یونانی فلسفیانہ روایت میں عقل اور عقلیت کی دو بڑی روایتیں ہیں۔ ایک وہ جو ماورائے شہود کسی حقیقت کے ہونے سے مطلق انکاری ہے، اور مکمل طور پر تشبیہی اور مادی ہے۔ دوسری وہ جو افلاطون کے زیرِ اثر کسی ایسے عالم کو ’مانتی‘ ہے جو ماورائے شہود ہے، اور اس روایت میں مابعد الطبیعات کی طرف عقل کی لپک اِس کے خلقی اقتضا کو ظاہر کرتی ہے۔ فلسفیانہ مابعد الطبیعات نہ عقلی علم ہے، نہ عرفان ہے، نہ علم الحقائق ہے، نہ مذہب ہے، اور نہ ہی مذہب سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ یہ ’ماورا‘ کے بارے میں توہم اور شعور کے خلقی اقتضآت کی عقلی تنظیم ہے۔ جبکہ دوسری طرف، جدیدیت ارسطو کے جہانِ کلام اور کلامِ جہان کی توسیع و تفصیل ہے۔ جدیدیت آدم کا شبستانِ وجود میں ہبوط ثانی ہے۔ یہاں شعور اور وجود کی دنیا گھٹا ٹوپ اور تاریک ہے۔ صرف وہ چھڑی سفید ہے جو ہر فلسفی اور صاحبِ علم کے ہاتھ میں ہے، اور یہی اس کا قلم ہے جس کی روشنائی بھی سیاہ ہے۔ یہ دونوں روایتیں epistemology کے ذیل میں آتی ہیں، سائنس، فلسفہ، اور سماجی سائینسیں اسی میں شامل ہیں۔
’علم‘ کا دوسرا بڑا دھارا جو مغرب سے پھوٹ بہا ہے، وہ بہت تیز رو ہے، اور اس کی پیش قدمی سطحِ وجود پر سرسراہٹ اور فضا میں پھنکار لیے ہوتی ہے۔ یہ مارٹن لوتھر سے شروع ہوا۔ یہ ہرمانیوٹکس کی ہاہاکار ہے۔ اس ’علم‘ کا مسئلہ شعور ہے نہ وجود، مکاں ہے نہ لامکاں، شہود ہے نہ غیب۔ اس کا مسئلہ لفظ ہے۔ شجر کی جڑیں زمین میں ہوتی ہیں اور اس کی حرکت صعودی ہوتی ہے۔ لفظ غیب کے کُنگروں سے خارزارِ شہود تک لٹکتی بیل کی طرح ہوتا ہے جس کی معنوی حرکت نزولی / صعودی یعنی دو رویہ ہوتی ہے۔ لفظ کی یہی گت ہے اور ہرمانیوٹکس اسی کی دُرگت ہے۔ یہ لفظ کی بیل کو زمینی شجر بنانے کی مہم جوئی ہے۔
گزشتہ دو سو سال میں ہمارے اہلِ علم ہرمانیوٹکس اور epistemologies سے مطلقاً بے خبر ہیں۔ ان کے ہاں ’علم‘ اور ’عقل‘ کا کوئی بھی تصور نہیں پایا جاتا۔ ہمارا کلاسیکل اور روایتی علم الکلام افلاطونی ہے اور نہ ارسطوئی، اگرچہ وہ ان روایتوں سے بہت گہری نسبتیں رکھتا ہے، اور اس میں علم اور عقل کے تصورات بہت واضح اور valid ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کلاسیکل علم الکلام فلسفیانہ اور عرفانی معنی میں مابعدالطبیعات نہیں ہے اور نہ ارسطوئی معنی میں وہ natural sciences کی طرح کا علم ہے۔ یعنی وہ عقلی ہے لیکن تشبیہی نہیں ہے، اور وہ مذہبی ہے لیکن مابعدالطبیعاتی نہیں ہے۔ اس کو درست تر معنی میں thought کہا جا سکتا ہے جو مذہبی عقل کی thinking سے پیدا ہوتا ہے، اور یہ thought شعور کے اقتضآت اور وجود کے مطالبات کو پورا کرتا ہے۔
امام عالی مقام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں ’احیاء علوم الدین‘ اور Reconstruction of Religious Thought بالکل اور قطعی ہم معنی ہیں۔ ان میں ایک فرق ہے کہ غزالیؒ کامیاب ہو گئے اور علامہ اقبالؒ کسی تہذیبی synthesis تک پہنچنے میں اُن کی طرح کامیاب نہ ہو سکے۔ دونوں کے منصوبے میں زیرِ بحث چیز thought ہے، اور thought صرف ایسی فکر ہو سکتی ہے جو مکمل طور پر عقلی ہو، لیکن اپنے اصولِ اول میں افلاطونی عقل اور ارسطوئی عقل دونوں سے مختلف ہو۔ غزالیؒ اور اقبالؒ دونوں کے ہاں ایک اضافی شرط اس کا مذہبی ہونا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے ہمارے مذہبی اہلِ علم درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ برصغیر میں نادر شاہ افشار کے حملے کے بعد سے ہمارے مذہبی اہلِ علم دین کی reconstruction میں مصروف ہیں۔ epistemology یا علمیات میں اصولِ اول عقل ہوتی ہے، ہرمانیوٹکس میں فہم ہوتا ہے۔ عقل سے thought پیدا ہوتا ہے، اور فہم سے تجدد۔ thought میں تنزیہہ کو باقی رکھنا عقل کی سرفرازی ہے، اور فہم عقل اور تنزیہہ دونوں کی موت ہے۔ تہذیبی سطح پر عقل مُرکَّز ہوتی ہے اور وحدتِ افکار کی طرف رہنما، جبکہ فہم مُشتَّت اور ہادم وحی ہوتا ہے۔ گزشتہ دو سو سال میں ہمارے ہاں عقیدے کی بحث میں صوابدیدی فہم کے غلبے سے عقیدہ بالکل منتشر ہو گیا، فرقہ واریت نے انفس و آفاق کو گھیر لیا، علوم تمام کے تمام تکفیری ہو گئے اور مستقل نزاع نے نفس دین کو اوجھل کر دیا۔
کمنت کیجے