی سے بھی آگے کا دینی مرتبہ و اصطلاح ہے، اس کا استعمال تو اس کے لغوی عموم کی وسعت کے ساتھ جائز ہو لیکن نبی کا نہ ہو، بالخصوص کہ جب ہر رسول لازما نبی ہوتا ہے نہ کہ برعکس؟ اللہ تو قرآن کی پہلی آیت میں اللہ کو رب کہہ کر پھر اسی قرآن میں غیر اللہ کو رب کہے جاتا ہے اور علمائے فقہ مالی معاھدات میں “رب المال” کی باقاعدہ اصطلاح بنالیتے ہیں۔ الغرض یہ ایک بے اصل اصول ہے۔ یہ جو بات غامدی صاحب کررہے ہیں اس کا تعلق دین و نصوص کے ساتھ نہیں ہے بلکہ کسی فن کے ماہرین کی اصطلاح اور اس کے عوامی تعامل کے ساتھ ہے جسے عرف کہتے ہیں۔ اسے اٹھا کر اصل دین اور متبادل دین کا معاملہ بنا دینا سوء فہم اور مبالغہ آرائی ہے۔ اگر کوئی صرف علمائے عقیدہ کی اصطلاح کے عرف ہی سے واقف ہے تو یہ اس کا مسئلہ ہے لیکن اس قلت علم کو اصل دین کے ہم معنی بنانے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے۔

اب ہم اس لفظ کے چند لغوی نظائر ائمہ لغت اور کتب حدیث سے پیش کرتے ہیں۔ ائمہ لغت میں صاحب لسان العرب علامہ منظور افریقی (م 711 ھ)، صاحب تاج العروس علامہ مرتضی زبیدی (م 1205 ھ)، صاحب المفردات علامہ راغب اصفھانی (م 502 ھ)، صاحب مقایس اللغۃ علامہ احمد ابن فارس (م 395 ھ) اور صاحب العین علامہ ابو عبد الرحمن الخلیل الفراھیدی (م 170 ھ) وغیرہم کہتے ہیں کہ لفظ “نبوۃ” کا ایک مطلب زمین کا مرتفع یعنی اونچی سطح والا مقام ہے اور اس لئے اونچی سطح والے مقام کو نبی کہتے ہیں، اس مناسبت سے شرعی معنی والے نبی کو اس لئے نبی کہتے ہیں کیونکہ عند اللہ ان کا رتبہ بلند ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب وہ سیدھا راستہ ہے جسے دیکھ کر لوگ منزل پاسکیں، اسی لئے انبیاء کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے کہ ان سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے۔ اسی طرح اس کے ایک معنی کسی چیز کا قائم ہونا بھی ہے نیز ایک اور معنی ایک مقام سے دوسرے مقام انتقال ہے، اسی مناسبت سے خبر کو نبا کہتے ہیں کہ یہاں بھی کسی شے کا ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقلی ہونے کا مفہوم ہے۔ یہاں صرف صاحب لسان العرب کی بعض عبارات ملاحظہ کرتے ہیں، آپ کہتے ہیں:

والنَّبْوَة: ‌الجَفْوةُ. والنَّبْوَةُ: الإِقامة. والنَّبْوَةُ: الارْتِفاع. ابْنُ سِيدَهْ: النَّبْوُ العُلُوُّ والارْتِفاعُ، وَقَدْ نَبا. والنَّبْوَةُ والنَّبَاوَةُ والنبيُّ: مَا ارْتَفَع مِنَ الأَرض

نیز

وَقَالَ الْكِسَائِيُّ: النَّبِيُّ الطَّريقُ، والأَنْبِياء طُرُق الهُدَى

عربی زبان میں یہ لفظ “مرتفع مقام” کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس کے لئے آپ کلام عرب سے یہ شعر پیش کرتے ہیں:

عَلَى السَّيِّدِ الصَّعْب، لَو أَنَّه

يَقُومُ عَلَى ذِرْوةِ الصَّاقِبِ،

لأَصْبَح رَتْماً دُقاقَ الحَصى،

مَكانَ النَّبِيِّ مِنَ الكاثِبِ

آپ کہتے ہیں کہ “النبی” اس شعر میں مرتفع مکان کے معنی میں ہے (قَالَ: النَّبِيُّ المكان المُرْتَفِعُ)۔ ائمہ لغت کی کتب سے اس لفظ کے دیگر معانی کے لغوی استعمالات بھی ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں، یہاں طوالت کا موقع نہیں۔

یہاں ہم ذخیرہ حدیث سے دو روایات پیش کرتے ہیں جہاں یہ لفظ “مقام مرتفع” کے معنی میں آیا ہے۔ درج ذیل حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے:

كُنْتُ جَالِسًا في دَارِي، فَمَرَّ بي رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ، فأشَارَ إلَيَّ، فَقُمْتُ إلَيْهِ، فأخَذَ بيَدِي، فَانْطَلَقْنَا حتَّى أَتَى بَعْضَ حُجَرِ نِسَائِهِ، فَدَخَلَ ثُمَّ أَذِنَ لِي، فَدَخَلْتُ الحِجَابَ عَلَيْهَا، فَقالَ: هلْ مِن غَدَاءٍ؟ فَقالوا: نَعَمْ، فَأُتِيَ بثَلَاثَةِ أَقْرِصَةٍ، فَوُضِعْنَ علَى نَبِيٍّ

مفہوم یہ کہ ایک صحابی فرماتے ہیں کہ میں آپﷺ کے ساتھ ان کی ایک زوجہ کے گھر گیا، آپﷺ نے پوچھا کہ کھانے کو کچھ ہے تو تین روٹیاں لائی گئیں جنہیں “نبی” پر رکھا گیا۔ صاحب لسان العرب کہتے ہیں کہ یہاں “نبی” کا مطلب مقام مرتفع ہے: أَي عَلَى شَيْءٍ مُرْتَفِعٍ مِنَ الأَرض۔ ائمہ احادیث نے بھی یہ معنی مراد لئے ہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس روایت میں “نبی” اس اصطلاحی مفہوم والے نبی کے معنی میں نہیں آیا جو علمائے عقیدہ اس سے مراد لیتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:

لَا تُصلُّوا عَلَى النَّبيِ

یعنی نبی پر صلوۃ نہ پڑھو

یہاں بھی یہ لفظ “النبی” اصطلاحی مفہوم میں نہیں آیا ورنہ اس کا مفہوم یہ بنے گا کہ نبیﷺ پر درود نہ پڑھو جس کا غلط ہونا بداھتاً معلوم ہے۔ یہاں یہ لفظ ایسی اونچی سطح کے لئے استعمال ہوا ہے جس میں ایسا کرو (curve) ہو کہ اس کا پیٹ نیچے کی جانب اور دونوں اطراف ابھری ہوئی ہوں جیسے انگریزی حرف “یو” (U) کی شکل ہوتی ہے۔ اسی لئے صاحب لسان العرب یہاں “النبی” کا مطلب لکھتے ہیں: أَي عَلَى الأَرض الْمُرْتَفِعَةِ المُحْدَوْدِبةِ۔ تو حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ ایسی سطح پر نماز نہ پڑھو جس میں یو شکل کا کرو ہو (اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی سطح پر سجدہ کرتے ہوئے ناک زمین پر نہیں لگ پاتی، واللہ اعلم)۔ ملاحظہ کیجئے کہ یہاں بھی لفظ “نبی” لغوی مفہوم میں آیا ہے۔

پس ثابت ہوگیا کہ لفظ رسول کی طرح لفظ نبی بھی لغوی مفاہیم میں نہ صرف کلام عرب میں استعمال ہوتا ہے بلکہ خود نصوص میں استعمال ہوا ہے، لہذا غامدی صاحب نے جو اصول قائم کیا ہے اگرچہ وہ درست نہیں تاہم اس خاص لفظ “نبی” کے تناظر میں بھی وہ غلط ہے۔ الغرض کہنا پڑتا ہے کہ تصوف کو متبادل دین ثابت کرنے کے لئے محترم غامدی صاحب اب ایسے اصول وضع کرنے کے عمل میں پڑ گئے ہیں جن کی لغت، عقل و شرع کسی میں دلیل موجود نہیں۔

شیخ کی اصطلاح اور نصوص

ان دو اصولوں کے سوا جو دیگر باتیں کہی گئیں وہ تصوف اور صوفیاء کے بارے میں جناب غامدی صاحب کی دیرینہ غلط فہمیاں ہیں جن پر تفصیلی تبصرہ ہماری کتاب میں ہوچکا۔ یہاں البتہ ایک اہم غلط فہمی کا ازالہ ہم پھر سے کرنا چاہیں گے۔ ناقدین کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ شیخ ابن عربی کا یہ تصور نبوت نصوص کی روشنی میں نہیں بنایا گیا بلکہ اہل تصوف کی یہ باتیں اسی طرح کی چیزیں ہیں جیسے مثلا اشتراکیت اور پھر لوگوں نے اسے اسلام کے ساتھ ہم آہنگ کرکے اسلامی اشراکیت بنانے کی کوشش کی۔ نیز ان کا فرمانا ہے کہ لفظ نبوت کے اس لغوی پہلو کے استعمال سے علی الرغم کیا دینی نصوص اس تصور کو قبول کرتے ہیں؟

اس پر ہمارا پہلا تبصرہ یہ الزامی جواب ہے کہ غامدی صاحب کی یہ بات اسی قبیل کی ہے جیسے ان کے ناقدین ان پر یہ نقد کرتے ہیں کہ یہ دراصل مغربی استعمار کے زیر اثر لبرل ازم و سیکولرازم کے ڈسکورس کی اسلام کاری کرکے اسے مسلمان معاشروں میں پروموٹ کررہے ہیں۔ اس الزام کا جو جواب غامدی صاحب دیں گے وہی شیخ و صوفیا کی جانب سے بھی فرض کیا جائے۔

اس کا اصولی جواب ہم نے اپنی کتاب “شیخ ابن عربی کا تصور نبوت اور عقیدہ ختم نبوت” کے باب نمبر2 اور 3 میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ دیا ہے کہ علمائے عقیدہ نے نبوت کی اصطلاح کن نصوص کے پیش نظر بنائی اور وہ نصوص کو کیسے ہم آھنگ بناتے ہیں، پھر یہ بھی بتایا کہ شیخ متعلقہ نصوص و پہلووں کے پیش نظر اصطلاح کیسے و کیوں بناتے ہیں۔ لیکن غامدی صاحب نے اس پر ایک بھی حرف نہ کہا اور صرف اپنا دعوی دہرا دیا جو بحث کا علمی طریقہ نہیں۔ یہاں ان دو ابواب کی بحث کو پھر سے پیش کرنے کا موقع و محل نہیں، البتہ ہم اہل علم کے لئے چند مفید اشارے کرتے ہیں، شوقین حضرات کتاب ملاحظہ کریں۔

پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ خود غامدی صاحب نے یہ اصطلاح کس طرح بنائی ہے اور نصوص کی رو سے اس میں کیا کمی ہے۔ نبوت کے دینی تصور کو واضح کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ دین میں نبوت کا مطلب مخاطبہ الہی کے لئے کسی انسان کا انتخاب کیا جانا ہے جو اللہ کی جانب سے ہوتا ہے اور یہ نبوت کسی کے باطن سے نہیں اٹھتی کہ اسے مراقبوں سے حاصل کیا جاسکے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ جو بات اپنے بندے کو بتا کر انہیں اس کا مکلف ٹھہرانا چاھتا ہے جن کی بنیاد پر ان کا مواخذہ ہو وہ ان تک پہنچ جائیں، تو اس مقصد کے لئے ایک انسان کا انتخاب کرکے اسے اس منصب پر مامور کردیا جاتا ہے۔

ہمارا سوال ہے کہ نبوت کی یہ تعریف و تصور جو “مخاطبہ الہیہ” سے شروع ہوکر اس میں متعدد قیود و حدود (خدا کی جانب سے بخشا جانا، کسی انسان کا انتخاب، بندے کے کسب کا عمل دخل نہ ہونا، بندوں کو احکام کا مکلف ٹھہرانا، منصب پر مامور کرنا وغیرہ) کے ساتھ آگے بڑھتی چلی گئی، یہ قرآن کی کسی ایک آیت میں درج ہے؟ ہرگز بھی نہیں۔ قرآن دینی اصطلاحات کی قانونی تعریفات کی کتاب نہیں ہے، عقیدے سے متعلق جن قانونی تصورات کو شارع بیان کرنا چاہتے ہیں احکام فقہیہ کی طرح انہیں مختلف نصوص میں بیان کیا گیا ہے اور علمائے عقیدہ نے محنت شاقہ کے بعد استنباط کے ذریعے نپے تلے الفاظ میں انہیں بیان کیا ہے اور غامدی صاحب نے بھی درج بالا الفاظ میں اس کی کوشش کی ہے۔ اس اجتہادی کاوش کی رو سے اصطلاحی نبوت کے اجزائے ترکیبی وحی، تشریع، تبلیغ و تکلیف وغیرہ ہیں۔ چنانچہ اس سوال کا جواب غامدی صاحب بھی یہی دیں گے کہ نبوت کا درج بالا دینی تصور انہوں نے متعدد نصوص سے مستنبط کیا ہے جنہیں آپ نے کتاب “میزان” کے مختلف ابواب میں پیش کیا ہے۔ تو اس تصور کی بنیاد نصوص ہونے کا مطلب یہی ہے کہ ان کے لئے نصوص کو حوالہ بنایا گیا ہے، اگرچہ یہ پورا تصور کسی ایک آیت میں موجود نہیں۔ بعینہہ شیخ ابن عربی بھی قرآن و سنت میں لفظ وحی و نبوت کے متعدد استعمالات کے پیش نظر نبوت عامہ و خاصہ کے تصورات اخذ کرتے ہیں تاکہ نصوص باہم متعارض نہ ہوں۔ شیخ کی اصطلاح کے نصوص میں بیان کردہ چار اجزائے ترکیبی ہیں۔

الف)    لفظ نبوت نبا سے ہے جس کا مطلب خبر ہے اور اس خبر رسانی کی حقیقت کلام و مخاطبت ہے۔ اللہ تعالی کی جانب سے اس کلام و مخاطبت کے لئے قرآن نے جابجا وحی کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ وحی کا معنی خفیہ طریقے سے یا اشارتاً کسی کو بات پہنچانا ہے، عام اس سے کہ جسے خبر دی جائے وہ نبی ہے یا غیر نبی، انسان ہے یا حیوان، چرند ہے یا پرند، نباتات ہے یا جمادات۔ قرآن میں اللہ کی جانب سے مخاطبت یعنی وحی کے معنی میں یہ لفظ ان سب مخلوقات کے لئے استعمال ہوا ہے (متعلقہ آیات کے لئے ہماری کتاب ملاحظہ کیجئے)۔ نصوص میں درج یہ پہلو شیخ کی اصطلاح کا پہلا بلڈنگ بلاک ہے، یعنی جسے خدا کی مخاطبت کہتے ہیں وہ از روئے قرآن ہر مخلوق کو کسی نہ کسی درجے میں حاصل ہے اور یہ بات بھی قرآن سے ثابت ہے کہ خدا کی یہ مخاطبت صرف مکلفین کے احکام شریعہ کے لئے نہیں ہوتی، یہاں تک کہ خود انبیاء کی وحی بھی اس میں بند نہیں۔

ب)       ان کی اصطلاح کا دوسرا بلڈنگ بلاک یہ ہے کہ نصوص میں یہ بات متعدد بار آئی ہے کہ نبوت و رسالت ختم ہوجانے کے بعد اجزائے نبوت باقی رہیں گے جیسا کہ حدیث میں آیا:

إن ‌النبوة قد انقطعت والرسالة،  فقال: قد بقيت مبشرات وهي جزء من ‌النبوة

اس حدیث میں مبشرات کو صراحتاً نبوت کا جزو کہا گیا ہے۔ ترمذی شریف کی روایت کے مطابق جب رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا کہ نبوت و رسالت منقطع ہو چکی ہے تو اس انقطاع کی خبر صحابہ کرام پر شاق گزری (فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ)، رسول اللہﷺ نے انہیں تسلی دینے کے لیے ارشاد فرمایا کہ مبشرات باقی رہیں گے، یعنی مبشرات کی صورت میں خدا اور بندے کا تعلق باقی رہے گا۔ اسی طرح ایک حدیث میں آیا کہ سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں جزو ہے۔

ج)        اس کے ساتھ تیسری آبزرویشن یہ ہے کہ احادیث کے مطابق آخری زمانے میں حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا جن پر وحی بھی ہوگی نیز یہ بات بھی معلوم ہے کہ نبی کو نبوت سے معزول نہیں کیا جاتا

د) چوتھی بنیاد وہ نصوص ہیں جہاں مخاطبت کا تذکرہ انبیاء علیہم السلام سے متعلق ہوا

نصوص میں بیان کردہ ان چار امور کے پیش نظر شیخ ابن عربی غامدی صاحب جیسے اپنے ناقدین سے کہیں گے کہ اصطلاح بناتے ہوئے آپ نے سب امور و نصوص کا احاطہ نہیں کیا بلکہ ایسی اصطلاح بنائی جو صرف چوتھی حقیقت پر مبنی ہونے کی بنا پر نصوص کے ظاہر کے اعتبار سے غیر جامع ہے اور نتیجتاً متکلم کے کلام کے دیگر نظائر کو ان کے ظاہر سے پھیرنا پڑتا ہے۔ مثلاً شیخ کہیں گے کہ اگر نبوت صرف اس اصطلاحی مفہوم میں بند ہے جسے غامدی صاحب نبوت کہہ رہے ہیں تو جن احادیث میں یہ کہا گیا کہ ختم نبوت کے بعد بھی نبوت کے اجزاء باقی رہیں گے یا انہیں غلط کہنا ہوگا اور یا انہیں ظاہر الفاظ سے ھٹا کر ان کی توجیہہ و تاویل کرنا ہوگی۔ اسی طرح اگر وحی و مخاطبہ الہیہ کو صرف غامدی صاحب کی اصطلاحی نبوت کے ساتھ خاص کردیا جائے تو قرآن کی ان سب آیات کی تاویل لازم ٹھہرے گی جہاں اس مخاطبت کا ذکر غیر انبیاء کے لئے ہوا نیز ان احادیث کو بھی ظاہر سے ہٹانا ہوگا جو حضرت عیسی علیہ السلام کی وحی سے متعلق ہیں (اگر غامدی صاحب کہیں کہ میں نزول مسیح کا قائل نہیں تو اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہاں بحث اہل سنت کی دینی تعبیر میں ہورہی ہے)۔ چنانچہ اس بنا پر شیخ کے مطابق ایسی اصطلاح بنانے کی ضرورت ہے جو وحی (مخاطبت الہیہ) سے متعلق ان سب پہلووں کو سمیٹنے والی یعنی ان کی جامع ہو۔ اس جامع اصطلاح کو آپ “نبوت عامہ” کہتے ہیں جو اس وحی یعنی مخاطبت الہیہ کوبھی شامل ہے جو خدا ور کائنات کے مابین ربط سے عبارت ہے، ان مبشرات کو بھی گھیرے ہوئے ہے جسے حدیث میں اجزائے نبوت کہا گیا، اس مخاطبت کا بھی احاطہ کرتی ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کو حاصل ہوگی اور یوں آپ کا نبوت سے معزول کیا جانا بھی لازم نہ آئے گا نیز اس مخاطبت کو بھی جو انبیاء علیہم السلام کو حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ شیخ نے نبوت یا نبوت عامہ کی اصطلاح اس عمومی ترین مفہوم، یعنی مخاطبت الہیہ، کے پیش نظر بنائی جو ان مختلف نصوص میں درج ہے۔ رہی وہ نبوت جسے علمائے عقیدہ کی اتباع میں غامدی صاحب نبوت کہتے ہیں تو وہ نری مخاطبت الہیہ نہیں بلکہ اس کے ساتھ تشریع، تبلیغ و تکلیف جیسے اضافی امور شامل ہیں، شیخ ان اضافی قیود والے تصور کو نبوت خاصہ کہتے ہیں۔ گویا نصوص کے پیش نظر جو تصور عام تھا اسے عام رہنے دیا اور جہاں کسی قانونی تصور کے بیان کے لئے لفظ کے عمومی مفہوم میں قید کی ضرورت تھی اس کے ساتھ قید لگا دی۔ تو شیخ کا یہ اصطلاح بنانا نرا لغوی عموم سے تمسک نہیں ہے بلکہ ان کا تمسک شارع کی جانب سے نصوص میں لفظ وحی و نبوت کے مختلف استعمالات ہیں جو نبوت کے اس محدود قانونی تصور میں بند نہیں جو غامدی صاحب کی جانب سے بنائی گئی اصطلاح ہے، شیخ نے متکلم کے کلام میں اس حقیقت کی بابت نظائر کو اس لغوی عموم میں پرویا ہے۔

انصاف سے بتائیے کہ اصطلاح بنانے میں نصوص کا پاس زیادہ جامعیت و باریک بینی کے ساتھ کس نے رکھا، غامدی صاحب نے یا شیخ نے؟ نیز ہم پوچھتے ہیں کہ بتائیے اس تصور میں ایسی کیا خرابی ہے جسے دین اسلام و نصوص قبول نہ کرتے ہوں نیز جو اہل سنت کے قانونی تصورات سے باہر ہے؟ اگر کسی کم فہم کو اس سے التباس ہوتا ہے تو اس میں شیخ کا کیا قصور؟

الغرض قرآن و سنت کا نام لے کر شیخ کے تصور نبوت پر نقد کرنے والوں نے شیخ کو غور سے پڑھا ہی نہیں، مباحث نبوت ہوں یا توحید، شیخ ابن عربی ہر تصور نصوص پر کھڑا کرتے ہیں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ شارع کے مقرر کردہ نشان راہ کی پیروی کرتے ہوئے بنائی گئی اصطلاح کو سوء فہم کی وجہ سے متوازی دین بنا دیا گیا (العیاذ باللہ)۔ شیخ نے کتاب “الفتوحات المکیۃ” میں جتنی آیات و احادیث سے استناد کیا ہے اس کا انڈیکس ہی “میزان” کتاب کے تقریباً نصف حجم کے برابر ہے۔

آخر میں گزارش ہے کہ جس طرح غامدی صاحب نے شیخ و صوفیا کی اس اصطلاح کو سمجھے بغیر تصوف پر مضمون لکھا تھا، یہی معاملہ ان کے اس مضمون میں درج دیگر غلط فہمیوں کا ہے جن کا وہ اب بھی اعادہ کرتے ہیں مثلا یہ کہ صوفیا کے نزدیک انسان مخاطبہ الہیہ کسب کے زور سے حاصل کرسکتا ہے نیز یہ کہ صوفیا کے نزدیک الہام اس معنی میں قطعی ماخذ علم ہے جیسے انبیاء کی وحی میں درج قطعی امور وغیرہ۔ ہمارا مشورہ ہے کہ ان غلط فہمیوں کے ازالے کے لئے ہماری کتاب کے باب نمبر 8 اور 11 کا دقت نظر سے مطالعہ کیا جائے، شیخ صراحتاً ان پہلووں کی نفی کرتے ہیں۔ علمی گفتگو وہ ہوتی ہے کہ بحث جہاں تک پہنچ چکی ہو اس سے آگے کی بات کی جائے لیکن ایسا نہیں کیا جارہا۔ اسی قسم کے رویے کا اظہار غامدی صاحب صوفیا کے تصور توحید پر کررہے ہیں جبکہ ہم نے اپنی تحریرات میں امام غزالی و شیخ ابن عربی سمیت صوفیا کی آراء کی روشنی میں دکھایا ہے کہ صوفیا جسے توحید کے درجات کہتے ہیں نیز جسے توحید وجودی کہا جاتا ہے کیوں کر وہ عقل و نقل کے عین مطابق تصور ہے اور غامدی صاحب کا تصور توحید کیوں کر ناقص ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ابتدائی دعووں سے آگے بڑھ کر اس جوابی استدلال پر بھی کوئی بامعنی بات کہی جائے گی۔

وما توفیقی الا باللہ

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں