Home » افلاطون، کانٹ اور شیخ ابن عربی
تاریخ / جغرافیہ شخصیات وافکار فلسفہ

افلاطون، کانٹ اور شیخ ابن عربی

افلاطون (م 347 ق م) کہتے ہیں کہ جزیات (particulars) کی توجیہہ کے لئے ان سے ماقبل کلیات (universals) ماننا ضروری ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، مثلا یہ کہ جزئی کلی کے بدون مفہوم نہیں ہوسکتی۔ “زید انسان ہے” میں زید “انسانیت” کے وصف سے مفہوم ہوتا ہے، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انسانیت کا تصور زید ہی سے ماخوذ ہے کہ یہ دور یعنی سرکلر آرگومنٹ ہوگا۔ ان جیسی دیگر وجوہات کی بنا پر افلاطون اور ان کے حامی عالم مثال (      world of       ideas) کو لازم کہتے ہیں جہاں کلیات بطور حقائق ثابت و موجود ہیں۔ لیکن خود اس عالم مثال کی کلیات کس چیز سے متحقق ہیں؟ یعنی اگر اس عالم مشاھدہ کی جزیات عالم مثال کی کلیات میں شرکت سے متحقق ہیں تو خود یہ کلیات کس شے میں شرکت سے متحقق ہیں؟ افلاطون کے ہاں اس کا جواب نہیں ملتا (اس تنقید کو third       man       argument کہتے ہیں)۔ ان جیسی وجوہات کی بنا پر ارسطو نے عالم مثال کا انکار کرتے ہوئے کلیات کو خارج میں بند کردیا۔

نری تجربیت یا امپیریسزم (کہ سب علم خارج کے حسی مشاھدے سے حاصل ہوتا ہے) کی کمزوریوں پر غور و فکر کرنے کے بعد کانٹ (م 1804 ء) بھی اس نتیجے تک پہنچے کہ تجربے کو ممکن بنانے والی شرائط ماقبل تجربہ ہونا لازم ہیں، ان ماقبل شرائط یا آئیڈیاز کو وہ ٹرانسینڈنٹل آئیڈیاز کہتے ہیں۔ یہاں تک تو کانٹ کی بات درست تھی کہ تجربے کے لئے ماقبل تجربہ حقائق ہونا لازم ہیں مگر ان کے پیش کردہ متبادل میں کئی خامیاں تھیں: ایک طرف اس نے یہ قرار دیا کہ یہ ماقبل تجربہ کیٹیگریز یا تصورات نرے ذہنی خیالات ہیں جن کی از خود کوئی حقیقت نہیں اور دوسری طرف یہ کہا کہ واقعاتی یا سبسٹنٹو (substantive) علم تب حاصل ہوتا ہے جب یہ ماقبل آئیڈیاز حسی تجربے پر لاگو ہوں۔ کانٹ کے اس نظرئیے سے اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ آخر ذہن میں موجود ان کیٹیگریز یا تصورات کی توجیہہ کیا ہے؟ گویا کانٹ کے فلسفے کی جانب وہی سوال متوجہ تھا جو افلاطون کی جانب متوجہ تھا لیکن کانٹ اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیتا۔ کانٹ کی فکر سے دوسرا نتیجہ یہ پیدا ہوا کہ صرف کلیات ہی نہیں بلکہ جزیات کی حقیقت جان سکنے کے امکان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ پھر جس شے کی اپنی کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ نرا خیال ہے وہ کسی حقیقت کے ادراک یا اس پر وجودی (real) حکم لگانے کا ذریعہ کیسے بن سکتا ہے؟ نیز کانٹ یہ بھی نہیں بتاتے کہ از خود اس فلسفے کی سبسٹنٹو سچائی کا علم اسے کس طرح ہوا؟ اس کا جواب تجربہ نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس کا فلسفہ ماقبل تجربہ امور سے متعلق ہے، اور اس کا جواب خود یہ ماقبل تجربہ کیٹیگریز بھی نہیں ہوسکتیں کہ از خود ان کیٹیگریز سے کوئی حقیقی علم نہیں ملتا۔ ظاہر ہے جو فلسفہ وجود (being) اور جاننے (knowing) کی دوئی کے مفروضے پر تعمیر ہوا ہو وہ ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتا۔

کانٹ اس قسم کے کئی اہم سوالات سے اس لئے نہیں بچ نکلے کہ ان کے فلسفے نے ایسے سب سوالات کے قابل اطمینان جوابات فراہم کردئیے تھے بلکہ اس لئے بچ نکلے کیونکہ یورپ کے اس وقت کے خاص علمی، معاشرتی و سیاسی حالات اس کے حق میں سازگار تھے جہاں مذہب سے بچ نکلنے کی راہیں تلاش کی جارہی تھیں اور اس بنا پر کانٹ کے اس نتیجے کو اہم پیش رفت سمجھ لیا گیا کہ الہیات کا علم ناممکن ہے۔ اگر کانٹ مابعد امام رازی (م 1210 ء) مثلا صدر الشریعہ محبوبی (م 1347 ء)، شیخ داؤد قیصری (م 1351 ء)، علامہ تفتازانی (م 1390 ء) یا ملا فناری (م 1430 ء) وغیرہ کے دور میں ہوتے جہاں مختلف روایات کے حامل مسلمان اہل فکر انہی سوالات سے نبزد آزما تھے تو کانٹ کا یہ فلسفہ رد کردیا گیا ہوتا۔

افلاطون کے فلسفے پر جو تھرڈ مین آرگومنٹ کی صورت نقد ہوا، اس کا جواب شیخ ابن عربی (م 1240 ء) کی روایت نے فراہم کیا۔ افلاطون کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ عالم مثال کی کلیات کو کسی حقیقت سے متعلق کرنے میں ناکام رہے۔ شیخ کہتے ہیں کہ یہ عالم مشاہدہ اور عالم مثال سب اعیان ثابتہ سے متعلق ہیں اور ان اعیان ثابتہ کے حقائق اسماء الہیہ ہیں جو ذات واحد سے متعلق ہیں۔ عالم اور انسانی ذہن میں ہم آھنگی اسی وحدت پر مبنی ہے اور یہی وحدت دراصل کثرت کے وجود کی توجیہہ اور اس کی تفہیم کو ممکن بناتی ہے۔ اکبری روایت کے حاملین نے وجود اور علم کی ہم آہنگی کا یہ حل بہت صراحت کے ساتھ پیش کیا تھا۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں