Home » کانٹ کے مذہبی متاثرین، صفات باری پر ان کے موقف کے لوازم اور لسانیاتی خلط مبحث
فلسفہ کلام

کانٹ کے مذہبی متاثرین، صفات باری پر ان کے موقف کے لوازم اور لسانیاتی خلط مبحث

کانٹ کے مذہبی متاثرین کا کہنا ہے کہ خدا کی جناب میں عقل سے گفتگو ممکن و مفہوم نہیں۔ اہل سنت کے عقیدے کے مباحث کی رو سے اس بات کا کیا مطلب بنتا ہے، آئیے اسے سمجھتے ہیں۔ متکلمین اشاعرہ و ماتریدیہ خدا کی صفات چار قسم پر بیان کرتے ہیں:

1)            ثبوتی یا مثبت، انہیں صفات ذاتیہ کہتے ہیں اور یہ سات یا آٹھ ہیں (یعنی حیات، علم، قدرت، ارادہ، سمع، بصر و کلام اور ماتریدیہ کے نزدیک آٹھویں تکوین)، اس بات میں اختلاف ہوا کہ وجود اس کی صفت نفسی ہے یا صفت ذاتی۔ پس اگر اسے صفت ذاتی کہا جائے تو صفات ذاتیہ آٹھ یا نو میں بند ہیں۔ خدا کے لئے یہ صفات عقلا ثابت و مفہوم ہیں۔

2)           سلبی یا منفی، انہیں خدا کی تنزیہی صفات کہتے ہیں اور یہ پانچ ہیں:

الف)      قدم (یعنی اس کا آغاز نہ ہونا)،

ب)         ابدیت (یعنی اس کی آخر نہ ہونا)،

ج)          مخالفة الحوادث (یعنی خدا کا حوادث سے ماوراء ہونا جس کے تحت یہ امور آتے ہیں کہ خدا کا جوھر، جسم، عرض، جہت و کیفیات سے پاک ہونا)،

د)            قیام بنفسه (یعنی خدا کا کسی کا محتاج نہ ہونا یا از خود قائم ہونا) اور

ھ)         توحید (یعنی اس کی کوئی ضد و ند نہ ہونا)

یہ تنزیہی صفات بھی عقلا ثابت و مفہوم ہیں۔

3)           نسبتی یعنی تعلقات (یا relational) ) اور اس کے تحت تمام صفات فعلیہ آجاتی ہیں جیسے خدا کا خالق ہونا، رازق ہونا، رحمن ہونا وغیرہ۔ صفات فعلیہ خدا کی صفات ذاتیہ اور مخلوقات کے مابین نسبتوں کے نام ہیں، متکلمین کے نزدیک ان نسبتوں کا از خود کوئی خارجی وجود نہیں، وجود میں صرف فاعل ہے اور مفعول ہے۔ یہ نسبتیں عقلاً صفات ثبوتیہ ہی کی بنا پر قابل فہم ہیں، یعنی اگر خدا کے قادر عالم و مرید ہونے کا معنی عقلا ثابت و مفہوم نہ ہو تو صفات فعلیہ بھی ناقابل فہم ہوں گی۔

4)           صفات خبریہ یا متشابھات، یعنی وہ صفات جو صرف سمع سے ثابت ہیں جیسے خدا کا ید (ھاتھ)، عین (آنکھ)، ساق (پنڈھلی)، اصبع (انگلی)، نزول (اترنا) وغیرہ۔ یہ سب متشابہات شمار ہوتی ہیں کیونکہ ان کے حقیقی معنی حدوث پر دلالت کرتے ہیں جن سے خدا کی تنزیہہ لازم ہے، لہذا ہم ان کے تنزیہی تقاضے بیان کرکے ان کے معنی کی خدا کی جانب تفویض کرکے خاموش ہوجاتے ہیں کہ ان کا معنی خدا کے ہاں ثابت ہیں تاہم ہمیں ان کا کوئی ادراک نہیں۔

ہمارے ان جدید حضرات کے نزدیک:

  • خدا کے لئے پہلی قسم کی صفات ثابت نہیں مانی جاسکتیں کہ اس سے ان کے مطابق تشبیہہ ہوجائے گی، لہذا ان کے معنی سے خدا کی تنزیہہ بیان کرکے ان کی بھی تفویض ہوگی۔
  • جب پہلی قسم عقلاً ثابت و مفہوم نہیں تو تیسری صفات از خود ناقابل مفہوم ہوگئیں، ان کی بھی تفویض ہوگی۔ یعنی جب خدا کے لئے ارادہ و قدرت کا مفہوم ناقابل فہم ہے تو اس کا خالق و رازق ہونا بھلا کیسے مفہوم ہوسکتا ہے؟
  • تنزیہہ اور صفات خبریہ کا تاہم یہ اقرار کرسکتے ہیں۔

الغرض ان کے نزدیک خدا کی تمام صفات ذاتیہ و فعلیہ صفات خبریہ کی قسم سے ہونی چاھئے لیکن انہیں اپنی بات کے لوازمات کا ادراک نہیں۔ اگر اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ ہمیں ان کا ادراک نبی کی خبر سے ہوگیا ہے تو یہ ایسی سطحی بات کہنا ہے کہ کہنے والے کو کہی جانے والی بات کا ادراک ہی نہیں۔ اگر نبی کی خبر سے آپ کو خدا کی ایسی صفات کے معنی کا ادراک ہوجاتا ہے جن تک عقل کی رسائی نہیں تو خدا کی صفت ید، عین و نزول وغیرہ کے معنی کا ادراک کیوں نہیں ہوجاتا جبکہ یہ بھی نبی کی خبر سے ثابت ہیں؟ اس حوالے سے یہ حضرات لسانیاتی خلط مبحث سے کام لیتے ہوئے یہ کہتے ہیں:

1)            خدا کے وجود و صفات سے متعلق امور غیر معقول ہیں مگر اسے معقول بنانے کے لئے علم کلام بنانا مطلوب ہے۔ یعنی غیر معقول کو معقول بنانا معقول ہے!

2)           خدا کے وجود و صفات سے متعلق امور تک عقل کی رسائی نہیں، البتہ وحی کے الفاظ سے وہ عقل کے لئے مفہوم ہوجاتے ہیں! لیکن یہ کہتے ہوئے یہ بھی غور نہیں کیا جارہا کہ لفظ معنی پر دلالت کیسے کرتے ہیں (یعنی لفظ سن کر جو بات ذھن میں مفہوم ہوتی ہے، لفظ ان تک کن طرق سے دلالت کرتے ہیں)؟

3)           عقل سے جس خدا کو پہچانا اس میں یہ احتمال ہے کہ وہ ناظر کے ذھنی تصورات (یعنی مقولات) کا مظہر ہو نہ کہ خارجی حقیقت (نوٹ کیجئے یہاں کانٹ بول رہا ہے)، البتہ لفظ سے جو معنی ہم سمجھیں گے اس میں ناظر کے مقولوں کا کوئی لینا دینا نہیں اور لفظ ماشاء الله سے ہمیں سیدھا حقیقت و ان ماورائی معنی تک پہنچا دیتا ہے!

یہ دوست اس پر بھی غور نہیں کررہے کہ لفظ کی معنی پر دلالت دو طرح ہے: بطریق وضع (by        way          of             stipulation) اور بطریق عقل۔ وضعی دلالت میں انسان کسی شے یا حقیقت کے لئے کوئی لفظ وضع کردیتے ہیں جیسے ایک خاص شکل و ھییت کے لئے کرسی کا لفظ بنادیا گیا اور اس لئے کرسی کا لفظ سن کر ہمارا ذھن ایک خاص ھئیت کی جانب منتقل ہوتا ہے۔ عقلی دلالت کسی شے کی کسی دوسری شے پر ذاتی دلالت کہلاتی ہے (جیسے علم عالمیت پر دلالت کرتا ہے)۔ الغرض لفظ کی معنی پر دلالت کا ایسا کوئی طریقہ نہیں کہ جہاں وضعی و عقلی دلالت ختم ہوجائے مگر لفظ وہاں بھی ہمارے لئے کوئی شے یا بات مفہوم کردے اور اسی لئے “ید الله” اور “الله کے نزول” کے کوئی حقیقی معنی مفہوم نہیں اور ان کے معنی کی تفویض ہوتی ہے۔ ہمارے یہ دوست لینگویج کے مباحث میں بھی خلط مبحث کررہے ہیں اور ان کے مطابق نبی کی جانب سے “قادر و مرید” لفظ منقول ہونے سے انہیں خدا کا قادر و مرید ہونا معقول و مفہوم ہوجاتا ہے لیکن دلیل عقلی سے ان کے معنی مفہوم نہیں ہوتے! ہم نہیں جانتے کہ لفظ سے معنی مفہوم کرانے کے ان کے پاس دو کے سوا کونسے اضافی طریقے ہیں۔ انہوں نے یہ فرض کررکھا ہے کہ غیر نبی کو نبی سے جو الفاظ منقول ہوتے ہیں، ان الفاظ سے وہ معنی انہیں اسی طرح مفہوم ہوجاتے ہیں جیسے نبی کو براہ راست وحی کے تجربے سے مفہوم ہوتے ہیں جبکہ یہ خلط مبحث ہے۔ اگر یہ اس پر یہ کہیں کہ ہم نبی کی خبر سے ان امور کے مفہوم ہونے کے مدعی نہیں بلکہ ان پر ایمان کے مدعی ہیں، تو اسی پر تو ہم آپ سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو اپنی بات کے لوازمات سمجھتے ہوئے کہنا چاھئے کہ نصوص میں مذکور خدا کی جمیع صفات میں آپ تفویض معنی کرتے ہیں اور آپ کو ان کے معنی کا کوئی ادراک نہیں (یعنی آپ کو خدا کے حی، علیم، قدیر، مرید، سمیع، بصیر، متکلم، خالق، رحمن، رزاق وغیرہ ہونے کا کوئی ادراک حاصل نہیں جیسے اس کے نزول کا کوئی ادراک حاصل نہیں)۔ اور اگر آپ یہ الفاظ سن کر کسی بھی درجے میں ان کے کسی معنی کا ادراک ہونے کے قائل ہیں تو اس کا طریقہ ہمیں سمجھا دیجئے۔

دلائل لفظیہ یا نقلیہ اپنی دلالت میں عقل کے محتاج ہیں، اس پر متکلمین اتنے صاف ذھن پر ہیں کہ امام رازی کہتے ہیں کہ ہر دلیل دو مقدمات کی صورت ڈھالی جاسکتی ہے۔ اس لحاظ سے دلیل میں تین امکان ہیں:

1)           دونوں مقدمات عقلی ہوں، ایسی دلیل مفید علم ہے

2)           دونوں میں سے ایک مقدمہ دلیل عقلی اور ایک دلیل لفظی پر قائم ہو، یہ بھی مفید علم ہے

3)           دونوں دلیل لفظی پر مبنی ہوں، یہ مفید علم نہیں کیونکہ دلیل لفظی کا اعتبار دلیل عقلی پر قائم ہوتا ہے اور اکیلی دلیل نقلی علم کا فائدہ نہیں دے سکتی (ہاں جب پہلے قدم پر دلیل عقلی سے دلیل نقلی کا اعتبار ثابت ہوجائے تو پھر دوسرے قدم پر دلیل نقلی کے دو مقدمات علم کا فائدہ دیتے ہیں)

الغرض متکلمین علمیات کے باب میں بنیادی مفروضات سے آغاز کرکے جتنی ھم آھنگی اور ترتیب سے بحث کرتے ہیں، جدید دور کے فلسفہ پڑھے ہوئے مفکرین کے ہاں ان امور کا ادراک نظر نہیں آتا۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں