ارض مقدس میں مسلمانوں کے نقصان پر منافقین کی ایک جماعت خوش ہے جبکہ اہل اسلام غمگین ہیں۔ قرآن مجید میں جب آپ نفاق سے متعلقہ آیات پڑھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قرآن مجید آج اسی منافق جماعت کی بابت نازل ہو رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ارض مقدسہ کے قضیے میں اس جماعت کا نفاق جس طرح کھل کر سامنے آیا ہے، وہ بھی اللہ عزوجل کی طرف سے ایک معجزہ ہی ہے۔ اب بھی کوئی شخص منافقین کی اس جماعت کی حمایت کرے، یا ان کے علماء وشیوخ سوء کو فالو کرے، یا ان کے نظریات سے متاثر ہو جائے، یا ان سے لا تعلقی نہ کرے، یا ان کے رد کو پسند نہ کرے تو اس پر حجت تمام ہو چکی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
ایک جگہ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی کامیابی حاصل ہو جائے تو منافقین کو برا لگتا ہے یعنی تمہاری کامیابی سے وہ جلتے ہیں اور اگر تمہیں کوئی آزمائش پہنچے تو وہ خوشیاں مناتے ہیں۔ مسلمانوں کی فتح پر یہ جلیں سڑیں گے اور ان کی شکست پر خوش ہوں گے۔ یہ ان کی پکی نشانی ہے اور اس وقت ان منافقین بالکل یہی صورت حال بنی ہوئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَيَتَوَلَّوْا وَهُمْ فَرِحُونَ ﴾ [التوبة: 50].
ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ اگر مسلمانوں کو غلبہ مل جائے تو یہ خاموشی سے مسلمانوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں، اور اگر مسلمانوں کو کوئی آزمائش پہنچ جائے تو اپنے آپ کو عقلمند ثابت کرنا شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے تو پہلے ہی بتلا دیا تھا کہ یہ ہونے جا رہا ہے، دیکھو ہم کتنے دور اندیش تھے اور اسی کو نفاق کہتے ہیں یعنی دوہرا رویہ اور طرز عمل۔ ارشاد باری تعالی ہے: الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِنَ اللَّهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُنْ مَعَكُمْ وَإِنْ كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ [النساء: 141].
ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ جب ان منافقین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے رستے میں قتا-ل کرو یا کم از کم اہل اسلام کا دفاع ہی کرو تو یہ جواب میں کہتے ہیں کہ ہمیں تو نہیں لگتا کہ کوئی جنگ بھی ہو رہی ہے یعنی ان منافقین کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ مسلمان، کا-فروں سے ملے ہوئے ہیں اور صرف دنیا کو دکھانے کی غرض سے نورا کشتی کر رہے ہیں۔ یہ منافقین ایسے بہانے بنا کر مسلمانوں کی حمایت سے پیچھے رہنے کا جواز ڈھونڈتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَاتَّبَعْنَاكُمْ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِمْ مَا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ * ﴾ [آل عمران: 167].
ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ ان منافقین کی باتیں بڑی چکنی چپڑی ہوتی ہیں، لوگوں کو اپنی چرب زبانی سے دھوکہ دیتے ہیں، اپنے دین ایمان پر اللہ کو گواہ بناتے ہیں کہ ہم بڑے دیندار ہیں یعنی اپنی دینداری کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، اپنے لیے طرح طرح کے القابات کا استعمال پسند کریں گے، سخت جھگڑالو ہیں، زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، اہل اسلام کا نقصان کرتے ہیں، اور جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو جھوٹی انا میں آ جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ * وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ * وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ ﴾ [البقرة: 204 – 206].
ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ اگر ان منافقین کے دلوں کو ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیا جائے تو بھی ان کے دلوں میں شک کی جو عمارت قائم ہو چکی ہے، وہ ختم نہیں ہو سکتی۔ یعنی یہ نا قابل اصلاح لوگ ہیں، انہیں بات سمجھ ہی نہیں آ سکتی، یہ کبھی مسلمانوں کے خیر خواہ ہو ہی نہیں سکتے، ہمیشہ دشمن رہیں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے: لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ إِلَّا أَنْ تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴾ [التوبة: 110].
ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ اہل اسلام میں سے ایک گروہ اپنی سادہ لوحی میں ان منفاقین کے بارے ہمدردی کے جذبات رکھتا ہے حالانکہ یہ ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے ایسے گروہ کو اللہ عزوجل کی طرف سے ڈانٹا گیا ہے کہ ان کے بارے تمہارے دلوں میں نرم گوشہ کیوں ہے۔ آج بھی بعض اہل اسلام ان مسلمان دشمنوں کو شیوخ اور علماء اور معلوم نہیں کیسے کیسے ٹائٹلز سے نواز دیتے ہیں، یہ ان مسلمانوں کے لیے تنبیہ ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوا أَتُرِيدُونَ أَنْ تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا ﴾ [النساء: 88]
ایک اور جگہ یہ ارشاد ہے کہ یہ منافقین قسمیں اٹھا اٹھا یہ کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں جبکہ اللہ عزوجل یہ جانتا ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں لیکن یہ منافقین جھوٹے ہیں۔ منافقین رسول کے ساتھ اپنے تعلق کو ہائی لائیٹ کر کے سادہ لوح لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ رسول کے ساتھ تعلق اسی کا ہے جس کے سینے میں آپ کی امت کا درد ہو۔ جو آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی امت کا غم محسوس نہ کرے، اسکا رسول سے کیا تعلق؟ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ * ﴾ [المنافقون: 1].
ریاست مدینہ میں بھی منافقین یہو-د سے لڑنے والے نہیں تھے، بلکہ ان مسلمانوں کے خلاف بکواس کرنے والے تھے جو یہو-د سے لڑ رہے تھے، آج بھی یہی ان کی نشانی ہے۔ پھر ان منافقین کی بھی قسمیں تھیں۔ کچھ تو مسلمانوں کے نقصان پر سر عام بغلیں بجاتے تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے تو نہ مسلمانوں کے ساتھ اور نہ ادھر تھے بلکہ بین بین تھے۔ ان کی بھی قرآن مجید نے مذمت کی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: مُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَلِكَ لَا إِلَى هَؤُلَاءِ وَلَا إِلَى هَؤُلَاءِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا *﴾ [النساء: 143]
کمنت کیجے