Home » عقلِ محض، واجب الوجود اور سنگولیریٹی : قسط دوم
تہذیبی مطالعات فلسفہ کلام

عقلِ محض، واجب الوجود اور سنگولیریٹی : قسط دوم

یہاں میں اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ عقلِ انسانی اپنے آپ کو کوئی بھی عنوان دے کر بھلے سائنس میں کام کرے، بھلے علم الکلام میں غیب و شہود کے قلابے ملائے، بھلے مابعد الطبیعات کے فلسفیانہ جھولے آسمانوں میں ٹانکتی پھرے، بھلے مسئلۂ خیر و شر کے روبرو ڈکراتی رہے، اس کا اصولِ کار ایک جیسا ہی رہتا ہے۔ ہمارا کلاسیکل علم الکلام بالکل ویسے ہی عقلی تھا جیسے آج کی سائنس ہے، ایک انتہائی بنیادی فرق کے ساتھ کہ اول الذکر میں عقل نے علم کو تشبیہی نہیں ہونے دیا، جبکہ سائنس خشتِ اول سے ارادتاً تشبیہی علم ہے۔ ”ارادتاً“ کی یہ تخصیص علم الکلام پر بھی یکساں وارد کی جا سکتی ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کارِ عقل منطقی اور مقاصدِ عقل ارادی ہوتے ہیں۔ ارادی ہونے کی وجہ سے مقاصدِ عقل ”عقیدے“ (      belief statement) سے حاصل ہوتے ہیں۔ علم الکلام یہ اصول اپنے عقیدے سے اخذ کرتا ہے جو وحدت ہے اور وہ شعور اور اس کے حاصلات پر یکساں وارد ہوتا ہے۔

جدید علوم میں دو انتہائی بڑے اور بنیادی مسائل ہیں۔ شعور کے تناظر میں یہ وحدتِ اصول اور وحدتِ علوم کا ہے جس کا اظہار فزکس میں       unified theory کی تلاش کے عنوان سے سب کے علم میں ہے، جس میں کامیابی مخدوش بلکہ ناممکن ہے۔ جدید علوم کا دوسرا بڑا مسئلہ وجود کے تناظر میں مبدا (origin) کا ہے۔ وحدت (unity) اور مبدا (origin) کے یہ دو بڑے مسائل ایسے ہیں جو علوم کے اندر رہتے ہوئے لاینحل ہیں، یعنی یہ دونوں عقلِ محض کے حاصلات کے طور پر سامنے نہیں لائے جا سکتے، کیونکہ یہ دونوں مسائل عقلی نہیں ہیں، عقلِ محض کی وجودی ضرورت ہیں۔ یہ عقل اور علوم پر اور مباحث وجود میں صرف باہر سے داخل کی جا سکتے ہیں۔ ان میں مبدا کا مسئلہ زیادہ بنیادی اور گہرا ہے اس لیے جدید انسان نے اس کا جواب اپنے توہماتی belief       statement سے حاصل کیا ہے کہ مادہ اور حیات ازخود وجود میں آئے ہیں، اور شعور بھی مادی ہے۔ یہ جواب عقلی نہیں ہے بلکہ سینہ زوری ہے۔ یہ وجودی موقف ہے اور یہ عقل سے حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ عقل کا رہنما ہے۔ عقیدہ بھلے جیسا بھی ہو وہ شبستان وجود میں عقل کو راہ دیتا اور اس پر جما کے رکھتا ہے بھلے وہ راہِ راست ہو بھلے کج۔ بگ بینگ اور نظریۂ ارتقا مادے اور حیات کے ازخود وجود میں آنے کے belief       structures ہیں، اور بالکل ہی غیر عقلی اور pathetic ہیں۔ مذہبی عقیدہ انسان کی سرشاری کا باعث ہے اور اس کی becoming کا زینہ ہے۔ بگ بینگ اور نطریۂ ارتقا وقت کی نئی تقویم قائم کرنے سے کسی حد تک plausible ہو گئے ہیں ورنہ یہ دونوں بدترین درجے کی توہم پرستی اور مشرکانہ دہریت paganism ہیں۔ اول الذکر نے وقت کو کائناتی (cosmic) بنا کر، اور مؤخر الذکر نے وقت کو ارضیاتی (geological) بنا کر انسان اور اس کے تجربے سے لاتعلق کر دیا ہے۔ وقت اور فاصلے کے سائنسی پیمانے انسانی شعور کے لیے قطعی نامانوس اور بے معنی ہیں، کیونکہ وہ ان کے احتوا کے قابل ہی نہیں ہے۔ یہ محض ریاضیاتی رقوم ہیں جو قطعی مجرد ہیں، اور جن کو مساواتوں میں استعمال کر کے سائنسی التباس پیدا کیا جاتا ہے۔

سائمن ویل (Simone Weil) نے کوانٹم میکانکس کی دریافت کے بعد کہا تھا کہ ہمارے پاس سائنس ہوا کرتی تھی اور کوانٹم میکانکس کے بعد آج اس کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ سو سال ہونے کو آئے ہیں اور کوانٹم میکانکس کے کسی بھی ایک بڑے مسئلے کے حل کی طرف کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ کہا جاتا ہے کہ کائناتی اور ذراتی اسکیل پر ”قوانینِ“ فطرت دھڑام ہو جاتے ہیں۔ ذراتی اسکیل پر مادی وجود جو مظاہر سامنے لا رہا ہے ان کا ”علم“ ممکن نہیں رہا اور جب علم ہی ممکن نہیں رہا تو کسی قانونِ فطرت کی معلومیت کا امکان بھی نہ رہا۔ یہاں دو باتیں توجہ طلب ہیں کہ کانٹ کا یہ موقف کہ صرف مظاہر کا علم ممکن ہے قائم نہ رہ سکا۔ اور دوسری بات یہ کہ انتہائے علم پر origin کا وجودی موقف بھی عقلی طور پر ثابت نہ ہو سکا اور توہم بن گیا۔ معاملہ یہاں نہیں رکتا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے کہ بگ بینگ سے ورا ایک all       singularity فرض کی جاتی ہے۔ یہ کیا چیز ہے؟ یاد رہے کہ امتیازاتِ وجود علم کی بنیاد ہیں اور all         singularity میں ایک ایسے وجود کو فرض کیا گیا ہے جس میں داخلی یا خارجی کسی قسم کے امتیازات نہیں ہیں، اور نہ اس کا کوئی علم ممکن ہے۔ جدید سائنس نے انسان کو شعور و وجود کے ویرانے میں لا کر اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے، کہ کوئی عقیدہ باقی ہے اور نہ کوئی علم۔

مذہبی علم الکلام اور عرفان نے ان مسائل کا جس طرح سامنا کیا ہے وہ غیرمعمولی ہے۔ علم الکلام نے وجود کے مظہر کو موضوع بنایا اور واجب الوجود کی صورت میں اس کا جو حل پیش کیا وہ عقل اور عقیدہ دونوں کے لیے ثقہ اور fulfilling ہے۔ واجب الوجود سے عرفانیات کا سفر شروع ہوتا ہے اور جو بہت ثقہ طور پر وجود کے ہر مرتبے پر علم کے اعتبارات قائم کرتا چلا جاتا ہے، اور وجود بسیط، یا غیب الغیب، یا ذاتِ بَحت کے مرتبے میں سارے اعتبارات ختم ہو جاتے ہیں اور وہی مرتبہ منقطع الاشارات کا ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جہاں ہر طرح کا علم ساقط ہو جاتا ہے۔ علم الکلام میں عقل واجب الوجود کا اثبات سلبی طور پر کرتی ہے اور عقلاً یہی ممکن ہے۔ واجب الوجود براہ راست عقل کے لیے ’نامعلوم‘ کے درجے میں ہے۔ فزکس میں شہود کے خاص مرتبے میں علم کا سفر انجام پذیر ہو جاتا ہے اور سارے laws       of        physics ختم ہو جاتے ہیں، یعنی ان مظاہر کا کوئی عقلی علم ممکن نہیں رہتا۔ دوسری طرف all       singularity ایک مابعدالطبیعاتی مفروضے (وجودِ بسیط) کے طور پر فرض کی گئی ہے۔ درجۂ شہود میں ہی، مظاہر وجود کے روبرو، عقل انسانی کی فعلیت کا انجام پذیر ہو جانا اور all       singularityکو ایک مابعدالطبیعاتی مفروضے کے طور پر قائم کرنا انسانی شعور کی       archetypal functioning کو ظاہر کرتا ہے۔ ان مسائل کو علم الکلام اور عرفانیات میں جس طرح زیر بحث لایا گیا ہے، عقل کی درست فعلیت وہی ہے۔

محمد دین جوہر

محمد دین جوہر، ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ہیں اور صادق آباد میں مدرسۃ البنات اسکول سسٹمز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
mdjauhar.mdj@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں