کونسا عالم کس سے بڑا ہے اور کسے کس جہت سے کس پر فضیلت ہے، ان آراء میں انفرادی لگاؤ کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ آج کل بعض علماء کے بعض سے موازنے کی باتیں چل رہی ہیں، برادر سید متین صاحب نے کل ایک تحریر میں بعض محققین کی ایسی آراء کا ذکر کیا جس میں امام رازی (م 606 ھ) کو بعض جہتوں سے امام ابن تیمیہ (م 728 ھ) پر فوقیت دینے کی بات کی گئی ہے، اس پر بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ امام ابن تیمیہ کو دینی علوم سمیت عقلیات میں بھی امام غزالی (م 505 ھ) و امام رازی پر فوقیت حاصل ہے۔ اس رائے کے لئے علامہ شبلی صاحب اور اسی طرح بعض دیگر علماء اور معاصر محققین کے اقوال بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ معاصرین میں شیخ اکرم ندوی صاحب کا ایک کلپ سنا تھا جس میں وہ کہتے ہیں کہ شیخ ابن تیمیہ نے یونانی منطق کا جو رد لکھا ہے اسے دیکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ امام غزالی وغیرہ کا کام ان کے سامنے ہیچ ہے۔
کسی کی دل آزاری مقصود نہیں اور نہ یہ کہنا کہ کون کس سے بڑا عالم ہے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ عقلیات میں شیخ ابن تیمیہ کے کنٹری بیوشن کو جس طرح ان لوگوں نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے وہ مبالغہ آرائی ہے۔ شیخ کی کتاب “الرد علی المنطقیین” ہو یا “درء تعارض”، عقلیات کے ضمن میں ان میں کوئی بڑا اضافہ نہیں کیا گیا۔ جو بھی شخص اسلامی تاریخ میں ھسٹری آف آئیڈیاز کو پیچھے سے دیکھتا ہوا شیخ ابن تیمیہ تک پہنچتا ہے وہ جان لیتا ہے کہ شیخ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے میسر آپشنز و تنقیدات کو عقلیات کی بحثوں میں حنبلی منھج کے دفاع کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اور بس، علی الرغم اس سے کہ وہ اس میں کتنے کامیاب ہوئے اس کاوش کے پہلو سے وہ واقعی ایک نابغہ شخصیت تھے۔ منطق پر نقد کرتے ہوئے “تصور اور تعریف” کے طریقے پر جو اعتراضات وہ کرتے ہیں، یہ نقد سھروردی مقتول (م 594 ھ) اور ان کی اشراقی روایت نے صوفی منھج علم کی فوقیت ثابت کرنے کے لئے ڈویلپ کیا تھا، برھان یا استخراجی منطق کے خلاف ان کے دلائل میں کوئی خاص نیا پہلو نہیں، ایسی باتیں امام رازی وغیرہ کی کتب میں اور ناقدین کے اعتراضات وغیرہ کے ضمن میں مذکور ہیں، برھان پر متعدد غیر متعلق اعتراضات وارد کئے گئے ہیں۔ اسی طرح صوفیا کے وجودی موقف کے خلاف ان کی جانب سے یہ موقف لینا کہ کلی کا خارجی وجود نہیں ہوتا، یہ بھی اشعری متکلمین کے ہاں پیچھے سے چلے آنا والا معروف موقف ہے، عالم کے قدم نوعی کو ثابت کرنے اور حدوث عالم پر متکلمین کے موقف کے خلاف وہ جتنے عقلی دلائل لاتے ہیں، وہ سب دلائل قدم عالم کے قائلین مسلم فلاسفہ سے مستعار ہیں جن پر قیل و قال امام رازی اور علامہ آمدی (م 631 ھ) کی کتب میں شرح و بسط سے موجود ہے۔ اسی طرح کتاب “درء تعارض” میں امام غزالی و رازی کے خلاف “قانون کلی” کے ضمن میں اگرچہ چارج شیٹ تو بہت خوب تیار کی گئی ہے اور دلائل دینے میں طوالت بھی خوب برتی گئی ہے، لیکن تجزیہ کرنے پر معلوم ہوجاتا ہے کہ پیالی میں طوفان برپا کیا گیا ہے اور ان اشعری متکلمین کے موقف پر جاندار نقد پیش نہیں کیا جاسکا، بلکہ یا وہی بات الفاظ بدل کر کہی گئی ہے اور یا ایک متضاد جوابی موقف تیار کردیا گیا ہے۔ شیخ سامنے والے کے موقف کے خود سے لوازمات مقرر کرکے بحث کو خوب طویل کردیتے ہیں لیکن اس کا حاصل جمع کچھ نہیں ہوتا۔ الغرض مولانا شبلی ہوں یا اسی طرز کے دیگر محققین، ان کی ایسی مبالغہ انگیزانہ باتوں پر حیرانی ہوتی ہے۔
کمنت کیجے