سید متین شاہ
ڈاکٹر روتھ پفاؤ (پا کے ساتھ درست جرمن تلفظ حسب تصریح ڈاکٹر قیصر شہزاد صاحب) کی وفات پر ، حسب معمول، اس کے جنتی اور دوزخی کی بحث شروع ہو گئی ہے. یہ بحث اس پہلو سے بالکل غیر مفید ہے کہ جو چیز اللہ کے ہاتھ میں ہے اسے اپنے ہاتھ میں لے کر آدمی داعی کے بجائے قاضی بن جائے، لیکن اس پہلو سے بہت مفید ہے کہ اس کی بنیاد پر غیر مسلموں میں تبلیغ و دعوت کی اہمیت واضح ہوتی ہے.
ہندوستان میں جب گاندھی کا ایک ہندو کے ہاتھوں قتل ہوا تو کچھ مسلمانوں نے انہیں شہید لکھنا شروع کر دیا. دارالعلوم دیوبند کے فاضل مفتی،مولانا ظفیر احمد مفتاحی رح (جو چند سال پہلے فوت ہوئے. ) کے نام مولانا عبد الماجد دریابادی رح نے خط میں لکھا : گاندھی جی سے متعلق پہلے سوء ظن میں افراط تھی. اب حسن ظن میں ہو گئی ہے. بے اعتدالی اور عدم توازن سے تو ہماری قوم کو گویا عشق ہے. (علمی مراسلے : ص 308)
اسی طرح کا معاملہ ہمارے یہاں اس طرح کے مواقع پر پیدا ہوتا ہے. مذکورہ بالا خاتون کی وفات پر بھی اس طرح کے دو طرز سامنے آئے. بعض نے اگر بتیاں جلا کر خوشبو کا ماحول پیدا کیا، پلاؤ تقسیم ہوا ، فاتحہ ہوئی اور ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ کی نوید جانفزا سنائی جب کہ بعض نے مرگھٹ میں چتا روشن کی اور میت سوختہ ہونے کے بعد ڈاکٹر پفاؤ کی ارتھی کی خاک کو دریاے چندرا بھاگا کی شوریدہ سر موجوں کی نذر کرتے ہوئے وامتازوا الیوم ایھا المجرمون کی وعید سنائی. معدودے چند اہل علم نے متوازن اپروچ اپنائی.
. . . . . .
دارالعلوم دیوبند میں ایک مرتبہ مولانا عبید اللہ سندھی رح اور مولانا شبیر احمد عثمانی رح کے درمیان غیر مسلموں میں تبلیغ اور اتمام حجت کے مسئلہ پر اختلاف ہوا. مولانا مناظر احسن گیلانی رح نے “احاطۂ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن ” میں اس اختلاف کا ذکر اور اس پر حضرت شیخ الہند رح کا نقطۂ نظر بیان فرمایا ہے. اسے یہاں اختصار سے درج کیا جاتا ہے.
مولانا سندھی رح کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : (انھوں نے ) یہ فرمایا کہ قرآنی آیت : لانذرکم بہ و من بلغ (تاکہ میں ڈراؤں تم لوگوں کو اور ان لوگوں کو جن تک بات پہنچی. ) “اسی سے میں اس نتیجے تک پہنچا ہوں کہ بنی آدم میں جن لوگوں تک قرآن کا پیغام نہیں پہنچا ہے. ان سے مواخذہ اسلام کے نہ قبول کرنے پر نہ ہو گا. ”
مولانا عثمانی رح کا اس موقف سے اختلاف تھا تاہم اس مسئلے کی اطلاع حضرت محمود حسن رح تک پہنچی. مولانا گیلانی اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انھوں نے “ایک ایسی شستہ و رفتہ تقریر فرمائی جو خاکسار کے نزدیک حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے. اپنی کتاب “الدین القیم میں اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے اور عام خیالات کے سوا حضرت مجدد کے خاص نظریے کو درج کر کے آخری فیصلہ حضرت والا کی اسی درسی تقریر کو اپنی کتاب میں قرار دیا ہے. . . حضرت شیخ الہند رح نے جو تقریر فرمائی تھی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ تبلیغ اور مواخذہ ان دونوں کی حیثیت کلی مشکک جیسی ہے. مثالا ارشاد ہوا تھا کہ ابوبکر صدیق رض کو تبلیغ جس رنگ میں ہوئی تھی ظاہر ہے کہ وہی رنگ اس تبلیغ کا نہیں ہو سکتا جو ہمارا اور آپ کا ہے. صدیق اکبر رض براہ راست نبوت کے محرم اسرار تھے جو قرب ان کو حاصل تھا یقینا آج کل کے ایک عامی مسلمان کو وہ میسر نہیں. اسی طرح حق تعالی کے مواخذہ گرفت کی نوعیت بھی ایک جیسی نہیں. آخر ابوجہل پر حجت جس طرح پوری ہوئی تھی اور اسی بنیاد پر جس مواخذے کا وہ مستحق ہوا یہی نوعیت ان لوگوں کے مواخذوں کی کیسے ہو سکتی ہے جنہیں ابوجہل کی سی آسانیاں میسر نہیں ہیں؟ . . .
بس اجمالی عقیدہ یہ رکھنا چاہیے کہ ہر شخص کا مواخذہ اس کی تبلیغ کی نوعیت کے ساتھ وابستہ ہے. جسے جس حد تک تبلیغ ہوئی ہے اسی حد تک اس سے مواخذہ بھی ہو گا. یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص ہندوستان یا عرب ہی میں رہتا ہو لیکن اپنے خاص حالات کی وجہ سے دین حق کا پیغام اس شخص تک نہ پہنچے جس رنگ میں یورپ یا امریکا کے کسی ایسے شخص تک پہنچا ہو جس نے با ضابطہ اسلام اور اسلامی تعلیمات اسلامی کتابوں کا مطالعہ کیا ہو.
غرض انفرادی طور پر یہ بات کہ تبلیغ کسے کس درجے کی ہوئی ہے؟ حق سبحانہ و تعالی ہی اسے جانتے ہیں اور مواخذہ بھی وہی اپنے علم کے مطابق کریں گے. تفصیلی علم تو اس خدا ہی کو ہے. ہمارے لیے اتنی اجمالی بات کافی ہے کہ جسے جس حد تک تبلیغ ہوئی ہے اسی حد تک اس سے مواخذہ ہو گا. اشخاص متعین کر کے یہ بتانا آدمی کے لیے نا ممکن ہے کہ کسے درجے کی تبلیغ ہوئی ہے؟ اور جب تبلیغ کے مدارج کا تفصیلی علم نہیں ہو سکتا تو مواخذے کی تفصیل بھی ہم کیسے کر سکتے ہیں؟ (ص 230-232 نسخہ مرتبہ حافظ تنویر احمد شریفی)
حضرت شیخ الہند رح کی یہ تقریر واضح طور پر حضرت سندھی رح کے حق میں ہے اور حکمت اور بصیرت پر مبنی معلوم ہوتی ہے. یہ تقریر اکیسویں صدی میں درپیش پلورل ازم کے تناظر میں بھی بہت معتدل ہے.
مسلمانوں کا منصب یہ ہے کہ وہ دین کی دعوت پہنچاتے رہیں. یہ جو گمراہی پھیل رہی ہے کہ جو جس مذہب پر اخلاص سے قائم ہے بس نجات یافتہ ہے غلط ہے. اس سے اسلام کا مقصد انذار بالکل فوت ہو جاتا ہے جو منصوص ہے اور دوسری طرف کسی غیر مسلم کی وفات ہونے پر کفر اور دوزخ کی آیات فٹ کرنے کی اپروچ بھی درست معلوم نہیں ہوتی. یہ بات کہ آج ذرائع ابلاغ کے دور میں اسلام ہر جگہ متعارف ہے، اجمالی حیثیت سے تو درست ہے لیکن فرد فرد کی حیثیت سے درست نہیں کہ ہم یہ جان سکیں کہ کس پر حق اس وضاحت کے ساتھ پہنچ چکا ہے جس کے بعد تسلیم لازم ہوتا ہے. یہ اللہ کے علم کی بات ہے.
اور آخر میں یہ بات عرض کرنے میں بھی حرج نہیں کہ غیر مسلموں کو کافر کہنے نہ کہنے کا مسئلہ بھی کوئی بڑی بات نہیں اگر ہمارا اس پر یقین ہو کہ کامل حق صرف اور صرف قرآن کا پیغام ہے اور ہم اس کے ذریعے انذاز کے مکلف ہیں. و اللہ اعلم
کمنت کیجے