دوست کا سوال ہے کہ کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ صحابہ کرام ، قرآن مجید کی تفسیر کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے؟ اور کیا ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ تابعین نے صحابہ کرام سے تفسیر قرآن میں اختلاف کیا ہو؟ اگر ایسی مثالیں ہیں تو آپ کا مقدمہ سمجھ میں آتا ہے؟ دیکھیں، جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو اس بارے امت میں اختلاف ہے۔ سلفیہ کا موقف یہی ہے کہ جسے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے شد ومد سے پیش کیا ہے کہ سلف صالحین، اللہ کی کتاب کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ لیکن اس امت میں ان سے اختلاف کرنے والے ماتریدیہ اور اشاعرۃ دوسری طرف کھڑے ہیں۔ ان کی تعبیر مختلف ہے۔ ان کی تعبیر یہ ہے کہ صحابہ کرام یا سلف صالحین کا طریقہ تفسیر “اسلم” یعنی محتاط رویے کا حامل تھا جبکہ خلف یا بعد میں آنے والوں کا طریقہ تفسیر “احکم” یعنی زیادہ محکم اور مضبوط ہے۔ اس کا معنی وہ یہ لیتے ہیں کہ آیات صفات میں صحابہ اور سلف کا منہج “تفویض” تھا کہ صفات کا کوئی معنی بیان نہیں کرنا ہے جبکہ خلف اور متاخرین کا منہج “تاویل” ہے جو کہ ماتریدیہ اور اشاعرہ دونوں کرتے ہیں۔ اور وہ اس امت کا ایک بڑا حصہ ہیں۔
یہ تو عقائد کی بات ہوئی۔ اس باب میں ہم امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے موقف کے حامل ہیں، لیکن دلیل کی بنیاد پر، نہ کہ سلف کے فہم کو حجت ماننے کی بنیاد پر۔ سلف کا فہم خود دلیل نہیں ہے بلکہ دلیل اس کے علاوہ ہے جو سلف نے بھی ایک دوسرے پر اپنے فہم کے حجت ہونے کے باب میں قائم کی ہے۔ یہی بات ہم بار بار دہرا رہے ہیں کہ جن کو حجت بنایا جا رہا ہے، خود ان سے پوچھ لیا جائے کہ وہ اپنے آپ کو حجت مانتے یا کہتے ہیں یا نہیں؟ تو سلف صالحین اپنے آپ کو نہ حجت مانتے ہیں اور نہ ہی کہتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے پر بھی دلیل کی حجت قائم کرتے ہیں اور اپنے فہم پر بھی دلیل ہی کی حجت قائم کرنے کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دلیل آ جانے کے بعد، چاہے وہ ان سے مرتبے میں چھوٹے عالم کی طرف سے کیوں نہ آئی ہو، وہ دلیل کی طرف رجوع کرتے ہیں، نہ کہ اپنے فہم کو حجت بناتے ہیں۔
عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ صحابی رسول ہیں کہ جنہوں نے یہودیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا اور تورات کے بہت بڑے عالم تھے۔ انہوں نے کہہ دیا کہ آیت مبارکہ {قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ} ترجمہ: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اللہ عزوجل میرے اور تمہارے مابین گواہ ہے اور وہ بھی کہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے، ان کے بارے نازل ہوئی ہے۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے جب اس بارے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ مکی سورت ہے، اس سے عبد اللہ بن سلام کیسے مراد ہو سکتے ہیں؟ یعنی وہ تو مدینہ میں اسلام لائے تھے۔ اسی طرح آیت مبارکہ {وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ} کے بارے بھی حضرت عبد اللہ بن سلام نے کہا کہ یہ “شاھد” یعنی گواہ میں ہوں تو تابعین میں سے حضرت مسروق نے اس کا انکار کیا کہ یہ مکی سورت ہے اور وہ مراد نہیں ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت عکرمہ اور امام شعبی نے بھی اس کا انکار کیا کہ اس سے مراد حضرت عبد اللہ بن سلام کیسے ہو سکتے ہیں بلکہ حضرت عکرمہ کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد موسی علیہ السلام ہیں کہ جنہوں نے تورات پر گواہی دی تھی۔
اسی طرح قرآن مجید کی آیت مبارکہ {وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ} ترجمہ: ہم نے آپ کو سات بار بار دہرائی جانے والی آیات اور قرآن عظیم دیا ہے، کے بارے حضرت عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عباس اور تابعین میں سے سعید بن جبیر اور مجاہد کا قول ہے کہ یہاں “سبع مثانی” سے مراد سات لمبی سورتیں یعنی سورۃ البقرۃ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، الاعراف، الانفال اور التوبہ ہیں۔ اس تفسیر کو تابعین میں سے ابو العالیہ نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ سبع طوال تو مدینہ میں نازل ہوئیں اور سورۃ الحجر کی یہ آیات مکی ہیں لہذا جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تھی تو اس وقت سبع طوال موجود ہی نہیں تھیں لہذا یہ معنی کیسے درست ہو سکتا ہے۔ علامہ شنقیطی رحمہ اللہ کا کہنا بھی یہی ہے کہ دلیل اس قول کے ساتھ کھڑی ہے کہ “سبع مثانی” سے مراد سورۃ الفاتحہ ہی ہے نہ کہ سات لمبی سورتیں۔
{وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ} ترجمہ: اور کھیتی کا حق اس کے کٹنے کے دن ادا کرو، کے بارے حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت انس، حسن، طاوس اور قتادہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد کھیتی کی زکوۃ ہے جو عشر یا نصف عشر ہوتی ہے لیکن حضرت عطا نے اس تفسیر کو ماننے سے انکار کر دیا کہ یہ مکی سورت ہے۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے بھی اس فہم کا انکار کیا اور کہا کہ یہ مکی سورت ہے، زکوۃ مراد نہیں ہے بلکہ زکوۃ نے تو اس حکم کو منسوخ کر دیا ہے۔ یہ تو ایک اصول ہے کہ جس کی چند مثالیں عرض کی گئی ہیں کہ صحابہ خود بھی اور تابعین بھی، آپس میں بھی، اور ایک دوسرے پر بھی، شان نزول کے وقت کی دلیل، یا مکی اور مدنی سورت ہونے کی دلیل، یا تقدیم وتاخیر کی دلیل، سے ایک دوسرے کے فہم کو قبول بھی کرتے تھے اور رد بھی کرتے تھے۔
اس کے علاوہ بھی کچھ اصول تھے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ صحابہ اور تابعین اسرائیلیات سے بھی نقل کر لیا کرتے تھے لہذا اس کی حجت بھی ایک دوسرے پر قائم نہیں ہونے دیتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا کہ حضرت کعب الاحبار یہ کہتے ہیں کہ سات آسمان ایک فرشتے کے کندھے پر گھوم رہے ہیں، تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس مفہوم کو جھٹلا دیا اور ساتھ میں آیت پڑھی کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولَا وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ} ترجمہ: یہ اللہ ہی ہے کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو گرنے سے تھام رکھا ہے۔ اگر وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں تو اللہ کے علاوہ کوئی اور ان کو تھامنے والا نہیں ہے۔ یعنی آیت کے ظاہری مفہوم سے اس مفہوم کا رد کر دیا جو کہ اسرائیلیات کی بنیاد پر اخذ ہو رہا تھا۔
اسی طرح ایک اور اصول بھی تھا کہ صحابہ اور تابعین ایک دوسرے پر کلام الہی کے سیاق کی دلیل کو صحیح فہم تک پہنچنے کے لیے حجت بناتے تھے۔ {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ} آیت مبارکہ کے بارے حضرت عبد اللہ بن عباس کا قول ہے کہ جان بوجھ کر حالت احرام میں شکار کرنے والے پر بھی فدیہ ہے اور جس نے غلطی سے یہ کام کیا، اس پر بھی فدیہ ہے۔ سعید بن جبیر اور عطا وغیرہ نے بھی اسی قول کی تائید کی۔ حضرت طاوس نے اس کی مخالفت کی کہ آیت میں صرف متعمدا کا ذکر ہے یعنی جس نے جانتے بوجھتے یہ کام کیا تو اس پر یہ فدیہ ہے۔ جس نے بھول چوک سے کیا تو اس پر نہیں ہے۔ یعنی انہوں نے ظاہر آیت کے مفہوم سے استدلال کیا۔ علامہ شنقیطی رحمہ اللہ نے اسی آیت کے اگلے الفاظ {لِيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ} ترجمہ: وہ اپنے کیے کی سزا چکھ لے، سے استدلال کیا ہے کہ یہ حضرت طاوس کے قول کی تائید کرتے ہیں کیونکہ جو غلطی کر رہا ہے، اس کو سزا دینے کا کوئی معنی نہیں بنتا۔
جہاں تک فقہیات کا باب ہے تو اس میں بھی اختلاف ہوا۔ مثال کے طور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ اعلم ہونا یعنی بڑا عالم ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی رائے میں صحت کا امکان زیادہ ہے جبکہ حضرات صاحبین کا کہنا یہ ہے کہ اعلم یعنی زیادہ بڑا عالم ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس کی رائے بھی صحیح ہو۔ بظاہر امام بخاری رحمہ اللہ کی بھی رائے یہی معلوم ہوتی ہے جیسا کہ ان کے باب کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ استاذ اپنے شاگردوں کا علم جاننے کے لیے ان کے سامنے سوال رکھے۔ امام بخاری اس عنوان سے ایک حدیث لائے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے صحابہ سے پوچھا کہ اس درخت کا نام بتاو کہ جس کے پتے نہیں جھڑتے اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ مومن کی مثال ہے۔ صحابہ نے کچھ صحرائی درختوں کے نام لیے لیکن وہ درست نہ تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں شرم کے مارے خاموش رہا۔ پھر صحابہ نے آپ علیہ السلام سے پوچھا تو آپ نے بتلایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت عمر نے اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمر سے کہا تھا کہ اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں جواب دیتے تو مجھے خوشی ہوتی۔
کمنت کیجے