Home » الہیات کے عدم امکان پر کانٹ کی دلیل کا محاکمہ : حصہ دوم
شخصیات وافکار فلسفہ

الہیات کے عدم امکان پر کانٹ کی دلیل کا محاکمہ : حصہ دوم

ساتوں نکتہ : علت کا درست مفہوم اور کانٹ کی غلطی

مان لیا کہ ذہن میں ایسی کیٹیگریز موجود ہیں جن کی آپ نے بات کی اور جن کے لاگو ہونے سے علم پیدا ہوتا ہے، لیکن آپ نے یہ کیوں کہا کہ علت کا مطلب اشیاء کے مابین زمانی ترتیب و تسلسل ہے؟ نیز آپ نے علت سے کیا مراد لی ہے، یہ کہ ایک زمانی و مکانی شے دوسری پر موجب و مؤثر ہے؟

اس پر ہمارا اعتراض یہ ہے کہ علت کا جو مفہوم آپ نے مقرر کیا ہے وہ سطحی بھی ہے اور غلط بھی کیونکہ:

  • علت کے مفہوم میں نہ زمانی تقدم کا مفہوم شامل ہے اور نہ ہی مکانی اقتران کا
  • اور نہ ہی زمانی و مکانی اشیاء کو ایک دوسرے کے لئے مؤثر ہونے کے معنی میں علت کہنے کی کوئی دلیل ہے بلکہ عقل اس کا غلط ہونا لازم قرار دیتی ہے۔

ان امور پر ہم متعدد جگہ پہلے بحث کرچکے ہیں۔ یہاں ہم اسے ترتیب وار نکات کی صورت پیش کرتے ہیں:

1۔        سب سے پہلے علت کا معنی سمجھیں۔ علت وجہ ترجیح کو کہتے ہیں، اس کا ایک حقیقی معنی ہے اور ایک مجازی۔ حقیقی معنی کی رو سے علت کا مطلب مؤثر ہونا اور مجازی کی رو سے “علت کی نشانی ہونا” ہے۔ مؤثر ہونے یعنی حقیقی معنی میں علت کے دو مفہوم ہیں:

الف)     موجب (necessitating) ہونا: علت موجبہ وہ ہے جس سے ممکن الوجود معلول کا صدور بطریق لزوم ہو (جسے سورج سے روشنی کا صدور)۔ اس معنی میں علت یا تاثیریت کسی کی طبع یا ماہیت کا تقاضا ہوتا ہے  اور اس لئے اسے essential          cause کہتے ہیں، ایسی علت کسی وجود کی بنیاد (یا گراؤنڈ) تو ہوتی ہے مگر وجود عطا کرنے والی نہیں ہوتی۔ جن لوگوں نے علت سے مراد موجب سمجھا انہوں نے کہا کہ اشیاء کے اندر ایسی تاثیرات پائی جاتی ہیں جو اپنے اثر کو اس طرح لازم کرنے والی ہیں کہ ان میں اقتران (concurrence) اٹوٹ و محال ہے۔ موجب کے معنی میں علت و معلول ساتھ پائے جاتے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ علت تو موجود ہو مگر معلول معدوم ہو، اس لئے اگر علت قدیم ہے تو معلول بھی قدیم ہوگا۔ ارسطو اور اس کے پیروکار مسلم فلاسفہ کا علت کے بارے میں یہی تصور ہے اور اسی لئے یہ لوگ قدم عالم کے قائل ہوئے۔

ب) مختار یا موجد (existence           granting) ہونا: اختیار کے معنی میں علت کا مطلب ایسی وجہ ترجیح ہے جو چاہے تو فعل کرکے اثر کو ظاہر کرے اور چاہے تو نہ کرے، اس معنی میں علت ممکن الوجود کو لاحق عدم و وجود کے مساوی امکان میں سے کسی ایک جانب میں ترجیح قائم کرتی ہے، اس لئے اسے موجد یا فاعل (agent) بھی کہتے ہیں۔

2۔         چنانچہ یہاں پہلا سوال یہ ہے کہ عقل محض کے تحت کانٹ فنامینا سے متعلق جس تفہیمی مقولے کو علت کہتا ہے، یہاں علت سے اس نے دو میں سے کونسا مفہوم مراد لیا؟ کانٹ کا جواب “موجب ہونا” ہے۔ اصول علیت کو فرض کرنے کی دلیل کانٹ یہ دیتا ہے کہ اس کے بغیر ہم اپنے ذہن میں موجود امور کے مابین قائم ہونے والی ھم آھنگی و وحدت کی توجیہہ نہیں کرسکتے۔ لیکن اس پر سوال یہ ہے کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ اس ھم آھنگی و وحدت کے لئے ہمیں علت کو “موجب” کے معنی میں ہی مراد لینا ہوگا؟ اس کا جواب کانٹ کی جانب سے ہمارے فہم کے مطابق یہ ہے کہ وہ نیوٹن کی فزکس سے متاثر تھا جو یہ تاثر قائم کرتی ہے کہ عالم شاھد کے امور منظم میکانکی قوانین میں ڈھلے ہوئے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ اشیاء کے مابین لزومی تعلق ہے۔ اس دلیل کا ضعف اہل علم پر بخوبی واضح ہے اس لئے کہ مشاھدے کے عمل میں ان مفروضہ “تاثیرات” کا کوئی مشاھدہ نہیں ہوتا جو ایک شے کو دوسرے کے لئے موجب ماننے پر مجبور کریں۔ لہذا کائنات کی اشیاء کے مابین ایجابی تعلق فرض کرنے کی نہ کوئی مشاہداتی دلیل ہے اور نہ ہی عقلی، یہ کانٹ کے تحکم پر مبنی مفروضہ ہے۔ علت کو موجب کے معنی میں مراد لینے کا ایک مسئلہ یہ نتیجہ بھی ہے کہ یہ کائنات قدیم ہوگی جبکہ ایسا ہونا محال ہے، تاہم ہم بحث کو ان اطراف میں پھیلانا نہیں چاہتے، ہم یہاں اتنی ہی بات کریں گے جو متکلمین کے مقدمے کی رو سے کانٹ کی غلطی ہے کیونکہ یہی ہمارا مقصود ہے۔ اس اعتبار سے بات یوں ہے کہ کانٹ خلط مبحث کرتے ہوئے علت کے مجازی معنی کے اطلاق کو حقیقی معنی کے ساتھ خلط ملط کردیتا ہے، اس کائنات کی اشیاء پر علت کے معنی کا اطلاق غلط ہے۔

3۔         اس کے لئے یہ سمجھئے “مؤثر ہونے” کے معنی میں اصول علیت کی بنیاد کسی وجود کا امکان (contingency) ہے اور امکان کی بنیاد حدوث، یعنی علت کی احتیاج ہر وجود کو نہیں ہے بلکہ اس وجود کو ہے جو حادث (یعنی مسبوق بالعدم) ہو۔ حادث یا ممکن وہ وجود ہے جو اپنی ذات کے اعتبار سے عدم و وجود کے ساتھ مساوی نسبت رکھ، وہ شے جو اپنی ذات کے اعتبار سے ان دونوں جانب مساوی نسبت رکھے مگر پھر بھی موجود ہو تو معلوم ہوا کہ اس کی وجود کی جانب نسبت ترجیح یافتہ ہوگئی اور یہ ترجیح اس کی ذاتی صفت نہیں بلکہ اس پر زائد ہے۔ ممکن کی یہ ترجیح چونکہ ثبوتی امر ہے لہذا وجہ ترجیح بھی لازماً ثبوتی ہے۔ حادث کی اس وجہ ترجیح کو علت کہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ حادث اصلا اثر یا معلول کو کہتے ہیں جو علت کا محتاج ہوتا ہے۔

علت کا تصور کسی شے پر تب لاگو ہوتا ہے جب عقل کو وجود اور پھر اس سے متعلق واجب، محال اور ممکن کا ادراک حاصل ہوچکا ہو۔ جو وجود واجب و محال ہو اس کے لئے علت کی کیٹیگری غیر متعلق ہوجاتی ہے، پھر جو حادث و ممکن ہو عقل اس کی احتیاج کی پیاس بجھانے کا سفر شروع کرتی ہے۔ یعنی علت کے تصور کا اطلاق شروع ہی تب ہوا جب عقل کے پاس حادث و ممکن کا تصور آیا، جب اس نے حادث پر غور کیا تو جان لیا کہ یہ خود اپنی توجیہہ نہیں کرسکتا، اسی لئے مرجح کا محتاج ہے۔ چنانچہ علت کے تصور کا اطلاق دو حقائق کے ادراک کے بعد شروع ہوتا ہے: متعلقہ وجود حادث و ممکن ہے نیز حادث وجود خود اپنی توجیہہ نہیں ہوتا (چہ جائیکہ دوسرے کی علت بن سکے)۔ اس سے یہ اعتراض بھی رفع ہوگیا کہ تغیر ایک ایسا تصور ہے جو تجربے سے ماخوذ ہے لہذا علیت کا تصور بدیہی نہیں نظری ہے۔ علت کا تصور نہیں بلکہ حدوث کا تصور عدم سے وجود کے تغیر پر منحصر ہے، عدم وجود کی علت نہیں ہوسکتی یہ بدیہی ہے اور یہ دوسری بات علیت کی بنیاد ہے۔

4۔         حادث کے لئے وہی شے وجہ ترجیح ہوسکتی ہے جو مخصص (specifier) ہو اس لئے کہ حادث چار امور میں وجہ ترجیح کا محتاج ہے:

  • عدم سے وجود کی ترجیح
  • وجود کے بعد معدوم ہونے کے بجائے وجود پر بقا کی ترجیح
  • حوادث میں زمانی و مکانی تقدیم و تاخیر کی ترجیح (اس لئے کہ ہر زمانی و مکانی تخصیص حدوث ہے اور ہر حدوث ایک تخصیص ہے)
  • حوادث کی کیفیات و مقدار کی ترجیح

جو علت ان چار سوالات کا جواب دے، وہ حادث کی وجہ ترجیح کہلا سکتی ہے۔ ایسے مرجح ہی کو “ارادہ” یا اختیار کہتے ہیں۔ ارادے کا مطلب دو مساوی امکانات میں سے ایک جانب کی ترجیح و اختیار ہے، اگر یہ اختیار ثابت نہیں تو ترجیح کا کوئی مطلب نہیں۔ معلوم ہوا کہ حادث جس علت کا محتاج ہے وہ دراصل فاعل (agent) ہوتا ہے، ایسا فاعل جو مرید اور مختار ہے۔ ایسی علت کو “موجد” (existence          giver) کہتے ہیں۔ پس کائنات گواہی دے رہی ہے کہ یہ وجہ ترجیح کی محتاج ہے اور وہ وجہ ترجیح ایک فاعل مختار ہے نہ کہ موجب (یاد رہے کہ علت موجبہ “مخصص” نہیں ہوتی بلکہ اپنی طبع و فطرت کا ظہور کرتی ہے)۔ یعنی خدا اور کائنات کا تعلق علت (موجبہ) و معلول کا نہیں بلکہ فاعل و اثر کا ہے۔

5۔         اب یہ سمجھئے کہ علت کے تصور میں زمانی ترتیب (temporal          procession) و تقدم اور مکانی اقتران کوئی شرط نہیں جیسا کہ ھیوم و کانٹ کو غلطی لگی۔ اگر علت زمانی طور پر ماقبل اور معلول ایسے دوسرے لمحے میں ہو جس لمحے علت موجود نہیں تو وہ دوسرے لمحے میں موجود معلول کی علت کیسے ہے جبکہ وہ خود اس لمحے معدوم ہے؟ علت و معلول میں مکانی اقتران ہونا بھی علت ہونے کی شرط نہیں، حکمران جب حکمانے سے کسی کو قاضی مقرر کرتا ہے تو یہاں اس کا حکم سبب سمجھا جاتا ہے مگر مکانی اقتران کا یہاں کوئی تصور نہیں۔ بلکہ زمان و مکان چونکہ از خود حادث یعنی اثر ہیں اس لئے علت (یعنی فاعل) زمان و مکان میں نہیں ہوسکتی کہ اگر وہ زمانی و مکانی ہو تو حادث اور اس لئے اثر ہوگی نہ کہ علت۔ پھر یاد رہے کہ کسی خاص زمان و مکان میں ہونا مخصص شدہ (specified) ہونا ہے اور جو مخصص شدہ ہو وہ ایسی تخصیص کرنے والے (specifier) کا محتاج ہوتا ہے جو حادث کو لاحق ہوسکنے والے دو امکانات میں سے کسی ایک کو ترجیح دے (یعنی جو وجود کسی خاص زمان و مکان میں ہے اس کے لئے یہ ممکن تھا کہ کسی دوسرے زمان و مکان میں ہوتا اور اس لئے اس تخصیص کے لئے وہ مرجح کا محتاج ہے)۔ پس دلیل عقلی بتا رہی ہے کہ حادث کی علت لازما زمان و مکان سے ماوراء ہوگی۔ علت کے معلول پر اس تقدم کو “وجودی تقدم” (existential          priority) کہتے ہیں نہ کہ زمانی و مکانی تقدم۔ علت جب فاعل مختار ہو تو یہ لازم نہیں کہ اس کا اثر ہمیشہ اس کے ساتھ پایا جائے، اس صورت میں یہ بات نہ صرف یہ کہ قابل فہم ہے کہ موجِد (existence         granting) تو ہو مگر موجَد نہ ہو بلکہ ایسا ہونا قطعی طور پر لازم ہے کیونکہ فعل کا اثر قدیم ہونا محال ہے (اس نکتے کو نہ سمجھنے سے علامہ ابن سینا قدم عالم کے پرزور طور پر قائل ہوئے تھے، دیکھئے اس پر ہماری تحریر: “ذات باری کا عالم پر تقدم کس نوعیت کا ہے؟ علامہ ابن سینا کو جواب”)۔

پس علت کو زمان و مکان میں بند کرنے پر اصرار کرنا دراصل معلول کو علت کہتے رہنا ہے۔ کانٹ نے علت کے عامیانہ سے تصور کو بنیاد بنا کر علت کا مفہوم مقرر کیا ہے جبکہ علت کا یہ مفہوم سادہ لوحی کا مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ تجزیاتی طور پر بھی غلط ہے نیز یہ اس عالم شہادت کی توجیہہ کے لئے بھی لازم نہیں جیسا کہ اگلے نکتے میں آرہا ہے۔

6۔         اس کے بعد یہ سوال رہ گیا کہ عالم شہادت میں حوادث کی ترتیب و اقتران سے انسانی ذہن میں علت و معلول کا جو نقشہ ابھرتا ہے، اس کی کیا حیثیت ہے؟ جب یہ ثابت ہوگیا کہ اشیاء کے مابین ایجابی تاثیری تعلقات کی کوئی دلیل موجود نہیں اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ حادث علت نہیں اثر ہوتا ہے، تو معلوم ہوگیا کہ حوادث کے مابین یہ تعلقات حقیقی معنی میں علت نہیں ہوسکتے، بلکہ یہاں علت سے مجازی مفہوم والی وہ نسبتیں ہیں جنہیں علت کی علامات یا نشانی کہتے ہیں۔ پس عالم شہادت سے متعلق یہ نسبتیں ایک حادث کے دوسرے پر مؤثر ہونے نہیں بلکہ علم یا نشانی ہونے سے عبارت ہیں، یعنی یہ ترتیبات ایک فاعل کی اس عادت پر دال ہیں کہ وہ ایک کے بعد دوسرے حادث کو ایک خاص ترتیب سے وقوع پزیر کرتا ہے۔ جب ہم مشاھدہ کرتے ہیں کہ وہ الف و ب اثرات کو ایک ترتیب سے ظاہر کرتا ہے تو اس سے ہم استقرائی طور پر یہ جان سکتے ہیں کہ اگر الف آئے گا تو پھر اس کے ساتھ یا بعد ب آئے گا اور استقرا سے حاصل ہونے والے اس علم کا درجہ ظن اس پر منحصر ہے کہ کتنی مرتبہ اس واقعے کا مشاہدہ ہوا۔ اس کی آسان مثال یوں ہے کہ اگر میں موٹروے پر سفر کروں اور “ریسٹ ایریا 2 کلومیٹر” بورڈ کے 2 کلو میٹر بعد ریسٹ ایریا موجود ہو اور کئی سو کلومیٹر سٖفر میں بار بار اس ترتیب کا مشاھدہ ہو کہ اس بورڈ کے ٹھیک 2 کلومیٹر بعد ریسٹ ایریا ہوتا ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خاص قسم کا سائن بورڈ ریسٹ ایریا پر مؤثر (یعنی اس کا سبب) ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ سائن بورڈ ریسٹ ایریا کی علامت ہے کہ اس کے بعد ہم ریسٹ ایریا کی امید رکھ سکتے ہیں (کہ یہ ھائی وے اتھارٹی کے فعل کرنے کی ترتیب ہے)۔ پس تجرباتی علم ممکن ہے اور اس کی بنیاد فاعل کی عادت ہے۔ معلوم ہوا کہ تجرباتی علوم کی تشکیل کے لئے ایک شے کے دوسرے پر مؤثر ہونے کا نظریہ لازم نہیں، استقرائی طور پر مقرر ہونے والی مجازی علتیں (یعنی علامات) بھی اس علم کی اتنی ہی قطعی بنیاد فراہم کرسکتی ہیں جتنا کوئی اور نظریہ کرسکتا ہے۔ یاد رہے کہ کانٹ کا نظریہ بھی خارج میں موجود حوادث کے مابین علت و معلول کے تعلق پر اس استقرائی قطعیت سے زیادہ کوئی بات کہنے سے قاصر ہے جیسا کہ پال گائیر نے واضح کیا ہے۔ بلکہ کانٹ تو اس میں یہ مزید خرابی پیدا کرتا ہے کہ وہ علت و معلول کے علم کو صرف ذھنی مظاھر کا علم کہتا ہے جس کا شے فی نفسہ سے تعلق ہی نہیں۔ پس کم از کم کانٹ کے مداحین متکلمین کو یہ الزام نہیں دے سکتے کہ یہ لوگ علتی نسبتوں کو علامت کہہ کر سفسفہ میں مبتلا ہوگئے جبکہ کانٹ کا نظریہ تو سارے ہی علم کو خارج (یعنی شے فی نفسہ) سے کاٹ دینے والا ہے۔

الغرض شاھد کی یہ علاماتی علتیں چونکہ فاعل کے فعل اور عادت پر دال یا اس کی مظہر ہیں، لہذا ان علامات کو مجازاً علت کہنا درست ہے اور زبان میں یہ استعمال عام ہے۔ عالم کی اشیاء کے مابین علت کا یہ علامتی معنی ہی قابل فہم ہے کیونکہ عقل پہلے قدم پر یہ جانتی ہے کہ یہ سب حادث یعنی اثر ہیں، انہیں از خود مؤثر سمجھنا غیر عقلی ہے۔ البتہ فاعل مؤثر چاہے تو انہیں علامات بنا سکتا ہے۔ پس کانٹ علت کے نام پر جس مقولے کے احکام حوادث کے مابین جاری کرتا ہے، ہم بھی ان احکامات کے اجراء کے قائل ہیں لیکن ایجابی طور پر مؤثریت کے معنی میں نہیں بلکہ علم ہونے کے معنی میں۔ کانٹ مجاز ہی کو حقیقت سمجھ بیٹھا۔

خلاصہ یہ کہ علت کا مفہوم مقرر کرنے میں کانٹ تین غلطیاں کرتا ہے:

الف)     معلول یا اثر کو علت فرض کرتے رہنا

ب)       علت کو موجب کے معنی میں تاثیری تعلقات فرض کرنا جبکہ سوائے حوادث کے اقتران اس کی کوئی مشاھداتی و عقلی دلیل موجود نہیں

ج)        علت کے مفہوم میں زمانی تقدم و مکانی اقتران کو شرط قرار دینا

آٹھواں نکتہ: میٹافزکس یا غیب کا علم ممکن  ہے

آپ نے یہ کیوں کہا کہ زمان و مکان سے ماورا کسی حقیقت کے وجود کا ادراک ممکن نہیں؟ س پر معارضہ یہ ہے کہ محال ہونے کا آپ کا یہ دعوی اس مفروضے پر مبنی ہے کہ علم اضطراری کوئی حقیقت نہیں جبکہ اوپر اس مفروضے کی غلطی کو واضح کیا جاچکا جس سے معلوم ہوا کہ لازمی وجودی حقائق نہ کسی کے “بنانے سے” ہیں اور نہ یہ کسی قدرت و ارادے کے تابع ہیں جنہیں جیسے چاہے تشکیل دے دیا جائے۔ وجوبی حقائق صرف ہوتے ہیں، یہ شاھد (physical         realm) و غائب (metaphysical         realm) ہر ڈومین میں یکساں ہوں گے۔ وجود کا معنی ہی ہونا یا پایا جانا ہے اور یہ وجود کے ہونے (ھویت) ہی سے مفہوم ہے، ایسا کوئی امکان نہیں کہ عدم میں بھی وجود کا ادراک ہوجائے۔ وجود کا معنی و حقیقت عدم طے کردینا یا حادث کو علت کی ضرورت سے غنی کردینا، یہ انتخاب کا معاملہ نہیں ہے۔ اسی لئے علمائے کلام کہتے ہیں کہ محال عقلی (یعنی محال لذاتہ) مقدور نہیں ہوتا کیونکہ یہ وجود کی نفی (یعنی عدم کو وجود کہنے) کا نام ہے، جس طرح وجود اضطراری حقیقت ہے اسی طرح اس کی نفی کا غلط ہونا بھی اضطراری ہے۔ وجود و عدم کا معنی، جمع بین النقیضین کا محال ہونا، کل کا جزء سے بڑا ہونا، حادث کا محدث کے لئے محتاج ہونا وغیرہ سب ایسے حقائق ہیں جو شاھد اور اس سے ماورا ہر غائب میں یکساں ہیں نیز ان کا علم و شعور اس بنا پر اضطراری طور پر حاصل ہے کہ وجود شعور پر حاوی ہے۔ اسی بنا پر متکلمین کہتے ہیں کہ جمع بین النقیضین شاھد و غائب دونوں میں محال ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہمارے لئے تو یہ جمع محال ہو لیکن خدا کے لئے ممکن ہو، نیز ایسا کوئی امکانی عالم (       conceivable possible         world) نہیں ہوسکتا جہاں یہ جمع ممکن ہوجائے۔ پس یہ کہنا غلط ہے کہ غائب کے بارے میں کچھ کہنے کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ اگر دلیل غائب کے اس وجود کے ہونے پر دلالت کرے تو اس وجود کو مانا جائے گا اور اگر دلیل نہ ہو تو اس معاملے میں توقف کیا جائے گا تاہم اس کے علم کو ناممکن ہونا نہیں کہا جائے گا کیونکہ اس کے علم کو محال کہنے کی آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں۔

نواں نکتہ: علت اور خدا  

آپ نے یہ کیوں کہا کہ علت کے تصور سے خدا کا تصور ثابت نہیں ہوتا؟ اس پر کانٹ کی یہ دلیل ہے کہ علت تو نرا ذھنی مقولہ ہے جو بغیر تجربہ کوئی علم فراہم نہیں کرتا نیز یہ مقولہ ہمیں خارج سے متعلق بھی کوئی علم نہیں دیتا نیز خدا حسی تجربے سے ماوراء ہے۔

اس دلیل پر اعتراض یہ ہے کہ خود کانٹ کے فلسفے کی رو سے بھی یہ دلیل دو وجوہ سے غلط ہے:

الف)     کانٹ خود علت کا ایک “سبسٹنٹو تصور” ہی مقرر کرتا ہے، یعنی زمانی تقدم و مکانی اقتران سے متعلق موجب، چنانچہ اس کے بعد کانٹ کے لئے یہ ممکن نہیں کہ خود اپنے فلسفے میں علت کے مقولے کا ایک “سبسٹنٹو مفہوم” متعین کرکے دوسروں کو یہ کہتا رہے کہ تمہارا قائم کردہ علیت کا مفہوم تو نرا خیال ہے۔ کانٹ اس غلط فہمی کا شکار ہے گویا علت کا اس کی جانب سے مفروضہ مفہوم غیر سبسٹنٹو خیال ہے جبکہ معاملہ ایسا نہیں۔

ب)       کانٹ اپنے فلسفے میں “علت” کے مقولے کو نامینا پر ہی لاگو کرتا ہے جیسا کہ نکتہ نمبر چھ میں نشاندہی ہوئی۔ پس اگر آپ کے لئے یہ جائز ہے کہ علت کی کیٹیگری نامینا پر لاگو کریں تو دوسروں کے لئے یہ کیوں ناجائز ہے؟

رہا اس پر معارضہ تو اس کی تفصیل پچھلے نکات میں ہوچکی جس سے یہ بات صاف ہوچکی کہ:

  • علیت (حادث کے لئے محدث ہوتا ہے) نرا ذھنی خیال نہیں بلکہ یہ ذہن پر منعکس شاھد و غائب سے متعلق وجودی حقیقت ہے (دیکھئے نکتہ نمبر 4)
  • ہمارا ادراک ذھن کی ساخت کے بارے میں نہیں ہے بلکہ خارجی حقیقت کے بارے میں ہے جس کی توجیہہ کو اولاً ان ماقبل مقولات سے مشروط کرنا ضروری نہیں اور اگر ان مقولات کا وجود مان بھی لیا جائے تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ ذہن کو خارج سے متعلق اطلاع نہیں دیتے بلکہ درست بات یہی ہے کہ ان سے ہمیں خارجی اشیاء اور ان کی صفات کا ادراک ہوتا ہے (دیکھئے نکتہ نمبر 5 اور 6)
  • پس خارجی اشیاء سے متعلق یہ اطلاق مجھے حاصل ہے کہ انہیں حدوث لاحق ہے (یعنی یہ کہ اشیاء متنوع صفات کی حامل بھی ہیں اور متغیر بھی نیز یہ کہ یہ متحیز ہیں)

الغرض ادراک سے ماوراء حقیقت موجود ہے اور ادراک اس کے تابع ہے اور اولیات عقلیہ کے دائرے میں یہ تابعیت اتنی قطعی ہے کہ کچھ اور ادراک ہوسکنا محال ہے۔

آپ کی یہ دلیل دراصل اس غلط مفروضے پر مبنی ہے کہ علت زمانی و مکانی ایجابی تصور ہے جبکہ ہم واضح کرچکے کہ زمانی و مکانی ہونا علت کے مفہوم میں شامل نہیں نیز زمانی و مکانی وجود اثر ہوتا ہے نہ کہ علت نیز اس علت کو موجب کے مفہوم میں لینے کی کانٹ کے پاس کوئی صریح دلیل نہیں (دیکھئے نکتہ نمبر 7)۔ جب عقل یہ پہچان لے کہ “عالم حادث ہے” (حدوث عالم کے دلائل پر یہاں بحث نہیں کی جائے گئی)، تو جس کیٹیگری کا نام آپ نے “علت” رکھا آخر وہ اپنے مافیہ کے اطلاق (یعنی “مرجح”) کو اسی حادث عالم کے اندر موجود فرض کرکے کیسے احکام جاری کرسکتی ہے جس کے بارے میں اسے پہلے سے یہ خبر موصول ہوچکی کہ یہ عالم معلول (حادث) ہے نہ کہ مرجح؟ پس اس غلط مفروضے کو ترک کیجئے کہ عالم کے اندر مشاہدے میں آنے والی بعض چیزیں بعض کے لئے “علت (مرجح) ہیں، عقل پہچان چکی ہے کہ یہاں سب حوادثات (یعنی معلولات ہیں) اور حادث علت نہیں ہوا کرتا۔ وہ جانتی ہے کہ زمانی و مکانی عالم میں صرف ایک کے بعد دوسرا حادث رونما ہورہا ہے اور اس لئے وہ ان میں سے ہر ایک کو علت کا مصداق قرار دینے سے انکاری ہے۔ پس وہ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ جب عالم حادث ہے تو علت کے حکم کا اطلاق اس عالم سے ماورا کسی موجود پر ہوگا جو اس زمانی و مکانی عالم پر متصرف ہے۔ ھیوم و کانٹ ایک ایسے تصور (یعنی حادث) کو مرجح ثابت کرنے کی کوشش میں تھے جو اپنی وضع میں مرجح ہونے کے عقلی حکم کو قبول ہی نہیں کرتا۔

جب یہ معلوم ہوگیا کہ حادث ممکن ہے اور کسی ایک جانب ترجیح کے لئے مرجح کا محتاج ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ حادث موجود ہے، تو عقل لازما کہتی ہے کہ مرجح بھی موجود و ثابت ہے، اگرچہ وہ غائب ہی میں ہو کیونکہ وجوبی حقائق شاھد و غائب میں یکساں ہیں۔

اس تقریر کے بعد عقلی الہیات کے ناممکن ہونے پر کانٹ کی دلیل ختم ہوجاتی ہے، فللہ الحمد۔

دسواں نکتہ: کانٹین فلسفہ ایک اہم سوال کا جواب نہیں دیتا

کانٹ کے موقف پر آخری تبصرہ یہ ہے کہ یہ ہمیں اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ آخر میرے ادراک کی ساخت وہ کیوں ہے جیسی کہ وہ ہے؟ میرے وجود اور ادراک کی ساخت ہم آہنگ کیسے ہیں؟ نیز خارج میں موجود حقیقت اور میرا ادراک ہم آہنگ کیوں ہیں؟ ظاہر ہے جب آپ اس غلط مفروضے پر فکر کی بنیاد رکھیں گے کہ ادراک کی ساخت وجود سے الگ و ماقبل متعین ہے تو ان سوالات کا کوئی جواب ممکن نہیں۔ علم کی ہر سنجیدہ جستجو انسانی ادراک، خود اس کے وجود اور خارج میں موجود اشیاء کے مابین ہم آھنگی (harmony) کے لازمی مفروضے پر قائم ہوتی ہے اور یہ ہم آہنگی انسان کو ایک ایسے اصول سے متعلق کرتی ہے جو اس ہم آہنگی کا سبب ہے، یعنی جو انسان کے اس سوال کا جواب ہو کہ آخر یہ اضطراری ہم آہنگی کیوں پائی جاتی ہے؟ چنانچہ ایسی فکر بے اطمینانی و انتشار پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کانٹین فکر سے متاثر ہوکر کانٹ کے جانشینوں نے ہر اخلاقی قدر کی سچائی و آفاقیت کا انکار کردیا گیا۔اسلامی فکر میں اس سوال کے جواب کی ایک صورت وہ ہے جو شیخ اکبر  کی روایت  میں ملتا ہے، یعنی پوری کائنات  جس ذات کے اسما کا ظہور ہے اسی کے اسما کا ظہور انسان میں جامعیت کے ساتھ ہوا ہے۔

3)      حاصل بحث

کانٹ کا نظریہ علم غیر ضروری و پرتکلف مفروضات پر مبنی ہونے کے علاوہ بعض سطحی و غلط مقدمات پر بھی مبنی ہے۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ ذہن میں مقولات موجود ہیں جو تجربے کی شرط ہیں تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ الہیات کا علم ناممکن ہے۔ اس حوالے سے اس کے نظرئیے کی چار بنیادی خامیاں ہیں:

1)         ذہنی مقولات کو کوئی وجودی حقیقت یا اس کا مظہر نہ ماننا بلکہ انہیں خالی گھڑھے نما شے کہنا جبکہ ساتھ ہی کانٹ کا یہ بھی ماننا ہے کہ وہ مقولے ممیز (differentiated) ہیں۔ یوں کانٹ کے نظرئیے کی سچائی خود داخلی طور پر متضاد ہوکر اپنی ہی سوفسطائیت کی ذد میں آجاتی ہے۔

2)         وجود اور ادراک کی دوئی کے مفروضے پر علم کی عمارت قائم کرنے کی کوشش میں لازمی وجودی حقائق کو اگنور کرتے ہوئے اپنے نظریہ علم میں انہیں جگہ نہ دینا۔ اس غلطی کی وجہ سے کانٹ شاھد و غائب کے مابین واسطے کو کھو دیتا ہے۔

3)         حصول علم کی کیفیت کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ شے فی نفسہ سے متعلق نہیں ہوسکتا جبکہ خود اس کے اپنے فریم ورک میں اایسا کہنے کی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں بلکہ اس کے برعکس بات زیادہ قرین از قیاس ہےکہ ہمیں ادراک “شے کا” ہوتا ہے نہ کہ “شے کے ادراک کا”۔

4)         علت کا ایک عامیانہ (naive) و غلط تصور قائم کرنا کہ یہ زمانی تسلسل و ترتیب میں ڈھلی ہوئی ایجابی نسبتوں سے عبارت ہے جبکہ یہ دعوی معلول کو علت فرض کرنے کی غلطی پر مبنی ہے۔

ان غلطیوں کی اصلاح کرلی جائے تو کانٹ کا فلسفہ دلیل حدوث کے دو میں سے کسی قضیے کو غلط ثابت نہیں کرسکتا:

الف)     حادث کے لئے محدث ہے (یعنی حادث موجود ہے تو محدث بھی موجود ہے)

ب)       عالم حادث ہے

نتیجہ)      عالم کے لئے محدث ہے (چونکہ عالم موجود ہے لہذا اس کا محدث بھی موجود ہے)

دلیل حدوث کی صحت کی کم از کم علمی شرط یہ ماننا ہے کہ ذھن سے ماوراء خارجی حقیقت موجود ہے اور انسانی ذرائع سے وہ لائق ادراک ہے۔

کیا ذات باری کی حقیقت ہمیں معلوم ہے؟

کانٹ کے مذہبی مداحین کا کہنا ہے کہ کانٹ نے یہ بات بتا کر اہل مذہب پر احسان کیا کہ اشیاء کے حقائق ہمیں معلوم نہیں، وہ ماورائی حقیقت ذات باری ہے جسے عقل نہیں جان سکتی۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر ذات باری کی حقیقت سے مراد اس کی ماہیت ہے تو یہ بات محقق متکلمین جیسے کہ امام غزالی و رازی اور صوفیاء پہلے ہی بیان کرتے آئے ہیں کہ ہمیں اس کا کوئی ادراک نہیں (اس پر ہم نے تحاریر لکھی ہیں، ملاحظہ کیجئے:”کیا مباحث الہیات میں کانٹ کا کوئی بامعنی کنٹریبیوشن ہے؟” نیز “وجود باری پر ناقابل تصور و ناقابل مشاہدہ ہونے کا سوال”)۔ لہذا اس بات کے لئے ہمیں کانٹ کا احسان مند ہونے کی ضرورت نہیں۔

علیتی دلیل دو طرح کی ہوتی ہے: دلیل لمی اور دلیل انی۔ اول الذکر میں ہم علت سے معلول کی جانب سفر کرتے ہیں جبکہ مؤخر الذکر میں معلول سے علت کی جانب۔ خدا کے بارے میں ہمارا علم دلیل “انی” پر مبنی ہے، یعنی ہم نے عالم کو دیکھا تو جان لیا کہ یہ حادث ہے، اور حدوث سے جان لیا کہ یہ کسی ارادی فعل کا اثر ہے۔ ارادہ نام ہے ترجیح قائم کرنے کا اور قیام ترجیح تبھی مفہوم ہے جب قدرت بھی متحقق ہو۔ اگر عالم میں اشیاء عدم سے وجود پزیر ہورہی ہیں تو وہ معنی بھی لازماً ثابت ہے جو عدم کو وجود بخشنے سے عبارت ہے، اسی معنی کو “قدرت” کہتے ہیں۔ جب ارادی ترجیح ثابت ہے تو علم بھی ثابت ہے کیونکہ ارادی ترجیح قصد کا نام ہے اور قصد علم کو فرض کرتا ہے۔ ارادہ، قدرت و علم، یہی فعل کی حقیقت ہیں اور جو ان سے متصف ہو اسے “فاعل مختار” کہتے ہیں۔ اور چونکہ یہ سب معنی صفات ہیں اور عقل جانتی ہے کہ صفت کا قیام بدون موصوف محال ہے، تو اگر صفت ثابت ہے تو موصوف بھی ثابت ہے۔ عقل کی رسائی بس صفات تک ہے، اس سے آگے عقل کے پاس صاحب صفات (یعنی صاحب اختیار) کی کوئی خبر نہیں کہ وہ کیسا ہے۔ امام غزالی مثال سے واضح فرماتے ہیں کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے تمہارے ہاتھ میں ایسا خط ہو جس کے مصنف کو تم نہیں جانتے اور کوئی تم سے پوچھے کہ یہ خط کس کا ہے تو تم کہہ سکتے ہو کہ یہ خط اس کا ہے جو کاتب ہے اور وہ قدرت و علم سے متصف ہے۔ ظاہر ہے اس سے خط لکھنے والے کی ذات کی حقیقت کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی۔ صفات عقل کی رسائی میں اس لئے ہیں کہ یہ عالم ان صفات کا مظہر ہے، مظہر بس وہاں تک ہی لے جاسکتا ہے جس کی وہ نشانی ہے۔ اس سے آگے نہ عقل کو راہ ہے، نہ وجدان کو اور نہ کسی الہام کو (یہی محقق صوفیا کا قول ہے کہ ذات باری الہام سے بھی نامعلوم ہے)۔ اتنا ہی نہیں بلکہ نبی کی وحی سے خبر پالینے کے بعد بھی اس ذات کی ماہیت و حقیقت ہمارے لئے نامعلوم ہے۔ اگر وحی کی خبر ہمارے حق میں اس دائرے میں پردہ کشا ہوتی جہاں عقل کی رسائی نہیں تو ہم اللہ کے “ید” و “عین” کے معنی کی تفویض نہ کررہے ہوتے، اس بات کو سمجھو۔ الغرض یہ جو بات بنالی گئی ہے کہ عقل سے تو ذات باری تک ہماری رسائی نہیں لیکن نبی کی اخبار کے ذریعے ہے، یہ خلط مبحث ہے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں