گل رحمان ہمدرد
وحی کا آغاز جب نہیں ہوا تھا تو نبی کریم ص کی بحیثیت انسان زندگی ,طرز احساس اور طریق کار صوفیوں جیسا تھا۔تنہائی اور گوشہ نشینی,پہاڑوں اور بیابانوں میں احتسابِ نفس ومراقبہ ,صالحینِ عالم کی طرح ریاضت و مشقت و خدمت خلق۔ اور اس ریاضت و مشقت کے نتیجے میں ایسے روحانی آثار کا مشاہدہ جو شریعت نہیں تھے بلکہ روحانی مشاہدات تھے غارِ حرا کا ورثہ ہے ۔مذہب کے اس آخری ایڈیشن کی تاریخ بھی اس کے قدیم ایڈیشنز کی طرح جنگلوں ,صحراوں ,پہاڑوں بیابانوں اور جھونپڑیوں کے تذکرہ کے بغیر نامکمل ہے۔
مسلمانوں کے تینوں اساسی فرقوں (شیعہ ,سنی اور اباضی)کی کتبِِ تاریخ سے ثابت ہے کہ آپ ص وحی کے آغاز سے قبل ”حق کی تلاش“ میں گاہے غارحرا جایا کرتے تھے۔
انسان کو اگر حق کی تلاش کرنی ہو تو وہ کتابیں پڑھتا ہے,اساتذہ سے فیضیاب ہوتا ہے۔علم کی درس گاہوں کا رخ کرتا ہے۔نبی کریم ص کےعہد میں یہودیوں اور عیساٸیوں کی تعلیمی درس گاہیں قائم تھیں اورخود عرب میں ان کے بڑے نامور فضلاء موجود تھے۔عربی شعر وادب کے اساتذہ بھی کم نہ تھے۔ چندبرس کے لیۓ ایران , یونان اور ہندوستان جا کر علم سیکھا جا سکتا تھا۔ جہاں کافی علمی مواد موجود تھا۔رسول اللہ ص نے لیکن اس ظاہری راہ پر تلاشِ حق کے لیۓ ایک قدم بھی کبھی نہ رکھا ۔آپ ص نے تلاش حق کےلیۓ باطنی منہج اپنایا جو صوفیوں کا منہج ہے ۔اساتذہ کی تعلیم,مصنفین کی کُتب اور معلمین کی درس گاہوں کے بجاۓ آپ ص نے اپنے باطن میں جھانک کر حق کو پانے کی جستجو کی۔ تلاشِ حق میں سرگرداں رہنے کی طرف بعد میں قرآن مجید نے اپنے ان لافانی الفاظ میں اشارہ کیا :
وَوَجَدَکَ ضَآلّاََ فھدٰی
ترجمہ:ہم نے آپ کو جویاۓ راہ پایا تو کیا راہ نہ دکھائی؟
یعنی ہم نے آپ کو حق کی تلاش میں سرگرداں پایا تو راہ نہ دکھائی؟۔یہ آیت اور کتبِ تاریخ واضح اشارہ کررہی ہیں کہ چالیس سال کی عمر سے قبل جبکہ وحی کا آغاز ابھی نہیں ہوا تھا نبی ص تلاشِ حق میں سرگرداں رہے۔سوال پھر وہی ہے کہ حق تلاش کرنے ان کا منہج کیا تھا؟ صوفیوں کی طرح اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کا تھا یا درس گاہوں اور کتابوں میں علم حاصل کرنے کا تھا۔ان کی زندگی کودیکھ کر ہر شخص اس سوال کا جواب خود تلاش کرسکتا ہے۔
بیسویں صدی کے ہندوستان کے نامور ماہر مذہبیات اورمفسر قرآن مولانا ابوالکلام آزاد رقم طراز ہیں :
”وہ غار حرا کےاندر بھوکا پیاسا تمام مادیاتِ عالم سےکنارا کش ہو کر اپنے پروردگار کے حضور میں سربسجود تھا۔وہ غذاۓ آسمانی کی طلب میں زمین کی پیداوار سے کنارہ کش ہوکر بھوکا پیاسا تھا ۔پس خداوند نے اُس کی بُھوک کو دنیا کی سیرابی کےلیۓ قبول کرلیا۔وہ انسانیت کی غفلت و سرشاری کے دُور کرنے کےلیۓ راتوں کو اٹھ اٹھ کر جاگتا تھا ,پس اللہ نے اُس کی بے خواب آنکھوں کو اپنے نظارہ جمال سے ٹھنڈک بخشی۔۔۔اس اسوہءعظیمہ کا سب سے پہلا منظر وہ عالمِ ملکوتی کا استغراق و استیلاء تھا جبکہ صاحب فرقان نے انسانوں کو ترک کرکے خدا کی صحبت اختیار کرلی تھی۔ اور انسانوں کے بناۓ ہوۓ گھروں کو چھوڑ کر غارِ حرا کے غیر مصنوع حجرے میں عزلت گزیں ہوگیا تھا“
( ابوالکلام آزاد,انتخاب الہلال,صفحہ 232-230)
پھریہ بھی حقیقت ہے کہ وحی کاسلسلہ شروع ہونے اور نبوت ملنے کے بعد بھی نبی ص نے اپنی گوناگوں دعوتی مصروفیات کے باوجود بھی غارحرا جانے کے معمول کوترک نہیں کیا۔تریپن سالہ مکی زندگی غارِحرا کے ذکر کے بغیر نامکمل تصور ہوتی ہے۔ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد جب ریاست قائم ہوگئی اور ویرانے میں ٹھکانہ بنانا ممکن نہ رہا تو نبی ص نے مدینہ میں اپنے جھونپڑی نما گھر کوہی غارِ حرا بنالیا اور اس میں غارحرا کے معمولات کو جاری رکھا ۔ جنگلوں ,بیابانوں ,پہاڑوں , صحراوں اور جھونپڑیوں کی اس مبارک ومقدس رسم کو بعد میں صوفیاء نے جاری رکھا اور فیضانِ الہی سے فیضیاب ہوۓ۔
غامدی صاحب اور اسی طرح کے بعض تصوف مخالف اسکالروں نے جب تصوف کی بیخ کنی کرنا چاہی تو تاریخی دستاویزات میں بیان شدہ نبی ص کے غار حرا تشریف لے جانے کے واقعہ کو رد کرنا چاہا۔ان بے چاروں کو نہیں معلوم کہ ہر علمی ڈسپلن کی اپنی اساسیات ہوتی ہیں جن کی پاسداری لازم ہوتی ہے۔تاریخ پر جب آپ گفتگو کررہے ہوں تو رپورٹیڈ واقعات کی سچائی کو صرف اسی صورت میں رد کیا جاسکتا ہےجبکہ تاریخ میں اس کے متبادل بیانیہ رپورٹ ہوا ہو۔عقلی استدلال سے تاریخی واقعہ کا رد علم تاریخ کے ڈسپلن کا منہج نہیں ہے ۔مسلمانوں کے تینوں بنیادی فرقوں کی کتب تاریخ و آثار میں کہیں درج نہیں ہے کہ نبی ص غار حرا نہیں جایا کرتے تھے۔تاریخ میں جو کچھ رپورٹ ہوا ہے وہ یہی ہے کہ وہ غارحرا جایا کرتے تھے۔آپکا ذوق اگر اس کوماننے پر آمادہ نہیں ہے تویہ آپ کا نفسیاتی معاملہ ہے جس کا آپ کو حق حاصل ہے۔تاہم تاریخ کے رپورٹیڈ کونٹینٹ میں جاکر آپ مداخلت کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔آپ ایسی بات نہیں کرسکتے جو دستیاب ریپورٹیڈ لٹریچر میں موجود ہی نہ ہو۔غامدی صاحب جو بات کررہے ہیں کہ وہ غارحرا نہیں جایا کرتے تھے یہ اسلامی تاریخ کے دستیاب لٹریچر میں کہیں درج نہیں ہے۔علم تاریخ کی رو سے یہ ایک بے دلیل اور خودساختہ دعویٰ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گل رحمان ہمدرد صاحب فلسفہ اور تصوف میں دلچسپی رکھنے والے اسکالر اور باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں فلسفہ کے استاد ہیں۔
کمنت کیجے