ابو الحسین آزاد
معانی کی موت یا معانی کا بحران ہمارے عہد کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ جس طرح سود کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سے بچنے والے تک بھی اس کا غبار ضرور پہنچے گا بالکل یہی معاملہ معنی کے بحران کا بھی ہے، ہم اپنی جیبیں لاکھ مقاصد، نصب العین اور معنویتوں سے بھر لیں مگر کیا فرض ہے کہ اس عقلی رونق سے خانۂ دل کی تنہائی کا بھی مداوا ہو جائے گا؟ ہماری گونگی کیفیت کو خورشید رضوی بہت وقت سے زبان دے چکے ہیں کہ:
ظاہر پہ مسرت کا چھڑکتے ہیں بہت عطر
باطن سے اداسی کی مگر بو نہیں جاتی
کچھ دن پہلے احباب کی ایک مجلس میں کہا کہ اگر الٹنے کو یہ چار ورق اور لکھنے کو دو حرف بھی نہ ہوتے تو اپنے ہونے کا کیا جواز اور ہستی کا کیا بہانہ ہوتا؟
مگر یہ حرف بھی کب تک ہمارے بوجھ کے متحمل ہوں گے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ مرحوم نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میرے دو ہی دوست بچ گئے تھے: ایک شعر جسے میں زمین پر گنگناتا رہتا ہوں اور دوسرا وہ ندیمِ آسمانی، مگر اب ایسے محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے یہ دونوں دوست مجھ سے روٹھ گئے ہیں اور میں زندگی کے بیابان میں ایلی ایلی لما شبقتنی پکارتا پھر رہا ہوں۔
ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب دانش معانی کے خلا کو بھرنے کے بجائے مزید گہرا کرنے لگتی ہے۔ معری نے جب ابنائے زمانہ کو پہچان لیا اور اس پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ یہ کائنات ایسے حقیر ذروں سے مل کر بنی ہے جنھیں اگر علیحدہ علیحدہ کیا جائے تو یہ دکھائی بھی نہ دیں، تو اس کے لیے سب چیزیں بے معنی ہو گئیں:
وَزَهَّدَني في الخَلقِ مَعرِفَتي بِهِم
وَعِلمي بِأَنَّ العالَمينَ هَباءُ
(اہل دنیا کو جان لینے کے بعد میں ان سے کنارہ کش ہو گیا، نیز یہ جان لینے کے بعد کہ کائنات ذروں سے عبارت ہے۔)
حروف اور لفظوں کا کھیل ابھی تک ہمارا دل بہلا رہا ہے، دانش لطف کا منبع معلوم پڑتی ہے اور علم ہی وہ واحد روشن دان معلوم ہوتا ہے جس سے زندانِ ہستی میں معانی کی تازہ ہوا آتی ہے، لیکن کب تک؟
دامن کے سارے چاک، گریباں کے سارے چاک
ہو بھی گئے بہم تو بہم اور کتنی دیر!
رسالۃ الغفران کے ساتھ بِتائے وقت کے بارے میں کہنے کو بہت سی باتیں تھیں، مگر ان کے لیے ایک اور نشست درکار ہے، فی الحال اتنا ہی کہ دانتے سے بہت پہلے مَعَرِّی نے بھی جنت جہنم کی سیر کی ہے، اس “ڈیوائن کامیڈی” میں معری کا ہیرو جب جاہلی شعرا کی جہنم کی سیر سے واپس آ کر اپنی حوروں کے ساتھ طرب و نشاط کی مجلس لگاتا ہے اور ایک مغنیہ وہاں امرؤ القیس کے اشعار گنگناتی ہے تو وہ زور دار قہقہہ لگا کر کہتا ہے: امرؤ القیس خود جہنم میں جل رہا ہے جب کہ یہاں میں اس کے اشعار سے لطف لے رہا ہوں۔
جنت کے ایک کنارے پر، جس سے تھوڑا آگے جہنم ہوتی ہے، اسے خنساء کھڑی ملتی ہیں۔ خنساء کا بھائی صخر زمانۂ جاہلیت میں مارا گیا تھا، خنساء نے اسلام قبول کیا مگر عمر بھر بھائی کے بارے میں مرثیے کہتی رہیں:
وإن صخرا لتأتم الهداة به
كأنه علم في رأسه نار
(راہبر لوگ میرے بھائی صخر کی اقتدا کرتے تھے گویا وہ ایسا عَلَم تھا جس کے سر پہ آگ جل رہی ہو۔)
معری کا ہیرو خنساء کے پاس جا کر پوچھتا ہے کہ تم یہاں کیوں کھڑی ہو؟ خنساء کہتی ہیں، میں اپنے بھائی صخر کو دیکھنے آئی ہوں، پھر وہ دونوں آگے بڑھ کر جہنم میں جھانکتے ہیں تو صخر بری طرح جل رہا ہوتا ہے، خاص طور پر اس کا سر شعلوں کی لپیٹ میں ہوتا ہے۔ صخر اپنی بہن خنساء کو دیکھ کر کہتا ہے:
تم نے سچ کہا تھا کہ میرا بھائی صخر ایسا علَم ہے جس کے سر میں آگ لگی ہوئی ہے۔
کمنت کیجے