جہانگیر حنیف
فلسفی کا خدا مذہبی یا الٰہیاتی خدا نہیں۔ یہ واضح چیز ہے۔ اسے ثبوت فراہم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسلام کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے جو علم اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں انسانوں کو فراہم کیا ہے، وہ کہیں اور سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ وحی من جانب اللہ ہی وہ واحد ماخذ ہے، جو رسولوں پر نازل ہوتی ہے اور خدا کے بارے میں تیقن سے علم فراہم کرتی ہے۔ علوم کی باقی تمام صورتیں اللہ تعالیٰ اور دوسرے غیبی امور کے بارے میں ریب و گمان سے پاک نہیں ہوسکتی۔ لہذا ان سے قطعی و یقینی علم فراہم نہیں ہوتا، جو عقائد کے باب میں ضروری ہے۔ اس بات کو تمھید کے طور پر سامنے رکھیں، تو ذیل میں مندرج ہماری معروضات سمجھنے میں آسانی رہے گی۔ اس مبحث میں اصل چیز یہ ہے کہ فلسفی خدا کے اثبات پر خود کو کیوں مائل پاتے ہیں۔ اس سوال کے دو جوابات ہیں۔ پہلا فطری اور سادہ ہے۔ دوسرا فنی اور علمی ہے۔
پہلا جواب یہ ہے کہ ایمان بالغیب انسانی فطرت میں اپنی بنیادیں رکھتا ہے۔ اگر یہ بنیادیں موجود نہ ہو، تو ایمان بالغیب شعور کے لیے بالکل اجنبی ہو جائے۔ اسے قبول کرنا ایک جبر بن جائے۔ لہذا ایمان کی طرف دعوت شعور کو اپنی طرف اس لیے مائل کرتی ہے، کیونکہ شعور بھی ایمان کے تقاضوں کو محسوس کررہا ہوتا ہے۔ وہ اس کی تفصیلات سے بے خبر ہوتا ہے، مگر اس کے لزوم کو سمجھ رہا ہوتا ہے۔ لہذا جب اسے ایک کامل اور خود مختار خدا پر ایمان کی دعوت دی جاتی ہے، تو وہ اس دعوت پر لبیک کہتا ہے۔ یہ دعوت شعور کے مسلمات کے خلاف ہو، تو وہ کبھی اس پر ایمان نہ لائے۔ شعور ہر چیز کو جاننے کے عمل میں نہیں رکھتا۔ وہ بہت سے امور کو ماننے کے خانہ میں منتقل کردیتا ہے اور پھر اِس ماننے کے عمل کو پرکھنے اور دوبارہ کسی معیار پر جانچنے کی ضرورت کو بھی محسوس نہیں کرتا۔ شعور کا یہ believing structure ایمان کی seat ہے۔ ایمان بالغیب شعور کے لیے اس وجہ سے قابلِ قبول ہوتا ہے، کیونکہ اس میں قبولیت کی استعداد بالبداہت موجود ہے۔ دوسری چیز انسان کی ایمان سے مانوس ہونے کی ہے۔ پہلی چیز شعور کی ایمانی ساخت ہے۔ وہ چیزوں کو جاننے کے عمل سے نکال کر ماننے کی استعداد اور ضرورت کی تحویل میں دیتا ہے۔ دوسری چیز ایمان کے محتویات سے شعور کی مانوسیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کامل ہونے اور اس کے خالق ہونے پر انسان کو اس لیے یقین پیدا ہوتا ہے، کیونکہ وہ محسوس کرتا ہے کہ دنیا کا خالق ہونا چاہیے اور یہ کہ اسے کامل اور خود مختار ہونا چاہیے۔ گویا ایمان شعور کی پیاس کی سیرابی ہے۔ یہ پیاس نہ ہو اور ایمان سے اس پیاس کی سیرابی نہ ہو، تو ایمان شعور کے لیے اجنبی اور جبر کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں۔ ایمان ہمارے وجود کا تقاضا ہے اور یہ ہمارے ازلی و ابدی سوالات کا جواب ہے۔
اب ہم اس سوال کے دوسرے جواب کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں۔ فلسفہ میں ایک بنیادی مسئلہ وجود کی حقیقت کا ہے۔ یہ دو مراتب پر مشتمل سوال ہے۔ اس کا پہلا مرتبہ موجود شے کی حقیقت سے متعلق ہے۔ یہاں دو مسائل کا سامنا ہے۔ مسئلہ اول شے کی ذہنی صورت سے متعلق ہے۔ یعنی شے کا ادراک کس قدر شے سے متعلق ہے اور کس حد تک شعور کا مرہون منت ہے۔ مسئلہ نمبر دوم شے فی نفسہ کا علم ہے۔ شے فی نفسہ کا علم ممکن ہے یا نہیں۔ ممکن نہیں، تو کیوں ممکن نہیں اور ممکن ہے، تو کیسے ممکن ہے۔ یہ دونوں مسائل ہمارے سوال کے اول درجہ سے جڑے ہیں۔ اس سوال کا دوسرا حصہ اصلِ وجود سے متعلق ہے۔ یعنی وجود اپنی حقیقت میں کیا ہے۔ وجود کیا ہے کا سوال وجودِ اصلی کی شناخت کا سوال ہے۔ شے کیا ہے کا سوال شے اور شے فی نفسہ دونوں کے علم کو شامل ہے۔ کانٹ کا موقف ہے کہ محض صورت کا علم ممکن ہے۔ شے فی نفسہ کا علم ہماری بساط سے باہر ہے۔ صورتوں کے علم کے بارے میں کانٹ نے کہا کہ یہ علم ادراک پلس عقل کے توسط سے حاصل ہوتا ہے۔ ادراک یا عقل میں سے کوئی ایک اس علم کے حصول میں کفایت نہیں کرتا۔ کانٹ نے یہ موقف اپنی شہرہ آفاق کتاب ”عقلِ محض کی تنقید“ میں اختیار کیا۔ اس پوزیشن کے اختیار کرنے میں کیا عوامل شامل تھے، ان کا تجزیہ و تحقیق ایک مستقل مضمون کا مقتضی ہے۔ لیکن اس ضمن میں ایک بات اکثر ذکر کی جاتی ہے اور وہ اس روایت کی بابت یے، جو کانٹ کو ورثہ میں ملی اور جس کے اختلافات کو سلجھانے کا کانٹ نے بیڑہ اٹھایا۔
اس روایت کے ایک طرف عقلیت پسند تھے، جن کے مطابق حقیقت کا علم ممکن تھا۔ دوسری طرف تجربیت پسند تھے، جو کہتے تھے کہ تجرںہ علم کی تشکیل میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور عقل کا کام محض حواس سے ملنے والی معلومات کی تنظیم سازی ہے۔ عقلیت پسند حقیقت کے علم کو ممکن اس لیے مانتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک عقل علم کا مخزن اور اس کے حصول کا واحد چینل تھا. مشاہدہ ناقص علم فراہم کرتا ہے۔ بلکہ زیادہ مناسب لفظوں میں علم اس وقت تک اپنی درست تشکیل حاصل نہیں کرسکتا جب تک مشاہدے کی نفی نہ کی جائے۔ قبل از کانٹ صورت اور حقیقت کے علم میں بطور علم کوئی امتیاز موجود نہیں تھا۔ کانٹ نے اس امتیاز کو متحقق کیا۔ دیکارت سے متاثر اس روایت میں substance کا تصور بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔ دیکارت نے substance کو خود مکتفی قرار دیا۔ یعنی وہ جو اپنے ہونے میں کسی پر منحصر نہیں، جو اپنی تعریف خود ہے۔ جو خود سے ہے اور اپنے ہونے کے تمام معانی خود سے حاصل کرتا ہے۔ خدا کے تصور میں اہلِ مذہب مطلق، خود مختار اور کامل ہونے کو جن لفظوں سے ادا کرتے تھے، دیکارت نے ان اوصاف کو substance میں جمع کردیا۔ اسپینوزا نے دیکارت کی اس تعریف کو اس سے زیادہ سنجیدگی سے قبول کیا اور اس نے حقیقی وجود کے علاوہ ہر وجود کے ہونے کا انکار کردیا۔ اس نے کہا کہ وجود واحد ہے۔ یعنی جو کچھ ہے، وہ وہی ہے اور باقی سب کچھ آنکھوں کا دھوکا ہے۔ جو کچھ ہمیں موجودات کے ضمن میں دکھائی دیتا ہے، وہ ایسے ہے جیسے کپڑے پر بَل (wrinkles) پڑ جائیں. موجودات محض وجودِ اصلی کے پرتو ہیں۔ اس کے مختلف aspects یا facets ہیں۔ دلچسپ بات عقل کا یہ دعویٰ تھا کہ حقیقت موجود ہے اور اس کا علم عقل کے لیے قابلِ حصول ہے۔ کانٹ نے ایک دوسرے عقلی پروجیکٹ سے ان کا ناطقہ بند کیا اور انھیں اس حقیقت کے روبرو کیا کہ عقل حقیقت کا علم حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ لہذا حقیقت کا علم اپنی جگہ ایک سوال رہ گیا کہ اس کا علم ممکن ہے یا نہیں، اہلِ عقل عقل ہی کی استعداد کے بارے میں مختلف فیہ ہوگئے۔
کمنت کیجے