امام غزالی (م 1111 ء) نے جن تین وجوہات کی بنا پر علامہ ابو نصر فارابی (م 950 ء) اور علامہ ابن سینا (م 1037 ء) کی تکفیر کی ان میں سے ایک مسئلہ فلاسفہ کی یہ رائے تھی کہ عالم قدیم ہے۔ متعلقہ مباحث کے پس پردہ چلے جانے کے سبب لوگوں کو لگتا ہے کہ امام غزالی کی جانب سے اس مسئلے پر تکفیر بے بنیاد و بے جا تھی اور بعض دوست بعد کے ادوار کی بحثوں کی روشنی میں پچھلی بحثوں پر حکم لگاتے ہیں۔ آئیے یہاں نفس مسئلہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فلاسفہ کا مقدمہ
فلاسفہ کی متعلقہ بات کا خلاصہ یہ ہے کہ افلاک اور ھیولی وغیرہ ازل سے ذات باری کے ساتھ موجود ہیں، فرق یہ ہے کہ ذات باری از خود موجود ہے جبکہ ھیولی ذات باری سے قائم ہے۔ ان کے مطابق اس عالم کی اشیاء دو چیزوں کا مرکب ہیں: ھیولی اور صورت۔ اول الذکر بدون رنگ و بو ایک ناقابل تبدیل شے ہے جو گویا ہر شے کے لئے مسالے یا مادے کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ مسالہ مختلف کیفیات و صورتوں میں ڈھل کر ہمارے مشاہدے میں آتا ہے۔ اس پر طاری ہونے والی یہ صورتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، یعنی یہ صورتیں حادث ہیں۔ لیکن صورتوں کی تبدیلی کا یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ھیولی کبھی صورت سے جدا نہیں ہوتا۔ تبدیلی کے یک بعد دیگرے اس تسلسل کو “حوادث لا اولھا” کہتے ہیں۔ اثبات باری کے استدلال میں یہ حضرات ارسطو کے نظریہ “علت اولی” سے متاثر تھے کہ اس عالم میں امور علت و معلول کی نسبت میں بندھ کر حرکت و تبدیلی کی حالت میں ہیں اور علت کا معنی شے کی تاثیری صلاحیت ہے، لیکن یہ نہیں مانا جاسکتا کہ علتوں کا یہ سلسلہ لامتناہی ہو لہذا ماننا ہوگا کہ اس کے آخری سرے پر ایک ایسی علت ہے جو حرکت و تبدیلی سے ماوراء ہے۔ اسے uncaused first mover کہتے ہیں جو بطریق اختیار اشیاء کو خلق نہیں کرتی بلکہ اس سے عالم بطریق لزوم اسی طرح صادر ہوگیا ہے جسے آگ سے روشنی صادر ہوتی ہے اور چونکہ آگ اور اس کی روشنی ایک ساتھ ہوتے ہیں لہذا عالم بھی ازل سے اس علت اولی کے ساتھ ہے۔ خدا سے بطریق لزوم اس صدور کو سورج سے روشنی کے صدور سے مختلف کہنے کے لئے فلاسفہ یہ کہتے تھے کہ موخر الذکر ایجابی صدور “بغیر شعور و قصد بوجہ طبع” ہے جبکہ اول الذکر ایجابی صدور بذریعہ ایسے شعور و قصد ہے جو علت سے معلول کا صدور اس طرح لازم کرتا ہے کہ معلول کا علت سے جدا ہونا محال ہو۔ ان فلاسفہ کا ماننا تھا کہ ذات باری چونکہ واحد اور اس لئے علت تامہ ہے نیز ساتھ ہی وہ قادر اور جواد بھی ہے لہذا معلول بھی اس کے ساتھ قدیم ہوگا۔
امام غزالی کا اعتراض
اس رائے پر امام غزالی کے اعتراضات دو طرح کے ہیں: حکم عقلی کے لحاظ سے اور حکم شرعی کے لحاظ سے۔ حکم عقلی کی بحث میں آپ یہ دکھاتے ہیں کہ یہ نظریہ ایک طرف غیر معقول و محال امور کو لازم کرنے والے مفروضات پر مبنی ہے اور دوسری طرف اپنے مقصد (یعنی اثبات باری) کو حاصل کرنے میں بھی ناکام رہتا ہے۔ یہ بحث “تھافت الفلاسفۃ” کے صفحات پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ اگر بات صرف اتنی ہی ہوتی کہ یہ ایک غیر معقول نظریہ ہے تو اس پر تکفیر نہیں ہوسکتی تھی اس لئے کہ کسی غیر معقول و متضاد بات کا اقرار موجب کفر نہیں۔ مثلاً اگر کوئی اصرار کرے کہ دو جمع دو پانچ ہوتے ہیں تو اسے بھلے سے پاگل کہا جائے لیکن کافر نہیں کہا جاسکتا۔ تکفیر کا مطلب یہ حکم جاری کرنا ہے کہ فلاں بات عند اللہ موجب عقاب ہے، اور یہ ایک شرعی حکم ہے جس کی بنیاد ماخذات اور احکام شریعہ سے آنی چاہئے۔ چنانچہ فلاسفہ کی تکفیر کی بنیاد یہ نکتہ تھا کہ اگر عالم قدیم ہے تو پھر یہ کسی با اختیار ہستی کا فعل (یعنی خلق و ایجاد) نہیں ہوسکتا بلکہ یہ کسی ایسی علت موجبہ (necessitating cause) کا معلول ہوگا جس سے اثر کا جدا ہونا محال ہے اور نتیجتاً وہ معلولات کی ترتیب پر اثر انداز بھی نہیں ہوسکتا نیز اس عالم میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ازل سے جاری ہونے والے تاثیرات کے ثانوی و اٹل سلسلوں کے واسطوں سے ہوتا ہے۔ اسی بنا پر فلاسفہ کو معجزات کی توجیہہ کرنا پڑتی تھی۔ اب یہ سوال اٹھائیے کہ “اختیار و ارادے” کا معنی کیا ہے اور “فعل” کسے کہتے ہیں؟ اختیار یہ ہے کہ فاعل چاہے تو فعل کرے اور چاہے تو نہ کرے اور فعل کا معنی تب متحقق ہوتے ہیں جب اثر (یعنی مفعول) عدم سے وجود میں آئے اس لئے کہ اختیاری فعل بطریق قصد ہوتا ہے اور جو شے قدیم (یعنی بغیر ابتداء موجود) ہو اس کے وجود کے قصد کا کوئی مطلب نہیں۔ موجد (existentiater) اسی کو کہتے ہیں جو “وجود دے”، لیکن جو وجود قدیم ہو اسے “وجود دینے” کا کوئی مطلب نہیں، زیادہ سے زیادہ اس حاصل شدہ وجود کی بقا کی بات کی جاسکتی ہے نہ کہ اس کے حصول وجود کی۔ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالی عالم کا خالق و موجد ہے اور اس معنی کے تحقق کا تقاضا یہ ماننا ہے کہ عالم مخلوق یعنی قدیم نہیں حادث ہے۔ اگر عالم کو قدیم مانا جائے تو خدا کے خالق و موجد (یعنی وجود دینے والا) ہونے کا اقرار زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں۔
پس اس بنا پر امام غزالی کا کہنا تھا کہ متعدد نصوص کے پیش نظر عالم کو حادث ماننا، یہ اہل اسلام کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے اور اس کے بغیر خدا کے خالق و موجد ہونے کے معنی کا انکار لازم آتا ہے اور فلاسفہ اسی قطعی اجماعی معنی کے انکار کے مرتکب ہیں۔ چنانچہ امام صاحب کی جانب سے تکفیر کی بنیاد اس تصور کا قطعی اجماعی ہونا ہے کہ ذات باری فاعل و خالق مختار ہے اور یہ تبھی متحقق ہوتا ہے جب ماسوا اللہ کو حادث کہا جائے۔
غزالی کے فتوے پر نقد کے زاویے
امام صاحب کے اس فتوے کو غلط قرار دینے کے دو زاویہ نگاہ ہیں:
1) یہ کہا جائے کہ غزالی نے جس اصول کو بنیاد بنایا وہ اصول درست تھا، البتہ قدم عالم کے مسئلے میں علامہ ابن سینا اس بات کے قائل ہی نہ تھے جو غزالی نے ان کا موقف مقرر کیا (یعنی یہ کہ ھیولی وغیرہ قدیم وجود خارجی ہیں)۔ اس صورت میں یہ تحقیق مناط کا اختلاف ہوگا کہ ابن سینا کا موقف کیا تھا اور کیا نہیں، تاہم ناقد یہاں یہ مان رہا ہے کہ اصول بہرحال درست ہے۔
2) یہ کہا جائے کہ غزالی کا اصول ہی غلط ہے۔ اس کی پھر دو صورتیں ہوسکتی ہیں:
الف) یہ ثابت کرنا کہ خدا کا فاعل مختار و خالق و موجد عالم ہونا یہ مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ نہیں اور نہ ہی نصوص اس پر دال ہیں۔ یہ طریقہ بحث ہماری معلومات کے مطابق کسی نے بھی اختیار نہیں کیا۔
ب) خدا فاعل مختار تو ہے لیکن اس کا تقاضا پورا کرنے کے لئے عالم کو حادث ماننا لازم نہیں اور نہ ہی اس لزومی نتیجے پر امت کا اجماع ہے۔ ناقدین غزالی نے عام طور پر یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس کے تحت بھی مختلف زاویہ نگاہ رہے ہیں، مثلاً:
1۔ شیخ ابن تیمیہ کا طریقہ: یہ بات درست ہے کہ اگر کوئی شے ازل سے موجود ہے تو خدا کا فاعل مختار ہونا ثابت نہ ہوگا، لہذا ھیولی و افلاک وغیرہ کے قدم کا انکار لازم ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ پورے عالم کو بھی حادث کہا جائے بلکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ ہر ہر فرد حادث ہے اگرچہ یہ حوادث لا اول لھا کی صورت ہو تو بھی فاعل مختار ہونے کا تقاضا پورا ہوجاتا ہے کیونکہ ہر فرد عدم سے وجود میں آرہا ہے۔ یہ شیخ ابن تیمیہ (م 1328 ء) کا طریقہ ہے جو عالم کی نوع کو قدیم مگر افراد کو حادث کہتے ہیں۔ متکلمین کے نکتہ نگاہ سے شیخ ابن تیمیہ پر یہ اعتراض تو کیا جاسکتا ہے کہ ان کا یہ نظریہ غیر معقول ہے (کہ “حوادث لا اول لھا” ایک غیر معقول بات ہے) لیکن اس پر تکفیر و تضلیل درست نہیں اس لئے کہ شیخ سب افراد کو حادث اور کسی بھی شے کو قدیم نہ کہہ کر خلق و ایجاد جیسے افعال کے اصل مفہوم کا اقرار کرتے ہیں۔ بہت ہوگیا تو کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ شیخ ابن تیمیہ کے نظرئیے سے عالم کا قدیم ہونا لازم آتا (یعنی imply ہوتا) ہے۔ لیکن خود شیخ ابن تیمیہ اس بات کو نہ صراحتاً قبول کرتے ہیں اور نہ ہی اسے اپنی بات کا لازمی نتیجہ مانتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس علامہ ابن سینا اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ ھیولی وغیرہ قدیم ہیں۔ پس ان دونوں باتوں کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ یاد رہے کہ شیخ ابن تیمیہ بھی مسلم فلاسفہ کے اس موقف کی اسی طرح تضلیل کرتے ہیں جیسے امام غزالی کرتے تھے۔
2۔ مسلم فلاسفہ کا طریقہ: یہ بات درست ہے کہ خدا فاعل مختار ہے لیکن یہ بات درست نہیں کہ یہ معنی حدوث عالم ہی سے متحقق ہوتے ہیں بلکہ قدم عالم کے ساتھ بھی یہ معنی متحقق ہوسکتے ہیں نیز حدوث عالم کے موقف پر اجماع بھی نہیں۔ یہ طریقہ مسلم فلاسفہ اور ان کے حامیوں نے اختیار کیا جس کے لئے انہوں نے اختیار و فعل کے ایسے معنی مقرر کئے جس کے بعد اختیار جبر اور فعل نری علت سے مختلف نہیں رہتے۔ ان سب توجیہات کا حاصل یہ ہے کہ خدا سے شعوری طور پر معلول یعنی عالم کا ظاہر ہونا لازم ہے، اگر ایسا نہ ہو تو یا وہ واحد و تام نہیں اور یا قادر و جواد نہیں۔ خدا کے اختیاری فعل کا مطلب یہ ہے کہ اس سے مفعول کا ازل سے صدور ہی ہو ورنہ وہ خدا نہیں، نہ ہی عالم کو خلق نہ کرنے کا ارادہ کرنا اس کے شایان شان ہے اور نہ ہی وہ اس نظام میں جاری ثانوی علتوں کے اثرات میں رد و بدل کا ارادہ کرسکتا ہے۔ یعنی اس کی ذات کی کاملیت اور جود و سخا کا یہی لازمی تقاضا ہے کہ اس سے عالم صادر ہو، یہی اس کا فعل اور یہی اس کا اختیاری فیصلہ ہے۔ فلاسفہ کا دعوی تھا کہ مسلمان عام طور پر خدا کو جس مفہوم میں خالق و موجد کہتے ہیں وہ معنی مراد لینا محال ہیں، اس لئے نصوص کی ایسی تاویل لازم ہے جو ان کے نظرئیے کے مطابق ہو۔
کتاب “تھافت الفلاسفۃ” کا ایک اہم مضمون فلاسفہ کو یہی دکھانا تھا کہ تمہارا یہ دعوی عقلی طور پر لازم نہیں بلکہ جو ہم کہتے ہیں وہ بھی عقلا ممکن ہے، اس لئے تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ ایسی موھومی باتوں کو عقلی لوازمات قرار دے کر تم اجماع سے باہر نکل جاؤ۔ امام غزالی کے نزدیک فلاسفہ کی یہ تاویلات ارسطو کی “علت اولی” پر مذہبی لبادہ اوڑھانے کی کوششیں تھیں، اور یہ اختیاری فعل کا ایسا مفہوم مقرر کرنا تھا جس کا امت میں کوئی قائل نہ تھا اور نہ ہی ان سے اختیار و فعل کے مفاہیم قابل فہم ہوتے ہیں کیونکہ اس نظرئیے کے مطابق خدا کے لئے محال ہے کہ وہ فعل نہ کرے۔ اسی لئے امام غزالی فلاسفہ سے کہتے ہیں کہ آپ لوگ خدا کے لئے لینگویج تو اہل مذھب کی استعمال کرتے ہیں لیکن ان الفاظ کے جو مطلوبہ شرعی معنی ہیں ان کا انکار کرتے ہیں۔ گویا امام غزالی کی نظر میں فلاسفہ کی یہ تاویل ایسی ہی تھی جیسے مثلاً قادیانیوں نے ختم نبوت کا ایک ایسا معنی مقرر کیا ہے جو مسلمانوں کے اجماعی فہم کے خلاف ہے اگرچہ قادیانی اپنے مقرر کردہ مفہوم کو ختم نبوت ہی کہتے ہیں۔
3۔ شیخ ابن عربی کا طریقہ: علامہ ابن سینا جس نیو افلاطونی روایت کو آگے بڑھا رہے تھے، مسلمانوں میں بعض اہل فکر نے اس مجموعی روایت کے پیش نظر اس میں ایسے اضافے کئے جس کے بعد وہ علامہ ابن سینا کے نظرئیے سے مختلف بات بن گئی۔ اس کی ایک مثال شیخ ابن عربی (م 1240 ء) کی اکبری روایت ہے جس پر آگے چل کر ملا صدرہ (م 1641 ء) نے بھی حواشی کی صورت کچھ اضافے کئے۔ لیکن شیخ ابن عربی کے نظرئیے کے پیش نظر علامہ ابن سینا کا دفاع کرنا دو وجوہ سے کمزور ہے:
- ایک اس لئے کہ شیخ ابن عربی کے ہاں یہ خارجی عالم (جو بحث کا اصل موضوع ہے) اسی طرح حادث ہے جیسے متکلمین اشاعرہ و ماتریدیہ کہتے ہیں اور اس بنا پر ان کے ہاں اختیاری فعل کے مطلوبہ معنی متحقق ہیں۔ شیخ جسے “اعیان ثابتہ” کہتے ہیں وہ مرتبہ علمی ہے، اگرچہ وہ اسے وجود کا ایک مرتبہ بھی کہتے ہیں (زیادہ وقیع بات یہ ہے کہ اسے وہ وجود اور عدم کے مابین بزرخی حالت کہتے ہیں)۔
- دوسرا اس لئے کہ ابن سینا کا نظریہ اپنی تفصیلات میں شیخ کے نظرئیے سے مختلف تھا جیسا کہ اہل علم واقف ہیں۔
ان بعد کی ڈویلپمنٹس کو مد نظر رکھ کر علامہ ابن سینا کی کوئی ایسی توجیہہ کرلینا جس کے بعد وہ امام غزالی کے فتوے سے بچ جائیں اور غزالی کا فتوی غلط ثابت ہوجائے، اس کا امکان اگرچہ موجود رہتا ہے لیکن اس سے غزالی کے اصول کی غلطی ثابت نہیں ہوتی بلکہ یہ بحث کو تحقیق مناط کی جانب موڑ دینا ہے۔ علامہ ابن سینا پر امام غزالی کے نقد کے بعد مسلمانوں میں ایسی علمی روایت پنپ نہ سکی جس میں ذات باری کے اختیاری فعل کے اس اجماعی مفہوم کا کسی نہ کسی صورت اقرار نہ کیا گیا ہو جس پر امام غزالی کا اصرار تھا اور مسلمانوں میں ارسطوی فلسفے سے برآمد ہونے والے mechanistic God (یعنی impersonal یا غیر مذہبی خدا ) کا تصور عام نہ ہوسکا۔
فعل اور ارادے کے معنی پر فلاسفہ کی توجیہات سے غزالی واقف تھے
قدم عالم کے مسئلے پر امام غزالی نے فلاسفہ پر جو حکم جاری کیا، بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ حامیین فلاسفہ نے بتا دیا کہ وہ خدا کو ربوٹ نما شے نہیں سمجھتے بلکہ ارادی ذات اور فاعل ہی کہتے تھے، البتہ ارادے و اختیار سے ان کی مراد وہ نہ تھی جو غزالی نے مقرر کی۔ امام غزالی نے فعل و اختیار کا جو مطلب مقرر کیا وہ ان کی جانب سے پہلی مرتبہ نہ تھا بلکہ یہی مفہوم مسلمان مانتے چلے آئے تھے اور کتب اس پر شاھد ہیں۔ یہاں ہم یہ دکھاتے ہیں کہ فلاسفہ کی یہ توجیہات امام صاحب کے سامنے موجود تھیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے فلاسفہ کی تردید کی۔
آئیے پہلے “تھافت الفلاسفۃ” کے باب نمبر 3 کی جانب چلتے ہیں جہاں امام صاحب یہ بتاتے ہیں کہ فلاسفہ اپنی علت موجبہ کے لئے فاعل کا لفظ بول کر کس طرح دھوکے سے کام لیتے ہیں۔ امام صاحب بتاتے ہیں کہ ہر فاعل (agent) علت (cause) تو ہوتا ہے مگر ہر علت فاعل نہیں کہلاتی۔ فاعل وہ ہوتا ہے جس سے بطریق اختیار و قصد مفعول یا اثر ظاہر ہو اور یہی پہلو فاعل کو اس نری علت سے الگ کرتا ہے جیسے سورج سے روشنی کا اجرا۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ یہ فرق بدیہیات میں سے ہے، اگر زید کسی کو آگ میں ڈال دے جس کے سبب وہ شخص مر جائے تو اس نتیجے کی نسبت بطور فاعل زید کی جانب کی جاتی ہے نہ کہ آگ کی نیز اسی طرح جمادات وغیرہ کو علت تو کہا جاتا ہے مگر فاعل نہیں۔ جمادات کو فاعل صرف مجازاً کہا جاتا ہے جیسے کہتے ہیں کہ “آگ نے جلا دیا”۔ متعدد سوال و جواب سے معاملے کی تنقیح ہوجانے کے بعد فلسفی کہتا ہے:
نحن نعني بكون الله فاعلاً أنه سبب لوجود كل موجود سواه وأن العالم قوامه به، ولولا وجود البارئ لما تصور وجود العالم، ولو قدر عدم البارئ لانعدم العالم، كما لو قدر عدم الشمس لانعدم، لضوء. فهذا ما نعنيه بكونه فاعلاً، فإن كان الخصم يأبى أن يسمي هذا المعنى فعلاً فلا مشاحة في الأسامي بعد ظهور المعنى
مفہوم: اللہ کے فاعل ہونے سے ہماری مراد یہ ہے کہ وہ سب موجودات کا سبب ہے اور عالم اسی سے قائم ہے، اگر وہ نہ ہو تو عالم کا وجود متصور نہ ہوگا۔ اگر ذات باری کو معدوم فرض کیا جائے تو عالم اسی طرح معدوم ہوگا جیسے سورج کے معدوم ہونے سے روشنی معدوم ہوتی ہے۔ پس فاعل ہونے سے ہماری یہی مراد ہے اور اگر ہمارا مخالف اسے فعل کہنے کو غلط سمجھتا ہے تو مراد واضح ہوجانے کے بعد اصطلاح میں کوئی جھگڑا نہیں۔
امام غزالی جواباً کہتے ہیں:
قلنا: غرضنا أن نبين أن هذا المعنى لا يسمى فعلاً وصنعاً، وإنما المعنى بالفعل والصنع ما يصدر عن الإرادة حقيقية. وقد نفيتم حقيقة معنى الفعل ونطقتم بلفظه تجملاً بالإسلاميين، ولا يتم الدين بإطلاق الألفاظ الفارغة عن المعاني. فصرحوا بأن الله لا فعل له، حتى يتضح أن معتقدكم مخالف لدين المسلمين. ولا تلبسوا بأن الله صانع العالم وأن العالم صنعه فإن هذه لفظة أطلقتموها ونفيتم حقيقتها، ومقصود هذه المسألة الكشف عن هذا التلبيس فقط
مفہوم: ہمارا مقصد یہی واضح کرنا ہے کہ اس مفہوم کو فعل کرنا و بنانا نہیں کہا جاتا کیونکہ فعل و بنانے کا حقیقی معنی کسی شے کا ارادتا وقوع پزیر ہونا ہے جبکہ تم نے فعل کی اس حقیقت کا انکار کیا ہے اگرچہ اہل اسلام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے لفظ کو برقرار بھی رکھا ہوا ہے۔ البتہ دین کا تقاضا محض لفظ بدون معنی استعمال کردینے سے پورا نہیں ہوسکتا۔ تمہیں چاہئے کہ اپنی یہ بات کھل کر کہو کہ خدا کا کوئی فعل نہیں ہے تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ تمہارا عقیدہ اہل اسلام سے مختلف ہے، لہذا دھوکہ دھی سے کام لے کر یہ نہ کہتے رہو کہ خدا عالم کو بنانے والا ہے اور یہ عالم اس کی صنعت ہے کیونکہ اگرچہ تم یہ لفظ بولتے ہو مگر اس کے معنی و حقیقت کا انکار کرتے ہو اور اسی حقیقت کی پردہ کشائی اس باب (یعنی باب نمبر 3) کا مقصود ہے۔
اس کے بعد امام صاحب یہ ثابت کرتے ہیں کہ فعل کے معنی تبھی متحقق ہوتے ہیں جب معلول حادث ہو اور یہ حدوث ہی معلول کے “فعل کے اثر ہونے” کو قابل فہم بناتا ہے، قدیم معلول کو فعل کا اثر کہتے رہنا خلط مبحث ہے۔ آپ واضح کرتے ہیں کہ فعل کا اثر کہلانے کے لئے حادث ہونے کی شرط کا یہ مطلب نہیں کہ اس شرط کے تحقق کو کسی علت کی احتیاج ہے بلکہ یہ حقائق کی مانند ہے جو معلل نہیں ہوتے۔ یہ بات آپ اس لئے کہتے ہیں کیونکہ “قدیم اثر” کا تصور ہی محال ہے، بطور اثر وہ تبھی مفہوم ہوگا جب حادث ہو۔ پس فاعل کے اثر ہونے کا امکان (contingency) ایسا اعتبار ہے جو حدوث ہی سے مفہوم ہوسکتا ہے، چاہے حادث فی الواقع موجود ہو یا وجود میں آسکتا ہو۔
اب آئیے باب نمبر 5 کی جانب جہاں فلاسفہ کا یہ دعوی زیر بحث ہے کہ ذات باری چونکہ ہر اعتبار سے واحد ہے لہذا اس پر صفات کا الگ سے اضافہ جائز نہیں۔ اس حوالے سے فلاسفہ کا موقف کیا تھا امام صاحب نے اسے تفصیل سے لکھا ہے، یہاں ہم اس کا وہ حصہ نقل کرتے ہیں جو ہماری اس بات سے متعلق ہے کہ امام صاحب کو فلاسفہ کی ان تاویلات کا علم تھا جو وہ قدرت و ارادے سے متعلق یہ حضرات کیا کرتے تھے۔ آپ بتاتے ہیں کہ فلاسفہ کے مطابق ذات باری کی صفات یا سلوب (negations) ہیں اور یا تعلقات (relations)۔ اس کی تفصیل کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں:
وإذا قيل: خالق وفاعل و بارئ وسائر صفات الفعل، فمعناه أن وجوده وجود شريف يفيض عنه وجود الكل فيضاناً لازماً، وإن وجود غيره حاصل منه وتابع لوجوده كما يتبع النور الشمس والإسخان النار. ولا تشبه نسبة العالم إليه نسبة النور إلى الشمس إلا في كونه معلولاً فقط، وإلا فليس هو كذلك فإن الشمس لا تشعر بفيضان النور عنها ولا النار بفيضان الإسخان فهو طبع محض، بل الأول عالم بذاته وأن ذاته مبدأ لوجود غيره (۔۔۔) وأنه عالم بأن كماله في أن يفيض منه غيره (۔۔۔) وإذا قيل: قادر، لم نعن به إلا كونه فاعلاً على الوجه الذي قررناه وهو أن وجوده وجود يفيض عنه المقدورات التي بفيضانها ينتظم الترتيب في الكل على أبلغ وجوه الإمكان في الكمال والحسن وإذا قيل: مريد، لم نعن به إلا أن ما يفيض عنه ليس هو غافلاً عنه وليس كارهاً له، بل هو عالم بأن كماله في فيضان الكل عنه. فيجوز بهذا المعنى أن يقال: هو راض، وجاز أن يقال للراضي: إنه مريد. فلا تكون الإرادة إلا عين القدرة ولا القدرة إلا عين العلم ولا العلم إلا عين الذات، فالكل إذن يرجع إلى عين الذات (۔۔۔) وإذا قيل له: جواد، أريد به أن يفيض عنه الكل لا لغرض يرجع إليه
مفہوم: جب اس ذات کو خالق، فاعل و باری یعنی ایسی صفات سے متصف کہا جاتا ہے جو فعل کی طرف منسوب ہیں تو اس کا معنی یہ ہے کہ اس کا وجود ایک ایسا باشرف وجود ہے جس سے بطریق لزوم سب کے وجود کا فیضان ہوتا ہے نیز یہ کہ دیگر سب کا وجود اس سے مستعار اور اس کے وجود کے تابع ہے جیسے روشنی سورج کے اور حرارت آگ کے تابع ہوتی ہے، عالم کو ذات باری سے معلول ہونے کے سوا کوئی نسبت نہیں جیسے روشنی کو سورج سے۔ البتہ ان دونوں معاملات میں یہ فرق ہے کہ سورج کو روشنی اور آگ کو حرارت کے صدور کا شعور نہیں ہوتا کہ یہ ان کی طبع و فطرت کا تقاضا ہے جبکہ ذات باری خود شعور بھی ہے اور اس بات کا شعور بھی رکھتی ہے کہ وہ دیگر موجودات کے وجود کا مبدا ہے (۔۔۔) اور وہ جانتا ہے کہ اس کا کمال یہی ہے کہ اس سے غیر پر وجود کا فیضان ہوتا ہے (۔۔۔) اور جب اسے قادر کہا جاتا ہے تو اس سے مراد اسی مفہوم میں فاعل ہونا ہے جو اوپر بیان ہوا، یعنی یہ کہ اس کی ذات سے تمام اشیاء پر وجود کا فیضان ہوتا ہے اور اسی کے فیضان سے عالم میں اس طرح ربط آتا ہے کہ عالم امکان میں کمال و حسن ظاہر ہوتے ہیں۔ اور جب اسے مرید کہا جاتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ اس سے صادر ہوا نہ وہ اس سے غافل ہے اور نہ ہی ناپسند کرنے والا بلکہ وہ یہ جانتا ہے کہ اس کی جانب سے فیضان کا اجرا ہی اس کا کمال ہے، پس اس معنی میں یہ کہنا درست ہے کہ وہ اس سب پر راضی ہے اور جو (خود سے ہونے والے صدور پر) راضی ہو اسے (اس صدور کا) ارادہ کرنے والا کہنا بھی جائز ہے۔ پس اس کا ارادہ بجز اس کی قدرت کچھ نہیں اور اس کی قدرت بجز اس کا علم کچھ نہیں اور اس کا علم بجز اس کی ذات کچھ نہیں، الغرض سارا معاملہ اس کی ذات کی جانب لوٹ جاتا ہے (۔۔۔) اور جب اسے جواد کہا جاتا ہے تو مطلب یہی ہوتا ہے کہ اپنی کسی غرض کے بغیر وہ دوسروں کو فیضان پہنچانے والا ہے۔
اس پیراگراف سے واضح ہے کہ فلاسفہ کی جانب سے ارادے سے متعلق جن توجیہات کا ذکر امام غزالی کے جواب میں کیا جاتا ہے وہ وہ نئی نہیں ہیں، وہ سب غزالی کے علم میں تھیں۔ خوبصورت الفاظ کا جال بن کر فلاسفہ نے جس طرح جبر کا نام اختیار، فعل و ارادہ رکھنے کی کوشش کی تھی اس کی غلطی عیاں ہے۔ جب خدا کے لئے “فعل کرنے و نہ کرنے” کے تصور میں “نہ کرنے” کو آپ نے محال کہہ دیا تو پھر فعل و اختیار کا مطلب کیسے متحقق ہوا؟ محال تو کہتے ہی اسے ہیں جس کا تصور ہی ممکن نہ ہو، گویا آپ کے بقول ذات باری کے لئے فعل نہ کرنے کا تصور ہی ممکن نہیں! جس ذات کے لئے “فعل نہ کرنے” کا تصور ممکن نہیں، اس کے لئے “فعل کرنے” کا معنی کیسے متحقق ہوا، وہ بھی اختیاراً؟
یہاں یہ بات یاد رہے کہ فلاسفہ و معتزلہ کے موقف میں فرق تھا۔ معتزلہ حسن و قبح سے متعلق اپنے مخصوص تصور کی وجہ سے ذات باری کے لئے چند خاص افعال کا صدور لازم اور چند کا صدور محال کہتے تھے لیکن وہ فعل کے اس مفہوم کا انکار نہیں کرتے تھے جو فلاسفہ کا طریقہ تھا۔
کمنت کیجے