ظاہری مماثلتیں بسا اوقات پس پشت حقائق کو سمجھنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ ڈیوڈ ہیوم (م 1776 ء) نے بھی اشاعرہ کی طرح یہ کہا کہ علت مشاھدے میں نہیں آتی، لیکن دونوں کا علمی فریم ورک چونکہ مختلف تھا لہذا دونوں الگ نتائج پر پہنچے۔ ہیوم چونکہ تجربیت پسند تھا جس کے خیال میں علم صرف حسی مشاہدے سے جنم لیتا ہے لہذا اس نے علت کے مشہود (observed) نہ ہونے سے یہ اخذ کیا کہ یہ اصول قطعی نہیں۔ ظاہر ہے ہیوم کے فریم ورک میں اس اصول کی بنیاد پر الہیاتی حقائق کے اثبات کا کوئی راستہ موجود نہیں۔
اشاعرہ (امام غزالی (م 1111 ء) وغیرہ) نے بھی یہ بات کہی لیکن ایک الگ تناظر میں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ جو شے حادث ہو (یعنی جس کی ابتدا ہو یا جو عدم سے وجود میں آیا ہو) وہ علت نہیں ہوسکتی اس لئے کہ حادث بائے ڈیفینیشن معلول یا اثر (effect) ہوتا ہے۔ یہ وہ بات ہے جس کے پیش نظر اشاعرہ اس کائنات میں علت کے اجرا کرنے والے مفکرین (مثلا اہل طبع یا naturalists، وہ معتزلہ جو نظریہ تولد کے قائل تھے اور مسلم فلاسفہ جو ارسطو کی پیروی میں اشیا میں تاثیرات کے قائل تھے) کو کہتے تھے کہ علت بمعنی تاثیر کا خارج میں کہیں مشاہدہ نہیں ہوتا، خارج میں صرف دو امور کا خاص طرز کے اقتران (concurrence) کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اس سے بعض لوگوں نے غلط طور پر یہ سمجھ لیا گویا اشاعرہ بھی ھیوم کی طرح اس مسئلے کو دیکھتے تھے اور بعض نے یہ سمجھا گویا یہ کہہ کر اشاعرہ اصول علیت ہی کا انکار کر بیٹھتے ہیں، جبکہ معاملہ یہ ہے کہ اشاعرہ اپنے ناقدین سے یہ کہتے تھے کہ تم غلط طور پر اس شے کو علت کہتے ہو جو حادث یعنی معلول ہے اور اس کی جو دلیل تم پیش کرتے ہو، یعنی مشاہدہ، وہ تمہارے دعوے کی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ علت کا مشاہدہ نہیں ہوتا۔
ہیوم کے برعکس اشاعرہ اصول علیت کو قطعی مانتے ہیں اس لئے کہ یہ اضطراری علم ہے اور اس اصول علیت کی وجودی بنیاد امکان ہے اور امکان کی بنیاد حدوث ہے۔ پس جو حادث ہو وہ محتاج ہوتا ہے، جو محتاج ہو وہ معلول یا اثر ہوتا ہے، اور جب اثر موجود ہو تو مؤثر بھی موجود ہوتا ہے (یہاں یہ بات نوٹ کیجئے کہ اصول علیت استدلالی ہے یا بدیہی، اس پر متکلمین کے ہاں تفصیلی بحث موجود ہے اور محقق علماء اس کے استدلالی ہونے کو درست نہیں کہتے)۔ ہیوم چونکہ علم ضروری کا منکر تھا اور سارے علم کو حسی تجربے میں بند کرتا تھا اور ساتھ ہی اسے اصول علیت کا مفہوم واضح نہ ہوسکا، اس لئے وہ اصول علیت کو سائیکولوجیکل چیز اور علت کو زمانی تسلسل و تقدم (temporal procession and priority) قرار دے کر خلط مبحث کا شکار ہوجاتا ہے۔ کانٹ بھی علت کا یہی غلط تصور قائم کرتا ہے کہ علیت زمانی تسلسل و ترتیب میں زمانی تقدیم سے عبارت ہے (یعنی وہ بھی علت ہونے کے مفہوم میں “زمانی طور پر مقدم ہونے” کا مفہوم شامل کردیتا ہے)، البتہ ہیوم کی طرح وہ اسے نفسی رجحان کہنے کے بجائے ذہن کی ادراکی ساخت میں پیوست ایک خیال قرار دیتا ہے جس کی از خود کوئی وجودی بنیاد نہیں، یہ بس خارجی امور کو زمانی تسلسل کی ایک خاص لڑی میں پرو کر میرے لئے فنامینا کی صورت توجیہہ کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ الغرض ہیوم ہو یا کانٹ، دونوں ہی علت کا مفہوم مقرر کرنے میں یہ غلطی کرتے ہیں کہ یہ حوادث (یعنی معلولات) ہی کو علت کہنے پر اصرار کرتے رہے اور اس عمل میں یہ بھی غور نہیں کرتے کہ “زمانی و مکانی ہونا” (to be timed and spatial) از خود حدوث سے عبارت ہے جو معلول ہونے کی علامت ہے نہ کہ علت۔ ہم نہیں جانتے کہ کانٹ کے پاس معلول ہی کو علت قرار دے کر اسے ذہنی مقولے کا معنی قرار دینے کی کونسی دلیل ہے۔
یہ حضرات جس غلط فہمی کا شکار ہوئے وہ کسی حد تک “علت اولی” کے اس فریم ورک کی رہین منت ہے جو فرض کرتا ہے کہ اس کائنات میں علت موجود ہے جو یک بعد دیگرے ایک دوسرے پر وارد ہورہی ہیں یہاں تک کہ ہم اس نکتے تک پہنچ جائیں جس کے پیچھے ایک پہلی علت بھی ہوگی جو اس سلسلے کی توجیہہ بن سکے۔ یہ ارسطو کا طریقہ بحث ہے جسے علامہ ابونصر فارابی (م 950 ء) و علامہ ابن سینا (1037 ء) کی روایت نے قبول کیا اور جو علامہ ابن رشد (م 1198 ء) کے راستے عیسائی عالم سینٹ اکواناس (م 1274 ء) اور دیگر یورپی فلاسفہ کو منتقل ہوا۔ اشعری و ماتریدی متکلمین اس فریم ورک کو نہیں لیتے کیونکہ یہ غیر ثابت شدہ مفروضوں پر قائم ہے۔ کائنات میں علت ہے ہی نہیں کیونکہ کائنات حادث ہے اور حادث بائے ڈیفینیشن علت نہیں معلول ہوتا ہے، ھیوم و کانٹ اس بات کو سمجھنے میں اسی طرح خلط مبحث کا شکار تھے جیسے ارسطو اور اس کے پیرو مسلم فلاسفہ تھے۔ ان حضرات کو یہ دلیل وضع کرتے ہوئے غور کرنا چاہئے تھا کہ علت و معلول کے جس سلسلے کو یہ اس عالم میں پیچھے کی جانب چلا رہے ہیں، اس سلسلے کا پہلا ممبر معلول ہونا چاہئے نہ کہ علت کیونکہ آپ خود کہہ رہے ہیں کہ علت اولی خدا ہے (دراصل “علت اولی” کی اصطلاح خلط مبحث کا باعث ہے جو یہ فرض کرتی ہے کہ علتیں بہت ساری ہیں)۔ عقل کہتی ہے کہ علت صرف ایک ہے اور وہ عالم سے ماوراء ہے کیونکہ جو اس عالم میں شامل ہوگا وہ حادث ہو کر معلول ہوگا۔
یہاں پر جو فلاسفر تحریر فرماتے ہیں ان کا کچھ تعارف اور رابطہ نمبر یا ان کا اپنا پلیٹ فام وغیرہ کی معلومات بھی ہونی چاہیے پھر اگر نظریات سے کسی کو اختلاف ہو اس کو بیان کرنے کا طریقہ کار بھی ہونا چاہیے جہاں پر علمی مباحث ہوں اس کی معلومات بھی ہونی چاہیے پھر کیا ہم مطلقا کسی بحث کو لے کر چل سکتے ہیں یا اپنا موقف مناطقہ فلاسفہ معتزلہ و متکلمین میں سے جس کی بات پیش کرنی ہو ان کے اقوال وہ بھی حوالہ جات کے ساتھ پیش کرنے کے بعد ہم گفتگو کرنے کے حق دار ہو سکتے ہیں؟؟
جی بہت بہتر رائے ہے ۔
ڈاکٹر زاھد مغل اور عمران بھنڈر کا تعارف علمی قابلیت مصروفیت تصانیف کی معلومات وغیرہ مل سکتی ہیں؟