Home » منطقی صحت اور خارجی واقعیت
فلسفہ کلام

منطقی صحت اور خارجی واقعیت

جدید افکار میں سے ایک غلط خیال یہ ہے کہ منطقی صحت اور یقین (جسے logical        validity        and        certainty کہتے ہیں) کا خارجی واقعیت و یقین (extramental        existence        and        certainty) سے کوئی تعلق نہیں، منطقی صحت گویا ذہن کی قائم کردہ ایک خلا یا خالی ڈبے نما تفہیم ہے جس کا کسی واقعیت کے ساتھ تعلق نہیں یہاں تک کہ منطقی صحت پر فائز ان قضایا کی فارمز میں بذریعہ حس کوئی مواد داخل ہو تاکہ ان کے ذریعے خارجی حقائق پر کوئی حکم جاری ہوسکے۔ بدون حسی مواد یہ خالی ڈبے از خود کوئی واقعی علم نہیں دیتے اور نہ کسی حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ  “ایک جمع ایک دو ہوتے ہیں” یہ منطقی قطعیت ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ “ایک جمع ایک دو روٹیاں ہوتی ہیں”، یہ اول الذکر کی خارجی واقعیت ہے جس کا ادراک حس سے ہوتا ہے اور جب تک کسی شے کا حسی تجربہ نہ ہو تو خارجی واقعیت سے متعلق کوئی علم حاصل نہیں ہوتا۔ یہ اپنی وضع میں کانٹین دلیل ہے جسے لوجیکل پازیٹوازم کے حامی علم ضروری کے قضایا کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ یہ خیال اس مفروضے پر مبنی ہے کہ ذھن و شعور کی ساخت حقیقت کی ساخت سے الگ طور پر متعین بھی ہے اور ہمیں یہ معلوم بھی ہے۔ ظاہر ہے یہ دونوں مفروضے محل نظر ہیں۔

درست بات یہ ہے کہ منطقی قضایا کی فارمز بذات خود اس واقعیت پر مبنی ہیں کہ “شے یا ہوتی ہے اور یا نہیں ہوتی”، یعنی کوئی شے اثبات (ہونے) و نفی (نہ ہونے) سے باہر نہیں۔ استخراجی منطقی دلیل میں سب سے بنیادی ترین صورت یہ ہے:

سب الف ب ہیں

ج الف ہے

اس لئے ج ب ہے

اس کی مثال یہ ہے:

سب انسان فانی ہیں

زید انسان ہے

زید فانی ہے

یہ مثال خارجی طور پر صدق سے متصف قضایا پر مبنی ہے۔ اب یہ مثال لیجئے:

تمام کرسیاں میز ہیں

مرغی کرسی ہے

اس لئے مرغی میز ہے

منطقی حضرات کہیں گے کہ دوسری مثال اگرچہ خارجی واقعیت کے لحاظ سے غلط مقدمات پرمبنی ہے تاہم اس میں جو فارم استعمال ہوئی وہ صحت سے متصف ہے، یعنی اگر قضایا اسی طرح ہوں جیسے کہے گئے تو یہ نتیجہ نکلنا یقینی ہے (اگرچہ یہ واقعی طور پر درست نہ ہو)۔

لیکن اب یہ سوال اٹھائیے کہ دلیل کی اس ساخت کی صحت سے کیا مراد ہے؟ ذرا اس ساخت کی یہ صورت ملاحظہ کیجئے:

سب الف ب ہیں

ج الف ہے

اس لئے ج ب نہیں ہے

منطقی حضرات کہیں گے کہ یہ فارم صحت سے متصف نہیں کیونکہ اگر دونوں قضایا درست ہوں تو ان سے یہ نتیجہ قطعاً اخذ نہیں ہوسکتا۔ کیوں اخذ نہیں ہوسکتا؟ اس لئے کہ پہلے قضئے نے ہر اس شے پر ب کے ثبوت (یعنی “ہونے”) کا حکم جاری کیا جو الف ہو۔ تو اگر ج بھی الف ہے تو پہلے قضئے کی رو سے اس پر ب کے ثابت (یعنی “ہونے”) کا حکم لاگو ہوتا ہے جبکہ نتیجہ کہہ رہا ہے کہ ج کے لئے ب ثابت نہیں اور یہ تضاد ہے۔ تضاد کیوں ہوا؟ اس لئے کہ آپ نے بیک وقت ج پر ب کے ثبوت و نفی کا حکم دائر کردیا جبکہ اصول یہ ہے کہ “شے یا ہوتی ہے اور یا نہیں ہوتی”، یہ دونوں احکام جمع نہیں ہوسکتے کہ یہ جمع بین النقیضین ہے۔ معلوم ہوا کہ جسے منطقی صحت کہا جاتا ہے وہ اس حقیقت سے ہم آھنگی کا نام ہے کہ “شے یا ہوتی ہے اور یا نہیں ہوتی”۔ یہ بنیادی ترین قضیہ ذھن کی تفہیمی ساخت کے بارے میں نہیں بلکہ شے (چاہے وہ جو بھی ہو) کے بارے میں اور اس پر لاگو حقیقت کا بیان ہے۔ کسی شے میں ہونا و نہ ہونا دونوں باتیں نہ جمع ہوسکتی ہیں اور نہ ہی اس سے مرتفع ہوسکتی ہیں اور یہ ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی شے و وجود نہ ماوراء ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ “شے یا ہوتی ہے اور یا نہیں ہوتی” اصلاً یہ وجود و حقیقت سے متعلق ہے نہ کہ شعور سے، یہ حقیقت شعور پر بطور قضیہ طاری ہے اور یہ قضیہ زبانوں پر بطور proposition جاری ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ عقل کا مطلب ایسا ملکہ ہے جس سے حقائق کا ادراک ہوتا ہے تو اس عرفان میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ “شے یا ہوتی ہے اور یا نہیں ہوتی”۔  چنانچہ منطقی صحت کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں کہ یہ اس واقعیت کے مطابق ہیں اور یہی مطابقت انہیں صحت سے سرفراز کرتی ہے۔ الغرض یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ منطقی صحت علی الرغم ہر قسم کی واقعیت ثابت و متحقق ہے۔

منطقی صحت یا واقعیت اور خارجی واقعیت پر گفتگو کے تناظر میں شکل اول ہی ایک اور صورت لیجئے:

سب الف ب ہیں

سب ب ج ہیں

اس لئے سب الف ج ہیں

اس کی مثال یوں ہے:

سب نبیذ مسکر ہیں

سب مسکر حرام ہیں

اس لئے سب نبیذ حرام ہیں

یہ ساخت کیوں نتیجہ خیز ہے؟ اس لئے کہ مفروضہ یہ ہے کہ صفت پر لگایا جانے والا حکم موصوف کے لئے بھی ثابت ہوتا ہے۔ یہاں پہلے مقدمے میں مسکر ہونا نبیذ کی صفت ہے، پھر دوسرے مقدمے میں مسکر پر حرمت کا حکم لگایا، یوں صفت (مسکر) پر لگایا جانے والا حکم (حرمت) نتیجے میں موصوف (نبیذ) پر لاگو کردیا گیا۔ اس ساخت سے برآمد ہونے والا یہ نتیجہ اس بنا پر “منطقی صحت” سے متصف ہے کیونکہ ہمیں حقیقت کی ساخت سے متعلق یہ یقین حاصل ہے کہ صفت موصوف کے بغیر نہیں ہوتی لہذا صفت کے لئے ثابت حکم موصوف کے لئے بھی ثابت ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی اس حقیقت ہی کو نہیں مانتا تو اس کے لئے درج بالا ساخت کی صحت کا کوئی معنی نہیں ہوسکتا کیونکہ اس ساخت کی صحت کا مطلب ہی اس حقیقت کو ماننا ہے۔ یہاں بھی واضح ہے کہ یہ منطقی ساخت حقیقت کی ساخت کی مظہر ہے۔

خدا کا نازل کردہ کلام بھی ان حقائق سے متعلق یہ فرض کرتے ہوئے گفتگو کرتا کرتا ہے کہ مخاطب ان حقائق و اصولوں سے واقف ہے، بصورت دیگر الفاظ قرآنی کی دلالت بھی جاتی رہے گی۔ ایک مثال لیجئے۔ نصاری کا کہنا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام الہ تھے۔ قرآن نے اس پر یوں تبصرہ کیا:

مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ

یعنی مریم کے بیٹے مسیح علیہ السلام رسول تھے، ان سے قبل بھی رسول گزرے، اور ان کی والدہ صدیقہ تھیں

امام رازی کہتے ہیں کہ یہاں حضرت مسیح علیہ السلام کی الوھیت کے دعوے کی تردید کے لئے یہ دلیل لائی گئی کہ آپ کی والدہ تھیں، دلیل کا بیان یوں ہے:

مقدمہ 1:   كُلَّ مَنْ كَانَ لَهُ أُمٌّ فَقَدْ حَدَثَ بَعْدَ أَنْ لَمْ يَكُنْ (جو ماں سے جنا ہو اسے نہ ہونے سے ہونا یعنی حدوث لاحق ہوا)

مقدمہ 2: وَكُلُّ مَنْ كَانَ كَذَلِكَ كَانَ مَخْلُوقًا (جسے نہ ہونے سے ہونا لاحق ہو یعنی جو حادث ہو وہ مخلوق ہوتا ہے)

نتیجہ:  جوماں سے جنا ہو وہ مخلوق ہوتا ہے

یہاں موصوف ” جو ماں سے جنا ہو” ہے جس کی صفت ” حدوث” لائی گئی، پھر اس صفت پر “مخلوق ہونے” کا حکم لاگو ہوا، یوں نتیجے میں موصوف پر یہی حکم لاگو ہوا۔ اب دیکھئے کہ قرآن نے اس کو اس طرح بیان کیا: عیسی علیہ السلام کی والدہ تھیں۔ یعنی قرآن نے اس نتیجے کی ایک فرع یا جزئی کو بیان کردیا ہے جس کے پس پشت مقدمات قاری تلاش کرسکتا ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب قاری اس بدیہی حقیقت کو درست مانے کہ صفت موصوف کے بغیر نہیں ہوتی، جس کے لیے یہ حقیقت ہی ثابت نہیں اس کے لئے قرآن کے اس بیان میں حضرت مسیح علیہ السلام کی الوھیت کی تردید کا کوئی بیان نہیں ہوسکتا۔

یاد رکھنا چاھئے کہ شعور کی تفہیمی ساختیں اگر کسی واقعیت کی ساخت سے متعلق نہ ہوں تو ان کی مدد سے حس سے آنے والے مواد پر بھی ہم ایسا کوئی حکم جاری نہیں کرسکتے جو خارج میں فی الواقع حقیقت ہو۔ یعنی اگر “شے یا ہوتی ہے اور یا نہیں ہوتی” حقیقت سے متعلق نہیں تو درج بالا منطقی فارم کی صحت کا کوئی اعتبار نہیں اور اگر اس کا کوئی اعتبار نہیں تو ان سے گزرنے والے مواد کی خارجی واقعیت کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے ذھن کی ساخت و حقیقت میں دوئی کی بات کی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں شے فی نفسہ (یعنی خارجی واقعیت) کا کوئی علم نہیں ہوتا، تجربے کے عمل میں ہم صرف ذھن میں جھانک کر اس کی ساخت کی تصدیق کرتے ہیں۔ شعور کی ساختوں کا حقیقت پر مبنی ہونا ہی یہ گارنٹی فراہم کرتا ہے کہ بذریعہ حس حاصل مواد پر آپ جس واقعیت کا اطلاق کررہے ہیں وہ خارجی واقعیت ہی سے متعلق ہے۔ الغرض خارجی واقعیت کے ادراک کے لئے صرف حسی مواد کا واقعی ہونا کافی نہیں بلکہ ان منطقی فارمز کا واقعی ہونا بھی ضروری ہےجن کی مدد سے حسی مواد پر حکم لگایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں