Home » فلسفیوں کا تصورِِ خدا
شخصیات وافکار فلسفہ

فلسفیوں کا تصورِِ خدا

عمران شاہد بھنڈر

ہم نے جب فلسفہ پڑھنا شروع کیا تو لفظ ”خدا“ سے اکثر واسطہ پڑتا تھا۔ ذہن میں یہ خیال بار بار ابھرتا تھا کہ ہم تو سنتے آئے ہیں کہ فلسفی خدا پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کو پڑھنے سے انسان ’ملحد‘ ہو جاتا ہے، لیکن یہاں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ یہ بات فلسفہ پڑھنے کے بارہ برس بعد سمجھ میں آئی کہ فلسفیوں کی اس لفظ (خدا) سے کیا مراد ہے۔ یہ بات سمجھ میں آنے کے بعد یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا تھا کہ اگر الٰہیاتی خدا موجود ہے اور فلسفی اسی پر یقین رکھتے ہیں تو پھر الگ سے ایک تصورِ خدا تشکیل دینے کی ضرورت کیا ہے؟ پھر سوچا کہ شاید فلسفی تصورِ خدا کو عقلی سطح پر سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ خدا کی ”موجودگی“ کو سمجھنا الگ معاملہ ہے، لیکن خدا کی موجودگی (مادی) تو ثابت نہیں ہے، صرف ایک ’تصور‘ باقی رہتا ہے، اور جب موجودگی نہیں تو تصور کا کوئی ’مشمول‘ نہیں ہو سکتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فلسفی جس خدا کو عقلی طور پر سمجھتے ہیں وہ الٰہیات کا خدا نہیں ہے، بلکہ ”وجودیاتی“ اور ”کونیاتی“ سطح پر قائم ہوا ایک ’تصور‘ ہے۔ اس قضیے کے ذہن میں ابھرنے سے پیچیدگی اور الجھاؤ میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ صرف ایک تصور کو جاننے کا دعویٰ کیا جائے، جس کا کوئی مشمول ہی نہیں ہے۔ ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ ہر عظیم فلسفی اس تصور کی ناگزیریت کے تحت اپنے فلسفیانہ نظام میں جو جگہ خالی کرتا ہے، اسے اسی تصور سے پُر کرتا ہے۔ لہذا خدا کا تصور دراصل کسی بھی عظیم فلسفی کے فلسفیانہ نظام میں ایک تصور سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ جب کہ الٰہیات میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ الٰہیات میں سارا فکری و عملی نظام خدا کے گرد گردش کرتا ہے۔ وہ سینکڑوں شخصی صفات کا حامل ایک “وجود” ہے۔ وہ محض ایک تصور نہیں بلکہ کائنات اور انسان کے وجود، اس کی بقا، اس کی اخلاقیات کی ناگزیر شرط ہے۔ مختصر یوں کہہ سکتے ہیں کہ الٰہیاتی خدا تمام انسانی صفات کا حامل ایک شخصی اور ذاتی خدا ہے۔
عمانوئیل کانٹ کہتا ہے کہ وہ خدا پر پختہ یقین رکھتا ہے، لیکن اس کے فکری نظام میں خدا کا سرے سے کوئی کردار نہیں ہے۔ اس کی اخلاقیات میں ’وحی‘ کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے اخلاقی نظام میں عمل عقل سے متعین ہوتا ہے نہ کہ وحی سے! کیا کانٹ کا خدا الٰہیاتی ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ الٰہیاتی خدا صرف ایک لفظ نہیں ہے بلکہ انسانوں کے لیے ایک”مکمل نظامِ حیات“ اور اخلاقیات کا ”خالق“ اور جواز ہے جس نے انسان کو ”آزمائش“ کے لیے پیدا کیا ہے۔ کیا فلسفی ایسے خدا کو تسلیم کرتے ہیں؟ جواب نفی میں ہے۔ کانٹ لکھتا ہے کہ عقلی اخلاقیات کی تشکیل اور اس کی پیروی میں انسان خود میں اور خود کے لیے ہے اور اسے کوئی بھی خدا اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ اس سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ فلسفیوں کے فلسفیانہ نظام کی تشکیل میں خدا کا لفظ محض ایک ”اصطلاح“ کی حیثیت رکھتا ہے جو کسی بھی مذہبی ضرورت کو پورا نہیں کرتا بلکہ علمیاتی، اخلاقی اور منطقی تصور کے طور پر پیدا ہوتا ہے۔ خدا کی جگہ کوئی بھی نام استعمال کر لیا جائے تو کسی بھی فلسفیانہ و منطقی نظام کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں خدا کا لفظ صرف مذہبی ذہن کی تسکین کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ فلسفیوں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ مکمل طور پر اس لفظ سے نجات حاصل کر لیں۔
خدا سے متعلق جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہر فلسفی اپنا ایک الگ تصورِ خدا رکھتا ہے۔ اگر ایک فلسفی کسی دوسرے فلسفی کے تصورِ خدا پر تنقید کرتا ہے تو دراصل وہ اس کے تصورِ خدا میں موجود منطقی قباحت کی نشاندہی کرتا ہے۔ یعنی وہ یہ واضح کرتا ہے کہ جو نظام فلسفہ اس نے تشکیل دیا ہے اسے ایسا نہیں بلکہ ویسا ہونا چاہیے، کیونکہ اسی طرح اس میں موجود منطقی نقائص کو دور کیا جا سکتا ہے۔ کانٹ کے فلسفے میں یہ تصورِ خدا ایک ”غیر مشروط“ مطلق ہے جو نہ تجربے میں ظاہر ہوتا ہے اور نہ عقل ہی اس کا احاطہ کر سکتی ہے۔ وہ نہ فکری نظام کی تشکیل میں معاون ہے، نہ ہی اس پر اخلاقیات کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اخلاقیات کی بنیاد عقل پر ہے اور عقل یونیورسل ہے، یعنی ایک ایسی صلاحیت جو تمام انسانوں میں یکساں طور پر موجود ہے۔ یوہان فختے، کانٹ کے تصورِ خدا سے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے یہ مقدمہ پیش کرتا ہے کہ کانٹ کی ”شے فی الذات“ محض ایک واہمہ ہے اور اگر عمومی تجربے (حسی) کے علاوہ عقل کے داخلی تجربے پر انحصار کیا جائے تو ”شے فی الذات“ کا التباس ختم ہو جاتا ہے۔ فختے ایک نئی اصطلاح متعارف کرواتے ہوئے اس کو ”مطلق خودی“ کا نام دیتا ہے۔ ایک ایسی “مطلق خودی” جو تمام متناہی خودیوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اس طرح فختے خدا کا ایک الگ تصور پیش کرتا ہے۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ فختے خدا کے تصور کو ”اخلاقی نظم“ (Moral order) سے تعبیر کرتا ہے۔ تاہم یہ ”اخلاقی نظم“ الٰہیاتی معنوں میں نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ”عقلی نظم“ ہے جو اخلاقی عمل کی نوعیت کا تعین کرتا ہے۔ فختے کہتا ہے کہ صرف وہی مذہبی عمل اخلاقی کہلا سکتا ہے جو عقل سے تشکیل پائے ہوئے ”اخلاقی نظم“ کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ یعنی الٰہیاتی خدا کو عقلی معیار پر اپنی صداقت کو ثابت کرنا ہے۔ فختے نے جب یہ فلسفہ پیش کیا تو اس پر الحاد کا فتویٰ لگا اور اسے یونیورسٹی سے بے دخل کر دیا گیا۔
فلسفی جب اپنے عظیم فکری نظام میں تصورِ خدا کے لیے ایک جگہ کا تعین کر لیتا ہے تو اس سے ماورا ہو کر یعنی الٰہیاتی سطح پر اس کے لیے الگ سے ایک تصورِ خدا تشکیل دینا ممکن نہیں ہوتا۔بالخصوص ان فلسفیوں کے لیے جو اپنا الگ اخلاقی نظام تشکیل دے چکے ہوتے ہیں۔ فلسفیوں کے ہاں الٰہیاتی خدا کی حقیقی نفی ان کے نظامِ اخلاق میں ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میں خدا فاعل نہیں بلکہ مجہول رہتا ہے۔جب فلسفی عقلی سطح پر خدا کا اثبات کر لیتا ہے تو اس پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس کی عقل ناقابلِ خطا ہے۔ اگر خدا کے مقام کا عقلی تعین کرنے کے بعد وہ کسی بھی سطح پر خدا کو فوقیت دیتا ہے اور دوبارہ الٰہیاتی خدا کی جانب رجوع کرتا ہے تو اس کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کا عقل سے متعین کردہ خدا کا تصور ناقص ہے۔ لہذا ایک ناقص تصور پر اخلاقیات کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ فلسفی کبھی بھی واپس الٰہیاتی خدا کی جانب نہیں لوٹتا۔ فرانسیسی فلسفی رینی ڈیکارٹ کو یقین ہو گیا تھا کہ جب تک علمیات کے لیے ریاضی اور جیومیٹری کی طرح ٹھوس بنیاد حاصل نہ کر لی جائے اس وقت تک فلسفے کی الگ اور جداگانہ حیثیت کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ اگر خدا کامل ہے، جیسا کہ ڈیکارٹ نے واضح کیا، تو وہ عقل جو خدا کے بارے میں یہ ثابت کرتی ہے، وہ ناقص نہیں ہو سکتی۔ چونکہ انسان کو وہ عقل خدا نے دی ہے اور وہ ’کامل‘ ہے تو لازم ہے کہ عقل پر اعتبار کیا جائے۔ ان معنوں میں ’وحی‘ کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ انسانی عقل خود یہ طے کرے کہ کیا انسان کے لیے اس دنیا میں کوئی ’امتحان‘ ہے؟ اگر عقل نقائص سے ماورا ہے تو وہ اس’حقیقت‘ تک لازماََ پہنچے گی۔ عقل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک غیر عقلی (وحی) شے کو عقل پر مسلط کرنے سے جو تضاد پیدا ہوتا ہے وہ ناقابلِ تحلیل ہے۔
ڈیکارٹ کا عظیم کارنامہ یہی تھا کہ اس نے ”علم الکلام“ کو ہمیشہ کے لیے مسمار کر دیا اور فلسفے کی برتری کے لیے ایک خود مختار اور عقلی جواز تلاش کر لیا۔ ڈیکارٹ کی تحقیق میں عقل پر کوئی بھی مفروضہ خارج سے مسلط نہیں کیا جاتا، بلکہ عقل خود یہ طے کرتی ہے کہ اس کی ضرورت کیا ہے اور اس کی تکمیل اس کی اپنی خود رو حرکت کی پیروی سے ممکن ہو سکتی ہے۔ جب ایک بار عقل یہ تعین کر لیتی ہے کہ وہ نقائص سے ماورا کسی خدا کا تعین کر چکی ہے تو عقل میں اس کی اپنی برتری کی وجہ بھی دریافت ہو جاتی ہے۔ بعد ازاں یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ عقل خود سے باہر یا ماورا کسی وجہ کا تعین کرے۔ جہاں تک وحی کا معاملہ ہے تو وہ صرف ایک ’کامل‘ خدا پر ’ایمان‘ لانے کا تقاضا کرتی ہے۔ لیکن وحی خدا کی کاملیت کو منطقی طور پر ثابت نہیں کر سکتی۔ وجہ یہ کہ یہ عمل وحی کا احاطہ ادراک سے ماورا خالص عقل کی فعلیت ہے۔ عقل جب اپنی داخلی حرکت اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے تصورات کی تشکیل کرتی ہے، تو اس دوران اگر اغلاط رونما ہوں ان کی تصحیح کرتی ہے، جہاں منطقی روابط مفقود ہوں ان کو دریافت کرتی ہے، اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ وحی کی بالادستی کو تسلیم کرے۔ عقل کو خدا کا جو تصور الٰہیات سے دستیاب ہوتا ہے وہ عقل کے لیے سرے سے کوئی مثبت تصور نہیں ہوتا۔ وہ بس ایک ’خالی‘ تصور ہوتا ہے۔ خدا کے تصور میں منطقی روابط دریافت کرنے کا تمام عمل عقل کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ عقل پہلے سے موجود کسی تصور کی پیروی نہیں کرتی بلکہ ایک ’خالی‘ تصور کو خود سے ماخوذ تصورات یا مقولات سے بھرتی ہے۔ اس عمل کی سب سے اعلیٰ مثال عظیم جرمن فلسفی فریڈرک ہیگل کے فلسفے میں ملتی ہے۔ ہیگل یہ نہیں دُہراتا کہ خدا کیا ہے، بلکہ وہ بتاتا ہے کہ ایک تصور کی تشکیل کے دوران جو اوصاف مکشوف ہوتے ہیں ان میں مادے اور سپرٹ کے اوصاف نہ صرف ایک دوسرے سے مختلف ہیں بلکہ انہیں منطقی طور پر الگ کیا جا سکتا ہے اور سپرٹ کے اوصاف اپنی کُلیت میں خدا کہلائے جا سکتے ہیں۔ وہ اپنے اسی اصول کی پیروی میں دیگر فلسفیوں پر تنقید کرتا ہے۔ اس کی تنقید یہ بتاتی ہے کہ خدا کا تصور اور اس سے منسوب خد و خال پہلے سے متعین نہیں ہیں، بلکہ ایک مخصوص عمل کے دوران خود کو منکشف کرتے ہیں، جنہیں مادی اور روحانی سطح پر ایک دوسرے سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ سپائینوزا کہتا ہے کہ خدا سے اس کی مراد مطلق طور پر لامتناہی ”جوہر“ ہے جو لامتناہی اوصاف (Attributes) پر مشتمل ہے اور ہر ’صفت‘ ابدی اور لامتناہی ماہیت کی حامل ہے۔ ”اوصاف“ سے اس کی مراد ”جوہر“ کی ماہیت کی تشکیل کرنے والے عوامل ہیں جن کو صرف عقل سمجھ سکتی ہے۔ سپائینوزا نے بھی کانٹ، فختے، ڈیکارٹ اور ہیگل کی مانند اپنا الگ اخلاقی نظام پیش کیا۔ اس نے الہامی کتابوں کے الہامی ہونے کا انکار کیا، تاہم اس کے باوجود وہ کائنات میں ایک ”جوہر“ کے تصور کی تصدیق کرتا ہے۔
ہیگل کی تنقید خدا کے تصورات پر ہے، نہ کہ پہلے سے تیارہ شدہ کسی ’موجود‘ خدا پر۔ کیونکہ”بنا بنایا“ خدا تو صرف الٰہیات میں دستیاب ہے، جب کہ ہم واضح کر چکے ہیں کہ فلسفے میں خدا عقل کے منطقی عمل میں مکشوف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقلی فلسفی کبھی بھی مذاہب میں پیش کیے گئے تصوراتِ خدا کے قائل نہیں رہے۔ مذہبی خدا کی عقلی و منطقی بنیادوں کی دریافت مذہب کا مطالبہ نہیں ہے، اور اگر کوئی فلسفی کسی مذہبی خدا کا قائل ہے تو اسے فلسفیانہ تصورِ خدا کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ فلسفیوں کے برعکس متکلمین مذہبی خدا سے منطقی زُمروں کو منسوب نہیں کرتے۔ ان کے تصورِ خدا کی جڑیں ان کے ”مقدس متون“ میں ہوتی ہیں۔ خدا کے اوصاف بھی مذہبی متون میں پیش کیے گئے خدا کے تفاعل سے متعین ہوتے ہیں۔ مستزاد یہ کہ متکلمین ”مقدس کتابوں“ میں پیش کی گئی اخلاقیات کی منطقی بنیادوں کو تلاش نہیں کرتے، بس ان کتابوں میں پیش کیے گئے احکامات کی پیروی کرتے ہیں۔ لہذا بنیادی فرق علمیاتی حوالوں کے علاوہ اخلاقی حوالوں سے بھی ہے جو زیادہ اہم ہے۔ ایک خدا الٰہیاتی ہے، دوسرا منطقی و عقلی۔ ایک خدا اخلاقیات کا منبع ہے، جب کہ دوسری طرف اخلاقیات کا ماخذ عقل ہے۔
اس مختصر تجزیے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ فلسفیوں کا تصورِ خدا الٰہیاتی تصورِ خدا کی وضاحت ہرگز نہیں ہے، بلکہ وجودیاتی اور کونیاتی سطح پر ایک الگ تصورِ خدا کی تشکیل ہے، جو کسی اخلاقیات کا حامل نہیں، بلکہ عقل کے اخلاقی آدرشوں کے حصول کا صرف ایک پہلو ہے۔ وہ عقل پر حجت نہیں، بلکہ اس کا
ایک زیریں رُکن ہے۔ وہ عقل کی فعلیت کی افضلیت میں ہی فضیلت کے حامل اور ’کامل‘ ہونے کے تصور سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں