Home » الہیات کے عدم امکان پر کانٹ کی دلیل کا محاکمہ : حصہ اول
شخصیات وافکار فلسفہ

الہیات کے عدم امکان پر کانٹ کی دلیل کا محاکمہ : حصہ اول

 

اس تحریر میں ہم کانٹ کی اس دلیل  کا علم کلام کے منہج پر جائزہ لیں گے جو وہ عقلی الہیات کے عدم امکان (      impossibility            of                 rational  metaphysics             or          theology) کے لئے پیش کرتا ہے۔ اس کا محاکمہ اس لئے ضروری ہے کیونکہ ہمارے ہاں علامہ اقبال رحمہ اللہ سے لے کر متعدد مفکرین اس دلیل سے متاثر ہوئے ہیں اور آج بھی ایسے حضرات موجود ہیں۔ اگر کانٹ کی دلیل درست ہے تو نبی کی نبوت کے اثبات کی ہم آہنگ علمی دلیل فراہم کرنا ممکن نہیں کیونکہ اثبات نبوت ذات باری کے وجود اور اس کی صفات پر موقوف ہے نیز اگر کانٹ درست ہے تو مسلمانو ں کی عقیدے و کلام کی روایت غیر معتبر ہے۔  اس لئے کانٹ کی دلیل کا تجزیہ ضروری ہے۔

کانٹ کی دلیل پر قائم ہونے والے سوالات دو قسم کے ہیں، وہ جو اس کی دلیل کی داخلی ساخت یا ھم آھنگی سے متعلق ہیں اور وہ جہاں وہ غیر ضروری طور پر ایک مفروضے کو درست مان کر اپنا مقدمہ وضع کرتا ہے، ان امور کی بنا پر اس کی پیش کردہ توجیہہ غیر اطمینان بخش رہتی ہے۔ دوسری طرز پر دیکھیں تو یہ سوالات تین قسم کے ہیں: وہ جو اس کے بیان کردہ ذرائع علم اور ان کی نوعیت سے متعلق ہیں، وہ جو ان سے حاصل شدہ علم کی کیفیت سے متعلق ہیں اور وہ جو ان سے اخذ کردہ نتائج سے متعلق ہیں۔ درج ذیل میں سے سب نکات براہ راست اس کے نظرئیے پر نقد کے لئے نہیں ہیں بلکہ بعض نکات اس کے نظرئیے کی تنقیح کے لئے بھی ہیں تاکہ قاری کے سامنے کانٹ کی بات کھل کر آسکے۔ کانٹ کے مقدمے پر دس نکات کے تحت بات ہوگی اور اب تک اس پر ہم نے جو کچھ لکھا ہے اسے یہاں جمع کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ وما توفیقی الا باللہ۔

پہلا نکتہ:کانٹ کے فلسفے کی سچائی داخلی تضاد کو مضمر ہے

مان لیا کہ علم کے ذرائع کا جائزہ لینا اہم ہے اور تمام متکلمین بھی حقائق کے ادراک کی بحث کا آغاز انسان کے پاس میسر ذرائع علم ہی سے کرتے ہیں، لیکن آپ نے یہ کس بنیاد پر کہا کہ حصول علم کی کیفیت اس خاص طرز پر منحصر ہے جس کا آپ نے دعوی کیا؟ یعنی آپ کے اس فلسفے (جسے آپ transcendental        idealism کہتے ہیں) کی سبسٹنٹو سچائی کا علم آپ کو کس طرح ہوا؟ یہاں دو امکان ہیں: علم کی تعمیر سے متعلق آپ کا یہ دعوی یا درست و حقیقت ہے اور یا یہ محض خیال ہے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو اس کی سچائی کی بنیاد آپ کے نظرئیے کی رو سے یا تجربے سے ماخود ہوگی اور یا اس ذہنی ساخت یا ڈبوں سے جسے آپ ذھنی خاکہ کہتے ہیں۔ ذھنی خاکوں سے اس کی سچائی ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ خاکے آپ کے بقول کوئی حقیقی علم فراہم نہیں کرتے۔ اس کا ذریعہ تجربہ بھی نہیں ہوسکتا اس لئے کہ یہ دعوی ماقبل تجربہ امور سے متعلق ہے، اور اگر ایک لمحے کے لئے مان بھی لیں کہ بذریعہ تجربہ ان کی تصدیق ہوتی ہے تو بھی آپ کے مطابق تجربے سے محض مظاھر یا appearance کا علم حاصل ہوتا ہے نہ کہ حقیقت کا، تو تجربے سے ماخوذ ہونے کے باوجود بھی یہ محض appearance کا علم ہوگا۔ پس خود اپنے اس دعوے کو آپ نے ایک قسم کے ڈاگمیٹزم کے علاوہ کس بنیاد پر سچائی فرض کرلیا ہے کہ علم اس طرح تعمیر ہوتا ہے جیسے آپ کا دعوی ہے؟ کانٹ کی فکر کا یہ تضاد اس کے ہم عصر جرمن فلاسفہ نے بھانپ لیا تھا (اس کے حوالے ہم نے ایک تحریر میں پیش کئے تھے)۔ کانٹ کے یہ ناقدین مزید کہتے ہیں کہ کانٹ کے فلسفے کی رو سے منطق کے بنیادی قوانین (جیسے جمع بین النقیضین کا محال ہونا) بھی فنامینا یا appearances قرار پاتے ہیں جبکہ کانٹ کی یہ بات متناقض و self-defeating ہے، اس لئے کہ منطق و عقل کے قوانین appearances قرار دینے کے لئے جو دلیل لائی جائے گی وہ بھی ان قوانین کو نفس الامر میں درست مانے بغیر ممکن نہیں کیونکہ ان قوانین کو appearances ثابت کرنے کے لئے بھی خود انہی قوانین کو حقیقت فرض کرکے ان سے مدد لینا ہوگی۔ چنانچہ کانٹ کو اپنی اس بات کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے کہ منطق کے قوانین محض appearances سے متعلق ہیں” تجربہ اور ان منطقی قوانین سے ماورا کسی ماخذ کی طرف جانا ہوگا لیکن ایسا کوئی ماخذ موجود نہیں۔

دوسرا امکان یہ ہے کہ آپ کا یہ فلسفہ بھی نرا خیال ہے، اس صورت میں اس کی بنیاد پر کسی اثباتی دعوے کرنے یا کسی دعوے کی تردید کی کوئی راہ نہیں۔

الغرض کانٹ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کے نزدیک روایتی میٹافزکس پر گفتگو سے قبل ہمیں میسر ذرائع علم کا جائزہ لینا ہوگا کہ آیا وہ ہمیں اس سے متعلق کوئی بات کہنے کی گنجائش فراہم کرتے ہیں یا نہیں، لیکن کانٹ خاموشی کے ساتھ خود اپنے منہج کو اس پیمانے پر جانچنے سے چشم پوشی اختیار کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کانٹ کی یہ بات درست ہے کہ انسان کا تمام علم appearances تک محدود ہے تو خود اس کا یہ دعوی بھی اسی نوعیت کا ہوگا لیکن کانٹ اپنے اس دعوے کو سچ و حقیقت مانتا ہے، اور اگر یہ دعوی بھی appearance ہے تو اس کی بنیاد پر کسی دعوے پر نقد کا کوئی مطلب نہیں۔ الغرض ہر سوفسطائی فکر کی طرح کانٹ کا فلسفہ خود اپنے دعوے کی ذد میں ہے۔

دوسرا نکتہ: ذھنی مقولات کا علم کیسے ہوا؟

مان لیا کہ آپ کا دعوی حقیقت ہے، لیکن آپ کو ان خالی گھڑھے نما ذھنی سانچوں یا مقولات کے وجود کا علم کیسے ہوا؟ یہاں چار امکان ہیں:

  • یا ان خاکوں کے وجود ہونے کا علم کسی اور ماقبل خاکوں سے ہوا ہوگا، اگر کسی ماقبل خاکوں کو اس کا ماخذ کہا جائے تو ان کی حقیقت کا علم ان سے ماقبل کسی خاکوں پر موقوف ہوگا اور یوں یہ تسلسل لامتناہی چلے گا جو جائز نہیں
  • یا انہی خاکوں سے ہوا ہوگا، اگر انہی خاکوں کو ان کی حقیقت کا ذریعہ کہا جائے تو مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے نزدیک از کود ان خاکوں سے کوئی علم حاصل نہیں ہوتا اور
  • یا ان کا علم بدیہی حقیقت یا اضطراری نوعیت کا ہے، اگر انہیں بدیہی حقائق کہا جائے تو آپ نے مان لیا کہ بعض حقائق کا علم ان دو ذرائع کے سوا بھی انسان کو حاصل ہے، فھو المطلوب اور اس کے بعد آپ کے لئے دیگر بدیہی حقائق جن کا آگے ذکر ہوگا ان کی تردید کی بنیاد نہیں
  • یا ان کا علم کسی تجربے سے ہوگا، لیکن یہ ممکن نہیں کیونکہ یہ مقولات یا خالی ڈبے آپ کے نزدیک تجربے کی شرط ہیں

اگر ان چار کے سوا کوئی امکان ہے تو اسے پیش کیا جائے تاکہ اس پر بات ہوسکے۔ کانٹ کی جانب سے ایک ممکنہ توجیہہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ ماقبل مقولے اس معنی میں حق ہیں کہ یہ روز مرہ مشاہدے سے ہمارے اندر جنم لینے والے تاثرات کی سب سے بہتر توجیہہ کرتے ہیں، یعنی تجربہ اور ہمارے علمی قضایا کی نوعیت اپنی توجیہہ کے لئے یہ تقاضا کررہے ہیں کہ چند ماقبل مقولوں کو بطور شرط فرض کیا جائے۔ اس معنی میں اس علم کا نکتہ آغاز ہمارے اندر موجود تصورات ہیں جن کے تجزئیے و تحلیل سے گویا ہم نے جان لیا کہ بعض تصورات شرط کی حیثیت رکھتے ہیں، یوں یہ علم ایک قسم کے عقلی استنباط و تجزئیے سے حاصل ہوا ہے۔ تاہم اس پر یہ اعتراض وارد ہوگا کہ جن تصورات کو یہاں ابتدائی خام مال قرار دیا جارہا ہے، کانٹ واضح طور پر انہیں اپیرنس یا تشبیہی مظاھر (یعنی فنامینا) کہتا ہے۔ پس اگر یہ تشیہی مظاہر ہی ان مقولات کی دریافت کا نکتہ آغاز ہیں تو ان سے ان مقولات کی حقیقت کا علم حاصل ہوگا یا صرف ایک مزید اپیرنس کا؟ الغرض کانٹ کی جانب سے یہ توجیہہ بھی اس کے فلسفے کے تضاد کو رفع کرنے والی نہیں۔ نیز اس پر یہ اعتراض بھی وارد ہوتا ہے کہ خود اس استدلال و تجزئیے کا علمی آلہ کیا ہے جس سے ان ماقبل تجربہ مقولوں کا علم ہوا؟ اس پر معارضہ (counter        argument)  یہ ہے کہ کہ ان مقولوں کو “ماقبل تجربہ خالی گھڑھے” فرض کئے بغیر بھی دیگر طرق سے مشاہداتی علم کی توجیہہ کی جاسکتی ہے اور آپ کا طریقہ لازم نہیں جیسا کہ آگے ذکر ہوگا۔

درج بالا دو سوالات ذرائع علم سے متعلق ھم آھنگی کے بارے میں ہیں۔ اگلے دو سوالات ان کی نوعیت سے متعلق ہیں۔

تیسرا  نکتہ: ذھنی مقولے وجودی ہیں یا عدمی؟ کانٹ کا سوفسطائیت ذدہ تصور سچائی

مان لیا کہ ذھنی خاکوں یا مقولوں کے وجود سے متعلق آپ کا دعوی درست ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تفہیمی خاکے وجودی ہیں، عدمی ہیں اور یا نہ وجودی و نہ عدمی؟

  • اگر یہ وجودی (real        or          existent) ہیں تو فھو المطلوب جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ از خود کسی بدیہی وجودی حقیقت سے متعلق ہیں، لیکن اس صورت میں کانٹ کو اس کی وہ وجودی بنیاد بتانا ہوگی (اگر کہا جائے کہ یہ مقولے استعداد کی طرح ہیں، تو یہ بھی انہیں وجودی ماننا ہے)،
  • اگر یہ عدمی (nothing         or          non-existent) ہیں تو یہ کسی علم یعنی وجودی حکم کا ذریعہ نہیں بن سکتے، اور
  • اگر یہ نہ وجودی ہیں اور نہ عدمی بلکہ نرے خیال ہیں تو ان سے شے سے متعلق وجودی حکم کا حصول ممکن نہیں بلکہ ان سے حاصل شدہ حکم بھی ایسا ہی ہوگا۔ کانٹ کا قرین از قیاس جواب یہی انتخاب ہوگا کہ یہ نہ وجودی ہیں اور نہ عدمی کیونکہ اس کے نزدیک یہ ذہنی خاکے خارجی اشیاء (مثلا سیب) کی طرح وجودی نہیں جن کا مشاہدہ ہوسکے، دوسری طرف وہ انہیں نرے عدمی بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس کا مطلب انہیں وہم وغیرہ قرار دینا ہے جبکہ یہ خاکے اس کے نزدیک تجربی علم کی شرائط ہیں جنہیں وہ علمی قضایا کی توجیہہ کے لیے لاتا ہے۔ علم کے اس ذریعے کی اس مبہم حیثیت کی طرح کانٹ حقیقت کو بھی نامینا اور فنامینا میں تقسیم کرکے ہمارے علم کو خارجی شے سے متعلق ہوئے بغیر صرف ہمارے ادراک تک محدود کردیتا ہے۔ اس لحاظ سے سب علمی قضایا “نہ وجودی اور نہ عدمی” کے حال پر رہتے ہیں۔ کیا یہ موقف علمی قضایا کی اطمینان بخش توجیہہ ہوگی؟

اس کے جواب میں کانٹ ممکنہ طور پر کہہ سکتا ہے کہ حقیقت، سچائی و علم کا مطلب ادراک اور وجود میں مطابقت (correspondence) یا ھم آھنگی نہیں ہے بلکہ حقیقت تو میرے ذہن کے تابع ہے کیونکہ علم ذھن کی ایسی ادراکی ساخت کو لاگو کرنے سے جنم لیتا ہے جو ماقبل تجربی متعین شدہ ہے، لہذا حقیقت و علم سے متعلق تمہارا یہ خیال فرسودہ ہے اس لئے کہ علم و حقیقت میرے اندر جنم لینے والے تاثرات کا میرے ذھن کی ساخت سے ہم آھنگ ہوجانا ہے اور بس۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم آپ کی اسی سوفسطائیت کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اصلاً آپ کے نزدیک حقیقت و علم کا تصور سوفسطائیہ کے گروہ “عندیہ” جیسا ہے جس کا اس تصور سے واسطہ نہیں جسے علم کہتے ہیں (یعنی نفس الامر اور اعتقاد میں ہم آھنگی)۔ کانٹ کہہ سکتا ہے کہ البتہ میں ان مقولات کو ماننے پر اس لئے مجبور ہوں کیونکہ ان کے بغیر میرے ذہن میں موجود ایک یقینی ہم آھنگی اور وحدت کے احساس کی توجیہہ نہیں ہوپاتی۔ ہم کہتے ہیں کہ اس احساس کی توجیہہ کے لئے آپ کا سوفسطائیت ذدہ نظریہ غیر مفید ہے جو ساری حقیقت کو میرے ذھن کی تشکیل کردہ تشبیہہ بنا کر مجھے ہر وجودی (بشمول نفس و خارج کی) حقیقت سے غیر متعلق کردے (یاد رہے کہ کانٹ کے نزدیک جس طرح خارج کی حقیقت نامینا ہے، نفس انسانی بھی نامینل ہے جو بس ہمیں فرض کرنا پڑتا ہے تاکہ انسان کی آزادی کی توجیہہ ہوسکے)۔ یقینی علم کی ایسی بنیاد جو نہ صرف یہ کہ ہر حقیقت کے علم کو غیر یقینی بنا دے بلکہ خود آپ کے یقین کا یہ مفروضہ پیمانہ (یعنی ادراکی ساخت) بھی اپنی قائم کردہ اس بے یقینی کی ذد میں آجائے (جیسا کہ پہلے نکتے میں اشارہ ہوا)، کیا یہ اطمینان بخش فلسفہ ہے؟ آپ کا یہ فلسفہ یقین کے احساس کی توجیہہ کرکے اسے بطور یقین قبول کرنے کی راہ ہموار کررہا ہے یا اسے سراب بتا رہا ہے؟ یہاں اس بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ کانٹ نیوٹن کی فزکس سے متاثر تھا اور اس کی آفاقیت و تیقن پر ھیوم کے فلسفے سے جو شکوک پیدا ہورہے تھے، اپنے تئیں وہ انہیں رفع کرنا چاہتا تھا!

چوتھا نکتہ: علم اضطراری کا انکار درست  نہیں

مان لیا کہ ان دو ذرائع کے ملاپ سے علم پیدا ہوتا ہے، لیکن آپ نے یہ کیوں کہا کہ ان کے سوا حقیقت کے ادراک کا کوئی ماخذ نہیں؟ یہاں ایک اعتراض ہے اور دو معارضے (counter         arguments) ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ ان ذرائع علم میں حصر (reductionism) کا دعوی درست نہیں۔

اعتراض یہ کہ اس نفی (یا حصر) کا علم آپ کو اپنے بیان کردہ دو ذرائع میں سے کس ذریعے سے ہوا؟ مزید معین سوال یہ ہے کہ آپ نے علم ضروری کا انکار کس بنا پر کیا؟

دو معارضے یہ ہیں:

اول، لازمی وجودی حقائق کے علم کو اگنور کرنا، جبکہ یہ ناگزیر طور پر ثابت ہے

دوئم، وجود (being) اور جاننے (knowing) میں دوئی فرض کرنا، جبکہ معاملہ ایسا نہیں

پہلا معارضہ: علم اضطراری ثابت ہے  

علم ضروری میں وجود و عدم کاتصور، اور اس پر مبنی جمع بین النقیضین کامحال ہونا، اصول علیت وغیرہ جیسے حقائق شامل ہیں۔ بعض فلاسفہ کو یہ غلط فہمی ہے کہ یہ وجودی قضایا گویا ایسے خیال یا محض علمی (epistemic) فارمز کی طرح ہیں جن کی از خود کوئی وجودی بنیاد نہیں۔ “وجود” کا اضطراری و بنیادی ترین احساس انسان کے اس اضطراری ادراک کی بنیاد ہے کہ وجود کا مفہوم ہونا یا پایا جانا ہے، انسان کو یہ علم لازمی طور پر اس لئے حاصل ہے کیونکہ وجود کی حقیقت “ھویت” (is-ness) ہے، اس کے سوا وجود کا اور کوئی ادراک ممکن ہی نہیں۔ وجود کا تصور بدیہی (self-evident) ہے جسے کسی دوسرے تصور سے بیان کرنا ممکن نہیں کہ یہ سب سے بنیادی (primary) ہے۔ وجود کا یہ تصور تبھی ممکن ہے جب کوئی شے پائی جائے، انسانی ادراک کی ایسی کوئی ساخت ممکن نہیں جو میری حالت عدم میں میرے لئے وجود (یعنی “ہونا”) مفہوم کردے۔ چنانچہ “میں موجود ہوں” کے بغیر “میں ہونے کے مفہوم کا ادراک رکھتا ہوں” کا کوئی مطلب نہیں، ایسی بات کہنے والا ہر شخص یہ کہتے ہوئے خود اپنی نفی کرنے پر مجبور ہے اس لئے کہ وجود ادراک و شعور پر مسلط ہے۔ وجود کا غیر “لاوجود” (یا عدم ) ہے، یہاں سے ہمیں یہ بنیادی قضیہ (first         fundamental         judgement) حاصل ہوتا ہے کہ شے اثبات و نفی (assertion         and        negation) میں بند ہوگی اور ان سے خالی نہیں ہوگی اس لئے کہ ھویت (being) کی واحد نفی عدم ھویت (non-being) ہے۔ یعنی وجود کے احساس پر مبنی تصور (concept) ہی انسان کے علم ضروری کے اس پہلے قضیے (judgement) کو جنم دیتا ہے کہ “شے یا ہوتی ہے یا نہیں ہوتی”(something         either         exists        or          does not) کیونکہ وجود کا الٹ عدم ہے اور وجود کا معنی کبھی عدم نہیں بن سکتا۔ تمام احکام عقلیہ اسی قضئے کے اندر دائر ہیں۔ امام رازی کہتے ہیں کہ یہ اتنا بنیادی قضیہ ہے کہ اسے درست فرض کئے بغیر اس پر دلیل قائم کرنا بھی ممکن نہیں کیونکہ ہر دلیل کا حاصل کسی شے کے بارے میں کسی شے کے ثبوت یا عدم کا حکم لگانا ہوتا ہے لیکن اگر شے ثبوت و عدم ہی سے خالی ہوسکتی ہو تو کوئی دلیل کارگر نہیں ہوسکتی۔ یہی پہلا وجودی قضیہ جمع بین النقیضین کے محال ہونے (law       of          non-contradiction) کی بنیاد فراہم کرتا ہے اس لئے کہ جمع بین النقیضین ایک ہی شے کے وجود و عدم کو جمع کرنے سے عبارت ہے جبکہ ایک شے کا وجود اور عدم جمع نہیں ہوسکتے کہ وجود (being) بیک وقت عدم (non-being) نہیں ہوسکتا، ایسی بات میرے وجودی احساس سے قائم ہونے والے اضطراری علمی احساس کے خلاف ہے اور اس لئے انسان اس سے پوری طرح ابا کرتا ہے۔

امام رازی کہتے ہیں کہ یہ بنیادی وجودی قضیہ چند مزید لازمی قضایا کو جنم دیتا ہے (سب کی تفصیل دینا مقصود نہیں)، مثلا:

  • کل جزو سے بڑا ہوتا ہے (اس لئے کہ اگر ایسا نہ ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ کل کے بعض اجزاء کا ہونا اور نہ ہونا یکساں ہے جبکہ یہ محال ہے کہ یہ جمع بین القیضین ہے۔ فرض کریں ایک کل دو اجزا کا مرکب ہے، اگر ایک جزو کل کے مساوی ہو تو پھر کسی ایک جزو کا وجود و عدم ہم معنی ہے)،
  • وجود یا حادث ہوگا (یعنی وہ جس کی ابتدا ہو) یا قدیم (وہ جس کی ابتدا نہ ہو)۔ یہ قضیہ بھی درج بالا بنیادی قضیے کی ایک خاص قید کے ساتھ اس کی فرع ہے، یعنی یہ کہ وجود ابتدا ہونے کے ثبوت و عدم ثبوت سے خالی نہ ہوگا، اسی طرح قدیم ہونے یا نہ ہونے کے حکم سے خالی نہ ہوگا
  • دو اشیاء جو کسی تیسری شے کے متوازی (parallel) ہوں وہ باہم متوازی ہوتی ہیں نیز ایک ہی جسم بیک وقت دو مکانوں میں نہیں ہوسکتا
  • اسی طرح “حادث کو محدث یا علت کی احتیاج ہے”، اس لئے کہ عدم از خود وجود نہیں ہوسکتا۔ اسے یوں سوچئے کہ ممکن وہ شے ہے جو اپنی ذات کے اعتبار سے وجود و عدم دونوں جانب مساوی رجحان رکھتی ہے۔ اب کسی ایک جانب رجحان یا خود اس کی ذات کی وجہ سے ہوگا اور یا کسی منفصل امر کی وجہ سے۔ خود اپنی ذات کی وجہ سے ممکن میں یہ رجحان نہیں ہوسکتا کہ یہ تضاد ہے اس لئے کہ اس کا مطلب یہ کہنا ہے کہ جو شے اپنی ذات کے اعتبار سے دو جانب مساوی رجحان رکھتی ہے وہ اپنی ذات کی وجہ سے کسی ایک جانب رجحان بھی رکھتی ہے (جانبین کی طرف مساوی رجحان رکھنا کسی ایک جانب رجحان رکھنے سے متناقض ہے)! پس لازم ہے کہ کسی ایک جانب ترجیح کے لئے وہ خود اپنے سوا ایک منفصل امر کا محتاج ہے۔ یہ منفصل امر یا عدم ہوگا اور یا وجود۔ یہ بات بداھتاً معلوم ہے کہ عدم ممکن کے وجود کے رجحان کی وجہ نہیں ہوسکتا۔ عدم بھی وجود کا سبب ہوسکتا “ہے”، ایک متضاد جملہ ہے کہ یہ عدمیت (nothingness) کو “ھویت” (is-ness) کہے بغیر بامعنی نہیں۔

ان علوم ضروریہ کی تفصیلات کے لئے امام رازی کی کتب “محصل افکار المتقدمین والمتاخرین”، “المباحث المشرقیة”  نیز “المطالب العالیۃ” وغیرہ ملاحظہ کیجئے۔ یہ سب قضایا اصلاً وجود کی حقیقت یا ساخت سے متعلق ہیں نہ کہ ادراک کی، یعنی یہ قضایا ذہن کی کوئی اختراع نہیں اور نہ ہی یہ خالی گھڑھے نما خیال ہیں۔ انسانی شعور پر منعکس یہ قضایا وجود کا پرتو (reflection) ہیں، اور اسی معنی میں وجود خود کو ادراک پر مسلط کرتا اور اس پر طاری ہے (ایسے یوں بھی کہتے ہیں کہ عقل وجود کی خود شعوری ہے)۔ علم اضطراری کے یہ وہ بنیادی قضایا ہیں جو ہر استدلالی علم کی بنیاد فراہم کرتے ہیں، متکلمین انہیں “اولیات عقلیات” (first        principles) یا “عقل محضہ” بھی کہتے ہیں اور یہ شک سے ماوراء ہیں، الا یہ کہ کوئی سفسفہ ذدہ مکابرہ کرے۔ جو شخص اپنے ہی دعوے کی نفی کرنے والا دعوی کرے اور اس کا احساس بھی نہ رکھے، امام رازی کہتے ہیں کہ اسے صرف اس پر تنبیہہ کی جاسکتی ہے کیونکہ علم لازمی کے معاملے میں مکابرے کے علاوہ کبھی عدم توجہ کی بنا پر ذھول بھی ہوجاتا ہے اس لئے کہ ان کا حصول اتنا واضح ہے کہ انہیں فار گرانٹڈ لیتے ہوئے بعض اوقات انکی جانب توجہ نہیں جاتی، امام غزالی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ کسی شے کے حصول کا زیادہ قرب بھی بعض اوقات اس سے دوری کا باعث بن جاتا ہے اور جو علم بطور میرے حال کی صورت مجھے حاصل ہو اس کے حصول کی دلیل قائم کرنے سے وہ دور ہوجاتا ہے کہ ہر دلیل اس حاصل شدہ حال سے کمتر واضح ہوگی (نوٹ: یہاں سے یہ اعتراض رفع ہوجاتا ہے کہ علم اضطراری بیان کرنے کے لئے ہمیں اسے سمجھانے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے جبکہ یہ اضطراری طور پر سب کو حاصل ہے، یہ تنبیہہ ہے)۔

کانٹ اس علم اضطراری کی جگہ اپنے خالی گھڑھے نما ذہنی سانچوں کو لاتا ہے۔ اگر کسی کی رائے میں کانٹ کے یہ نرے خیال نما سانچے علم کی توجیہہ کے لئے انسان کے وجودی حال کے مظہر علم اضطراری سے زیادہ مستحکم اور ہم آھنگ بنیاد فراہم کرتے ہیں، تو یہ انتخاب ان دوستوں کو مبارک ہو۔

دوسرا معارضہ: وجود و شعور میں دوئی نہیں  

یہ معارضہ پہلے معارضے ہی سے منسلک ہے جو اس کے پس پشت مفروضے کو کھولتا ہے۔ کانٹ کے نظریہ علم کے پس پشت یہاں جو مفروضہ کارفرما ہے اسکے دو اجزا ہیں:

الف)     وجود اور ادراک کی دوئی (duality)، یعنی “ادراک کی ساخت” وجود (being        or         reality) سے الگ ہے اور

ب)       اس دوئی کی حقیقت کا علم ہمیں حاصل ہے

اسی مفروضے کی بنا پر وہ اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ شے سے متعلق علم انسانی ادراک کی ساخت کو شے پر لاگو کرنے سے پیدا ہوتا ہے جس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ حقیقت کی ساخت کا علم ممکن نہیں کیونکہ ادراک کی ساخت اس کے خیال میں حقیقت سے مربوط ہونے سے ماقبل ہی متعین ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ وجود (being) اور ادراک (knowing) کی دوئی کا یہ دعوی غیر ثابت شدہ مفروضہ ہونے کے علاوہ غلط بھی ہے جس کی وضاحت اوپر گزری کہ ادراک وجود پر طاری نہیں ہے بلکہ وجود ادراک پر طاری ہے۔ “ادراک کی ان ساختوں کا ہونا” بذات خود ایک وجودی دعوی ہی ہے۔ انسانی علم کی بنیاد “موجود ہونے” کا بنیادی ترین احساس ہے اور اسی معنی میں وجود (being) اور ادراک (knowing) باہم الگ نہیں جیسا کہ سوفسطائیوں کا مفروضہ ہے بلکہ یہ مربوط ہیں۔ سوفسطائی اس کا انکار کرتے ہوئے عین اپنے دعوے کی نفی کرتا ہے (یعنی اس ادراک کو وہ حقیقت و سچ ہی فرض کرتا ہے کہ ان میں دوئی ہے)۔

یہاں اس بات کا پھر سے اعادہ کیا جاتا ہے کہ یہ بنیادی وجودی حقائق و قضایا جو علم اضطراری کی بنیاد ہیں، یہ نری لسانیاتی سچائیاں (linguistic truths) یا ادراکی ساخت پر مبنی نرے منطقی قضئے (logical         propositions) کی فارمز کا بیان نہیں ہیں (جیسا کہ logical         positivists کا مفروضہ تھا) بلکہ یہ وجود کے بنیادی تصور سے جنم لینے والے قضایا (judgements) ہیں۔ اگر قضایا کا تعلق کسی وجود سے نہیں (یعنی وہ about being نہیں ) تو وہ باہم متضاد ہوسکتے ہیں۔ ان کا متضاد ہونا تبھی بامعنی ہوتا ہے جب وہ “ہونے” سے متعلق ہوں، یعنی وہ کچھ assert کریں، اور جونہی وہ ایسا کرتے ہیں وجود انہیں جکڑ لیتا ہے۔ چنانچہ ادراک، منطق و لینگویج درحقیقت ان وجودی حقائق کے پابند ہیں۔ وجود سے متعلق پہلا بدیہی قضیہ (“شے یا ہوتی ہے یا نہیں”) ادراک کی ساخت پر مسلط ہے، جمع بین النقیضین محال ہونے کا قاعدہ قضیئے (judgement) پر مسلط ہے اور یہ قضیہ لسانیاتی اصولوں میں ڈھل کر زبانوں پر جاری ہے۔ یہ سب قضایا اصلاً وجود کی ساخت سے متعلق ہیں نہ کہ ادراک کی، اور اسے نہ سمجھنے کی وجہ ہی سے کانٹ سمیت متعدد مفکرین اس غلط فہمی کا شکار ہوئے کہ جمع بین النقیضین کا محال ہونا صرف فنامینا (یا کسی خاص عالم یا کسی خاص ذہنی ساخت و ادراک وغیرہ) سے متعلق ہے، گویا ان کے خیال میں کوئی ایسا عالم بھی قابل تصور یا ممکن ہے جہاں یہ اضطراری قضایا شعور پر لاگو نہ ہوں اور جہاں وجود عدم کے ہم معنی ہوکر جمع بین النقیضین کا اجتماع ممکن ہو جائے! کانٹ ایسی فاش غلطی کا شکار اس لئے ہوا کیونکہ وہ وجود کے شعور پر حاوی ہونے کے بجائے شعور کے وجود پر حاوی ہونے کا قائل تھا اور اس لئے اسے فرض کرنا پڑا کہ شعور اور وجود میں دوئی ہے (کیونکہ شعور کی ساخت اس کے نزدیک ماقبل تجربی حقائق متعین ہے)، جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے کہ وجود و شعور میں لازمی ہم آھنگی قائم ہے۔ اسی لئے علم کا معنی وجود و شعور میں مطابقت قرار دیا جاتا ہے اور آخری درجے میں علم و عقل کا مطلب اولیات عقلیات ہیں۔ اس معاملے کو نہ پہچاننے اور علمیات کے باب میں کاپرنیکن انقلاب (Copernican           revolution) برپا کرنے کی کاوش میں کانٹ نے حقیقت، سچائی و علم کا مطلب ہی بدل دیا۔

امام رازی کہتے ہیں کہ عقل کا وہ کم از کم مفہوم جو اسے شرع کا مخاطب بناتا ہے وہ انہی اولیات عقلیات سے عبارت ہے۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ یہ اولیات عقلیات اتنے بنیادی، لازمی و قطعی ہیں کہ اگر بالفرض نبی سے بھی ایسی خبر منسوب ہو کر ہمیں ملے جو ان اولیات کے خلاف ہو تو اس خبر کو جوں کا توں قبول نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ اگر وحی ان اضطراری علمی مقدمات کو غلط قرار دے سکتی ہے تو خود صاحب وحی کی نبوت کا اعتبار و دلیل قائم کرنا محال ہوجائے گا (بلکہ اس صورت میں نصوص میں ھم آھنگی قائم کرنے کے لئے نسخ، ترجیح و تطبیق کی خاطر عموم و خصوص، مطلق و مقید وغیرہ جیسی ساری بحثیں بے معنی ہیں)۔ باالفاظ دیگر جن بنیادی حقائق کا ادراک رکھنے والی “عقل محض” متکلمین کے نزدیک شرع کی مخاطب ہے، کانٹ کے نزدیک وہ عقل ثابت ہی نہیں۔ کانٹ کے اسلامی مداحین کے لئے یہ مقام غور طلب ہونا چاہئے نیز انہیں بتانا چاہئے کہ ان کے نزدیک عقل کس مفہوم میں شرع کی مخاطب ہے۔

اگلے سوالات حاصل شدہ  علم کی نوعیت اور اس سے جنم لینے والے نتائج کے بارے میں ہیں۔

پانچواں نکتہ : انسانی ادراک “شے” سے متعلق ہے یا یہ “شے کے ادراک” سے متعلق؟

آپ نے یہ کیوں کہا کہ “شے فی نفسہ” اور “مظہر شے یا اس کی شبیہہ” میں فرق ہے؟ اس دعوے پر تین اعتراضات ہیں اور ایک معارضہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ حصول علم کی کیفیت کے بارے میں آپ کا دعوی لازم نہیں بلکہ اس سے بہتر توجیہہ موجود ہے۔ اعتراضات یہ ہیں:

پہلا اعتراض: آپ کا یہ دعوی بتا رہا ہے کہ شے فی نفسہ کو آپ موجود فرض کررہے ہیں، لیکن اس کے “ہونے ” کا حکم لگانے کا آپ کے پاس کیا ذریعہ ہے؟ اگر ایسا کوئی ذریعہ نہیں تو “اسے نہ جان سکنے” کا کیا مطلب ہوا؟ باالفاظ دیگر حقیقت کی نامینا اور فنامینا میں تقسیم جاننے کی بنیاد کیا ہے؟

دوسرا اعتراض: آپ کا یہ دعوی دراصل چوتھے سوال کے دوسرے معارضے میں مذکور مفروضے سے جنم لیتاہے کہ ہونے اور جاننے میں فرق ہے جبکہ یہ مفروضہ ثابت نہیں

تیسرا اعتراض: جب آپ کہتے ہیں کہ ہمیں صرف شبیہہ کاعلم ہوتا ہے نہ کہ شے فی نفسہ کا، تو آپ نے یہ فرض کیا ہے گویا میں اپنے اندر بیٹھ کر ذھن کی سکرین دیکھ رہا ہوں۔ اگر ہم ذھن میں بیٹھے سکرین دیکھ رہے ہیں تو پھر اس چھوٹے سے انسان کے ذہن میں ایک اور سکرین ہونی چاہئے تاکہ وہ خود سے ماوراء دیکھ سکے اور یہ لامتناہی تسلسل ہوگا جو جائز نہیں۔

معارضہ یہ ہے کہ یہ کیوں ممکن نہیں کہ جسے آپ فنامینا کہہ رہے ہیں وہ نامینا ہی ہو جبکہ یہ کہنا زیادہ قرین از قیاس بھی ہو؟ اس کی تفصیل یوں ہے کہ آپ کے مفروضے کے مطابق ہمارا ادراکی نظام خارجی شے (object) اور ہمارے ادراک (perception) کے مابین شے کی شبیہہ (        appearance         of object) کی صورت حائل ہے، لیکن اس مفروضے کی کیا دلیل ہے؟ اس اشکال کو سمجھنے کے لئے ادراک (perception) اور مدرَک (perceived object) کے پیش نظر یہ جانئے کہ کسی شے سے متعلق ہمارے ادراک کے بارے میں دو مفروضے ہوسکتے ہیں:

  • ایک یہ کہ مدرَک وہ خارجی شے ہے جس کا ادراک ہو جیسے مثلا سیب۔ یہا ں ادراک وہ ذہنی حال ہے جو ہمارے اندر پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہم اس شے کے مدرِک یا ادراک کرنے والے ہوتے ہیں جو ہمارے ادراک کا آبجیکٹ یا مدرَک ہے، یعنی سیب۔
  • دوسرا مفروضہ یہ ہوسکتا ہےکہ مشاہدے کے عمل میں ہم خارجی دنیا میں نہیں جھانکتے بلکہ اپنے ذہن میں جھانکتے ہیں۔ اس نظرئیے کے مطابق جو حال ہمارے اندر پایا جاتا ہے (یعنی ادراک)، وہ از خود ہمارے ادراک کا آبجیکٹ ہے نیز ہمارا ادراک “شے کے ادراک ” کا ادراک ہے نہ کہ شے کا ادراک(our         perception            is           about          perception         of          the            object            and            not           about             object)۔ یعنی ہم خارج میں موجود سیب نہیں دیکھتے بلکہ سیب کی شبیہہ یا ادراک دیکھتے (یا سیب کے ادراک کا ادراک رکھتے) ہیں۔ کانٹ ادراک کے بارے میں اس دوسرے مفروضے کے قائل تھے ۔ اسی مفروضے کی وجہ سے کانٹ نامینا اور فنامینا میں تقسیم کرتے ہیں کہ چونکہ ہمارا ادراک ہمارے ادراک کے بارے میں ہوتا ہے نہ کہ شے کے بارے میں، لہذا شے اور ہمارے ادراک میں کبھی نہ پرہوسکنے والا خلا برقرار رہتا ہے کیونکہ مشاھدے کے عمل میں انسان “شے کی کیٹیگریز” کو نہیں بلکہ “ذہن کی کیٹیگریز” کو دریافت کرپاتا ہے۔

چنانچہ کانٹ کے برخلاف یہ کیوں نہ کہا جائے کہ جسے ہم ادراک کہتے ہیں وہ ہمارا ایک حال ہے (perception           is           a           state) جو ہمیں براہ راست خارج سے متعلق کرتا ہے نیز یہ کہ ادراک از خود مدرَک (perceived          or            object            of            perception) نہیں ہے جس کا ادراک ہورہا ہو؟ یہ اسی طرح ہے جیسے علم از خود معلوم یا علم کا آبجیکٹ نہیں ہے بلکہ علم ایک ایسی صفت یا حال ہے جس کے ذریعے ہم اس معلوم کو جانتے ہیں جو خارج میں ہے، مثلا سیب۔ پس یہ کہنا کہ میں اپنے ذہن میں بیٹھ کر اپنے ذہن کی سکرین پر بننے والی شبہیات دیکھ رہا ہوں ایک پر تکلف خیال ہےجو کسی حد تک سفسفہ کی ایک صورت ہے۔ یہاں یہ بات نوٹ کیجئے کہ حصول علم کی کیفیت کے بارے میں علامہ ابن سینا بھی اسی موقف کے قائل تھے کہ انسانی ادراک و شعور شے نہیں بلکہ ہمارے ادراک و شعور سے متعلق ہوتا ہے، امام رازی نے “شرح الاشارات والتنبیهات”میں علامہ ابن سینا کے اس نظرئیے پر نقد کرتے ہوئے دونوں جانب کے دلائل پر بحث کی ہے ۔ چنانچہ “انسانی شعور کے شعور کا مطالعہ” کرکے یہ رائے قائم کرنے میں کانٹ نے کوئی نیا اضافہ نہیں کیا۔ کانٹ کا یہ استدلال ان تجربیت پسندوں کے خلاف مؤثر ہوسکتا ہے جو ادراک کو مدرَک (perceived        object) نہیں بلکہ “شے کے ادراک” کا ادراک کہتے تھے اور جن کا کہنا ہے کہ حس سے متعلق یہ ذہنی تصورات علم کی بنیاد ہیں۔ اس پر کانٹ کا کہنا تھا کہ ان حسی ذہنی تصورات مانے جانے والوں کی فہرست میں ایسے تصورات بھی شامل ہیں جو براہ راست حسی نہیں ہیں بلکہ وہ حسی تصورات کی ترکیب سے جنم لیتے ہیں (جیسے ایک شے اور دوسری کا معلول ہونا)۔ لہذا ذھن میں جنم لینے والے تمام سادہ و مرکب تصورات کی صورتیں ذہن میں موجود ہونا چاہیئں اور انہیں ماقبل حس ذھن کی ادراکی ساخت کے طور پر فرض کرنا ہوگا۔ اس کے برعکس جن کا کہنا یہ ہے کہ تصور و ادراک از خود ادراک کا آبجیکٹ نہیں جس کے ذریعے میں عالم کو جانتا ہوں بلکہ تصور خارجی دنیا سے متعلق ایک ناقابل تجزیہ علم ہے، انہیں کانٹ کی یہ ذہنی کیٹیگریز ماننے کی ضرورت نہیں۔ درج بالا دوسرے نظرئیے کی رو سے ہمارے تصورات خارج پر پردہ ڈالنے والے ہیں جبکہ پہلے نظرئیے کی رو سے وہ ہمیں خارج کا مدرک بنانے والے ہیں۔

چھٹا نکتہ: ذھنی  مقولات سے خارجی علم کا انکار لازم نہیں آتا

مان لیا کہ ذہن میں ایسی کیٹیگریز موجود ہیں جن کی آپ نے بات کی اور جن کے لاگو ہونے سے علم پیدا ہوتا ہے، لیکن آپ نے یہ کیوں کہا کہ ان کے ذریعے ہمیں خارج سے متعلق کوئی خبر نہیں ملتی؟ ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ بات تسلیم کر بھی لی جائے کہ تجربہ ممکن ہونے کے لئے ماورائے تجربہ چند مقولات کاوجود ذہنی شرط ہے، تب بھی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حسی تجربے میں آنے والے امور وجود خارجیہ کی صفات نہیں، بلکہ اس کے برعکس ماننا زیادہ قرین از قیاس ہے کہ یہ انہی اشیاء کی صفات ہیں۔ خارج میں شے موجود اور ایک دوسرے سے مختلف ہوئے بغیر ذہن کی ادراکی ساخت از خود مختلف نوعیت کا علم پیدا نہیں کرسکتی۔ مثلا فرض کیجئے کہ ادراک کی ساخت میں “مقدار” کا ایک سانچہ ہے۔ تاہم یہ سانچہ سب موجودات کے ساتھ مساوی طور پر متعلق ہے اور یہ سانچہ از خود یہ طے نہیں کرسکتا کہ مثلا فٹبال کرکٹ بال سے بڑا کیوں ہے، یہ اسی طرح ہے کہ مثلاً زبان کی ساخت یہ توجیہہ نہیں کرسکتی کہ شہد میٹھا اور مرچ کڑوی کیوں ہے نہ کہ اس سے برعکس۔ چنانچہ کانٹ کو ماننا ہوگا کہ چھوٹا، بڑا، گول، چوکور وغیرہ ہونا بہرحال وجود خارج (شے فی نفسہ) کی صفات بھی ہیں نہ کہ محض ادراک کی ساخت کی۔

یہاں یہ کہنا مقصود ہے کہ اگر خارج میں یہ صفات موجود نہ ہوں تو ان متنوع ادراکات کی وجہ ترجیح خود ذہن کی ساخت و صلاحیت نہیں ہوسکتی۔ اگر امکانی طور پر اس کے جواب میں کانٹ کی جانب سے یہ کہا جائے کہ اشیا خارج میں کچھ اس طرح پائی جاتی ہیں کہ وہ ذہن میں خاص طرح کی مقداروں (مثلاً بڑا پن و چھوٹا پن) کی شبیہات تو پیدا کرسکتی ہیں اگرچہ وہ خود ان صفات سے متصف نہ ہوں، تو اس جواب کا سفسفہ ہونے میں شک نہیں۔

پس جن لوگوں کا کہنا ہے کہ علم ادراکی ساخت کو مشاہدے میں آنے والے امور پر لاگو کرنے سے پیدا ہوتا ہے، انہیں ماننا ہوگا کہ ادراک کی ساخت سے ہمیں شے فی نفسہ سے متعلق امور و صفات کا ہی علم حاصل ہوتا ہے اگرچہ یہ امکان موجود ہے کہ شے فی نفسہ کی کچھ ایسی خصوصیات ہوں جو ہمارے ادراک سے باہر ہوں۔ مثلاً فرض کیجئے کسی شے میں 100 خصوصیات ہیں، انسانی ذہن میں مختلف سانچوں کی صورت کچھ ایسی ساخت موجود ہے جن کے ذریعے میں 60 خصوصیات کا ادراک کرسکتا ہوں جبکہ بقایا میری پہنچ سے اس لئے باہر ہیں کہ ان سے متعلق میرے ذہن کی ساخت میں کوئی سانچہ موجود نہیں جسے لاگو کرکے میں ان بقایا کو جان سکوں۔ الغرض کانٹین فکر کے حاملین کے لئے یہ مانے بغیر کوئی چارہ نہیں اور نہ اسے رد کرنے کی کوئی دلیل ہے کہ ذہن کی ساخت ان 60 خصوصیات کا ادراک اس لئے کررہی ہے کیونکہ وہ شے فی نفسہ میں موجود ہیں، ذہن میں محض چند سانچوں کی موجودگی ان کی توجیہہ نہیں بن سکتی۔ اسے ایک اور پہلو سے یوں سمجھئے کہ انسانی کان 20 ھرٹز سے لے کر 20000 ھرٹز تک آواز سن پاتے ہیں۔ چنانچہ سماعت کی حدبندی تبھی بامعنی ہے جب یہ مانا جائے کہ آواز کی یہ لہریں خارج میں موجود ہیں، محض میرے کان کی ساخت انہیں پیدا نہیں کررہی۔ یہی نسبت ذہنی مقولوں اور خارجی اشیاء کی ہے۔ پائل گائیر (Paul Gayer) نے کانٹ کے فلسفے کی اس کمزوری کے پہلو کو واضح کیا ہے۔ اس تعبیر کی رو سے ذھنی مقولات خارجی صفات کی توثیق (validation) کا ذریعہ ہیں نہ کہ تخلیق (creation) کا۔ اس بات کا انکار کرنے سے یا سفسفہ جنم لیتا ہے اور یا تضاد۔ سفسفہ کا پہلو اوپر واضح ہوچکا، تضاد یوں کہ کانٹ کے مطابق ذہن کی ادراکی ساخت شے فی نفسہ کے بارے میں کوئی خبر نہیں دے سکتی، ہمیں صرف ان کی ظاہری صورت (appearances) کا علم حاصل ہوتا ہے۔ تاہم بذات خود یہ بات کہتے ہوئے وہ یہ فرض کرتا ہے کہ خارج میں ان ظاہری تاثرات سے علی الرغم شے فی نفسہ “موجود ہے” جو میرے ان تاثرات کا “سبب ہے”۔ غور کیجئے کہ یہاں وہ سبسٹنس (substance) اور علت (cause) کی اپنی بیان کردہ دو ادراکی مقولات (categories) کو شے فی نفسہ یعنی نامینا سے متعلق قرار دے رہا ہے۔ الغرض کانٹ جس طرح خالی ڈبے نما خاکوں کے نام پر ادراکی ساخت کو اپنی فکر میں جگہ دیتا ہے، وہ حاصل شدہ علم کے بارے میں خود اس کے دعوے کو ثابت کرنے میں نہ مفید ہے اور نہ ہی اس کے دعوے سے ھم آھنگ۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں