امام شافعی کے ہاں قرآن و سنت کے مابین نسخ کی بحث کی نوعیت اور اس کا ان کے نظریہ بیان سے تعلق سمجھنا لازم ہے کہ اسے نہ سمجھنے سے یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے گویا آپ نسخ کو اصولیین کے اصطلاحی تصور بیان سے خارج کہتے تھے۔ نفس مسئلہ کو نہ سمجھنے کی بنا پرہمارے دور میں بعض حضرات نے یہ کہا کہ ہم اس مسئلے میں امام شافعی کے مذہب پر ہیں کہ سنت سے قرآن کے کسی حکم کا نسخ جائز نہیں۔ یہاں ہم نفس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہیں۔
امام شافعی کا اصول ہے کہ سنت ہر حال میں قرآن کا بیان ہوتی ہے، اس بنا پر آپ “الرسالة” میں لکھتے ہیں کہ سنت قرآن کی ناسخ نہیں ہوا کرتی، اسی قول سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ آپ نسخ کو بیان سے الگ کرتے ہیں۔ امام صاحب کے دور میں متعدد گروہ قرآن و سنت میں بہت سے تضادات دکھاتے تھے، امام شافعی نے انہیں جواب دیتے ہوئے مسئلہ نسخ میں بھی ایسی رائے اختیار کی جس کے بعد ایسے ہر تضاد کا اعتراض ختم ہو جائے۔ آپ کی رائے کا خلاصہ نکتہ وار یوں ہے۔
1) دلائل کے مابین تعارض کی بحث میں نسخ کا اصول آخر میں لاگو ہوتا ہے، یعنی جب تعارض حقیقی ہوجائے اور سوائے نسخ جمع و تطبیق کا کوئی امکان نہ رہے۔ قرآن و سنت کے مابین تعلق کے حوالے سے امام شافعی کا موقف ان کے خاص نظریہ بیان پر استوار ہے جس کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ ان دونوں کے مابین کبھی ایسا تضاد نہیں ہوتا جسے جمع و تطبیق کے اصول پر حل نہ کیا جاسکے۔ اس بنا پر امام شافعی صرف “نسخ القرآن بالسنة” ہی پر حد بندی نہیں کرتے بلکہ “نسخ السنة بالقرآن” پر بھی کرتے ہیں۔
2) چنانچہ “الرسالة” میں امام شافعی صرف یہ نہیں کہتے کہ سنت سے قرآن کا نسخ جائز نہیں بلکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن سے بھی سنت کا ایسا نسخ جائز نہیں جس کی توضیح خود سنت سے نہ آگئی ہو۔ یعنی اس دوسری صورت میں بھی ہمیشہ ایک ایسی سنت موجود ہوتی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ سنت منسوخ ہو کر دوسرا حکم آگیا ہے، با الفاظ دیگر “قرآن پلس سنت” مل کر سنت کا حکم منسوخ کرتے ہیں۔ آپ اس امکان کو بھی رد کرتے ہیں کہ منسوخ سنت تو ہم تک پہنچ گئی ہو مگر ناسخ نہ پہنچی ہو۔ آپ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ماننے کے بجائے علی الاطلاق یہ کہا جائے کہ قرآن سنت کو منسوخ کرتا ہے تو پھر تقریباً ہر سنت کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن نے اسے منسوخ کردیا۔ مثلاً حدیث میں جو بہت سی بیوع منع کی گئیں ان کے بارے میں کوئی کہہ سکتا ہے کہ آیت أَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ سے وہ سب منسوخ ہوگئیں، اسی طرح مسخ علی الخفین کے حکم کو آیت وضو سے منسوخ قرار دیا جائے گا اور رجم کے حکم کو سورۃ نور کی آیت سے۔ یوں تقریباً سب سنتیں منسوخ ہوجائیں گی۔ امام شافعی کے اس موقف کے حامی بعض شوافع نے اس مذہب کے حق میں جو دلائل پیش کئے ان میں یہ دلیل بھی ہے کہ اگر قرآن سنت کو منسوخ کرے تو اس سے یہ تاچر ابھرے گا کہ خدا اپنے نبی کی بات کو رد کررہا ہے جس سے نبی کا اعتبار جاتا رہے گا۔ لہذا امام شافعی کہتے ہیں کہ نسخ السنة بالقرآن میں قرآن و سنت کے مابین علی الاطلاق ناسخ و منسوخ کا تعلق جاری نہیں ہوتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی جس نسخ کو منع کرتے ہیں یہ وہ نسخ ہے جو قرآن و سنت میں تضاد سے عبارت ہے۔ امام شافعی کے اسی بیان کی وجہ سے بعض شوافع نے کہا کہ امام شافعی “نسخ السنة بالقرآن” کے قائل نہ تھے۔ [1]
3) اسی اصول پر آپ کی یہ رائے متفرع ہے کہ سنت بھی قرآن کو منسوخ نہیں کرتی کیونکہ نسخ کا مطلب تعارض ہے اور نبی اللہ کے حکم کے معارض حکم نہیں لاتے۔ آپ کے اس قول سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا گویا امام شافعی کے نزدیک نسخ اصولیین کے اصطلاحی تصور بیان سے ہی باہر ہے نیز سنت نسخ کے مسئلے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتی جو غلط فہمی ہے۔ دراصل ناسخ و منسوخ کے تناظر میں امام شافعی کے نظرئیے میں سنت کا وظیفہ بیان کچھ مختلف ہے۔ ان کے نزدیک سنت قرآن کی ناسخ تو نہیں ہوتی البتہ یہ بیان کرتی ہے کہ قرآن میں کسی حکم کا ناسخ کیا ہے۔ یعنی امام شافعی کے نزدیک سنت مظہر و معرف ناسخ ہے نہ کہ از خود ناسخ۔ جب بھی قرآن و سنت میں نسخ کا ظاہری تضاد ہوگا تو اس کی ایسی اصل قرآن میں موجود ہوگی جو مختلف احتمال کی حامل ہوگی اور سنت کسی ایک جانب راجح ہونے کا علم دے گی۔ یوں یہاں بھی قرآن و سنت مل کر نسخ کے تعلق میں بندھ جاتے ہیں۔ گویا امام صاحب کے نزدیک سنت قرآن میں بایں معنی ناسخ و منسوخ کے بیان کا کردار تو ادا کرتی ہے کہ اس سے ہمیں آیات کے مابین ناسخ و منسوخ کا تعلق سمجھنے میں مدد ملتی ہے لیکن یہ از خود ناسخ نہیں ہوتی۔ آپ کی مراد کو “الرسالة” میں مذکور ان مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے:
الف) جب آیات میراث نے رشتے داروں کے حصص مقرر کردئیے تو سورۃ بقرۃ کی آیت 240 میں ایک احتمال یہ تھا کہ یہ لوگ وصیت اور میراث دونوں سے حصہ پائیں اور دوسرا احتمال یہ کہ میراث کے احکام نے وصیت کے اس حکم کو منسوخ کردیا ہو۔ پھر جب سنت (متواترۃ) سے معلوم ہوا کہ رشتے داروں کے حق میں وصیت ختم کردی گئی ہے تو پہلا احتمال زائل ہوگیا۔
ب) سورۃ مزمل کی ابتدائی آیات کی رو سے آپﷺ پر نصف لیل کے قریب قیام کو فرض کیا گیا، بعد میں یہ آیات آئیں:
إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ ۚ وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۚ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ۔
ترجمہ: بے شک آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ شب میں دو تہائی رات کے قریب یا نصف یا تہائی رات قیام کرتے ہیں اور ایک گروہ آپ کے ساتھیوں میں سے بھی۔ اور اللہ ہی رات اور دن کا اندازہ ٹھہراتا ہے۔ اس نے جانا کہ آپ اس کو نباہ نہ سکو گے تو اس نے آپ پر عنایت کی نظر کی، تو قرآن میں سے جتنا میسر ہو سکے پڑھ لیا کیجئے۔
یہاں فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ (قرآن میں سے جتنا میسر ہو سکے پڑھ لیا کیجئے)سے معلوم ہوا کہ آدھی رات کی مقدار تک قیام فرض نہ رہا۔ لیکن آیت میں ایک احتمال یہ تھا کہ قیام لیل از خود فرض ہی رہا ہو اور دوسرا احتمال یہ تھا کہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ (اور شب میں بھی تہجد پڑھئے، یہ آپ کے لیے زائد ہے) کی بنا پر وہ بھی نفل ہوگیا ہو۔ پھر جب سنت سے معلوم ہوا کہ پانچ نمازوں کے سوا کوئی نماز واجب نہیں تو اس سے معلوم ہوگیا کہ قیام لیل واجب نہ رہا، البتہ اس وجوب کی ناسخ سنت نہیں بلکہ آیت ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے کو آپ بیان سے بالکلیہ الگ نہیں رکھتے۔
5۔ امام شافعی نے کتاب “الرسالة” میں از خود یہ بات دیگر انداز سے بھی کہی ہے جس کے دو شواھد یہاں پیش خدمت ہیں۔
الف) امام صاحب نے ناسخ و منسوخ کی بحث کی ابتدا سے قبل ایک باب اس عنوان سے باندھا ہے:
ما أبان الله لخلْقه من فرضه على رسوله اتباعَ ما أَوْحَى إليه وما شَهِد له به من اتباع ما أُمِرَ به ومِنْ هُداه وأنه هاد لمن اتبعه
یعنی اس بات کا بیان کہ الله نے بندوں کو یہ بتا دیا ہے کہ اس نے رسولﷺ پر اپنی وحی کی متابعت فرض کی ہے نیز الله نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ آپﷺ نے ہر معاملے میں اس چیز کی اتباع کی ہے جس کا آپﷺ کو حکم دیا گیا اور اس معاملے میں آپﷺ الله کی ہدایت پر رہے نیز یہ بھی بتا دیا کہ آپﷺ کی پیروی کرنے والے ہدایت سے ہمکنار ہوتے ہیں
اس باب میں امام صاحب یہ واضح کرتے ہیں کہ از روئے قرآن آپﷺ کی پیروی کیونکر اور کن امور و کیفیات کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔ اس بحث کے بعد آپ کہتے ہیں:
308۔ وأيُّ هذا كان فقد بيَّن الله أنه فرَضَ فيه طاعة رسوله ولم يجعل لأحد من خلقه عذراً بخلاف أمرٍ عرَفَه من أمر رسول الله وأنْ قد جعل الله بالناس كلهم الحاجةَ إليه في دينهم وأقام عليهم حجتَه بما دلَّهم عليه من سنن رسول الله مَعَاني ما أراد الله بفرائضه في كتابه (ليعلم مَن عرَف منها ما وصَفْنا أن سنته صلى الله عليه إذا كانت سنة مبيِّنة عن الله معنى ما أراد من مَفْروضه فيما فيه كتابٌ يتْلونَه وفيما ليس فيه نصُّ كتاب أخْرَى فهي كذلك أيْنَ كانت لا يختلف حكمُ الله ثم حكمُ رسوله بل هو لازم بكلِّ حال
309۔وكذلك قال رسول الله في حديث أبي رافع الذي كتبنا قبْل هذا
310۔ وسأذكر مما وصفنا من السنة مع كتاب الله والسنةِ فيما ليس فيه نص كتاب بعضَ ما يدل على جملة ما وصفنا منه إن شاء الله
311۔ فأوَّل ما نبدأ به من ذِكْر سنة رسول الله مع كتاب الله ذِكرُ الاستدلال بسنته على الناسِخ والمَنْسوخ من كتاب الله ثم ذِكر الفرائض المَنْصوصة التي سن رسول الله معها ثم ذكر الفرائض الجُمَل التي أبان رسول الله عن الله كيف هي ومواقيتَها ثم ذكر العام من أمر الله الذي أراد به العام ¬والعامَّ الذي أراد به الخاصَّ ثم ذِكرُ سنته فيما ليس فيه نص كتاب
مفہوم:
“308۔ الله نے اپنے رسولﷺ کی اطاعت فرض ہونے کو واضح کردیا ہے اور یہ علم آجانے کے بعد کہ ایک معاملے میں آپﷺ کا فلاں حکم ہے کسی کے لئے اس کی مخالفت کرنے میں کوئی عذر موجود نہیں، الله نے یہ بھی واضح کردیا کہ سب لوگ دین کے معاملے میں آپﷺ ہی کے محتاج ہیں نیز لوگوں پر یہ حجت قائم کردی کہ کتاب الله میں مذکور فرائض سے متعلق الله کی مراد کو بیان کرنے والی سنت ہی ہے (۔۔۔)۔
311۔ تو سب پہلے ہم اس سنت کے ذکر سے بحث کا آغاز کریں گے جو کتاب الله کے فرائض کے مابین ناسخ و منسوخ پر دلالت کرنے والی ہے، پھر کتاب الله کے ان منصوص فرائض کا ذکر کریں گے جن کے ساتھ آپﷺ کی سنت نے بھی کچھ اضافہ فرمایا، پھر کتاب الله کے ان مجمل فرائض کا تذکرہ ہوگا جن کی کیفیت اور اوقات وغیرہ جیسی وضاحت آپﷺ نے بیان فرمائی، پھر الله کے ایسے عام احکام کا ذکر ہوگا جن سے مراد عام ہی ہے اور ایسے عام احکام جن سے مراد خاص ہے اور پھر ایسی سنتوں کا ذکر آئے گا جن کے بارے میں قرآن میں کوئی (معین) نص موجود نہیں”
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی کے نزدیک آپﷺ نے الله کے حکم سے قرآن کی جو تبیین فرمائی اس میں ناسخ و منسوخ اور عام کی تخصیص سمیت درج بالا سب امور شامل ہیں اور اسی لئے آپ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے الله کے حکم سے کتاب الله کی جو تبیین و وضاحت فرمائی ان میں سے سب سے پہلے ہم ناسخ و منسوخ سے بحث کا آغاز کریں گے۔
ب) اس عبارت سے اگر کوئی شبہ رہ جاتا ہو تو اس کا ازالہ آپ درج بالا اقتباس کے بعد “ناسخ و منسوخ” پر شروع ہونے والے طویل باب کے آخر میں جاکر کردیتے ہیں۔ آیات میراث سے وصیت کے احکام منسوخ ہوئے یا نہیں، امام شافعی کے مطابق اس کا حتمی علم آپﷺ کی سنت سے ہوا کیونکہ قرآن میں مذکور ان دو احکام کو جمع کیا جانا بہرحال ممکن تھا۔ چنانچہ ناسخ و منسوخ پر ماقبل بحث اور اس مثال پر آخری تبصرہ فرماتے ہوئے آپ لکھتے ہیں:
420۔ ويعلم من فهم (هذا) الكتاب أنَّ البيان يكون من وجوه لا مِن وَجْهٍ واحد يَجْمَعُها أنها عند أهل العلم بَيِّنَةٌ ومُشْتَبِهَةُ البَيَانِ وعند مَن يقصر علمه مختلفة البيان
مفہوم: “پس (ہماری اس) کتاب (کی بحث) سے یہ سمجھ آجاتا ہے کہ بیان کی متعدد صورتیں ہیں نہ کہ اس کی کوئی ایک ہی صورت ہے، اہل علم کے نزدیک ان کا خلاصہ یہ ہے کہ بیان کی بعض صورتیں واضح اور بعض پہلو دار ہوتی ہیں لیکن جو اہل علم نہیں وہ اسے سمجھنے سے قاصر ہیں ”
یعنی بیان کی بعض صورتیں تفہیم میں بالکل واضح ہوتی ہیں جبکہ بعض میں خفا ہوتا ہے، ناسخ و منسوخ اور ظاہری تعارض کی صورت اس خفا کو بڑھانے والی ہوتی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ البتہ قلت علم و تدبر کے شکار لوگوں کے لئے یہ بات سمجھنا دشوار ہوتی ہے اور وہ گمان کرتے ہیں کہ بیان شاید کسی ایک ہی صورت میں بند ہے۔ اس سے یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ امام شافعی قرآن و سنت کے مابین نسخ کے جواز کی جو بھی کیفیت مقرر فرمائیں، لیکن آپ کے نزدیک یہ بہرحال بیان سے باہر نہیں نیز آپ کے نزدیک عام کی تخصیص بذریعہ سنت بھی بیان ہی ہے۔
خلاصہ
“نسخ السنة بالقرآن” ہو یا “نسخ القرآن بالسنة”، دونوں میں امام شافعی کے پیش نظر یہ بات ہے کہ قرآن اور سنت کبھی معارض نہیں ہوسکتے، اسی لئے آپ “نسخ السنة بالقرآن” کو بھی علی الاطلاق جائز نہیں کہتے بلکہ ایک ناسخ سنت بطور معرف کی شرط رکھتے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہو تو اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ سنت قرآن کے خلاف ہوگئی۔ اسی طرح “نسخ القرآن بالسنة” میں بھی آپ سنت کو قرآن میں مذکور ناسخ کے معرف یا دلیل کا کردار دیتے ہیں۔ یوں امام شافعی کے نظریہ بیان کے اندر ناسخ و منسوخ کی بحث میں بھی سنت ہمیشہ ایک ایسے مقام پر کھڑی ہوتی ہے جہاں وہ کبھی قرآن کے خلاف نہیں ہوتی بلکہ ہر دو صورت میں قرآن کے ساتھ مل کر نسخ میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ یوں سنت یہاں بھی قرآن کے تابع ہی رہتی ہے جو ان کے نظریہ بیان کا بنیادی نکتہ ہے۔
امام شافعی کے ہاں نسخ کی بحث کا ان کے نظریہ بیان کے ساتھ یہ تعلق سمجھ آجائے تو ان شاء اللہ بہت سی غلط فہمیاں جاتی رہتی ہیں۔ ہمارے دور میں بعض اہل علم کی جانب سے اپنے وضع کردہ تصور بیان کی نسبت امام شافعی کی طرف کرکے پھر اپنے تئیں امام صاحب کے نظرئیے کے رہ جانے والے اطلاقی خلا کو پر کرنے کا دعوی درست نہیں، ان حضرات کو امام صاحب کی بعض ظاہری عبارات سے شبہ لگا ہے۔ اپنے ان شبہات کو بنیاد بنا کر یہ حضرات یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بعد کے دور میں اصولیین نے امام شافعی کے اصل تصور بیان کو گویا گم کردیا اور اب یہ حضرات اس کی بازیافت میں مصروف ہیں۔
[1] البتہ یہ ان کے کلام کو سمجھنے میں غلط فہمی تھی جیسا کہ علامہ زرکشی (م 794 ھ) نے متعدد مثالوں کے ساتھ اس کی وضاحت کی ہے۔
کمنت کیجے