Home » علت تامہ سے معلول کا ظہور لازم ہے؟ قدم عالم پر ابن سینا کی دلیل پر تبصرہ
فلسفہ کلام

علت تامہ سے معلول کا ظہور لازم ہے؟ قدم عالم پر ابن سینا کی دلیل پر تبصرہ

ہمارے دور میں قدم عالم کے قائلین بعض حضرات علامہ ابن سینا (م 1037 ء) پر امام غزالی (م 1111 ء) کے اعتراضات کو غلط دکھانے کے لئے سوشل میڈیا پر مناظرے کی محافل سجاتے ہیں جن میں بدقسمتی سے ایسے لوگ غزالی اور متکلمین کے موقف کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں جنہیں متکلمین کے موقف نیز مخالف پر ان کے اعتراضات اور مخالف کے ان پر اعتراضات کا علم نہیں ہوتا۔ یہاں ہم ابن سینا کی اس مایہ ناز دلیل کا جائزہ لیتے ہیں جسے وہ قدم عالم کے لئے ایک تام دلیل قرار دیتے تھے اور جسے ہمارے دور کے یہ حضرات مناظروں میں گویا ایک فاتحانہ دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

دلیل یہ ہے کہ اگر علت تام ہو تو اس کا معلول موخر نہیں ہوسکتا بلکہ لازماً اس کے ساتھ ہوگا۔ اگر علت کی جہت سے دیکھا جائے تو معلول علت سے تب مؤخر ہوسکتا ہے جب علت تام نہ ہو بلکہ کسی شرط وغیرہ پر موقوف ہو۔ چونکہ ذات باری کائنات کے لئے تام علت ہے نہ کہ ناقص اور وہ ذات قدیم ہے لہذا ماننا ہوگا کہ کائنات بھی قدیم ہے کیونکہ کائنات علت اولی کا معلول ہے۔

تبصرہ

امام غزالی نے کتاب “تھافت الفلاسفۃ” کے باب اول کا آغاز اسی دلیل پر نقد سے کیا ہے اور باب نمبر تین اور چار میں بھی اس پر بحث کی ہے۔ یہاں ہم اس پر امام رازی (م 1210 ء) کی کتاب “المطالب العالیۃ” جلد چار کی بحث کی روشنی میں تبصرہ کریں گے، امام رازی نے اسے منظم انداز سے لکھا ہے۔

جس علت سے اس کا معلول بایں معنی جدا ہونا محال ہو کہ مؤثر اور اثر الگ نہیں ہوسکتے بلکہ ساتھ ہی پائے جائیں گے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ مؤثر واجب الوجود نہیں بلکہ ممکن الوجود ہو۔ چونکہ یہ محال ہے لہذا دعوی بھی محال ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے:

* ہمارا مشاہدہ ہے کہ عالم میں صورتیں اور اعراض وجود میں آنے کے بعد معدوم ہوجاتی ہیں

* معلول کا معدوم ہونا علت کے معدوم ہونے کو مستلزم یا اس پر دلالت کرتا ہے، یعنی معلول تبھی معدوم ہوتا ہے جبکہ علت معدوم ہو

* اگر وہ علت واجب الوجود ہو تو اس پر عدم محال ہے لیکن جو علت معدوم ہوجائے وہ واجب الوجود نہیں ہوتی، ماننا ہوگا کہ وہ ممکن الوجود ہے

* فلاسفہ کے مطابق ہر معلول کے پیچھے ایک اور علت ہوتی ہے، تو ایک معلول کے زائل ہونے سے اس سے ماقبل علت کا زائل ہونا لازم آیا اور اس کے زائل ہونے سے اس سے ماقبل علت کا معدوم ہونا لازم آیا وقس علی ذلک، اور یہ سلسلہ پہلی علت تک چلے گا یہاں تک کہ وہ بھی معدوم ہوجائے

* پس معلوم ہوا کہ فلاسفہ کے اصول کی رو سے اعراض و صور کے معدوم ہونے سے پہلی علت بھی قابل معدوم ہو اور ایسا تبھی ہوسکتا ہے جب وہ علت ممکن الوجود ہو لیکن فلاسفہ اس کے قائل نہیں۔ ثابت ہوا کہ علت تامہ سے معلول کے ظہور کا لازماً وقوع پزیر ہونے کا اصول غلط ہے کہ یہ ان کے اس مقدمے کے خلاف ہے کہ عالم کی علت واجب الوجود ہے۔

اب اسی کو دوسری طرح دیکھئے۔ اگر علت کا دوام معلول کے دوام پر دال ہے تو پھر اس معلول کا دوام اس معلول کے معلول پر دال ہوگا وقس علی ذلک، اور یوں لازم آئے گا کہ پورا عالم ہی قدیم ہو۔ اس کے جواب میں فلاسفہ یہ کہتے ہیں کہ ہر شے کا مبدا یعنی ذات باری تو قدیم ہے تاہم ہر حادث پر اس مبدا کے فیضان کی شرط یہ ہے کہ اس سے قبل ایک اور حادث موجود ہو جو اس مابعد کے لئے ثانوی تاثیری علت بنے اور یہ سلسلہ اٹل ہے۔ اسی بنا پر فلاسفہ حوادث لا اول لھا کے قائل تھے۔ تاہم اس جواب میں مسئلہ یہ ہے کہ ایک معین حادث سے ماقبل جو علت اس پر مؤثر ہوئی، فلاسفہ کے مطابق وہ قدیم نہیں بلکہ حادث ہی تھی، یعنی پہلے نہ تھی اور پھر ہوئی۔ اب صورت مسئلہ یہ بنی: یہ ماقبل حادث یا کسی علت کا محتاج نہیں ہوگا اور یا ہوگا، اگر ہوگا تو یہ علت یا عدم ہوگی اور یا وجود۔ تو یہ تین صورتیں ہوگئیں:

* پہلی صورت (یعنی بدون علت اثر کے ظاہر ہونے کو) فلاسفہ بھی نہیں مانتے کہ اگر ایسا ہونا جائز ہو تو پھر سارے امور ہی بدون علت ہوسکتے ہیں

* دوسری صورت بھی جائز نہیں کیونکہ عدم کو علت نہیں کہا جاسکتا کہ اگر بعض حوادث کی علت عدم محض ہونا جائز ہو تو سب کی علت بھی عدم ہوسکتی ہے

* تیسری صورت یہ ہے کہ وہ علت کوئی وجود ہوگا۔ اس کی دو صورتیں ہیں: یہ وجود یا اس حادث سے ماقبل ہوگا اور یا اس کے ساتھ۔

* اگر ماقبل ہو تو پھر ہر ماقبل حادث علت کے لئے اس سے قبل ایک اور حادث علت ہوگی اور اس سے قبل ایک اور حادث علت، اور یوں حوادث کا یہ سلسلہ لامتناہی چلتا رہے جیسا کہ فلاسفہ کا مذہب تھا، یعنی حوادث لا اول لھا۔ اس صورت میں ان کے لئے واجب الوجود پر دلیل قائم کرنا ممکن نہ رہے گا کہ حوادث کی یہ لامتناہی سیریز از خود عالم کے موجودات کی توجیہہ کرنے کے لئے کفایت کرے گی۔

* اور اگر اس کے ساتھ ہو، تو یا یہ کہا جائے گا کہ ان دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کی علت اور اثر ہے لیکن یہ دور ہوگا (یہ نہیں کہا جاسکتا کہ صرف ایک علت اور دوسرا اثر ہے کیونکہ پھر اس حادث علت کی علت پر سوال ہوگا اور پچھلی صورت لوٹ آئے گی)، اور یا پھر یہ کہا جائے گا کہ ان دونوں کے ساتھ ایک اور وجود ہے جو علت ہے لیکن اس قول سے علل و معلول کے نہ ختم ہونے والے تسلسل کا ایک ساتھ پایا جانا لازم آئے گا (کہ پھر اس حادث علت کی علت بھی اس کے ساتھ ہوگی وقس علی ذلک) جو فلاسفہ کے نزدیک بھی محال ہے۔ یاد رہے کہ فلاسفہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس ماقبل حادث سے قبل کوئی حادث علت نہیں کہ پھر انہیں ماننا ہوگا کہ یہ ماقبل حادث پہلا حادث ہے اور یہ ان کے مذھب حوادث لا اول لھا کے خلاف ہے۔

پس فلاسفہ کے موقف کی رو سے پانچ میں سے کوئی ایک بات لازم آتی ہے:

الف) بغیر علت کے اثر ظاہر ہونا
ب) عدم کو اثر کی علت قرار دینا
ج) ہر حادث اثر کو اپنے سے ماقبل حادث مؤثر کی جانب منسوب کرتے رہنا
د) دور قبول کرنا
ھ) تسلسل قبول کرنا

ان پانچ میں سے کسی ایک فاسد قول کو اختیار کئے بغیر فلاسفہ کا مقدمہ ثابت نہیں ہوتا، معلوم ہوا کہ جس دلیل و اصول کی رو سے وہ ذات باری کا اثبات کرتے ہیں وہ اصول فاسد ہے۔ یہ نتیجہ دراصل اس لئے برآمد ہوتا ہے کیونکہ فلاسفہ ارادہ و اختیار باری کے کائنات کی علت ہونے کا انکار کرتے تھے اور ارسطو کی پیروی میں “علت اولی” نامی علت کو کائنات کا مبدا کہتے تھے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں