Home » کانٹ کی نامینا اور فنامینا کی تقسیم کی بنیاد پر تبصرہ
شخصیات وافکار فلسفہ

کانٹ کی نامینا اور فنامینا کی تقسیم کی بنیاد پر تبصرہ

کانٹ کی دلیل کے نکات ہم اپنی ایک تحریر میں لکھ چکے ہیں، اس دلیل کے مختلف اجزا کی خامیوں پر پہلے بھی بات ہوتی رہی ہے۔ یہاں ہم کانٹ کے اس دعوے کی تنقیح کرتے ہوئے اس کا جائزہ لیتے ہیں کہ “شے فی نفسہ” (thing        in itself) اور “مظہر شے” (appearance) یا اس کی شبیہہ میں فرق ہے۔ اس دعوے پر تین اعتراضات ہیں اور ایک معارضہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ حصول علم کی کیفیت کے بارے میں کانٹ کا دعوی لازم نہیں بلکہ اس سے بہتر توجیہہ موجود ہے۔ اعتراضات یہ ہیں:
پہلا اعتراض: یہ دعوی بتا رہا ہے کہ شے فی نفسہ کو آپ موجود فرض کررہے ہیں، لیکن اس کے “ہونے” کا حکم لگانے کا آپ کے پاس کیا ذریعہ ہے؟ اگر ایسا کوئی ذریعہ نہیں تو “اسے نہ جان سکنے” کا کیا مطلب ہوا؟ باالفاظ دیگر حقیقت کی نامینا اور فنامینا میں تقسیم جاننے کی بنیاد کیا ہے؟
دوسرا اعتراض: یہ دعوی دراصل اس مفروضے پر مبنی ہے کہ “ھونے” (being) اور “جاننے” (knowing) میں فرق ہے جبکہ یہ مفروضہ ثابت نہیں (اس پر ہم نے دیگر مقامات پر گفتگو کی ہے)۔ اس غلط مفروضے کی وجہ یہ ہے کہ کانٹ لازمی وجودی حقائق کو اپنے نظام فکر میں جگہ نہیں دیتا
تیسرا اعتراض: جب آپ کہتے ہیں کہ ہمیں صرف شبیہہ کاعلم ہوتا ہے نہ کہ شے فی نفسہ کا، تو آپ نے یہ فرض کیا ہے گویا میں اپنے اندر بیٹھ کر ذھن کی سکرین دیکھ رہا ہوں۔ اگر ہم ذھن میں بیٹھے سکرین دیکھ رہے ہیں تو پھر اس چھوٹے سے انسان کے ذہن میں ایک اور سکرین ہونی چاہئے تاکہ وہ خود سے ماوراء دیکھ سکے اور یہ لامتناہی تسلسل ہوگا جو جائز نہیں۔
معارضہ (counter       argument) یہ ہے کہ یہ کیوں ممکن نہیں کہ جسے آپ فنامینا کہہ رہے ہیں وہ نامینا ہی ہو جبکہ یہ کہنا زیادہ قرین از قیاس بھی ہو؟ اس کی تفصیل یوں ہے کہ آپ کے مفروضے کے مطابق ہمارا ادراکی نظام خارجی شے (object) اور ہمارے ادراک (perception) کے مابین شے کی شبیہہ (appearance        of        object) کی صورت حائل ہے، لیکن اس مفروضے کی کیا دلیل ہے؟ اس اشکال کو سمجھنے کے لئے ادراک (perception) اور مدرَک (perceived        object) کے پیش نظر یہ جانئے کہ کسی شے سے متعلق ہمارے ادراک کے بارے میں دو مفروضے ہوسکتے ہیں:
• ایک یہ کہ مدرَک وہ خارجی شے ہے جس کا ادراک ہو جیسے مثلا سیب۔ یہاں ادراک وہ ذہنی حال ہے جو ہمارے اندر پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہم اس شے کے مدرِک (perceiver) یا ادراک کرنے والے ہوتے ہیں جو ہمارے ادراک کا آبجیکٹ یا مدرَک ہے، یعنی سیب۔
• دوسرا مفروضہ یہ ہوسکتا ہے کہ مشاہدے کے عمل میں ہم خارجی دنیا میں نہیں جھانکتے بلکہ اپنے ذہن میں جھانکتے ہیں۔ اس نظرئیے کے مطابق جو حال ہمارے اندر پایا جاتا ہے (یعنی ادراک)، وہ از خود ہمارے ادراک کا آبجیکٹ ہے نیز ہمارا ادراک “شے کے ادراک کا ادراک” ہے نہ کہ “شے کا ادراک” (our        perception        is        about        perception        of        the        object        and        not        about        object)۔ یعنی ہم خارج میں موجود سیب نہیں دیکھتے بلکہ سیب کی شبیہہ یا ادراک دیکھتے (یعنی سیب کے ادراک کا ادراک رکھتے) ہیں۔ کانٹ ادراک کے بارے میں اس دوسرے مفروضے کے قائل تھے۔ اسی مفروضے کی وجہ سے کانٹ نامینا اور فنامینا میں تقسیم کرتے ہیں کہ چونکہ ہمارا ادراک ہمارے ادراک کے بارے میں ہوتا ہے نہ کہ شے کے بارے میں، لہذا شے اور ہمارے ادراک میں کبھی نہ پر ہوسکنے والا خلا برقرار رہتا ہے کیونکہ مشاھدے کے عمل میں انسان “شے کی کیٹیگریز” کو نہیں بلکہ “ذہن کی کیٹیگریز” کو دریافت کرپاتا ہے۔
چنانچہ کانٹ کے برخلاف یہ کیوں نہ کہا جائے کہ جسے ہم ادراک کہتے ہیں وہ ہمارا ایک حال ہے (perception        is         a        state) جو ہمیں براہ راست خارج سے متعلق کرتا ہے نیز یہ کہ ادراک از خود مدرَک (perceived        or        object         of        perception) نہیں ہے جس کا ادراک ہورہا ہو؟ یہ اسی طرح ہے جیسے علم از خود معلوم یا علم کا آبجیکٹ نہیں ہے بلکہ علم ایک ایسی ناقابل تجزیہ صفت یا حال ہے جس کے ذریعے ہم اس معلوم کو جانتے ہیں جو خارج میں ہے، مثلا سیب۔ پس یہ کہنا کہ میں اپنے ذہن میں بیٹھ کر اپنے ذہن کی سکرین پر بننے والی شبیہات دیکھ رہا ہوں ایک پر تکلف خیال ہے جو کسی حد تک سفسفہ کی ایک صورت ہے۔ یہاں یہ بات نوٹ کیجئے کہ حصول علم کی کیفیت کے بارے میں علامہ ابن سینا بھی اسی موقف کے قائل تھے کہ انسانی ادراک و شعور شے نہیں بلکہ ہمارے ادراک و شعور سے متعلق ہوتا ہے، امام رازی نے ابن سینا کی کتاب “الاشارات” پر اپنی شرح “شرح الاشارات و التنبیهات” میں دونوں جانب کے دلائل پر بحث کرتے ہوئے علامہ ابن سینا کے اس نظرئیے کو رد کیا ہے۔ چنانچہ “انسانی شعور کے شعور کا مطالعہ” کرکے یہ خاص رائے قائم کرنے میں کانٹ نے کوئی نیا اضافہ نہیں کیا۔ کانٹ کا یہ استدلال ان تجربیت پسندوں کے خلاف مؤثر ہوسکتا ہے جو ادراک کو مدرَک (perceived        object) نہیں بلکہ “شے کے ادراک” کا ادراک کہتے تھے اور جن کا کہنا ہے کہ حس سے متعلق یہ ذہنی تصورات و ادراکات علم کی بنیاد ہیں۔ اس پر کانٹ کا کہنا تھا کہ ان حسی ذہنی تصورات مانے جانے والوں کی فہرست میں ایسے تصورات بھی شامل ہیں جو براہ راست حسی نہیں ہیں بلکہ وہ حسی تصورات کی ترکیب سے جنم لیتے ہیں (جیسے ایک شے علت اور دوسری معلول ہونا)۔ لہذا ذھن میں جنم لینے والے تمام سادہ و مرکب تصورات کی صورتیں ذہن میں موجود ہونا چاہیئں اور انہیں ماقبل حس ذھن کی ادراکی ساخت کے طور پر فرض کرنا ہوگا۔ اس کے برعکس جن کا کہنا یہ ہے کہ تصور و ادراک از خود ادراک کا آبجیکٹ نہیں جس کے ذریعے میں عالم کو جانتا ہوں بلکہ انسانی ادراک براہ راست خارجی دنیا سے متعلق ایک ناقابل تجزیہ علم ہے، انہیں کانٹ کی یہ ذہنی کیٹیگریز ماننے کی ضرورت نہیں اور نتیجتاً نامینا اور فنامینا کی تقسیم جاتی رہی۔ درج بالا دوسرے نظرئیے کی رو سے ہمارے تصورات خارج پر پردہ ڈالنے والے ہیں جبکہ پہلے نظرئیے کے مطابق وہ ہمیں خارج کا مدرک بنانے والے ہیں۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں