تھامس ایرکسن کا تعلق سویڈن سے ہے۔تھامس کی کتاب Surrounded By Idiots کو کافی شہرت ملی۔ یہ Behavioural Science سے متعلق ایک اہم کتاب ہے۔ انسانوں کی شخصیت ،مزاج ، فکر،طرز عمل اور ان کے سوچنے سمجھنے کے انداز میں فرق اور اس کی وجوہات اس کتاب کا بنیادی موضوع ہے۔
جس طرح انسانوں کے رنگ ، نسل اور قومیت میں فرق ہے۔ اس طرح قدرت نے انسانوں کے مزاج اور طبیعت میں بھی فرق رکھا ہوا ہے۔ مزاج کے اس فرق کو ہم میں سے اکثر لوگ نظر انداز کرتے ہیں اور جب آس پاس کے لوگ ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتے یا وہ ہماری بات ہماری منشا کے مطابق نہیں سمجھتے اور ان کے مختلف طریقہ کار سے ہم اتفاق نہیں کر پاتے تو ہم سوچتے ہیں کہ ہمارا واسطہ احمقوں سے پڑا ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری بات بہت سادہ ہے اور اس سے عدم اتفاق کی کوئی وجہ نہیں اس کے باوجود جب ہم دیکھیں کہ کچھ لوگ اس سے مختلف سوچتے ہیں تو یہ چیز ہمارے مزاج پر خوشگوار تاثر نہیں چھوڑتی۔ تھامس ایرکسن نے اس کتاب میں ہمارے اس ہی مسئلہ پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
کتاب کا ابتدائیہ ڈیوڈ بونسٹر نے لکھا اور بتایا ہے کہ انسانی احساسات اور جذبات (Human Behaviour) کو سمجھنا ایک نہ ختم ہونے والا ٹاسک (Never ending task) ہے۔ تھامس کی یہ کتاب اس بارے میں کافی مدد تو فراہم کرتی ہے مگر اس کتاب کے مطالعہ کے بعد ہرگز نہیں خیال کرنا چاہیے کہ ہم انسانی رویوں کو مکمل طور پر سمجھنے کے قابل ہو گئے ہیں۔
تھامس کہتے ہیں کہ ہمیں اکثر اوقات کمیونیکیشن کا یہ مسئلہ پیش آتا ہے کہ ہم کسی کو کوئی بات بتاتے ہیں تو وہ اس کا مطلب اپنے انداز میں لیتا ہے اور ہم اس کو اس کی نااہلی سمجھنے لگتے ہیں ایسا ہی مسئلہ ہمیں بطور سامع بھی پیش آتا ہے کہ ہم کسی کی بات کو اپنے انداز میں لیتے ہیں اور پھر اس پر عمل کرتے ہیں جو کہ اس کی سوچ سے مختلف ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں جانب سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے دونوں فریقین کو یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم جس سے مخاطب ہیں یا جو ہم سے مخاطب ہو اس کا understanding لیول کیا ہے۔ جب ہم یہ جان لیں تو پھر دونوں اپنی بات کو ہم اس چیز کو مدنظر رکھ کر کرتے ہیں جس سے کمیونیکیشن کا یہ مسئلہ بہتر انداز میں حل ہو جاتا ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دوسرا بندہ ہماری بات کا اپنے انداز میں نکالتا ہے؟
دراصل یہ ہمارے مزاج اور طبیعت کا فرق ہوتا ہے۔ ہم اس فرق کو سمجھ نہیں پاتے اور جلد ہی دوسرے کے بارے میں منفی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ اس کتاب میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم دوسروں کو اپنا مخالف نہ جانیں اور نہ ہی جلدبازی میں ان کے بارے میں کوئی منفی رائے قائم کریں یا ان کو کوڑھ مغز ، جاہل یا نااہل قرار دیں۔ وہ ہمارے مخالف نہیں بس ہم سے مختلف ہیں۔ یہ معمولی سا فرق اگر ہم جان جائیں تو ہمارے درمیان کیمونکیش گیپ والے مسائل بڑی حد تک ختم ہو جائیں گے۔ جب ہم اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھیں گے تو ناصرف ہماری درمیان اطمینان کی فضاء قائم ہو گی بلکہ یہ فرق ہمیں انسانوں کو بھی سمجھنے میں مدد دے گا اور ہم جانیں گے کہ ہر انسان کی عادت اور مزاج دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب انسانوں کے مزاج آپس میں نہیں ملتے بلکہ اکثر انسانوں کے درمیان مزاج کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی میں ایسے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جن کا مزاج ہمارے مزاج سے مختلف ہوتا ہے۔ جب ہمیں ان کے ساتھ معاملات کا سامنا کرنے پڑے تو ہمارا طرزِ عمل کیسا ہونا چاہئے تھامس نے اس پر تفصیل سے کتاب میں گفتگو کی ہے.تھامس نے لکھا ہے کہ ان کا قطعاً یہ دعویٰ نہیں کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ مکمل طور پر انسانی رویوں اور مزاج کو سمجھ لیں گے۔ انسان کے رویوں کا مکمل ادراک ایک نا ختم ہونے والا کام ہے۔ البتہ اس کتاب سے انسانی رویوں کی جانکاری کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ کافی مفید ہو سکتی ہے۔
انسانی عادات اور مزاج کے حوالے سے تھامس نے ایک اور اہم بات کی کہ ہماری ظعادات اور مزاج کا بہت سے حصہ ہماری پیدائش سے پہلے ہی قائم ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے آباؤ اجداد سے ان کی عادات اور مزاج کا حصہ ورثے میں پاتے ہیں پھر ہم جس ماحول میں پلتے بڑھتے ہیں ان کا بھی ہماری شخصیت پر بہت اثر ہوتا ہے۔ یہ دو وہ چیزیں ہیں جن پر انسان کا کوئی اختیار نہیں مگر اس کی طبعیت اور شخصیت کی نشوونما میں ان کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا نہیں کہ ہم اپنے ورثے میں ملی عادات کو تبدیل نہیں کر سکتے بلکہ اس پر اگر شعوری کوشش کریں تو اس میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
تھامس ایرکسن نے لوگوں کو ان کی شخصیت اور طبیعت کے لحاظ سے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر ایک کو سرخ، پیلا، سبز اور نیلے رنگ کا نام دیکر ان کی شخصیت کا جائزہ لیا ہے۔
سب سے پہلے اس نے سرخ رنگ کی حامل شخصیات کی بات کی ہے۔ تھامس نے بتایا کہ یہ لوگ Dominating پرسنیلٹی کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ کوئی بھی کام کریں تو آگے آگے ہوتے ہیں۔ ان کی اپروچ زیادہ تر نتائج کے گرد گھومتی ہے۔ اگر ان کے حصول کے لیے ان کوئی شارٹ کٹ اختیار کرنا پڑے یا کوئی قانون و ضابطے کو توڑنا ہو تو یہ بلا جھجک توڑ دیتے ہیں.یہ اپنی دھن کے پکے ہوتے ہیں۔ ان کا انداز تحکمانہ ہوتا ہے اور دوسرے لوگ ان مغرور سمجھ لیتے ہیں۔ تحکمانہ لہجے کے باعث دوسروں کو لگتا ہے کہ یہ غصے والے ہوتے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں یہ بس چاہتے ہیں کہ جو کام انہوں نے کہا ہے اس کو ان کی مرضی کے مطابق پورا کیا جائے۔ یہ کسی سے جلد امید باندھتے ہیں اگر امید کے مطابق کام نہ ہو تو اس سے مایوس بھی جلد ہو جاتے ہیں. یہ رسک لیتے ہوئے نہیں ہچکچاتے ان کے نزدیک رسک نہ لینا بزدلی ہے۔ یہ مقابلے کو پسند کرتے ہیں۔ ان کی زندگی میں کچھ نہ کچھ ہلچل چل رہی ہوتی ہے۔ ان کو پُرسکون رہنا پسند نہیں ہوتا یہ کوئی نہ کوئی کام کرتے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ لوگ آزاد خیال ہوتے ہیں یہ محکومیت قبول نہیں کرتے اور ان کو مشکل کام پسند ہوتا ہے۔ محکومیت قبول نہ کرنا اور اپنی آزادی کی خاطر مشکلات کو برداشت کرنے والی جب بات پڑھی تو ذہن فوراً عمران خان کی طرف چلا گیا۔ پھر اپنے مقصد کے حصول کے لیے شارٹ کٹ مارنے والی بات کو بھی خانصاحب کے تناظر میں دیکھا جائے تو درست معلوم ہوتی ہے۔ یہ لوگ کسی کے ماتحت رہ کر بھی کام نہیں کرتے۔ ان کی طبعیت میں خودداری ہوتی ہے کچھ لوگ اس کو انانیت کے معنی میں بھی لے لیتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑھ کر قائدانہ صلاحیت ہوتی ہے اس لیے ان میں فیصلہ سازی کی قوت بھی خوب ہوتی ہے اور یہ فیصلہ بھی جلد لیتے ہیں۔یہ لوگ دوسروں کو بات تب سنتے ہیں جب اس کا کوئی فائدہ ہو ورنہ یہ اتنے اچھے سامع نہیں ہوتے مگر پیلے رنگ والوں کی نسبت پھر بھی یہ قدرے بہتر بات سننے والے ہوتے ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ جن کو مصنف نے پیلا رنگ دیا ہے۔ تھامس بتاتے ہیں کہ یہ لوگ بہت پرجوش ، زندہ دل اور باتونی ہوتے ہیں۔یہ سب سے زیادہ سوشل ہوتے ہیں ان کی دوستیاں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ ان میں تخلیقی صلاحیت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ جدت پسند ہوتے ہیں یہ نئی ٹیکنالوجی ، نئے فیشن اور نئی چیزوں کو پسند کرتے ہیں۔ مارکیٹ میں جب کوئی نئے طرز کے کپڑے آئیں تو اس کے پہلے خریدار اور صارف یہ ہوتے ہیں۔ یہ ملنسار ہونے کے ساتھ ساتھ بہت حساس بھی ہوتے ہیں جب ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے تو یہ جلد غصہ بھی کر جاتے ہیں۔ان کے ذہن میں بیک وقت تین چار چیزیں چل رہی ہوتی ہیں اور جن کو یہ ایک وقت میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر کوئی بھی مکمل نہیں کر پاتے۔ دراصل یہ ایک کام زیادہ تر کر کے اکتا جاتے ہیں اور کوئی نیا کام شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کسی پراجیکٹ کو شروع بہت خوبی سے کرتے ہیں مگر یہ اچھے finishers نہیں ہوتے ۔سرخ کی طرح یہ لوگ چیلنجر کو قبول کرتے ہیں۔ سرخ رنگ والے لوگ چیلنج کو سنجیدہ لے کر اس کو قبول جبکہ یہ اس کو ایک گیم سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ یہ ہمیشہ چیزوں کا مثبت پہلو دیکھتے ہیں۔ بہت زیادہ سنجیدہ ماحول سے بھی یہ اکتا جاتے ہیں۔ پیلے رنگ کی شخصیت کے حامل لوگ اکثر سکول و دفاتر میں غیر نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ یہ جہاں ایک طرف باتونی ہوتے ہیں دوسری طرف یہ بدترین سامع ہوتے ہیں۔ کسی بھی محفل میں رونق ان کے دم سے ہوتی ہے اور باقی لوگوں کی نسبت یہ سب سے زیادہ باتیں کرتے ہیں۔ یہ باتیں کرتے ہوئے اپنے واقعات بھی سناتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ باقی لوگ بھی اس طرح محظوظ ہوں جیسے کہ یہ خود ہوتے ہیں۔ سرخ رنگ کی طرح پیلے رنگ کے لوگ جلد فیصلہ لیتے ہیں۔یہ لوگ وقت کے معاملے بہت سست ہوتے ہیں یہ کسی جگہ پر بھی وقت ہر نہیں پہنچتے۔ اس لیے ان سے ڈیل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ان کو مقررہ وقت پہلے بتایا جائے پھر یہ اس وقت بمشکل پہنچ پائیں
سبز رنگ کے لوگ اکثریت میں ہوتے ہیں۔ ان کی طبعیت میں عاجزی اور انکساری ہوتی ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ اگر آپ کا کوئی دوست سبز رنگ کی خصوصیات کا حامل ہو گا تو وہ کبھی آپ کی سالگرہ نہیں بھولے گا۔یہ ہمیشہ آپ کی خوشی میں خوش ہو گا۔ یہ ہمیشہ چاہے گا کہ اس کی بجائے آپ اپنی بات کریں۔ یہ selfless ہوتے ہیں۔ ان کو ڈیل کرنا سب سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ یہ لڑائی جھگڑوں سے دور رہتے ہیں اس لیے ان کو اگر کسی کی بات بری بھی لگے تو اس کا اظہار نہیں کرتے کہ اس سے کوئی تلخی پیدا نہ ہو۔ سبز خصوصیات کے حامل بچے بھی بہت آسان اور معصوم گردانے جاتے ہیں جو صرف اس وقت روتے ہیں جب انہوں نے کھانا کھانا ہو، وہ کھانا کھاتے ہیں اور اپنے کھیل میں لگ جاتے ہیں یا سو جاتے ہیں۔ سرخ اور پیلے رنگ والوں کے برعکس سبز رنگ والے بہترین سامع ہوتے ہیں یہ اپنی بات کہنے کی بجائے دوسروں کی بات سنتے ہیں۔ یہ کم گو بھی ہوتے ہیں اگر ان کے اردگرد کچھ غلط بھی ہو رہا ہو اور ان کو بولنے کی ضرورت پیش نہ آئے تو یہ بات نہیں کرتے یہ صرف تب بات کرتے ہیں جب ان سے پوچھا جائے۔ یہ فیصلہ لینے میں دیر لگاتے ہیں۔ جب کوئی نزاع کا معاملہ ہو اور ان سے رائے لی جائے تو یہ واضح بات کرنے کی بجائے اپنی بات میں ابہام رکھتے ہیں اس لیے کہ ان کو لگتا ہے کہ اس طرح یہ نزاع جلد ختم ہو جاتا ہے۔ یہ بہترین ٹیم ممبر ہوتے ہیں سرخ اور پیلے رنگ کے لوگ ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے مطمئن ہوتے ہیں۔ یہ Introvert ہوتے ہیں۔ یہ اکثر خود کلامی کرتے ہیں اور اکثر معاملات پر اپنے خیالات کا اظہار اپنے آپ سے دل ہی میں کرتے ہیں۔ یہ لوگ قنوطیت پسند بھی ہوتے ہیں پھر یہ کسی بھی نئے چیز یا آئیڈیا کو بآسانی قبول نہیں کرتے۔ یہ قدامت پسند ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ چیزیں اس ہی پیٹرن پر چلتی رہیں جس پر پہلے سے چل رہی ہیں۔ اس معاملے میں ان کا پیلے رنگ والے لوگوں سے اختلاف رہتا ہے۔ مگر اس کے باوجود پیلے رنگ کے لوگوں کے ساتھ ان کی شراکت کامیاب ٹھہرتی ہے۔یہ لوگ کسی بھی دوست یا عزیز پر جلد بھروسہ کر لیتے ہیں اگر ان کا کوئی دوست کسی بارے میں ان کو مشورہ دے دے تو یہ اس پر بغیر کوئی لیت و لعل کیے بھروسہ کر لیتے ہیں ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان کو کسی اپنے میں منفیت نظر آئے تو یہ کبھی اس کی موجودگی میں اس پر بات نہیں کرتے لیکن اس کی غیر موجودگی میں یہ بات کرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کے سامنے بات کرنے سے تعلقات میں خرابی کا خوف ہوتا ہے۔ یہ لوگ زیادہ مطالبہ نہیں کرتے بس ان کا ایک بنیادی مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ جس طرح کسی کے کمفرٹ زون کو ڈسٹرب نہیں کرتے کوئی ان کے کمفرٹ زون کو بھی متاثر نہ کرے۔
نیلے رنگ کی خصوصیات کے حامل لوگ بھی کم گو اور قنوطیت پسند ہوتے ہیں مگر یہ کسی بھی معاملے کا بہت باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں۔ یہ ہر کام کو اس کے مکمل پروٹوکول کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس پروٹوکول کو اپناتے ہوئے بھلے کتنی دیر لگے مگر یہ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔یہ تفصیل پسند ہوتے ہیں۔ ان کی بات کو چیلنج کرنا خود ایک چیلنج ہوتا ہے کیونکہ یہ اپنی بات بہت تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد کرتے ہیں۔ یہ وقت کے پابند ہوتے ہیں۔ سبز رنگ والوں کی طرح یہ بھی سنجیدہ مزاج ہوتے ہیں۔ اگر آپ ان کے زیر استعمال کمرہ دیکھیں تو اس کو دیکھ کر ان کو پہچانا جا سکتا ہے۔ وہاں ہر چیز اپنی جگہ پر موجود ہوگی۔ یہ نظم و ضبط کے معاملے میں بہت پکے ہوتے ہیں۔ اگر یہ کوئی ڈائٹ پلان فالو کریں تو اس کو بھی پورے پیٹرن کے ساتھ فالو کریں گے۔ یہ کسی بھی چیز کو اختتام تک پہنچانے سے پہلے اس کو متعدد بار چیک کرتے ہیں حتیٰ کہ مصنف نے ایک دلچسپ مثال دی ہے کہ اگر یہ کوئی ایکسل پر کیلکولیشن کریں تو اس کو چیک کرنے کے لیے کیلکولیٹر کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ منطقی سوچ رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ سبز لوگوں سے بھی زیادہ کم گو ہوتے ہیں ان کے نزدیک خاموش رہنا ایک کمال ہے۔
ان چاروں طرح کے لوگوں کی عادات کا تعارف کرانے کے بعد مصنف کہتے ہیں کہ اس دنیا میں کوئی بھی مکمل یا پرفیکٹ نہیں ہوتا۔ ہر انسان کی شخصیت میں کچھ خلا یا کمزوریاں ہوتی ہیں۔ ہم اس چیز کو سمجھ نہیں پاتے کہ اگر ہم کسی معاملے میں دوسرے شخص سے بہتر ہیں تو بہت چیزوں میں وہ شخص ہم سے بہتر بھی ہوتا ہے۔ ہماری کمیونیکیشن میں ایک بڑا مسئلہ ہی اس وقت آتا ہے جب ہم کسی دوسرے کی اچھائیوں کو نظر انداز کر کے اس کی خامیوں پر کوئی فیصلہ سناتے ہیں۔
سرخ لوگ جلد فیصلہ لینے والے ہوتے ہیں اور سبز اتنا ہی دیر سے فیصلے پر پہنچتے ہیں تو کئی دفعہ سرخ رنگ والوں کو سبز رنگ والوں سے یہ شکایت ہوتی ہے ایسے ہی سبز رنگ والوں کے نزدیک سرخ رنگ والے جلدباز ہوتے ہیں اور ان کے نزدیک یہ جلدبازی نقصان دہ ہوتی ہے۔ لیکن اگر دونوں ایک دوسرے کو سپیس دیں تو بطور ٹیم یہ اچھے نتائج لا سکتے ہیں۔ ایسے ہی پیلے رنگ کے لوگ کسی چیز کا آغاز بہت اچھا کرتے ہیں اور وہ بہترین آئیڈیا دیتے ہیں مگر وہ چیزوں کو گہرائی میں نہیں دیکھتے جبکہ نیلے رنگ والے سٹارٹر اچھے نہیں ہوتے مگر وہ چیزوں کو ان کی مکمل گہرائی میں دیکھتے ہیں۔ یہ دونوں بھی اگر آپس ملکر کام کریں اور ایک دوسرے کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ ہو کر کام کریں اور ایک دوسرے کو قبول کریں تو ان کے نتائج بھی اچھے آتے ہیں۔
رنگوں کے بارے میں یہ بات بھی مصنف نے کی کہ ایسا فقط پانچ فیصد ہے کہ کوئی شخص فقط ایک رنگ کی شخصیت کا حامل ہو۔ اسی فیصد لوگوں میں دو رنگوں کی خصوصیات پائی جاتی ہیں اور چند لوگ ایسے بھی ہیں جن میں تین رنگوں کی خصوصیات پائی جاتی ہے۔ یہ ایک الگ دلچسپ موضوع ہے اور شخصیات کو سمجھنے کو مزید پیچیدہ بھی بنا دیتا ہے۔ اس لیے مصنف نے شروع میں disclaimer بھی دے دیا کہ یہ کتاب انسانی شخصیات کا مکمل فہم ہرگز فراہم نہیں کرتی۔
بنیادی طور پر مصنف کی رنگوں والی تھیوری بھی ٹھیک ہے لیکن کسی شخص سے ہماری پہلی ملاقات ہو تو اس کی ہم شناخت کیسے کریں؟ اس سوال کا جواب ہمیں اس کتاب میں نہیں ملتا اور شاید یہ ہر دفعہ ممکن بھی نہیں۔ یہ صلاحیت ہر شخص میں نہیں ہوتی کہ وہ کسی کو پہلی ملاقات میں ہی پہچان لے۔ جو لوگ پہلی ملاقات میں لوگوں کو جان جاتے ہیں یہ ان کی خوبی ہے اور اکثر اوقات وہ اپنی شناخت میں درست بھی ثابت ہوتے ہیں لیکن ایسے کیسز بھی موجود ہیں جہاں لوگوں کا پہلا تاثر بعد کی ملاقاتوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مصنف نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ لوگوں کو سمجھنا بھی ایک مسلسل ٹاسک ہے۔ انسان شناسی کے اس عمل میں انسان مسلسل سیکھتا ہے اور اس پر نئی نئی چیزوں کا انکشاف ہوتا ہے۔ لہذا انسان شناسی کا کوئی ایک سادہ فارمولا نہیں ہے کہ ہم اس کے بل پر انسانوں کو جانچ سکیں۔ پھر جب انسان میں دو مختلف رنگوں کی خصوصیات پائی جائیں تو اس میں ایک پیچیدگی یہ بھی سامنے آتی ہے کہ اس انسان میں کس رنگ کی کتنی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی لوگوں کا ذہن آپس میں بہت ملتا ہے مگر اس کے باوجود کچھ عادات کا فرق ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ان جینیاتی پس منظر اور ماحول ہوتا ہے مگر ساتھ ساتھ وہ ایک ہی رنگوں کے ہونے کے باوجود کسی رنگ کی خصوصیات کا فرق ہوتا ہے۔
تھامس نے تفصیل سے ہر رنگ کے لحاظ سے بات کی ہے اور بتایا ہے کہ اگر ہمارا واسطہ اس رنگ کے لوگوں سے پڑے تو ان سے کس طرح ڈیل کرنا ہے۔ اس میں بنیادی چیز ہمیں اپنے اندر لچک پیدا کرنی ہوگی اور دوسرے شخص کو اس کے کمفرٹ زون میں رکھ کر مخاطب کرنا ہوگا۔ ممکن ہے کہ ہمیں دوسرے شخص کی سوچ سے اختلاف بھی ہو مگر ہم کو حکمت سے کام لیتے ہوئے اس کو برداشت کرنا ہوگا۔ جیسے ہی ہم دوسرے شخص کو اتنی جگہ دیں گے جو وہ چاہتا ہے تو ہمارے روابط مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں گے۔ مصنف نے ایک اور اہم بات یہ بتائی ہے کہ ہمارے اردگرد اکثر لوگ ہمارے سے مختلف عادات والے ہوتے ہیں۔ یہ بہت کم ہوتا ہے کہ ہمارے اپنے مزاج کا شخص ہمیں مل جائے۔
مصنف کہتے ہیں کہ ہمیں بہترین نتائج کے لیے ٹیم ورک کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسی ٹیم جس میں سب رنگوں کے لوگ شامل ہوں تاکہ وہ ایک دوسرے کی طاقت بنیں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح انسانوں میں پرفیکشن نہیں ہوتی ایسا ہی مسئلہ گروپوں اور ٹیم کے ساتھ آ جاتا ہے۔ کئی دفعہ ہم دیکھتے کہ کوئی شخص کسی منصب پر کام کر رہا ہو تو وہ اس کے لیے فٹ نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک پوزیشن جہاں پر جلد فیصلہ لینے کی ضرورت ہو وہاں پر سبز رنگ والی شخصیت بیٹھی ہو تو کام میں ہرج ہو گا۔ یہاں پر ایک اور بدترین صورتحال پیلے رنگ کا حامل فرد نیلے رنگ والے کی جگہ بیٹھا ہو۔ ایسی صورتحال خوشگوار ہرگز نہیں ہوتی اور اس وقت لوگ یہ ہی سمجھتے ہیں کہ وہ احمقوں کے گرد پھنس چکے ہیں لیکن اگر وہاں پر غور وفکر کیا جائے تو اندازہ ہو گا اگر لوگ اپنی پوزیشنیں بدل لیں یا پھر دوسرے کی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھ کر آگے چلیں تو اچھے نتائج آ جاتے ہیں۔
مصنف نے یہ بھی بتایا ہے کہ کن دو رنگوں کی شراکت داری زیادہ اچھی چلتی ہے۔جیسے کہ سرخ اور نیلا اگر آپس میں شراکت داری سے کام کریں تو یہ اچھا کمبنیشن ہے۔ جبکہ پیلے رنگ والوں کا سبز رنگ والوں کے ساتھ کمبنیشن اچھا بنتا ہے۔
دباؤ اور غصے کے بارے میں بھی مصنف نے گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ دو الگ چیزیں ہیں۔ سرخ رنگ کے حامل لوگ دباؤ میں کام کرنے کو پسند کرتے ہیں وہ کیونکہ چیلنج قبول کرتے ہیں اس لیے یہ صورتحال کے لیے پہلے سے ہی تیار ہوتے ہیں۔ یہ دباؤ کی صورتحال میں پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے کام کرتے ہیں۔ پیلے رنگ والے بھی چیلنج سے نہیں گھبراتے مگر وہ اس کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ سبز رنگ والے دباؤ پڑنے کی صورت اپنا کام صیح نہیں کر پاتے اور نیلے رنگ والے دباؤ کی صورتحال میں جب تیزی سے کام کی ڈیمانڈ ہو مزید کام کو سست روی سے کرتے ہیں کیونکہ اس موقع پر وہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے اندازہ ہوا کہ ہر شخص اپنا کاروبار نہیں کھڑا کر سکتا بلکہ کچھ لوگوں کی طبعیت ہی میں ماتحت رہ کر کام کرنا ہوتا ہے یا پھر وہ شراکت داری کر سکتے ہیں وہ بہت اچھے شراکت دار تو ثابت ہوتے ہیں مگر قیادت کی باگھ ان کے ہاتھ میں نہیں تھمائی جا سکتی۔
اس کتاب سے معلوم ہوا کہ قیادت کرنے والے کم لوگ ہوتے ہیں جیسے کہ سرخ رنگ کے حامل پانچ فیصد تک جبکہ ماتحت کام کرنے والے تعداد میں اکثریت میں ہوتے ہیں جیسے کہ اسی فیصد لوگوں کے اندر سبز رنگ کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ مصنف کی جب میں نے یہ بات پڑھی تو میرے ذہن میں خداوند متعال کی عظمت کا ایک اور پہلو سامنے آیا کہ اس کائنات کا نظم چلانے کے لیے خالق کائنات نے کس قدر توازن رکھا ہے۔ اگر بالفرض دنیا کے سارے لوگ بلکہ اکثریت ہی اپنی قیادت کا دعویٰ کر دے تو دنیاوی نظام میں کس قدر عدم توازن پیدا ہو جائے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قائدین کسی بھی سماج میں تھوڑے ہوتے ہیں اور زیادہ تر لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔ ان قائدین کی اہلیت اور قائدانہ صلاحیتوں پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور کئی دفعہ نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں قیادت چلی جاتی ہے لیکن یہ ایک دوسری بات ہے۔ ہم کرکٹ ٹیم کی مثال لیں ہمارے کرکٹ کی تباہی ایک وجہ یہ ہی ہے کہ گیارہ کھلاڑیوں کی ٹیم میں تین تین لوگ قیادت کے خواہشمند ہوتے ہیں اور کسی دوسرے کی قیادت میں کھیلنے پر خوش نہیں ہوتے جس کا اثر پوری ٹیم کی کارکردگی پر پڑتا ہے۔
مصنف کی بات سے یہ درست طور پر نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ہر شخص کاروبار کرنے کا، کوئی ادارہ چلانے کا یا پھر کسی ٹیم کی قیادت کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ یہ اس شخص کی نااہلیت نہیں ممکن ہے جو شخص اچھا بزنس مین نہ ہو وہ اچھا منیجر یا پھر وہ اچھا شراکت دار ہو۔
کتاب کے مطالعہ کے دوران ساتھ ہی ایک دن مطالعہ قرآن میں سورۃ فاطر کی آیت ۲۷ اور ۲۸ نظر سے گزریں تو اس موضوع سے متعلق لگی۔
“تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا پھر اس سے ہم نے رنگ رنگ کے پھل پیدا کر دیے اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ، مختلف رنگوں کی دھاریوں والے ہیں اور گیرے سیاہ بھی
اس طرح انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں کے اندر بھی کئی رنگ کے ہیں (لہذا ہر شخص سے ہر چیز کی توقع نہیں کرنی چاہی) حقیقت یہ ہے کہ اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈریں گے جو علم والے ہیں۔بے شک اللہ زبردست ہے، درگزر فرمانے والا ہے”
یہ آیات واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ خالق کائنات نے انسانوں کے عادات ، فہم اور مزاج میں فرق رکھا ہے۔ اس کتاب کا بنیادی مقدمہ بھی یہی ہے۔ ہاں مصنف کی دی گئی تفصیلات پر نقد کیا جا سکتا ہے اور اس پر اس حوالے سے تنقید بھی کی گئی کہ جینیاتی لحاظ سے جو مصنف نے کہا کہ اکثر مزاج کا تعین ہماری پیدائش سے پہلے ہو جاتا اس کی کوئی سائنسی دلیل انہوں نے فراہم نہیں کی۔
دوسرا اس کتاب پر اس حوالے سے بھی تنقید کی گئی کہ اس میں باتوں کا تکرار بہت زیادہ ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن اس پر بھی مصنف کو گنجائش دی جا سکتی ہے کہ مختلف تناظر میں جب کسی رنگ کے بارے میں بات ہوئی تو اس کی عادات کا بار بار ذکر کر کے اس کو آگے بڑھایا گیا ہے اور یہی طریقہ زیادہ بہتر ہو سکتا تھا۔
مصنف نے DISC ماڈل یعنی Dominance, Inspiring, Submission اور Compliance کو سامنے رکھ کر بات کی ہے بلکہ مصنف نے اس کو DISC کی بجائے DISA ماڈل کہا جہاں Compliance کی جگہ Analytical آیا ہے۔ اس ماڈل کے بارے میں حتمی طور پر اتفاق نہیں پایا جاتا۔ مجھے اس ماڈل کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں زیادہ علم نہیں مگر انسانی رویوں کی تفہیم کے لیے یہ مفید ماڈل ضرور ہے۔
اپنے موضوع کے لحاظ سے یہ دلچسپ کتاب ہے۔ مصنف نے اپنی بات کی وضاحت میں اپنی ذاتی زندگی میں پیش آئے واقعات کو ذکر کیا ہے۔ ان واقعات کے بارے میں کچھ لوگوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ ان کی تصدیق یا تردید نہیں ہو سکتی کہ یہ حقیقت میں رونما ہوئے ہیں یا مصنف کا اپنی ذہنی تخیل ہے۔ بہرحال واقعات کی صحت سے قطع نظر مصنف کی بات سمجھنے کے لیے وہ مثالیں بہت مفید ہیں جس سے اس کتاب کے مجموعی تھیم کو بھی بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ کتاب کی زبان بھی سادہ ہے زیادہ مشکل الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا۔ اس کتاب کا اُردو ترجمہ بھی شاید آنے والا ہے کیونکہ ایک جگہ اس کی تصویر دیکھی تھی لیکن انگریزی سمجھنے والے دوست بہتر ہے انگریزی کتاب کو ہی پڑھیں۔
کمنت کیجے