متکلمین کاکہنا ہے کہ عالم عدم سے وجود میں آیا اور ذات باری عالم سے مقدم ہے۔ قدم عالم (eternity of universe) کے حامی علامہ ابن سینا (م 429 ھ) اور ان کے پیروکاروں کا اس پر یہ اعتراض رہا ہے کہ “عدم کی وجود پر” اور “ذات باری کی عالم پر” تمہاری بیان کردہ تقدیم (priority) چونکہ قابل فہم ہی نہیں لہذا تمہارا نظریہ غلط ہے۔ اس اعتراض کی تفصیل یہ ہے کہ ارسطو ایک شے کی دوسری سے تقدیم کی پانچ اقسام ذکر کرتا ہے جسے علامہ ابن سینا تھوڑے سے فرق سے اختیار کرتے ہیں۔ امام رازی (م 606 ھ) ان پانچ اقسام کا خلاصہ یوں بیان کرتے ہیں (ان اقسام کے بیان میں محققین کے ہاں تھوڑا بہت فرق ہے):
1۔ تقدیم بالمکان، جیسے نماز کے امام کی مقتدیوں سے تقدیم (بعض حضرات اسے “تقدم بالرتبۃ” کے تحت رکھتے ہیں)
2۔ تقدیم بالشرف، جیسے حضرت ابوبکر کی تمام صحابہ پر مرتبے یا فضیلت میں تقدیم یا جیسے معلم کی شاگرد پر تقدیم
3۔ تقدیم بالعلت، علت کا معلول پر مقدم ہونا جیسے پانی میں ہاتھ کی حرکت کی پانی کے ہلنے پر تقدیم یا سورج کی اپنی روشنی پر تقدیم۔ یہاں اگرچہ ہاتھ اور پانی کی حرکت ایک ساتھ ہوتی ہے، تاہم تاثیری مفہوم میں ایک شے دوسری پر مقدم ہے، یعنی ایک شے دوسرے پر مؤثر ہے جبکہ دوسری اس کے تابع (بعض حضرات اسے “تقدیم بالذات” کہتے ہیں)
4۔ تقدیم بالطبع، جیسے 1 کے ھندسے کی 2 پر تقدیم، یا جزء کی کل پر تقدیم۔ یہ علت و معلول کی تقدیم سے فرق ہے، اگرچہ 1 اور 2 میں یہ ترتیب لازم ہے لیکن 1 کا عدد 2 کی علت نہیں (بعض اسے “تقدیم بالذات” قرار دیتے ہیں)۔ تقدیم بالطبع دراصل شرط کی تقدیم ہے، اس میں اور تقدیم بالعلت میں مشترک یہ ہے کہ موخر کا تحقق مقدم کے تحقق پر موقوف ہوتا ہے مگر مقدم کا تحقق موخر پر موقوف نہیں ہوتا، جبکہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ علت کے تعلق میں مقدم کا وجود موخر کے وجود کو لازم بھی کرتا ہے اور بالطبع میں ایسا نہیں۔
5۔ تقدیم بالزمان، جیسے باپ کی ولادت کی اپنے بچے پر تقدیم
اس تقسیم کے پیش نظر ناقدین کے دو اعتراضات ہیں:
الف) چونکہ ایک شے کی دوسری سے تقدیم ان پانچ صورتوں کی ہے تو اب دیکھنا یہ ہے کہ ذات باری کو عالم سے پانچ میں کس قسم کی تقدیم حاصل ہے؟ ان کے نزدیک یہ زمانی و مکانی تقدم نہیں کہ ذات باری ان سے ماوراء ہے، نیز نہ ہی یہ طبعی تقدیم ہے۔ اسکے بعد دو امکان بچے: تقدیم بالشرف جو اللہ کو کائنات کے مقابلے میں اگرچہ حاصل ہے لیکن یہ کائنات کی توجیہہ نہیں ہوسکتی۔ آخری صورت تقدیم بالعلت ہے اور ذات باری کو عالم پر یہی تقدیم حاصل ہے، یعنی ذات باری عالم پر اس مفہوم میں مقدم و قبل ہے جس مفہوم میں علت معلول پر مقدم و قبل ہوتی ہے۔ چونکہ یہ بات دلیل سے ثابت ہے کہ علت و معلول ایک ساتھ پائے جاتے ہیں، لہذا ماننا ہوگا کہ عالم (معلول) بھی قدیم ہے اس لئے کہ ذات باری (علت) قدیم ہے۔
ب) تم کہتے ہو کہ حادث کا عدم اس کے وجود پر مسبوق یا مقدم ہوتا ہے۔ لیکن تمہیں ماننا ہوگا کہ عدم کی وجود سے جس تقدیم کی تم بات کرتے ہو وہ زمانی تقدیم ہی ہے کیونکہ عدم وجود سے “قبل” ہوتا ہے اور یہ قبل زمانی تقدم کے معنی میں ہی قابل فہم ہے۔ یعنی جب تم کہتے ہو کہ حدوث عالم سے قبل عدم تھا تو یہ “قبل” اسی زمانی ساعت کی جانب اشارہ کرکے ہی قابل فہم حکم بنتا ہے۔ پھر چونکہ زمانہ جسم کی حرکت کی پیمائش کا نام ہے اور جسم مادے کے ساتھ ہوتا ہے تو ماننا ہوگا کہ زمانہ، حرکت و مادہ قدیم ہیں۔
پس تقدیم کے قابل مفہوم پانچ اقسام کے پیش نظر درج بالا دونوں وجوہ (یعنی ذات باری کی عالم سے علتی تقدیم اور عدم کی وجود پر زمانی تقدیم) کی رو سے عالم کو قدیم ہونا چاہئے۔
یہ مسلم فلاسفہ کہ انتہائی دلیل تھی جسے ہمارے دور میں علامہ ابن سینا کے کچھ حامی ناواقف لوگوں کے سامنے دھرا کر مناظرے کی محفل لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تبصرہ
متکلمین کا جواب یہ ہے کہ تقدم کو پانچ اقسام میں بند کرنا زیادہ سے زیادہ استقراء پر مبنی دعوی ہے اور اس کے سوا کسی چھٹی قسم کا ہونا محال نہیں۔ درست بات یہ ہے کہ تقدیم کی چھٹی قسم بھی ثابت و مفہوم ہے جسے “تقدیم بالوجود” (existential priority) کہتے ہیں، یعنی ایک وجود موجد (existence giver) کا اور دوسرا اس کا جسے وجود ملا (بایں معنی کہ ایک وجود ذاتی ہو اور دوسرا عطائی یا ماخوذ)، علی الرغم اس سے کہ یہ عطائی وجود بطریق طبع و ایجاب (necessity) ملا یا بطریق اختیار۔ چونکہ یہ تقدیم معقول ہے تو “موجد کا وجود من حیث الوجود” مقدم فرض کرنا لازم ہے، عام اس سے کہ وہ وجود کسی دوسرے وجود کے لئے علت ذاتی ہے یا نہیں۔ وجودی تقدم و تاخر دراصل “ھست” (ہے) اور “نیست” (نہیں ہے) کا تقدم و تاخر ہے۔ یہ قسم اس ذات کے لحاظ سے مفہوم ہوتی ہے جو بالاختیار افعال کرتی اور ایجاد کرتی ہے، یعنی جو از خود مخصص (specifier) ہو۔ علامہ شہرستانی (م 548 ھ) نے کتاب “نھایة الاقدام”میں اس چھٹی قسم پر بحث کی ہے۔
تقدیم کی یہ چھٹی قسم ممکن بھی ہے نیز دیگر اقسام سے مختلف بھی، اسے سمجھانے کے لیے امام رازی زمانے کی ساعتوں کی مثال دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا “گزرے ہوئے کل” کی “آج” پر تقدیم زمانی ہے؟ ظاہر ہے یہ تقدیم زمانی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کے لئے یہ ماننا ہوگا کہ زمانہ از خود کسی اور زمانے میں ہے (یعنی time is it self timed by another time)، اور اگر ایسا کوئی زمانہ فرض کیا جائے تو پھر اس سے قبل ایک اور زمانہ فرض کرنا ہوگا، یوں یہ سلسلہ لامتناہی چلے گا۔ پس ماننا ہوگا کہ گزرے ہوئے کل کی آج پر تقدیم زمانی نہیں بلکہ یہ درج بالا پانچ اقسام کے سوا ہے۔ یہ وجودی تقدیم ہے جو زمانی تقدیم پر بایں معنی مقدم ہے کہ زمانے کی ساعتیں اگر وجودی طور پر مقدم و موخر نہ ہوں تو زمانی کہلائی جانے والی اشیاء زمانے کی مختلف ساعتوں میں پائی جانے کے سبب زمانی طور پر مقدم و مؤخر نہ ہوسکیں گی۔ اس مثال سے معلوم ہوا کہ وجودی تقدم علتی تقدم سے مختلف ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ گزرا ہوا کل آج کی علت نہیں۔ یعنی نہ صرف یہ کہ موجد (existence giver) کا ایجاد شدہ شے (existence receiver) پر وجودی تقدم زمانی تقدم سے مختلف ہے بلکہ یہ علتی تقدم سے بھی مختلف ہے۔ یہ وجودی تقدم اس حقیقت سے عبارت ہے کہ ایک وجود دوسرے وجود سے قبل یعنی اس کے بغیر ہے، عام اس سے کہ ان میں یہ تعلق علت و معلول کا ہے، زمانے کا یا اختیاری فعل اور اس کے اثر کا۔ امام رازی نے “المطالب العالیة” کتاب میں اس چھٹی قسم کے تقدم کی صحت پر چھ جہات سے دلائل قائم کئے ہیں۔
اس چھٹی قسم سے فلاسفہ کی دلیل کا توڑ کرتے ہوئے متکلمین ذات باری کے یکتا و بدون عالم موجود ہونے کو قابل فہم بناتے ہیں۔ فلاسفہ دراصل غلط طور پر یہ فرض کرلیتے ہیں کہ علت و معلول کے تعلق کی واحد صورت ایجابی (necessitating) نوعیت کی ہوتی ہے جیسے آگ اور اس کی روشنی کا تعلق جبکہ اس کی دوسری صورت ایجادی (existence granting) بھی ہوتی ہے جہاں فاعل بطریق اختیار کسی شے کو وجود بخشتا ہے۔، ذات باری کو عالم سے یہی ایجادی نسبت ہے اور یہ قسم تقدم کی چھٹی قسم کی متقاضی ہے، یعنی ذات چاہے تو فعل کرکے وجود بخشے اور چاہے تو نہ دے۔ ہم علامہ ابن سینا کی ایک دلیل (“علت و معلول لازما ساتھ پائے جاتے ہیں”) پر تبصرے کے ضمن میں پہلے ہی یہ دیکھ چکے ہیں کہ ذات باری اور عالم کے تعلق کو علت و معلول کے ایجابی تعلق میں دیکھنے سے متعدد مسائل و محال امور جنم لیتے ہیں۔ پس لازم ہے کہ اس چھٹی قسم کو مانا جائے۔
یاد رہے کہ تقدم وجودی کو تقدم بالطبع نہیں کہا جاسکتا کیونکہ 2 پر 1 کا طبعی تقدم ناقابل تبدیل (irreversible) بھی ہے نیز یہاں ایک شے کا تصور دوسری شے کا اس طرح محتاج ہوتا ہے کہ اس کا تصور فی نفسہ دوسری شے کو لازم کرتا ہے۔ جیسے 2 کا تصور از خود 1 کو لازم ہے، یعنی 2 میں 1 لازماً مراد ہوتا ہے۔ اس کے برعکس عالم کا تصور از خود ذات باری کے تصور کو مستلزم نہیں جیسے مثلا انسان کا تصور حیوان کو مستلزم ہے۔
درج بالا چھٹی قسم کے پیش نظر عدم کے وجود پر تقدم کو لازماً زمانے میں بند کرنے کا اعتراض بھی رفع ہوجاتا ہے۔ حادث کا عدم اس کے وجود پر اسی چھٹے مفہوم میں مقدم ہے، یعنی زید “نہ تھا” اور پھر “ہے”، یعنی یہ “نیستی” کا “ھویت” پر تقدم۔
اس وجودی تقدم کا بطور چھٹی قسم تفصیلی ذکر علامہ شہرستانی کے ہاں ملتا ہے۔ تاہم کتاب “تھافت الفلاسفة” میں فلاسفہ کے اسی قسم کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے امام غزالی (م 505 ھ) اس تصور کو چھٹی قسم کہے بغیر برتتے ہیں۔ اس مقام پر ناقد کا اعتراض وہی ہے جو اوپر ذکر ہوا کہ حدوث عالم سے قبل زمانہ ماننا ہوگا کہ “قبل” زمانے کے لئے ہی استعمال ہوا ہے۔ امام غزالی جواباً لکھتے ہیں:
الزمان حادث ومخلوق وليس قبله زمان أصلاً ونعني بقولنا إن الله متقدم على العالم والزمان إنه كان ولا عالم ثم كان ومعه عالم. ومفهوم قولنا: كان ولا عالم، وجود ذات الباري وعدم ذات العالم فقط ومفهوم قولنا: كان ومعه عالم وجود الذاتين فقط. فنعني بالتقدم انفراده بالوجود فقط، والعالم كشخص واحد. ولو قلنا: كان الله ولا عيسى مثلاً ثم كان وعيسى معه لم يتضمن اللفظ إلا وجود ذات وعدم ذات ثم وجود ذاتين، وليس من ضرورة ذلك تقدير شيء ثالث، وإن كان الوهم لا يسكن عن تقدير ثالث فلا التفات إلى أغاليط الأوهام
مفہوم: زمانہ بھی حادث و مخلوق ہے اور اس سے قبل کوئی زمانہ نہیں تھا۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی ذات عالم و زمان سے مقدم ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خدا تھا مگر عالم نہ تھا، پھر خدا بھی تھا اور عالم بھی تھا۔ اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ “خدا تھا اور عالم نہ تھا” تو اس سے ہماری مراد صرف اور صرف وجود باری کا ہونا اور عالم کا نہ ہونا ہوتی ہے (زمانے کی جہت مراد نہیں ہوتی) اور اسی طرح ہماری یہ بات کہ “پھر خدا تھا اور اس کے ساتھ عالم بھی تھا” سے مراد صرف دو ذاتوں کا وجود ہونا ہے۔ پس خدا کے تقدم سے ہماری مراد اس کے وجود کا ذاتی تقدم ہونا ہے۔ اسے سمجھنے کے لئے عالم کو ایک فرد تصور کرو۔ تو جب ہم کہتے ہیں کہ خدا تھا مگر مثلاً عیسی علیہ السلام نہ تھے پھر عیسی علیہ السلام بھی تھے، تو ان الفاظ میں ایک ذات کے ہونے و دوسری کے نہ ہونے اور پھر دو ذوات کے ہونے کے سوا کوئی تصور شامل نہیں۔ ہماری اس بات کو سمجھنے کے لئے کسی تیسری شے (یعنی زمانے) کو فرض کرنا لازم نہیں، اگرچہ وھم اس تیسری چیز کو فرض کرنے سے باز نہیں آتا تاہم اس کی ان غلطیوں کی جانب توجہ نہیں کی جائے گی
یعنی غزالی جس تقدم کی بات کررہے ہیں وہ زمانی نہیں بلکہ وہ فقط وجود کا تقدم ہے (فنعني بالتقدم انفراده بالوجود فقط)۔ آپ مزید کہتے ہیں:
قلنا: المفهوم الأصلي من اللفظين وجود ذات و عدم ذات. والأمر الثالث الذي فيه افتراق اللفظين نسبة لازمة بالإضافة إلينا بدليل أنا لو قدرنا عدم العالم في المستقبل ثم قدرنا لنا بعد ذلك وجوداً ثانياً لكنا عند ذلك نقول: كان الله ولا عالم
مفہوم: ہم کہتے ہیں کہ ہمارے ان دو الفاظ میں اصلا مراد وجود کا ہونا و نہ ہونا ہے، رہا وہ تیسرا تصور (یعنی زمان) جو ان میں فرق کرتا محسوس ہوتا ہے وہ (اشیاء پر) ہماری جہت یا اعتبار سے لاگو ہونے والی نسبت ہے (نہ کہ خدا کی جہت سے) جسے اس دلیل سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر ہم مستقبل میں عالم کا معدوم ہونا اور اس کے بعد پھر اس کا وجود ثانی فرض کریں تو اس عدم کے بعد ہم یہ کہنے میں درست ہوں گے: اللہ موجود ہے اور عالم نہیں۔
یہاں بھی الفاظ “المفهوم الأصلي من اللفظين وجود ذات و عدم ذات” اس چھٹی قسم کی جانب اشارہ ہیں۔ البتہ تحقیقی بات یہ ہے کہ اس چھٹی قسم کا تصور امام غزالی سے قبل بھی متکلمین کے ہاں ملتا ہے اگرچہ وہ فلاسفہ کے اس خاص اعتراض کا جواب دینے کے لئے پانچ اقسام کے مقابلے میں یوں استعمال نہ کیا گیا ہو، اس کا یوں صراحتاً استعمال علامہ شہرستانی کے ہاں ملتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے دور میں قدم عالم کے بعض حامیین اس جواب یعنی تقدیم کی چھٹی قسم کو سمجھے بغیر علامہ ابن سینا کی اسی دلیل کو دھراتے ہیں کہ متکلمین کے جملے “حادث کے مسبوق بالعدم” ہونے کا مطلب مسبوق بالزمان ہی ہوسکتا ہے اور غزالی بھی یہی کہہ رہے تھے مگر اس کے باوجود وہ لفظ “قبل” کے منشا پر غور کئے بغیر غیر معقول طور پر اس کا انکار کرکے عالم کو حادث بھی کہتے رہے۔ غزالی صراحتا کہتے ہیں کہ عالم سے قبل کوئی زمانہ نہ تھا، اس سے “قبل” زمانے کو پراجیکٹ کرتے رہنا وھم کی کارستانی ہے، یہاں قبلیت زمانی نہیں وجودی و عدمی (ھست و نیست کی) ہے۔ علامہ تفتازانی (م 791 ھ) نے کتاب “شرح المقاصد”میں عدم کے وجود پر تقدم کی تفہیم کے ایک اور امکان کا بھی ذکر کیا ہے، فی الوقت ہم اس سے سہو نظر کرتے ہیں۔
کمنت کیجے