اہلِ مغرب نے سوویت روس کے بکھر جانے کے بعد عموماً اور نائن الیون کے بعد خصوصاً ”اسلامی خطرہ“ جس طرح گھڑا اور پھر اس کی ”علمی بنیادوں“ پر مقالے اور کتب لکھ کر ایک پورا بیانیہ گھڑا، اس بیانیے کا ایک اہم جزو یہ ہے کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کو مطعون کیا جائے اور انھیں ذمہ دار ٹھہرایا جائے کہ مسلمانوں کے ہاں تشدد اور انتہا پسندی ان کی وجہ سے آئی ہے۔اس بیانیے کی رو سے بیسویں صدی میں اس کام کےلیے ذمہ دار مولانا مودودی قرار پائے۔
استادِ محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ کے مقالے میں جب ان دو عظیم شخصیات پر بات کی گئی، تو دیگر کئی اسباب میں ایک سبب یہ بھی تھا۔ اس مقالے اور اس میں پیش کی گئی آرا پر کسی اور وقت بات کریں گے، ان شاء اللہ، لیکن سردست یہ نوٹ کرلیں کہ امام ابن تیمیہ کی طرف اس بے ہودہ الزام کی نسبت کی حقیقت کیا ہے؟ کل بعض دوستوں نے ایک پوسٹ شیئر کی تو ضروری محسوس ہوا کہ ریکارڈ کی درستی کےلیے کچھ حقائق ذکر کیے جائیں۔
”جہاد، مزاحمت اور بغاوت“ کے عنوان سے میری کتاب پہلی دفعہ 2008ء میں شائع ہوئی۔ اس پر کئی اہلِ علم نے راے دی، تبصرہ کیا اور تجاویز دیں۔ اس کتاب میں ایک بحث جہاد کی علت کے متعلق تھی۔ احناف کا موقف تو معلوم ہے کہ ان کے نزدیک جہاد کی علت محاربہ ہے، لیکن میں نے کتاب میں امام ابن تیمیہ کے رسالۂ قتال سے استدلال کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کا موقف بھی یہی تھا۔ اس پر ہندوستان سے جناب مولانا یحی نعمانی نے تبصرہ کرتے ہوئے اس رسالے کی امام ابن تیمیہ کی طرف نسبت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ چنانچہ میں نے 2012ء میں کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں اس پر کچھ تفصیل دی۔ وہ تفصیل یہاں پیشِ خدمت ہے۔ امید ہے کہ اس سے واضح ہوجائے گا کہ امام ابن تیمیہ کے ساتھ اہلِ مغرب اور ان کے اندھے مقلدین کتنا بڑا ظلم کررہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب مولانا یحی نعمانی مد ظلہ نے ایک مکتوب میں ، جو برادر محترم جناب عمار خان ناصر کی وساطت سے مجھ تک پہنچا ، اس بات سے اتفاق کے باوجود کہ قتال کی علت محاربہ ہے ، نہ کہ کفر یا شوکت ِ کفر ، اس راے کا اظہار کیا ہے کہ امام ابن تیمیہ کی طرف رسالۃ القتال کی نسبت صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلے میں چند باتوں کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے:
اولاً : رسالۃ القتال کی امام ابن تیمیہ کی طرف نسبت کی صحت یا عدم ِ صحت سے مسئلۂ زیر بحث پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ قتال کی علت کے متعلق جمہور فقہاے امت کایہ مذہب فقہ اسلامی کی ہر معتبر کتاب میں اور خود امام ابن تیمیہ کی دیگر کتب میں موجود ہے ۔ مثال کے طور پر امام ابن تیمیہ اپنی معروف کتاب ”النبوات“ میں کہتے ہیں:
الکفار انما یقاتلون بشرط الحراب، کما ذھب الیہ جمھور العلماء، وکما دل علیہ الکتاب والسنۃ ، کما ھو مبسوط فی موضعہ ۔
’’کفار سے قتال تب کیا جائے گا جب وہ جنگ کریں، جیسا کہ جمہور علماء کا مذہب ہے اور جیسا کہ اس پر کتاب وسنت کے دلائل موجود ہیں جن کی تفصیل اپنے مقام پر کی گئی ہے۔‘‘
ثانیاً: امام ابن تیمیہ کے شاگرد رشید امام ابن القیم نے بھی اس راے کا اظہار متعدد دیگر مقامات پر کیا ہے ۔ مثلاً ”أحکام أھل الذمۃ“ میں فرماتے ہیں:
القتل انما وجب فی مقابلۃ الحراب، لا فی مقابلہ الکفر، ولذلک لا یقتل النساء، ولا الصبیان، و لاالزمنی، والعمیان، ولا الرھبان الذین لا یقاتلون، بل نقاتل من حاربنا۔
’’قتل، قتال کے مقابلے میں واجب ہوا ہے نہ کہ کفر کے مقابلے میں۔ اسی لیے (جنگ میں) عورتوں، بچوں، اپاہجوں، اندھوں اور راہبوں میں سے کسی کو قتل نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ جنگ نہیں کرتے، بلکہ ہم انھی کو قتل کرتے ہیں جو ہمارے ساتھ جنگ کریں۔‘‘
اسی مفہوم کی عبارات ابن القیم کی ”ھدایۃ الحیاری فی أجوبۃ الیھود والنصاری“ اور ”زاد المعاد فی ھدی خیر العباد“ میں بھی ملتی ہیں ۔
ثانیاً : رسالۃ القتال کی عبارات میں کوئی ایسی بات موجود نہیں ہے جو امام ابن تیمیہ کی تالیفات میں کسی دوسرے مقام پر مذکور نہ ہو ۔ اس سلسلے میں تفصیل کے لیے اس رسالے کا محقق نسخہ دیکھنا مناسب ہوگا جس میں صاحب تحقیق جناب ڈاکٹر عبد العزیز بن عبد اللہ آل حمد نے نہایت دقت اور تفصیل سے ایک ایک عبارت کا موازنہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ رسالہ ابن تیمیہ ہی کے افکار اور اقوال پر مبنی ہے ۔ ان کی حتمی رائے یہ ہے کہ اس رسالے میں ابن تیمیہ کی آرا ان کی مختلف تصانیف سے اکٹھی کی گئی ہیں اور اسی لیے اسے ــ’’ قاعدۃ مختصرۃ ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے لیکن اختصار کرنے والے نے دقت اور امانت کے ساتھ ہی یہ کام کیا ہے ۔ صاحب تحقیق نے تمام عبارات کے موازنے کے لیے حواشی میں امام ابن تیمیہ کی دیگر تصانیف کے حوالے دیے ہیں:
و وجدت بعد التتبع و الاستقراء أن ھذہ الرسالۃ المختصرۃ مطابقۃ تماماً لرأی شیخ الاسلام فی مصنفاتہ الاخری، مما یعنی أنھا مقتبسۃ تماماً من أصل کتاب شیخ الاسلام فی ھذا الموضوع۔ و مما یعنی أیضاً أن المختصِر قد التزم الدقۃ و الأمانۃ فی نقل ما نقلہ دون تحریف، و ھذہ النقول تجد أنھا فعلاً من کلام شیخ الاسلام فی مصنفاتہ الأخری، و یستطیع القاریٔ الکریم ملاحظۃ ذلک من خلال ما یراہ من تعلیقات علقتھا فی ھامش تحقیق ھذہ الرسالۃ المختصرۃ ۔
”تتبع اور استقرا کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ مختصر رسالہ شیخ الاسلام کی دیگر کتب میں پیش کی گئی راے سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پورا رسالہ اس موضوع پر شیخ الاسلام ہی کی کتاب سے ماخوذ ہے؛ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اختصار کرنے والے نے نقل کرتے ہوئے دقت اور امانت کا التزام کیا ہے اور کوئی تحریف نہیں کی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ نقول شیخ الاسلام کی دیگر کتب میں موجود کلام سے لی گئی ہیں، اور اس رسالے کے حاشیے پر دی گئی تعلیقات میں پڑھنے والا خود یہ ملاحظہ کرسکتا ہے۔“
کمنت کیجے