ڈاکٹر خضر یسین
لفظ اسم ہے، معنی مسمی ہے۔ لفظ اسم نہ ہو، یعنی اس کا مسمی خارج یا ذہن میں نہ ہو تو وہ شور ہے، لفظ نہیں ہے۔ زبان و بیان میں لفظ، مسمی کی شناخت ہے اور مسمی، کا محل وقوع “محل شناخت” ہے۔ زبان و بیان دو ممتاز و منفرد اذہان کے اشتراک کا شعور ہے۔ ہر ذہن ایک مستقل ہستی ہے۔ ایک جہان ہے۔ لفظ کی معنی پر دلالت ظنی ہوتی ہے یا قطعی؟ اس سوال کا جواب دینے سے قبل ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کیا معنی پر لفظ کی دلالت مستقل بالذات ہوتی ہے یا منحصر ہوتی ہے؟ دو اذہان میں دوسرا ذہن چاھے خود میرا اپنا ہو (خود کلامی) یا کسی اور کا ہو، ان دونوں کے مابین جب تک لفظ ترسیل معنی کا وظیفہ انجام نہ دے زبان و بیان کسی شے کا نام نہیں ہے اور نہ ہی زبان و بیان کا وجود اس کے بغیر ممکن ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ لفظ مستقل بالذات حقائق میں شامل نہیں ہے، وہ منحصر ہستیوں میں سے ایک ہستی ہے۔ وہ مستقل نیستی ہے اگر متکلم نہ ہو۔
اسم کے ذریعے جو شناخت ایک ذہن سے دوسرے ذہن میں منتقل ہوتی ہے، اس میں ظن کا کیا کردار ہے؟ یا ظن یہاں کوئی کردار ادا بھی کر سکتا ہے؟ ظن اگر سرے سے کچھ ہوتا ہی نہ تو اس کا اسم ہی کیوں ہوتا؟ ظن کا لفظ بطور اسم جس مسمی کی شناخت ہے ہم اسے یقین یا قطعی کی نفی کیوں سمجھتے ہیں؟ اور یقین یا قطعی کا لفظ جس مسمی کی شناخت ہے، اسے ہم ظن کا نقیض کیوں سمجھتے ہیں؟ جن کا عرفان اضداد کے عرفان سے وقوع پذیر ہوتا ہے، وہ مستقل بالذات نہیں ہوتے اور نہ ہی علی استقلالہ ان پر بحث و تمحیص ممکن ہوتی ہے۔
لہذا یقین اور ظن کی اپنے مسمی پر دلالت یقینی ہے۔ یہاں لفظ کی معنی پر دلالت ظنی نہیں ہے، نہیں یہ دلالت ظنی ہو بھی نہیں سکتی۔ لفظ کی دلالت معنی پر ظنی بنائی جاتی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح کا ارادی عمل ہے جس طرح یقین اور قطعیت ہیں۔
اب اگر ہمیں لفظ کی معنی پر دلالت کے ظنی ہونے اور نہ ہونے کا فیصلہ کرنا ہے تو ہمیں وہ محل تلاش کرنے کی ضرورت جہاں لفظ کی دلالت معنی پر ظنی بنا دی جاتی ہے۔ مطلقا یہ کہہ دینا کہ لفظ کی معنی پر دلالت ظنی ہوتی ہے، بالکل غلط ہے۔ اس مقدمے کا مقصد اپنے مقدمے کی پشتی اٹھانا ہوتا ہے۔
ہم اس کی چند عملی مثالیں دیکھتے ہیں جس سے یہ بات عیاں ہو سکتی ہے کہ اگر لفظ کی معنی پر دلالت ظنی ہے تو وہ ظن یہاں کیوں کار فرما نہیں ہوتا۔ سورج ایک لفظ ہے، ایک اسم ہے۔ اس کا معنی یا مسمی معلوم ہے۔ کیا یہاں لفظ کی معنی پر دلالت ظنی ہے؟ بالکل نہیں سو فیصد یقینی ہے۔ زبان و بیان کا ایک معروف انداز مجاز اور حقیقت کا استعمال ہے۔
“مجاز” ایک اسم ہے اور یہ اسم جس مسمی کی شناخت ہے وہ اس مسمی سے مختلف ہے جس کا اسم “حقیقت” ہے۔ کیا یہ اختلاف ظنی ہے یا یہ اختلاف ان الفاظ کے معانی پر دلالت میں مضمر ظن کا نتیجہ ہے۔ دو اسم جس جس مسمی کی شناخت کا سبب بنتے ہیں کیا ان میں اختلاف ظنی ہوتا ہے؟ بالکل نہیں۔ “مجاز” بطور اسم جس تصور کو اپنا مسمی بناتا ہے یا بطور لفظ جس معنی پر دلالت کرتا ہے، اگر وہ ظن گزیدہ ہوتا تو ہمیں یہ فرق کبھی یہ سوجھتا جو اسے حقیقت سے ممتاز کرتا ہے۔ اسی طرح کے بہت سے لفظ ہیں، نہیں ہر لفظ جو کسی معنی کے لیے وضع کیا گیا ہے اس کی دلالت قطعی یا یقینی ہوتی ہے الا یہ کہ ارادتا کوئی ان میں خوض کے ذریعے پیدا کر دے۔
لفظ اسم ہے، اس کے دو مسمی ہیں۔ ایک ذہن میں ہے اور ایک خارج میں ہے۔ لفظ اسم ہے اس کا صرف ایک مسمی ہے اور وہ ذہن میں ہے۔ ایسے کلمات یا لفظ جن کا مسمی صرف ذہن میں ہو وہ لفظ معنی کا اور معنی لفظ کا عین ہوتا ہے۔ لفظ کے بغیر معنی نہ رہے اور معنی کے بغیر لفظ نہ رہے تو لفظ اور معنی میں وجودی عینیت ہے۔ لفظ اور معنی کی وجودی عینیت صرف فضائل میں ممکن ہوتی ہے۔ حقائق میں اس وجودی عینیت کا امکان معدوم ہوتا ہے۔ لیکن جب کوئی حقائق کے اسما موضوعہ میں وجودی عینیت کا دعوی کرتا ہے تو وہ اپنے دعوے کی سچائی ثابت کرنے کے لیے ایک تمہیدی دعوی اس کے جڑ دیتا ہے کہ لفظ کی معنی پر دلالت ظنی ہوتی ہے۔ اب وہ یہ کبھی نہیں کہے گا کہ لفظ اسم ہے اور معنی مسمی ہے۔
ہم اسم سے مسمی کی شناخت حاصل کرتے ہیں۔ مسمی کو مسمی انسان بناتا ہے اور جب تک وہ فضائل و حقائق میں سے ہر ہر حقیقت اور ہر ہر فضیلت کو مسمی نہیں بنا لیتا وہ ان کی شناخت کر سکتا ہے اور نہ ان کی تعمیل کا شعور اجاگر کر سکتا ہے۔
کمنت کیجے