عمران شاہد بھنڈر
جناب محمد دین جوہر صاحب کی ایک حالیہ تحریر بعنوان ”علوم الدین اور مذہبی فکر“ نظر سے گزری۔ اسے پڑھ کر حیرت نہیں ہوئی، کیونکہ یہ بھی ان کی سابقہ تحریروں کی طرح فقط دعوؤں اور نتائج پر مشتمل تھی۔ اپنی تحریر میں انہوں نے یہ دعوے کیوں کیے اور کن دلائل کی بنیاد پر نتائج اخذ کیے، اس سے متعلق تجزیات کا مکمل فقدان دکھائی دیتا ہے۔ منطق کی زبان میں اس عمل کو منطقی مغالطہ Hasty Generalisation کہا جاتا ہے۔ جوہر صاحب کی اس تحریر میں منطقی مغالطوں کا انبار لگا ہوا ہے۔ عین ممکن ہے کہ جوہر صاحب کے ذہن میں کچھ دلائل موجود ہوں جن کی بنیاد پر انہوں نے دعوؤں اور نتائج کا ڈھیر لگا دیا، لیکن ہمارے پاس ایسا کوئی آلہ موجود نہیں ہے کہ جسے استعمال میں لاکر انسان کے ذہن کی داخلی سرگرمی کا علم حاصل کیا سکے۔ان کے دعوؤں پر وہ لوگ تو یقین کر سکتے ہیں جن کے عقائد یکساں ہوں۔ تاہم وہ لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ دعویٰ علوم کے جس شعبے سے متعلق ہو، اسی شعبہ علم سے دلیل بھی پیش کرنی چاہیے۔ اب منطق کو عقیدے کی بنیاد پر تو پرکھا نہیں جا سکتا۔ بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ متکلمین نے عقائد کو فلسفیانہ فکر و منطق کے معیارات پر جانچنے کی کوشش کی ہے، اور اپنے تئیں یہ نتیجہ بھی نکالا ہے کہ مذہبی کُتب منطق کے معیار پر پورا اترتی ہیں۔ غیر منطقی کو تو منطق کے میعار پر پرکھ کر منطقی ثابت کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے، لیکن منطق کو غیر منطق کے میعار پر جانچنا ناممکنات میں سے ہے، وجہ یہ کہ منطق جب غیر منطق کے میعار پر لائی جائے گی تو وہ منطقی نہیں رہے گی۔ دوسری طرف عقیدے کو منطقی و عقلی ثابت کرنے میں فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ اگرچہ کوئی بھی عقیدہ منطقی اصول و قواعد میں کوئی اضافہ نہیں کرتا اور نہ ہی کسی اصول کی تردید ہی کر سکتا ہے۔ منطق کا عقیدے پر اطلاق اسے توسیع دینے کا سبب بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ”اجتہاد“ کو زیادہ سے زیادہ عقلی و منطقی پیرائے میں پیش کر کے بوسیدہ عقائد کو توسیع دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی سوچ کے تحت متکلمین، مجددین اور مفسرین جدید علوم کی روشنی میں ”فکرِ اسلام کی نئی تشکیل“ کے خواہاں ہوتے ہیں۔ جناب جوہر صاحب بھی اپنی تحریروں میں جدید و قدیم علمیات کو لے تو آتے ہیں، چونکہ انہوں نے پہلے سے یہ طے کر رکھا ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ’عقل‘ کی تحقیر کرنی ہے، جس سے شاید وہ عقیدے کے لیے راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں، اس لیے بیشتر اوقات وہ اپنی تحریر میں جو کہنا چاہتے ہیں، اسے خود بھی نہیں سمجھتے۔ ”جلد بازی میں تعمیم“ جیسے منطقی مغالطے کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہو سکتی ہے، لکھتے ہیں،
”علمیات میں اصولِ اوّل عقل ہوتی ہے، ہرمانیوٹکس میں فہم ہوتا ہے۔ عقل سے Thought پیدا ہوتا ہے، اور فہم سے تجدد۔ Thought میں تنزیہہ کو باقی رکھنا عقل کی سرفرازی ہے، اور فہم عقل اور تنزیہہ دونوں کی موت ہے۔“
آنجناب نے جس سنگین غلطی کا ارتکاب کیا ہے وہ یہ ہے کہ آنجناب فلسفے میں عقل اور فہم کے درمیان بطور صلاحیت فرق، جو کہ ان کے مختلف تفاعل کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، اور فلسفیانہ تصورِ فہم (بطورصلاحیت) اور ہرمانیوٹکس میں تفہیم کے معانی، سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہرمانیوٹکس میں فہم کا مطلب بطور صلاحیت نہیں بلکہ مذہبی، ادبی یا اساطیری متون کی تفہیم ہوتا ہے۔ یعنی مذہبی ادبی اور اساطیری متون وغیرہ کی شرح اس انداز میں کی جائے کہ ان متون کا فہم دوسروں تک منتقل ہو جائے۔ انگریزی میں لفظ فہم (انڈرسٹینڈنگ) بطورِ اسم اور صفت دونوں سطحوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔ آنجناب کی غلطی یہ ہے کہ وہ متن کے فہم اور فہم بطورِ انسانی صلاحیت کے درمیان فرق نہیں دیکھ پائے۔ مستزاد یہ کہ ایک غلط تصور کو بنیاد بنا کر ’عقل‘ کی موت کا اعلان بھی کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ بات ایک عام انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ عقل کے بغیر کسی بھی متن کی تفہیم ممکن نہیں ہوتی، اور اگر عقل کی موت واقع ہو جائے تو متن کی تفہیم ناممکن ہو جاتی ہے۔ کیا کوئی فاتر العقل شخص ہرمانیوٹکس کے تحت متن کی تفہیم کرا سکتا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔
آنجناب نے اپنے اس دعوے میں فہم اور عقل کو ایک دوسرے کے حریف کے طور پر پیش کیا ہے، اور پھر کسی بھی دلیل کے بغیر یہ حکم لگا دیا ہے کہ”فہم عقل اور تنزیہہ کی موت“ ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا فلسفے کی روایت و تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عقل اور فہم ایک دوسرے کے مخالف ہیں؟ اور اگر فہم تنزیہہ اور عقل کی موت ہے تو فہم اور عقل کے تفاعل میں کیا فرق ہے؟ کیا فہم عقل سے برتر صلاحیت ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ فہم عقل کی موت ہے؟ اگر فہم عقل سے برتر ہے تو ضروری تھا کہ جناب جوہر صاحب دونوں کی فعلیت بیان کرتے اور پھر یہ تجزیہ پیش کرتے کہ فہم کی کون سی فعلیت ہے کہ عقل جس کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ لیکن جوہر صاحب نے ایسا کوئی تجزیہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ تاریخ فلسفہ میں عمانوئل کانٹ وہ پہلا فلسفی تھا جس نے فہم اور عقل کے درمیان ان کے تفاعل کی بنیاد پر امتیاز قائم کیا۔ تفاعل سے مراد یہ کہ انتہائی باریکی سے ان کُلیات کو واضح کیا جن پر صرف فہم گرفت کر سکتی ہے۔ لیکن فہم ان کُلی تصورات کا منطقی استخراج کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ تجزیہ کرنا ایک منطقی فعلیت ہے، اور فہم کا کام صرف قواعد کی روشنی میں تصورات کی تشکیل کرنا ہے۔ واضح رہے کہ فہم کبھی اصول تشکیل نہیں دیتی۔ اصول تشکیل دینا عقل کی فعلیت ہے۔ فہم جب قواعد کے تحت تصورات تشکیل دیتی ہے تو ان قواعد کی تشکیل سے جو نتائج نکلتے ہیں وہ فہم خود نہیں نکال سکتی۔ کیونکہ نتیجہ قواعد کے تحت نہیں، اصول کے تحت نکالا جاتا ہے۔فلسفیوں نے انسانی صلاحیتوں کو ان کی مخصوص فعلیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے انتہائی گہرائی میں جا کر ممیز کیا ہے۔ جس طرح ”تخیل“ وہ صلاحیت ہے جو حسی ادراک کے وسیلے کے بغیر ایک معروض کو مشاہدے میں لاتا ہے۔ اسی طرح تصدیق (Judgement) وہ صلاحیت ہے جو یہ تعین کرتی ہے کہ فہم کے تحت جو قواعد مقرر کیے گئے ہیں ان کی مقرر کردہ ترتیب کے تحت کوئی چیز ان قواعد کے تحت آتی بھی ہے یا نہیں۔اس طرح تمام صلاحیتوں کو انتہائی باریکی سے ان کے تفاعل کی بنیاد پر ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا ہے۔ یہ عمل کسی موضوعی ترنگ کے تحت واقع نہیں ہوتا، جیسا کہ جوہر صاحب نے حکم لگا دیا ہے، بلکہ یہ انتہائی محتاط طریقے سے طے پاتا ہے۔ دوسرا اس تجزیے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر فہم جو کہ عقل سے کمتر صلاحیت ہے، وہ ”عقل کی موت“ کا سبب کیسے بن سکتی ہے۔ فہم کی عقلی تصورات تک رسائی ہی ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ فہم کا معروض عقل کے تصورات نہیں ہیں، بلکہ حسی ادراکات ہیں، جن کی حیثیت تجربی ہے۔ دوسری طرف خالص منطق میں، جو کہ ”فکر کی سائنس“ ہے، فہم کا معروض وہ مشترک کُلیہ ہے جو تمام حسی ادراکات میں پایا جاتا ہے، لیکن حسیات اسے دیکھنے سے عاجز رہتی ہیں۔ جس طرح حسیات سفید رنگ کا ادراک تو کرتی ہیں، لیکن پچاس سفید اشیا میں سفیدی کا ادراک نہیں کر سکتیں۔
آنجناب ہیں،
“غزالی کی ”احیا علوم الدین“ اور اقبال کی ”فکرِ اسلامی کی نئی تشکیل“ میں پیش کیا گیا فکری پروجیکٹ” بالکل اور قطعی ہم معنی ہیں۔” ان میں ایک فرق ہے کہ غزالی کامیاب ہوگئے اور علامہ اقبال کسی تہذیبی Synthesis تک پہنچنے میں ان کی طرح کامیاب نہ ہو سکے۔“
آنجناب نے یہ ایک بڑا دعویٰ کیا ہے، جس کے تفصیلی تجزیے کی ضرورت تھی، لیکن یہاں بھی جناب جوہر صاحب نے منطقی مغالطہ ”جلد بازی میں تعمیم“ کا ارتکاب کیا ہے۔ وہ کسی ایک نکتے کی بنیاد پر بھی یہ واضح نہیں کر پائے کہ غزالی اور اقبال کے فکری پروجیکٹ میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ فکرِ اقبال کے طالب علم یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اقبال اور غزالی کی فکر میں بنیادی نوعیت کے اختلافات پائے جاتے ہیں، اور یہ اختلافات اقبال کی غزالی پر تنقید سے بھی عیاں ہو جاتے ہیں۔ غزالی نے ”تہافت الفلاسفہ“ میں ابنِ سینا اور فارابی کے خلاف تین نکات کی بنیاد پر فتویٰ جاری کیا تھا، جو کچھ یوں ہیں:
1: کائنات حادث نہیں قدیم ہے۔
2: خدا کو جزیات کا علم نہیں ہے۔
3: جسدِ خاکی اٹھایا نہیں جائے گا۔
ان میں سے دوسرے اور تیسرے نکتے کے بارے میں بڑی سہولت کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبال بھی انہی کے داعی تھے۔ مثلاََ اقبال لکھتے ہیں،
”میری خوشیاں، میرے دکھ اور میری خواہش مکمل طور پر میرے ہیں اور میرے ہی ذاتی ایگو کا ضروری حصہ ہیں۔ میرے محسوسات، نفرتیں اور محبتیں، فیصلے اور ارادے کسی اور کے نہیں میرے ہیں۔ خود خدا بھی میرے لیے نہ محسوس کر سکتا ہے، فیصلہ کر سکتا ہے نہ انتخاب۔اس وقت جب مجھ پر ایک سے زیادہ راستے کھلے ہوں۔ جب میں کسی جگہ یا شخص کو پہچانتا ہوں تو اس کا حوالہ میرا ماضی کا تجربہ ہوتا ہے۔“ (فکرِ اسلامی کی نئی تشکیل، چوتھا لیکچر، ص، 126)۔
اقبال کے یہ الفاظ دو سطحوں پر غزالی کے فتوے کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا انسان کے بارے میں نہ محسوس کر سکتا ہے اور نہ فیصلہ کر سکتا ہے، وجہ یہ کہ انسان کے محسوسات، فیصلے اور ارادے انسان کے اپنے ہیں۔ یعنی خدا ان میں شریک نہیں ہو سکتا۔کیونکہ یہ فیصلے، محسوسات اور ارادے خدا کے نہیں ہیں۔ اس لیے وہ انہیں محسوس بھی نہیں کر سکتا۔ اقبال کی یہ فکر قرآن کی ان آیات سے براہِ راست متصادم 2
ہے کہ جن میں بار بار یہ کہا گیا ہے کہ خدا جس کو چاہتا ہے حق پر لے آتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے۔ غزالی نے جس تیسرے نکتے کی بنیاد پر فتویٰ جاری کیا تھا وہ یہ ہے کہ جسدِ خاکی اٹھایا نہیں جائے گا۔ اقبال واشگاف الفاظ میں یہ بیان کر چکے ہیں کہ جنت اور دوزخ کیفیات ہیں، مقامات نہیں ہیں۔ اور حقیقت، اقبال کے نزدیک، روحانی ہے نہ کہ جسمانی۔ خودی کا تعلق جسم سے نہیں، بلکہ شعور کی مختلف سطحوں اور اس شعور کی روشنی میں کیے گئے افعال سے ہے۔ شعور کی سطوح کی بلندی اور اس کی روشنی میں کیے گئے عمل سے خودی کے استحکام کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انہی معنوں میں خودی اپنے درجے کے مطابق ”مطلق خودی“ کا حصہ بنتی ہے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ خودی کا تعلق جسم کے ساتھ نہیں ہے۔ اقبال کے الفاظ میں ”خودی اپنے آپ کو ذہنی حالتوں میں منکشف کرتی ہے۔“ اور یہ ذہنی حالتیں ایک دوسرے کے ساتھ ربط رکھتی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک کڑی سے دوسری کڑی ملی ہوتی ہے۔ یہ ذہنی حالتیں ایک کُل کی شکل میں موجود ہوتی ہیں اور اس کُل کی کُلیت کو ذہن کہا جاتا ہے۔ ذہن میں ان تمام حالتوں کے درمیان وحدت پائی جاتی ہے۔ ذہن میں ان شعوری حالتوں کی وحدت اور مادی اشیا کے درمیان پائی جانے والی وحدت بنیادی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اقبال کا کہنا ہے کہ ذہن کی یہ حالتیں جسم کی مانند کسی مکان کی قید میں نہیں ہیں، بلکہ یہ مکان سے آزاد اور خود مختار ہیں۔ یہی صورتحال زمان کے حوالے سے ہے۔ ذہنی اور طبیعی تصورِ زمان میں بہت فرق ہے۔ خودی کا زمان، بقول اقبال، ذہن سے باہر نہیں ہے، بلکہ ذہن کے اندر واقع ہے اور ذہنی اور طبیعی زمان میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔ جب کبھی طبیعی سطح پر کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو وہ زمان کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ مختلف مراحل میں مختلف واقعات کا ظہور طبیعی زمان کی علامتیں ہیں، نہ کہ وہ دورانِ زمان ہیں۔ ان معنوں میں ذہنی زمان ہی حقیقی زمان ہے۔ اس مختصر تجزیے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ قارئین پر یہ واضح ہو سکے کہ اقبال کے نزدیک حقیقت جسم نہیں، بلکہ خودی ہے، جو اپنی تشکیل و اظہار میں تمام طبیعی اظہارات سے الگ ہے۔ اور موت کے بعد خودی کی مختلف سطحیں جو اپنے استحکام کے تحت ”مطلق خودی“ کا حصہ بنتی ہیں، وہی زندہ رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ فکرِ اقبال میں موت کے بعد جسمانی زندگی کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ فکرِ غزالی پر دسترس رکھنے والے مفکرین یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کی یہ فکر غزالی کے فتوے سے مبرا ہرگز نہیں ہے۔جہاں تک اس نکتے کا تعلق ہے کہ کائنات حادث ہے یا قدیم، تو اس بارے میں اقبال کہیں پر بھی غیر مبہم اور واضح موقف اختیار نہیں کرتے۔ البتہ اقبال کا یہ ماننا ہے کہ کائنات ابھی مکمل نہیں ہوئی، بلکہ ”بننے“ کے عمل میں ہے۔ ان اہم نکات کے علاوہ اقبال وحی کے بارے میں واشگاف الفاظ میں یہ اظہار کر چکے ہیں کہ یہ متصوفانہ تجربے کی مانند ہی ایک طرح کا داخلی تجربہ ہے، یعنی یہ دنیا جس میں انسان مقیم ہے وہ داخلی طور پر اپنے مسائل کی تصحیح کا رجحان رکھتی ہے، اسے خارج سے کسی وحی کی ضرورت نہیں ہے۔ میں چونکہ اس مسئلے پر کسی اور مضمون میں لکھ چکا ہوں، اس لیے یہاں تفصیل میں جانا مناسب نہ ہو گا۔
ان چند نکات کی اچھی طرح سے تفہیم کے علاوہ جناب جوہر صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ اقبال کی غزالی پر تنقید کا بھی محتاط انداز میں تجزیہ کرتے تاکہ انہیں غزالی اور اقبال کے فکری پروجیکٹ میں صرف مماثلت ہی نظر نہ آتی، بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان اہم اور بنیادی امتیازات کو بھی نشان زد کرنے میں کامیاب ہوتے۔فلسفیانہ فکر میں منطقی تجزیات اساسی اہمیت رکھتے ہیں، نہ کہ سطحی طور پر نکالے گئے عمومی نتائج! اس اقتباس میں دیکھیے کہ اقبال کس طرح غزالی پر تنقید کرتے ہیں،
”غزالی کو تجزیاتی فکر میں امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی اور انہوں نے اپنا رُخ متصوفانہ تجربے کی جانب موڑ لیا اور یہاں انہوں نے مذہب کے لیے سائنس اور مابعد الطبیعات سے الگ وجود رکھنے کا حق حاصل کر لیا۔ لیکن صوفیانہ تجربے میں کُلی لامتناہیت کے اخفا نے انہیں فکر کے متناہی اور ناتمام ہونے کا یقین دلا دیا، اور پھر انہیں فکر اور وجدان کے درمیان حدِ فاصل کھینچنی پڑی۔ وہ یہ نہ دیکھ پائے کہ فکر اور وجدان نامیاتی طور پر ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔“ (پہلا لیکچر، ص،22)۔
اگر فکر اور وجدان ”نامیاتی طور پر ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں“ تو پھر وجدان کی”برتری“ اور فکر کی تحدید کا قضیہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے کہ جس کو خود اقبال بھی نہ سمجھ پائے، اگرچہ انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ [عقل] کا ”مقصد کُل کو تسخیر کرنا ہے، وہ آہستہ آہستہ کُل کے تمام حصوں کی تسخیر و تحدید کرتی ہے۔“ یہاں اقبال کی فکر کے اس پہلو کا جائزہ لینا مقصود نہیں ہے۔ میں اس کی وضاحت ایک اور مضمون میں کر چکا ہوں۔ یہاں صرف اقبال کے غزالی کے بارے موقف کو پیش کرنا ہے۔ کانٹین فلسفے کے طالب علم واضح طور پر یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اقبال نے غزالی پر جو اعتراض کیا ہے وہ کانٹ کے فلسفے سے مستعار ہے۔ کانٹ نے یہی نتیجہ نکالا تھا کہ عقل اور فہم کی داخلی سطح میں کوئی ’تخالف‘ اور ’تضاد‘ موجود نہیں ہے، بلکہ دونوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ یہ واضح رہے کہ جرمن فلسفیوں نے فہم کو وجدان کے طور پر استعمال کیا ہے، بعد ازاں اسی خیال کو برگساں نے وجدان اور عقل میں تقسیم کر دیا لیکن برگساں بھی کانٹ کی مانند ان دونوں صلاحیتوں میں حتمی تفریق کا قائل نہیں تھا۔ اقبال اور غزالی میں، بہرحال، فکر کا یہ پہلو مشترک ہے کہ بقول اقبال، غزالی کو تجزیاتی فکر میں ”امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی اور انہوں نے متصوفانہ فکر میں پناہ لے لی“ تو دوسری طرف اقبال وہی کام کر رہے ہیں جس کی بنیاد پر غزالی پر اعتراض وارد کرتے ہیں۔ یہاں دونوں ہی منطقی مغالطہ Fallacy of Ignorance کا ارتکاب کرتے ہیں۔اقبال کہتے ہیں،
”متصوفانہ تجربے کے عدم ابلاغ کی وجہ یہ ہے کہ یہ بنیادی طور پر غیر مربوط احساسات کا معاملہ ہے۔جسے منطقی استدلال چھو بھی نہیں سکتا۔ بہرحال یہ ضرور نظر میں رکھنا چاہیے کہ تمام احساسات کی طرح متصوفانہ احساسات میں بھی تفکر کا عنصر موجود ہوتا ہے اور میرا ایمان ہے کہ اس تفکرانہ عنصر کے باعث وہ خود کو خیال کی صورت دے لیتا ہے۔“ (نئی تشکیل، ص، 42)۔
اقبال یہ تسلیم کرتے ہیں کہ منطقی استدلال متصوفانہ تجربے کو چھو کر بھی نہیں گزرتا۔ یعنی متصوفانہ تجربے کی صداقت کا معیار صرف انفرادی تجربہ ہے نہ کہ منطقی استدلال۔ یہ تجربہ حقیقی ہے یا مصنوعی یا پھر باطل اس کی پرکھ کا کوئی پیمانہ موجود نہیں ہے۔ چونکہ اس کی پرکھ نہیں ہو سکتی، لہذا اقبال کے نزدیک یہ ”سچا“ تجربہ ہے۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب متصوفانہ تجربہ خود کو فکر کی صورت میں پیش کرتا ہے تو کیا وہ فکر منطقی استدلال کی کوئی صورت ہوتی ہے یا صرف فکرِ محض ہی ہوتی ہے؟ اس کا اقبال کے پاس کوئی جواب ہے نہ دلیل، اور غزالی ہی کی طرح وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ ایسا ماننا ان کا ”ایمان“ ہے۔ لہذا یہاں پر اقبال پر بھی وہی اعتراض وارد ہوتا ہے جو انہوں نے غزالی پرلاگو کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر مذہبی مفکر کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ”ایمان“ کی بنیاد ”منطقی مغالطہ لاعلمی“ پر رکھے، اور اپنے داخلی تجربے کو منطقی استدلال سے بلند کر کے پیش کرے۔ لیکن اسے یہ بات بھی پسند نہیں ہوتی کہ اس کے عقیدے پر جہالت یا لاعلمی کی مہر ثبت کی جائے۔ یہ ایسا تضاد ہے جو عقیدے اور عقل کے درمیان حتمی صورت میں پایا جاتا ہے، اور جس کی تحلیل صرف عقل سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ تاہم عقل جب اس قسم کی پُراسراریت پر حکم لگاتی ہے تو وہ صرف یہی کہ ماورائے زمان و مکاں کسی بھی تصور کی تصدیق ممکن نہیں ہے۔ وجہ یہ کہ ایسے مقولات نہ ہی خارجی دنیا سے ماخوذ ہو سکتے ہیں اور نہ ہی عقل سے کہ جن کا اطلاق زمان و مکاں سے ماورا دنیا پر کر دیا جائے۔ کیونکہ زمان و مکاں سے ماورا دنیا کیسی ہے اس کے بارے ”وثوق“ سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ جبکہ عقل جب مقولات کی تشکیل کرتی ہے تو ان کا تعلق اسی دنیا سے ہوتا ہے، اور اسی دنیا میں وہ قابلِ اطلاق ہوتے ہیں۔ ماورائے زمان و مکاں جو دنیا نہ مشاہدے میں آسکتی ہو اور نہ عقل ہی اس کا احاطہ کر سکتی ہو، اس کے بارے میں کسی بھی قسم کی صداقت کا دعویٰ اور اس کی تصدیق صرف مغالطے کا نتیجہ ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عقل کی داخلی فعلیت کے نتیجے میں تشکیل کردہ تصورات ماورائے زمان و مکاں کسی تصور یا اس تصور کے مشمولات سے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں، کیونکہ عقل ماورائے زمان کسی بھی تصور کی ماہیت سے آگاہ نہیں ہوتی، کیونکہ عقل کی اپنی خود شعوری اس کی اپنی فعلیت تک محدود ہے۔ عقل کی فعلیت کی بہترین مثالیں ریاضی اور منطق ہیں۔ ان میں غلطی کا تعلق صورت (Form) کے حوالے سے ہوتا ہے نہ کہ مافیہا کے تعلق سے! عقل صورت کے متعلق غلطی کی تصحیح کر سکتی ہے، لیکن ماورائے زمان و مکاں کسی تصور کی ماہیت معلوم کرنا یا عقل کو کوئی ایسی ذمہ داری سونپنا عقل کی فعلیت سے نابلد ہونے کا نتیجہ ہے۔ لہذا اقبال جب کہتے ہیں کہ ”متصوفانہ تجربہ“ یا احساس فکر میں اپنا اظہار کر لیتا ہے، تو وہ متصوفانہ تجربے سے حاصل کردہ تصورات کو پہلے سے فرض کر لیتے ہیں، جبکہ تصورات کی تشکیل کرنا عقل کا کام ہے، نہ کہ متصوفانہ تجربہ ان تصورات کے ذریعے ہوتا ہے۔ عقل اپنے تصورات تشکیل دے چکی ہوتی ہے نہ کہ کسی متصوفانہ تجربے سے حاصل کرتی ہے۔
جناب جوہر صاحب لکھتے ہیں،
”ہمارا کلاسیکل اور روایتی علم الکلام افلاطونی ہے اور نہ ارسطوئی، اگرچہ وہ ان روایتوں سے بہت گہری نسبتیں رکھتا ہے، اور اس میں علم اور عقل کے تصورات بہت واضح اور Valid ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کلاسیکل علم الکلام فلسفیانہ اور عرفانی معنی میں مابعد الطبیعات نہیں ہے اور نہ ارسطوئی معنی میں وہ فطری سائنسوں کی طرح کا علم ہے۔ لیکن وہ عقلی ہے، تشبیہی نہیں ہے، اور وہ مذہبی ہے لیکن مابعد الطبیعاتی نہیں ہے۔ اس کو درست تر معنی میں تھاٹ کہا جا سکتا ہے جو مذہبی عقل کی thinking سے پیدا ہوتا ہے، اور یہ تھاٹ شعور کے اقتضآت اور وجود کے مطالبات کو پورا کرتا ہے۔“
آنجناب نے اس اقتباس میں خود ساختہ دعوؤں اور نتائج کا انبار لگا دیا ہے۔ منطقی مغالطہ ”جلد بازی میں تعمیم” کی اس سے بہتر مثال کوئی نہیں ہو سکتی۔ اپنے کسی بھی دعوے کے حق میں کوئی ایک بھی دلیل پیش نہیں کی گئی۔ اقتباس کو پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی ہے کہ جنابِ جوہر صاحب کو یہ بھی علم نہیں کہ مابعد الطبیعات کسے کہتے ہیں۔ مابعد الطبیعات صرف وہی نہیں ہے جو زمان و مکاں سے ماورا ہے، بلکہ زمان و مکاں بھی مابعد الطبیعات کا حصہ ہیں۔ مابعد الطبیعات صرف وہ نہیں ہے جو طبیعات سے ماورا ہے، بلکہ طبیعات بھی مابعد الطبیعات کا حصہ ہے۔ جناب جوہر صاحب کے مطابق کلاسیکی علم الکلام عقلی اور valid ہے۔ جبکہ فلسفیانہ مابعدالطبیعات میں وہ صرف عقلی ترتیب پر ٹھہر جاتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ مابعدالطبیعات اور الہیات کے درمیان فرق کو اچھی طرح سے سمجھ لیا جائے۔مابعد الطبیعات میں جو موضوعات زیرِ بحث آتے ہیں ان کا احاطہ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ مابعد الطبیعات کسی بھی طرح کی ’’الٰہیاتی‘‘ تشکیل سے الگ ایک فلسفیانہ موضوع ہے، اور دو بڑے مذاہب مسیحیت اور اسلام سے سینکڑوں برس قبل منطقی انداز میں تشکیل پا چکا تھا۔ ارسطو کی کتاب “مابعد الطبیعات‘‘ میں یہ سبھی موضوعات منطقی انداز میں زیرِ بحث آتے ہیں۔
مابعد الطبیعات کے برعکس الٰہیات خود کو ان تصورات تک محدود رکھتی ہے جو کسی مذہب کی بنیاد ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر مابعد الطبیعات کے برعکس خدا کا تصور براہِ راست الٰہیات کا موضوع ہے، جبکہ مابعد الطبیعات میں خالق کا تصور وجود کی تخلیق کے تصور کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ الٰہیات میں خدا براہِ راست موضوع ہے، یعنی وجود کو دیکھ کر خدا کا خیال پیدا ہونا الٰہیات نہیں ہے، بلکہ مابعد الطبیعات ہے۔ اس کے برعکس خدا کا مفروضہ تراش کر وجود کی طرف آنا اور وجود کو اس کی تخلیق سمجھنا الٰہیات ہے۔ یعنی خدا پر ایمان پہلے اور باقی ہر شے خدا کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ ہر مذہب کی الٰہیات میں فرق ہے۔ مثال کے طور پر مسیحی الٰہیات میں تثلیث کا تصور ہے، جبکہ اسلامی و یہودی الٰہیات میں ’توحید‘ کا تصور پایا جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی حیات بعد ممات کے تصورات الٰہیات کا حصہ ہیں، مگر ہر مذہبی الٰہیات میں ان کی نوعیت مختلف ہے۔ مختصر یہ کہ خدا کے مفروضے سے آغاز کر کے فرشتوں، جنت و دوزخ، روزِ قیامت، جزا و سزا وغیرہ سمیت تمام مفروضے الٰہیات کا حصہ ہیں، لیکن فلسفیانہ مابعد الطبیعات میں یہ زیرِ بحث نہیں آتے۔ جو مذہبی مفکر فلسفیانہ مابعد الطبیعات اور مذہبی الٰہیات میں مصالحت کی کوشش کرتے ہیں، اور اس میں مرکزی حیثیت الٰہیات کی ہو تو ان مفکرین کو ’’متکلمین‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ تمام مفکر جو فلسفیانہ تفکر کو اس کی خود رو حرکت میں دیکھیں، اور اس حرکت کے دوران مختلف تصورات کی رد نمو کا سلسلہ جاری رکھیں وہ فلسفی کہلاتے ہیں۔ الہیات میں خدا، فرشتے، روز قیامت، جنت، دوزخ جیسے تصورات کن معنوں میں عقلی اور “valid” ہیں، یہ وضاحت آنجناب کو کرنی چاہیے تھی، لیکن وہ صرف مفروضہ پیش کر کے اگلے مفروضے کی طرف چل نکلے۔
میں یہاں عظیم جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ کی مابعد الطبیعات کی تعریف پیش کرتا ہوں تاکہ بنیادی تصور واضح ہو جائے اور بعد ازاں دیگر پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ کانٹ کہتے ہیں،
Thus the whole system of metaphysics consists of f our principal parts: 1. Ontology: 2. Rational Physiology: 3 Rational Cosmology and 4. Rational Theology. The second part _ that of the rational doctrine of nature_ may be subdivided into two , physica rationalis and psychologia rationalis. CPR, A846/ B874
اس سے یہ واضح ہوا کہ فلسفیانہ مابعد الطبیعات وجود کی سائنس ہے، جو کہ وجود اور اس سے منسلک تصورات کا احاطہ ان کی کُلیت میں کرتی ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مابعد الطبیعات وجود کو بحیثیت کُل جاننا ہے تو ا س کا مطلب یہ ہے کہ اگر وجود کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے اگر وجودکے اندر موجود یا وجود سے ماورا کسی علت اولیٰ کا سراغ ملتا ہے تو اس علت اولیٰ کی ماہیت کو جانا نہیں جا سکتا، محض اس کی عقلی سطح پر تصدیق کی جا سکتی ہے۔ جنابِ جوہر یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ علم الوجود، طبیعات اور کونیات بھی ”عقلی الٰہیات“ کی طرح مابعد الطبیعات کا حصہ ہیں۔ کانٹ جب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ علمیاتی سطح پر مابعد الطبیعات ناممکن ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وجود کا اس کی کُلیت میں علم حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی علتِ اولیٰ موجود ہے تو اس کی ماہیت بیان کرنا عقل کی دسترس سے ماورا ہے۔ دوسری طرف تمام فلسفیانہ مقولات و تصورات مابعد الطبیعات کا حصہ ہیں۔ جیسا کہ خود کانٹ نے ان تصورات کو چار خانوں میں یوں تقسیم کیا ہے: کُلی، جزوی، انفرادی، اثبات، نفی، لامحدود، قطعی، مشروط، تفریق، احتمال، اذعانی، یقینی، زمان و مکاں، ظاہر اور جوہر وغیرہ۔ آنجناب نے صرف ”عقلی الٰہیات“ کو ہی مابعد الطبیعات تصور کر رکھا ہے۔ فلسفے کی تاریخ میں پہلا مابعد الطبیعاتی فلسفی پانچ سو چالیس قبل از مسیح میں پیدا ہونے والے فلسفی پارمینائڈز کو سمجھا جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ اس نے ”وجود“ اور ”عدم“ کی ماہیت پر بحث کی تھی، جو کہ اس کی نظم بعنوان ”فطرت“ میں موجود ہے۔ پارمینائیڈز نے ”وجود“ سے متعلق جن تصورات کی تشکیل کی تھی، انہیں الٰہیاتی مفکرین نے تصورِ خدا پر چسپاں کر دیا۔ مثال کے طور پر پارمینائیڈز کہتا ہے کہ وجود حقیقی ہے، کیونکہ وہ ازل سے ہے، اسے نہ پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ تباہ کیا جا سکتا ہے۔ جو ایک خاص لمحے میں پیدا ہو وہ غیر حقیقی ہے، جو تخلیق ہوا اسے تباہ بھی ہونا ہے۔ وجود مستقل ہے، اور تبدیلی عدم وجود کے مشابہ ہے۔جو خارجی دنیا ہمیں نظر آتی ہے وہ حقیقی نہیں ہے کیونکہ یہ وجود میں آئی ہے۔ جبکہ وجود ازلی اور دائمی ہے۔ حقیقت کبھی حسیات میں نہیں آتی، بلکہ حقیقت کا ادراک صرف عقل کر سکتی ہے۔ چیزوں کا وجود میں آنا اور ختم ہو جانا حقیقی نہیں ہے۔ یہی بات جنابِ جوہر مذہبی علم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ”وہ عقلی ہے، تشبیہی نہیں ہے، اور وہ مذہبی ہے لیکن مابعد الطبیعاتی نہیں ہے۔“ جنابِ جوہر اس اہم نکتے کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ عقیدے کی بنیاد عقل پر نہیں رکھی جاتی، عقیدہ بس عقیدہ ہوتا ہے، جبکہ اس عقیدے کے مشمولات یعنی الٰہیات کو عقلی پیرائے میں پیش کرناانتہائی غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔ کیونکہ یہ تمام الٰہیاتی تصورات ماورائے زمان و مکاں ہیں، جن کی صداقت کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے آنجناب کا انہیں ”عقلی“ کہنا اپنی سرشت میں غیر عقلی ہے۔ عقلی صرف علتِ اولیٰ کی تصدیق تک تو ہو سکتا ہے، اس کی ماہیت اور اس سے منسلک تصورات کی صداقت کو پرکھنے کا جب پیمانہ ہی موجود نہیں ہے تو ان کے عقلی ہونے کا دعویٰ کرنا عبث ہے۔ متکلمین کی غلطی یہ ہے کہ جب وہ فلسفییانہ تصورات سے بحث کرتے ہیں تو وہ فلسفے کے علاقے میں موجود رہتے ہیں، اور جونہی کوئی ایسا تصور سامنے آئے جس کی فلسفیانہ پرکھ ممکن نہ ہو، اس پر اپنے الٰہیاتی عقائد کو لاگو کر دیتے ہیں، یہی وہ نکتہ ہے جہاں ان کی ”عقلیت پسندی“ غیر عقلیت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور عقیدہ بنیادی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔
کمنت کیجے