توہین رسالت کی سزا کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ امت کی علمی تاریخ میں یہ مسئلہ ہمیشہ سے علما کے مابین زیر بحث رہا ہے۔اس کی اصل بنیاد تو یقینا دینیاتی ہے،جیسے کہ قرآن مجید کی بعض آیات سے اس جرم کی سزا کی تعیین،یا رسول اللہ کی نسبت سے بیان کی جانے والی چند روایات میں اس سزا کے نفاذ کی ترغیب یا پھر صحابہ کے آثار میں ان مجرموں کے ساتھ معاملے سے استدلال۔ان تینوں پہلوؤں سے استاد مکرم جناب جاوید احمد غامدی نے اپنے آرٹیکل “توہین رسالت کا مسئلہ” میں اس اصل استدلال کی غلطی واضح کی ہے جو علما اس معاملے بالعموم پیش کرتے ہیں۔
غامدی صاحب کی اس تنقید کا آج تک کوئی سنجیدہ علمی جواب ہمارے سامنے نہیں آیا جو علما کے اس دینیاتی استدلال کی صحت کو ثابت کرسکے۔
البتہ بر صغیر میں توہین رسالت کے قانون کے حوالے سے جو حساسیت پائی جاتی ہے، ہماری نظر میں اس کے پس منظر میں دینیاتی استدلال کے ساتھ ساتھ بعض سماجی عوامل بھی شامل ہیں۔ان میں سب سے اہم اس خطے میں احمد رضا خان صاحب کے مکتبہ فکر کا ظہور ہے۔اس مکتبہ فکر نے تصوف کے وہ اطلاقی مباحث جن کا علمی منھاج پر کبھی دفاع نہیں کیا گیا تھا ، قدیم فقہی تراث کو مانتے ہوئے دینیاتی استدلال کے آئینے میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
احمد رضا خان بریلی صاحب نے تصوف کے ان مافوق العقل اور خلاف نقل مقدمات کے ثبوت کے لیے جو علم الکلام وضع کیا، وہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی آفاقی اور ابدی جہت کو سامنے لاتا ہے۔یہ جہت امت کی علمی تاریخ میں منتشر کلامی بحثوں کا تو موضوع رہی ہے لیکن اسے منھاج بنا کر رسول اللہ کی شخصیت کو ایک ناقابل تسخیر طاقت کے طور پر پیش کرنا، یہ نتیجہ فکر یقینا بریلوی مکتبہ فکر ہی کا ہے۔
اس منھج فکر میں دین ،شریعت تصوف سب کا سررشتہ رسالب ماب کی ما فوق البشر شخصیت کو دیکھایا گیا ہے جس سے ہر امر کا صدور ممکن ہے۔
لہذا اس حوالے سے کسی قسم کے شبے، اعتراض اور متبادل تفہیم سے یہ سارا فریم ورک چٹک جاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ کی شخصیت کے حوالے سے اس مکتب فکر میں غیر معمولی حساسیت اور جذباتیت پائی جاتی ہے۔
لہذا اگر اعلی حضرت کے ان کے مقدمات کی تحلیل کی جائے تو سادہ الفاظ میں یہ ہیں کہ جب جناب رسول اللہ کی ذات اس درجہ عالیہ پر فائز ہے کہ قیامت تک کے غیب کا ما کان وما یکون آپ کے احاطہ علم میں ہے،آپ ہر جگہ قائم و دائم، حاضر و ناظر اور اپنے عاشقوں کے حامی و ناصر ہیں تو پھر آپ سے محبت رکھنے والے غوث اعظم دستگیر سے کرامات کا ظہور بھی عین اسی تعلق عشق کا نتیجہ ہے۔بات یہاں تک پہنچی کہ صوفیا جنھیں اندر کی باتیں کہتے ہیں، انھیں منبر کی صدا بنا کر لوگوں میں بلا خوف تردید بیان کرنا چاہیے۔
تصوف اور فقہ کی کا یہ آمیزہ ماضی کی نسبت ایک بہت پر اعتماد موقف تھا۔اسی لیے اعلی حضرت نے اس کی اساس پر کسی قسم کے سمجھوتے سے صاف انکار کیا۔
“حسام الحرمین” اس حوالے سے ان کی نفسیات کو واضح کرتی ہے کہ انھوں نے اس وقت کی نمایندہ دینی قیادت کو عوام میں disown کرنے کی مہم چلائی جو اس نئے منھج کی قبولیت میں مزاحم ہوسکتی تھی۔
مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا قاسم نانوتوی ،مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا خلیل احمد سہارنپوری، دیوبند کی اس نمایندہ قیادت پر بغیر کسی لگی لپٹی کے محض اس وجہ سے توہین و تکفیر کے فتوے دیئے گئے کہ وہ رسول اللہ کی شخصیت کی وہ حیثیت ماننے سے عملا انکاری ہیں جو اعلی حضرت نے وضع کی تھی اور یہ عمل گستاخی اور اہانت رسول کے درجے میں آتا ہے۔یوں اگر دیکھا جائے تو بر صغیر میں گستاخی رسالت کے جرم کا پہلا منظم فتوی “دیوبند کی اعلی قیادت” کے خلاف دیا گیا تھا۔
دیوبندی علما نے ابتدا میں اگرچہ اس غوغے کا بہت زور سے جواب دیا اور المُہَنَّد علی المُفَنَّد لکھ کر مقامی اور عالمی سطح پر اپنا نام صاف کروایا، لیکن متاخرین علمائے دیوبند کے موقف سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انھیں جلد ہی اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ فکری اختلاف عوامی سطح پر نہ اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی قبولیت کی زمین ہموار ہے ۔اس لیے کہ جو مباحث محل نزاع ہیں، ان میں چونکہ رسول اللہ کی شخصی حیثیت پر اختلاف ہے اور اہل بریلی اس معاملے میں کسی قسم کے compromise پر آمادہ نہیں ہیں اور وہ اسے جذباتی عوامی مسئلے کے طور پر پیش کر رہے ہیں اس لیے دیوبندی علما کے لیے اس معاملے میں خود کو بچا کر چلنے ہی میں عافیت ہے۔
بریلوی مکتب فکر کے عوامی ظاہرے میں سارا ارتکاز چونکہ مذہب کے اس پہلو سے تھا جو انسان کی نفسیات میں موجود festivity اور cultural تقاضوں کو پورا کرتا تھا۔مثلا قل ،بارہویں،عید میلاد النبی کی تقریبات اسی لیے ان کا عوام سے براہ راست رابطہ بہت مضبوط ہوتا رہا، یہی وجہ ہے کہ ان کا اثر دیوبندی کی اس علمی تحریک کی عوامی پزیرائی سے بہت زیادہ تھا جو مفسرین ،محدثین اور فقہا کے فکری، فنی اور نظریاتی کام کے تسلسل سے پیدا ہوئی تھی۔
چنانچہ ایک جانب دیوبندی قیادت کا یہ compromising رویہ اور دوسری جانب بریلوی علما کا جارحانہ اقدام ، صورت حال کو بالاخر اس جگہ پر لے آیا جہاں دیوبندی مکتب فکر بہ تدریج رسول اللہ کی شخصیت کی تخفیف، اہانت اور گستاخی کے اس داغ کو دہونے پر مجبور ہوگیا جسے اب برصغیر میں عوامی سطح پر پزیرائی مل چکی تھی۔ دیوبند کا یہ compromise دراصل حالات کا جبر تھا جسے طوعا و کرھا قبول کر لیا گیا ۔یہ اس بات کا بھی اعتراف تھا کہ عوام میں بریلوی افکار کی مقبولیت دیوبند کے اثرات سے بہت زیادہ ہے۔
تقسیم کے بعد پاکستان کی دیوبندی قیادت نے بریلوی علما کے ساتھ اسی compromise کو جاری رکھا، یہاں تک جس وقت توہین رسالت کی سزا پر قانون سازی کا شور اٹھا تو دیوبندی قیادت نے اس حوالے سے اپنی وفاداری اور عشق رسول سے سرشاری کا یقین دلا کر خود کو ایک بار پھر ہدف بننے سے بچایا اور اپنے ماضی کے علم اور جمہور علما کے موقف سے بھی دستبرادی کا اعلان کرتے ہوئے اسی بریلوی موقف کو اپنا لیا۔بلکہ صرف یہی نہیں اس نئے موقف کو اپنا کر توھین رسالت کے جرم کی سزا کے حوالے سے حنفی فقہاکا موقف بھی اسے ہی قرار دیا جو موجودہ دور کے بریلوی واعظین پیش کر رہے تھے۔جس میں نہ توبہ کی گنجایش تھی نہ مرد عورت کی تمیز تھی، نہ مسلم غیر مسلم کی تخصیص تھی۔
ہمارے خیال میں علمی سطح پر دیوبندیت کی یہ شکست بریلوییت کے اس سماجی اثر کے کے تحت ہے جسے احمد رضا خان بریلی نے پوری استقامت سے پیش کیا، اور عوامی زور پر منوایا ۔یہی وجہ ہے کہ آج دیوبندی علما لوگوں کو گستاخ قرار دے کر قتل کرنے کی اسی تحریک کا حصے ہیں جس تحریک نے ان کے ابا و اجداد کو توہین رسالت کا مجرم قرار دے کر اپنے ایمان کی وضاحتیں دینے پر مجبور کر دیا تھا۔
ہماری رائے میں اب یہ دیوبندی مکتب فکر کے لیے یہ ایک point of no return ہے۔نوجوان دیوبندی علما میں اس compromise کا احساس تو پیدا ہورہا ہے لیکن اب دیوبندی مکتب فکر کو یہاں سے واپسی کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گا۔کیونکہ اب اس معاملے میں ان کی علمی آرا کو شاید ان کے مقلدین بھی اتنی اہمیت نہ دیں۔
یہ بالکل وہی صورتحال ہے کہ جب عالمی طاقتوں کی سیاسی کشمکش میں افغانستان کی لڑائی کو جہاد قرار دے کر دیوبندی مکتب فکر نے اپنی خدمات پیش کرنے کے بعد پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا تو دیوبندی قیادت کو اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہوگیا کہ اس جہاد کے خاتمے کی بات انھی کے شاگرد اور پیداکردہ مجاہدین نے نہہں مانی اور اپنے ہی اکابرین کے خون کے پیاسے ہو گئے جس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑی۔
لہذا توہین رسالت کے اس قانون پر بھی دیوبندی علما کے لیے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ جس پرائے شگون پر ناک کٹوائی گئی ہے ،آج اگر وہ اس سے لوٹنا بھی چاہیں تو خدا نہ کرے ان کے متبعین انھی کی توبہ اور رجوع قبول کرنے سے انکار نہ کردیں۔
حال میں ہم نے اس ضمن میں 295c کے قانون اور توبہ کے حوالے سے جب دیوبندی علماء کو توجہ دلائی تو اس مکتبہ فکر کی نابغہ علما نے اسی عجز کا اظہار کیا ہے کہ بات ان کے ہاتھ میں نہیں رہی ہے۔وہ زیادہ سے زیادہ فقہا کے اختلافات کو تو اجاگر کر کے یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ اس قانون کو محض ایک رائے پر بنایا گیا تھا، لیکن اس میں ترمیم و اضافے کا بوجھ ان کے کاندھے نہیں اٹھا سکتے۔
آپ نے جو مضمون شیئر کیا ہے، اس میں دیوبند کے علماء کے موقف کو بریلوی مکتب فکر کے پس منظر میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، خاص طور پر توہین رسالت کی سزا کے مسئلے پر۔ اس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دیوبندی علماء نے ابتدا میں اپنے موقف کا دفاع کیا، لیکن وقت کے ساتھ بریلوی موقف کو قبول کرلیا اور اب وہ اس حوالے سے کوئی علمی موقف اختیار کرنے سے قاصر ہیں۔
اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے، سب سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کے مابین اختلافات بنیادی طور پر علمی اور فقہی نوعیت کے ہیں، جن کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور مقام سے مختلف تفسیری نظریات سے ہے۔ دونوں مکاتب فکر کا اسلام اور اس کے اصولوں پر یقین ہے، لیکن بعض کلامی اور فقہی مسائل پر اختلاف رائے رکھتے ہیں، جیسے کہ توہین رسالت کی سزا کا معاملہ۔
1. علمی اور فقہی بنیادوں پر اختلاف: دیوبندیت نے ہمیشہ قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے علمی دلائل اور موقف پیش کیے ہیں۔ بریلوی مکتب فکر نے اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو مافوق البشر خصوصیات کے ساتھ بیان کیا ہے، لیکن دیوبند کا موقف ہمیشہ اس بات پر رہا ہے کہ اللہ کے رسول کو انسانیت کی رہنمائی کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے، اور وہ بشر ہیں لیکن ان کا مرتبہ دیگر انسانوں سے بلند ہے۔ اس میں غلو اور حد سے تجاوز دیوبندی فکر کا حصہ نہیں۔
2. تاریخی اور دینی اختلافات: بریلوی علماء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے متعلق بعض تفصیلات کو اس حد تک لے لیا ہے کہ وہ عوامی جذبات کو بھڑکانے کا باعث بنی ہیں۔ اس کے برعکس دیوبندی علماء نے ہمیشہ علمی دلائل اور فقہی اصولوں کی روشنی میں گفتگو کی ہے۔ “المُہَنَّد علی المُفَنَّد” جیسی کتابیں دیوبند کی علمی دیانت اور تحقیق کا ثبوت ہیں۔
3. توہین رسالت کا معاملہ: توہین رسالت کی سزا کا مسئلہ ایک فقہی موضوع ہے جس پر علما کے درمیان اختلاف موجود ہے۔ دیوبندی علماء اس مسئلے میں فقہی اصولوں اور قرآن و سنت کی تشریحات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا موقف پیش کرتے ہیں۔ بریلوی مکتب فکر نے اس مسئلے کو عوامی جذبات سے منسلک کرکے پیش کیا، جو دیوبند کی علمی بحثوں کا حصہ نہیں رہا۔
4. موجودہ حالات: دیوبند نے کبھی بھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا، بلکہ بریلوی مکتب فکر کے جذباتی رویے کے باوجود علمی اور فقہی مباحث پر مضبوطی سے قائم رہا ہے۔ جہاں تک عوامی پذیرائی کا تعلق ہے، عوامی مقبولیت علمی حقانیت کا پیمانہ نہیں ہو سکتی۔ دیوبندی علماء نے ہمیشہ اپنی تحقیق کو عوامی مقبولیت پر فوقیت دی ہے۔
لہٰذا، دیوبندی علماء پر تنقید غیر مناسب ہے کیونکہ انہوں نے ہمیشہ علمی اصولوں پر مبنی گفتگو کی ہے اور کبھی عوامی دباؤ کے زیر اثر اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔