اجماع سے مراد دور نبوت کے بعد، ایک ہی زمانے کے، تمام مجتہد علماء کا، کسی شرعی عملی مسئلے میں، اتفاق ہے۔ جمہور اہل علم اجماع کے قائل ہیں لیکن متقدمین میں سے خوارج، شیعہ اور نظامیہ نے اجماع کی دلیل کا انکار کیا ہے۔ متاخر سلفی اور اہل حدیث علماء میں سے شیخ مقبل بن ھادی الوداعی اور مولانا عبد المنان نورپوری رحمہ اللہ اجماع کی دلیل کو نہیں مانتے۔ پھر جمہور جو اجماع کی دلیل کے قائل ہیں، ان میں سے امام احمد، داود ظاہری، ابن حزم، رازی، بیضاوی اور شوکانی وغیرہ صحابہ کے علاوہ اجماع کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک صحابہ کے زمانے کے بعد یہ اجماع ناممکن الوقوع ہے کیونکہ علماء مختلف شہروں میں پھیل گئے تھے اور کسی مسئلے میں ان کی علمی رائے کو جمع کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ایک قول جو ان کے بیٹے سے روایت ہے، بہت معروف ہے کہ “من ادعی الاجماع فقد کذب” کہ جس نے اجماع کا دعوی کیا، اس نے جھوٹ بولا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے اجماع کے دعوے بشر المریسی اور اصم وغیرہ جیسے بدعتی لوگ کرتے ہیں۔ لوگ عموما اختلاف کرتے آئے ہیں، بس اتنا کہا کرو کہ مجھے اس مسئلے میں اختلاف کا علم نہیں ہے۔ امام صاحب سے بعض دوسرے اقوال بھی اجماع کی دلیل سے استدلال کے مروی ہیں لیکن ان کا معنی یہی کیا گیا ہے کہ وہ صحابہ کے اجماع کے قائل تھے جبکہ اس کے بعد اجماع کے علم کے حصول کو ناممکن جانتے تھے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اجماع کی بحث میں یہی بات کی ہے کہ اجماع ضروریات دین میں ہوتا ہے جیسا کہ پانچ نمازیں، ان کی تعداد رکعات، زکوۃ اور روزہ کے احکام، حج اور جہاد کی مشروعیت وغیرہ۔ امام شافعی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ اجماع کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی زمانے کے جمیع علماء کسی مقام پر جمع ہو کر کسی مسئلے میں اپنی رائے کا اظہار کریں گے یا کسی دور میں کسی مسئلہ کی بابت جمیع علماء کی رائے کو کوئی جمع کر پائے گا بلکہ اس کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ وہ مسئلہ اس طرح سے اصول دین میں سے ہے کہ اگر آپ کسی بھی عالم سے اس کے بارے پوچھو گے تو وہ آپ کو ایک ہی جواب دے گا۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا اجماع کے اثبات کا جو طریق کار ہے، وہ متاخرین اصولیین سے بہت مختلف ہے۔ بعد میں آنے والے شوافع میں سے امام الحرمین وغیرہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
شیخ عبد الوھاب خلاف کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ صحابہ کے دور میں بھی اجماع ہوا ہے، زیادہ سے زیادہ جو ہوا ہے، وہ مدینہ میں موجود صحابہ کی ایک جماعت کی اجتماعی رائے کا اظہار ہے۔ اسے ہم شورائی اجتہاد کا نام دے سکتے ہیں جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ کی شوری تھی۔ اور یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کا بھی عملا اجماع ناممکن الامر ہے۔ جمع قرآن وغیرہ جیسے بنیادی مسائل میں بھی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اختلاف ہو گیا۔
پھر ایک اختلاف یہ بھی ہوا کہ اہل الظاہر کے علماء اگر کسی مسئلے میں اختلاف کر لیں تو ان کے بغیر اجماع منعقد ہو جائے گا یا نہیں؟ امام جصاص، کرخی، جوینی، غزالی وغیرہ کا کہنا ہے کہ اجماع ان کے بغیر بھی منعقد ہو جائے گا۔ لیکن ابن قیم، ذہبی، شوکانی وغیرہ کا کہنا ہے کہ ان کے بغیر اجماع منعقد نہ ہو گا۔ پھر ایک اختلاف یہ ہو گیا کہ اجماع کی سند کتاب وسنت سے ہونا ضروری ہے یا قیاس بھی اجماع کی سند بن سکتا ہے۔ جمہور کا موقف یہی ہے کہ اجماع کی سند کوئی قرآنی آیت، حدیث یا قیاس ہو سکتا ہے جبکہ ابن حزم نے صرف کتاب وسنت کو اجماع کی سند قرار دیا ہے۔ اور قیاسی اجماع کی جتنی مثالیں بیان کی جاتی ہیں جیسا کہ مانعین زکوۃ اور مرتدین سے قتال وغیرہ تو اسے انتظامی مسئلے میں اجماع قرار دیا ہے۔ بعض اہل علم نے جمع مصحف ما بین الدفتین کو بھی انتظامی اجماع شمار کیا ہے۔ بعض حنفیہ نے الہام وتوفیق کو بھی اجماع کی سند قرار دیا ہے جو کہ بہر حال ایک خطرناک رجحان ہے۔
پھر اجماع کی اقسام کی حجیت میں اختلاف مروی ہے۔ حنفیہ کے نزدیک اجماع سکوتی حجت ہے۔ اجماع سکوتی یہ ہے کہ کچھ علماء نے اپنی رائے کا اظہار کر دیا، وہ رائے پھیل گئی اور بقیہ علماء نے خاموشی اختیار کر لی اور اس سے اختلاف نہیں کیا۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ اجماع حجت نہیں ہے کہ خاموشی رضامندی کی دلیل نہیں ہے۔ امام ابن حزم نے لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس سے پوچھا گیا کہ عول کے مسئلے میں آپ نے حضرت عمر کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کیوں نہیں کیا، یعنی ان کے بعد اب کیوں کر رہے ہیں، اس وقت تو آپ خاموش رہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کا رعب آڑے آ گیا تھا۔ رضی اللہ عنہما۔ بعض اہل علم نے ایک خاص علاقے یا خاندان کے علماء کے اتفاق کو اجماع کا نام دیا ہے اور دلیل مانا ہے جیسا کہ مالکیہ اہل مدینہ کا اجماع مانتے ہیں اور اہل تشیع نے اپنے ائمہ اہل بیت کا اجماع مانا ہے۔ بعض اہل علم نے حرمین کے علماء کے اتفاق کو اجماع کا نام دیا ہے۔ لیکن جمہور علماء ان اجماعات کو اجماع نہیں مانتے ہیں۔
اسی طرح اگر صحابہ میں دو قول ہوں تو کیا تیسرے قول کی گنجائش ہے۔ تو اس بارے تین اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ تیسرے قول کی گنجائش ہے، دوسرا یہ کہ نہیں ہے، تیسرا یہ کہ ان دو اقوال کی مخالفت میں تیسرے قول کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں بھی صحیح موقف یہی ہے کہ تیسرے قول کی گنجائش ہے کہ یہ اجماع نہیں ہے۔ البتہ تیسرا قول معروف اصول استدلال اور استنباط کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔ پھر ایک اختلاف یہ ہوا کہ اجماع کا تواتر سے نقل ہونا ضروری ہے یا خبر واحد سے منقول اجماع بھی حجت ہے۔ غزالی اور بعض حنفیہ کے نزدیک اجماع کا تواتر سے منقول ہونا بنیادی شرط ہے جبکہ عام طور اصولیین نے خبر واحد کے اجماع کو بھی حجت مانا ہے۔ اس کے علاوہ اجماع کی دلیل میں بیسیوں مسائل ہیں کہ جن میں اصولیین کا اختلاف مروی ہے، تفصیل کے لیے امام شوکانی کی کتاب “ارشاد الفحول” کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
ہماری رائے میں جسے اصولی اجماع کہتے ہیں کہ جس کا ذکر اصول فقہ کی کتابوں میں ہے اور اس کی تعریف سے لے کر، اس کے وقوع، ارکان اور شرائط میں بیسیوں اختلافات مروی ہیں، اس کا وقوع اور علم ناممکن الامر معاملہ ہے۔ اس امت کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی دور کے جمیع علماء نے مل بیٹھ کر کسی مسئلے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہو۔ یا کوئی رائے اتنی پھیل گئی ہو کہ اس کے بارے ہر مجتہد عالم کا فتوی سامنے آ گیا ہو اور اس کا احصاء بھی کر لیا گیا ہو۔
البتہ اجماع کی دلیل حجت ہے، لیکن اس معنی میں کہ جس معنی میں امام شافعی نے اس کو بیان کیا ہے کہ مسئلہ اتنا بنیادی ہو کہ کسی مسلمان عالم تو کجا کسی عام مسلمان کے لیے بھی اس سے اختلاف کر کے مسلمان رہنا اور کہلوانا ممکن نہ ہو جیسا کہ ختم نبوت کا مسئلہ ہے۔ یہ اجماع نص کی نقل اور روایت میں بھی ہوتا ہے اور فہم میں بھی جیسا کہ شرک، زنا، شراب، سود، جوئے، چوری، ڈکیتی وغیرہ کی حرمت اور نماز، روزہ، حج اور زکوۃ وغیرہ کی فرضیت پر اجماع امت ہے۔
کمنت کیجے