قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زندہ معجزہ ہے۔ اس کے عجائبات حد شمار سے باہر ہیں اور پھر جس طرح اس کے موضوعات میں تنوع پایا جاتا ہے ایسے ہی قرآن مجید کے معجزات کے مختلف پہلو ہیں۔ ڈاکٹر عطاء المصطفی مظہری صاحب کا تعلق میانوالی سے ہے۔ خیرآبادی مکتب سے وابستہ ہونے کے ساتھ عرب علماء کے ساتھ بھی ان کا کافی تعلق رہا ہے۔ قرآن مجید کے لفظی و معنوی اعجاز کے اوپر آپ نے قلم اٹھایا ہے جس کا نام “لا ریب فیہ” رکھا ہے۔ اس کو ورلڈ ویو پبلشرز لاہور نے شائع کیا ہے۔
کتاب پر گفتگو کرنے سے پہلے ایک اعتراف کر لوں کہ میں عربی زبان نہیں جانتا۔ اس لیے اس کتاب کا حق میں نہیں ادا کر سکتا۔ کیونکہ اس کتاب میں قرآن مجید کے لفظی لطائف اور پھر ان کی معنوی خوبصورتی پر کلام کیا گیا ہے۔ جس طرح سے عربی قواعد کی خوبصورتی اس کے الفاظ کے انتخاب میں پائی جاتی ہے۔ اس کو عربی سے ناواقف بندہ مکمل طور پر نہیں جان سکتا۔ اس لیے میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ اس کتاب کے بیشتر مباحث جو کہ خالصتاً صرفی و نحوی حسن پر ہیں ان پر کوئی گفتگو کر سکوں۔
ڈاکٹر صاحب کا مقدمہ جو ‘آہ سوز نہاں’ کے نام سے ہے، بہت عمدہ ہے۔ جس کو پڑھ کر کلام الٰہی کے اعجاز اور اس میں حسن ترتیب کی ایک جھلک محسوس ہوتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے قرآن مجید کے حسن تعبیر اور کمال اعجاز کی چند مثالوں سے اس کے خوبصورتی کو بیان کیا ہے۔
سبز رنگ کو سکون کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ محققین کے نزدیک یہ رنگ مریضوں کو ذہنی آسودگی دیتا ہے۔اس لیے آپریشن تھیٹر میں سبز رنگ کے کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ سبز رنگ سے آنکھوں کو ٹھنڈک اور سکون ملتا ہے۔ قرآن مجید میں جب رب العالمین جنتیوں کے لباس کا ذکر کرتا ہے تو ان کے لیے سبز رنگ کا ذکر فرماتا ہے۔ملاحظہ ہوں
سورہ الرحمن: آیت ۷۶
سورہ الانسان: آیت ۲۱
سورہ الانعام: آیت ۹۹
سورہ یوسف: آیت ۴۳ اور آیت ۴۶
سورہ الکہف: آیت ۳۱
سورہ الحج: آیت ۶۳
سورہ یسین: آیت ۸۰
ان سب آیات مبارکہ میں بعض میں اہل جنت کے لیے سبز لباس اور بعض دیگر مواقع پر سبز رنگ کا ذکر ہے۔
نفسیاتی امراض اور جسمانی امراض میں تعلق پایا جاتا ہے۔ نفسیاتی امراض جسمانی امراض میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ سورہ یوسف میں حضرت سیدنا یعقوب علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بینائی جانے کے ذکر میں فرمایا کہ غم کے لاحق ہونے اور اس کی شدت سے آنکھوں کی بینائی چلی گئی۔
جدید میڈیکل سائنس کے مطابق اگر کوئی شخص ایک پوزیشن میں طویل عرصہ گزارے تو اس کو بیڈ سورز کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔ جس کی وجہ سے جلد کے رنگ اور ساخت میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ اس مرض کے علاج کے لیے طبعی ماہرین کہتے ہیں کہ پوزیشن تبدیل کرنے اور کروٹ بدلنے سے اس مرض سے بچا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید نے اصحاب کہف کا واقعہ جب بیان کیا ہے تو ان کے کروٹ بدلنے کا ذکر کیا ہے۔
قرآن مجید میں ایک خاص قسم کا تناسب عددی بھی پایا جاتا ہے۔ جیسے کہ ‘الحیاۃ’ کا لفظ ۱۴۵ بار آیا ہے تو ‘الموت’ کا لفظ بھی اتنی بار آیا ہے۔
‘الصالحات’ ۱۶۷ دفعہ آیا ہے تو اس کا متضاد ‘السیات’ بھی اتنی دفعہ آیا ہے
‘الدنیا’ کا مقابل ‘الآخرۃ’ ہے اور یہ دونوں الفاظ برابر ۱۱۵ دفعہ آئے ہیں
اس کے علاوہ بھی کئی الفاظ جو ایک دوسرے کے متضاد یا مقابل ہیں ان کے ذکر میں عددی تناسب موجود ہے
الملائکہ اور الشیطان ۸۸ بار
المحبۃ اور الطاعتہ ۸۳ بار
اس کے علاوہ بھی کچھ اور الفاظ کے تناسب کی مثالیں ڈاکٹر صاحب نے دی ہیں
کچھ الفاظ جن میں معنوی تعلق پایا جاتا ان کے درمیان ریاضیاتی و حسابیاتی تعلق پایا جاتا ہے۔ جیسے کہ
الرحمن ۵۷ بار آیا ہے تو الرحیم ۱۱۴ بار
الجزاء ۱۱۷ دفعہ تو المغفرۃ ۲۳۴ مرتبہ یعنی دو گنا
العسر ۱۲ مرتبہ تو الیسر ۳۶ مرتبہ یعنی تین گنا
الشھر (مہینہ) ۱۲ مرتبہ آیا ہے۔ تو سال میں بارہ مہینے ہوتے ہیں
الیوم (دن) ۳۶۵ دفعہ آیا ہے تو ایک سال میں اتنے ہی دن ہوتے ہیں
جیسا کہ پہلے ڈاکٹر صاحب کے عرب علماء سے تعلق کا ذکر ہوا تو اس کتاب کی تالیف میں ڈاکٹر صاحب نے کئی مشائخ عرب سے سوال کیے گئے سوالات کے جوابات نقل کیے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے قرآن مجید کی ۴۹ سورتوں کا انتخاب کیا ہے اور ان کے اندر لفظی و بلاغی پہلوؤں کے حسن پر بات کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کوئی آیت منتخب کرتے ہیں اور پھر اس پر سوال قائم کرتے ہیں اور پھر اس کا جواب نقل کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کی بیشتر مباحث لفظی و بلاغی پہلوؤں پر ہے تو ان پر میرے جیسا شخص جو عربی گرامر اور قواعد سے مکمل طور پر ناواقف ہے کوئی بات نہیں کر سکتا۔ البتہ ان مباحث کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے کسی بھی موقع پر جو الفاظ کا انتخاب کیا ہے جبکہ اس کے متبادل بھی الفاظ موجود تھے تو اس لفظ کا حسن بیان زیادہ کھل کر سامنے آتا ہے جیسا کہ سورہ الفاتحہ کے آغاز میں ‘الحمد للہ’ کا کلمہ ہے۔ جبکہ دیگر کلمات جیسے ‘المدح للہ’ ، ‘الشکر للہ’ ، ‘أحمد اللہ ‘ ، ‘نحمد للہ’ وغیرہ سے بھی ابتداء کی جا سکتی تھی۔ اس کا جواب دیا ہے اور بتایا ہے کہ الحمد للّٰہ کے لفظ میں کوئی کمی نہیں پائی جاتی جو ان الفاظ کے استعمال میں ممکن ہے۔
ایسے سورہ بقرہ کے آغاز میں کتاب اللہ کی حقانیت کے لیے ‘لاریب فیہ ‘ فرمایا ہے، اس جگہ ‘لا شک فیہ’ بھی استعمال ہو سکتا تھا مگر شک کی جگہ ریب کے استعمال کی وجہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ریب اطمینان و یقین کی ضد ہے۔ اس میں قلق و اضطراب ہے۔ شک مبداء ریب ہے۔ ہر ریب کو شک کہا جا سکتا ہے مگر ہر شک کو ریب نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے یہاں پر مضمون کو جو لفظ ریب بیان کر رہا ہے وہ شک سے بیان نہیں ہو سکتا تھا۔
سورہ البقرہ میں متقتین کے لیے ہدایت کے انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔ جبکہ سورہ لقمان میں محسنین کے لیے ہدایت کے ساتھ رحمت کی جزا کا بھی اعلان ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ متقی تقوی اور پرہیز گاری کے ذریعے سے اپنی حفاظت کرتا ہے جبکہ محسن اپنے احسان سے دوسروں کو بھی خیر اور بھلائی مہیاء کرتا ہے۔محسن اپنے اوصاف میں متقی سے زیادہ ہوتا ہے لہذا اس کی جزا اور اجر میں ہدایت کے ساتھ رحمت کا اضافہ بھی موجود ہے۔
شیطان کی موجودگی سے تو ہم باخبر ہے مگر ہم اس کو دیکھ نہیں سکتے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سورہ الاعراف اور سورہ السجدہ میں جہاں ہمیں شیطان کے شر سے خبردار کیا جا رہا ہے تو اس کے لیے لفظ ‘السمیع العلیم ‘ آیا ہے۔ انسان جو کہ ہمیں نظر آتا ہے اور ہم اس کو دیکھ سکتے ہیں سورہ غافر میں شریر انسانوں سے پناہ کے لیے ‘السمیع البصیر’ کا لفظ آیا ہے۔
سورہ الرحمن کے اندر اعجاز قرآن اور حسن تعبیر کے متعدد شواہد پائے جاتے ہیں اور انسان مزید غور کرے تو ضرور اس میں اور بھی بہت سے اعجاز اور کمالات کو وہ اخذ کر سکتا ہے۔ اس سورہ میں تذکرہ جنت کے درمیان آٹھ بار ‘فبای الا ربکما تکذبان ‘ آیا ہے۔ جو انتہائی اعجاز کے ساتھ جنت کے آٹھ دروازوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
سورہ البقرہ میں یہودیوں کو مشرکین سے زیادہ حریص کہا گیا۔ اس کی وجہ یہ ذکر کی ہے کہ مشرکین دنیوی حیات کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے جبکہ اہل کتاب جانتے تھے کہ حیات دنیوی عارضی ہے مگر اس کے باوجود وہ حریص تھے۔
سورہ البقرہ کے شروع میں جب کفار کا ذکر آیا تو ان کے لیے ‘ ولھم عذاب عظیم ‘ فرمایا گیا جبکہ منافقین کے لیے ‘ولھم عذاب الیم ‘ فرمایا گیا ہے۔ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ عظیم بمعنی کثیر یا دائم کے ہیں یعنی دوزخ میں ہمیشہ رہنے کا عذاب، چونکہ وہ عذاب بہت بڑا ہوگا اس لیے اس کو عظیم فرمایا ہے۔ منافقین کو کفار کے مقابلے میں عذاب کی زیادہ تکلیف ہو گی کیونکہ کفار نے ایمان کی لذت کبھی چکھی ہی نہیں ، نور ایمان ان کے ظاہری حواس تک نہیں پہنچا جبکہ منافقین ایمان کے دروازے تک پہنچے اس کی مٹھاس ان کے زبان اور تالو پر لگی بھی مگر وہ اس کا پھل نہیں کھا سکے۔ ان کو اپنی اس محرومی پر بہت صدمہ ہوگا۔ ان کے عذاب کو الیم کہا گیا ہے۔
سورہ آل عمران کی دوسری آیت میں قرآن مجید کے لیے لفظ ‘نَزَّلَ’ جبکہ تورات اور انجیل کے لیے ‘أَنزَلَ’ آیا ہے۔ اس پر بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ نزول کے اعتبار سے قرآن کی دو جہتیں ہیں۔ انزل کی بھی اور تنزیل کی بھی، لفظ تنزیل تکثیر کے لیے آتا ہے اور قرآن مجید بھی رفتہ رفتہ نازل ہوا۔ جبکہ تورات اور انجیل یک بارگی نازل ہوئیں اس لیے ان کے لیے ‘أَنزَلَ’ کا لفظ استعمال کیا ہے۔
سورہ النساء کی آیت ۱۶۳ میں انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہے۔ اس کا ترجمہ
‘(اے حبیب!) بے شک ہم نے وحی بھیجی آپ کی طرف جیسے ہم نے وحی بھیجی تھی نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد دیگر نبیوں کی طرف اور وحی فرمائی ہم نے ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور (ان کی) اولاد اور عیسی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان ( علیہم السلام) کی طرف اور عطا فرمائی تھی ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور’
اس کے ساتھ سورہ الانعام کی آیت ۸۴ تا ۸۶ میں بھی انبیاء علیہم السلام کا ذکر آیا ہے۔ ان آیات کا ترجمہ
‘اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون (علیہم السلام) (کو بھی ہم نے ہدایت سے نوازا) اور اسی طرح ہم جزا دیا کرتے ہیں نیکوکاروں کو اور زکریا اور یحیی اور عیسی اور الیاس (علیہم السلام) (کو بھی ہم نے ہدایت بخشی) یہ سب نیکوکار لوگ تھے (قربت و حضوری والے) اور اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط (علیہم السلام) کو بھی (ہم نے مشرف کا ہدایت فرمایا) اور (ان) سب کو ہم نے فضیلت عطا فرمائی (ان کے زمانے کے) تمام جہانوں پر’
ان دونوں سورتوں میں جو انبیاء علیہم السلام کے نام ہیں ان کی ترتیب میں اعجاز اور حکمت پر بات کرتے ہوئے شیخ الاسلام بدر الدین بن جماعہ کا کلام نقل کیا ہے اور بتایا ہے کہ سورہ النساء کی آیت اہل کتاب کے اس سوال کے جواب کہ ان پر آسمان سے یک بارگی کتاب نازل کی جائے جیسا کہ اس سورہ کی آیت ۱۵۳ میں ذکر ہے۔ اس کے ساتھ مشرکین کے اس قول کے جواب کہ آسمان پر چڑھ کر وہاں سے ہمارے لیے کتاب لائی جائے جس کا ذکر سورہ الاسرا کی آیت ۹۳ میں ہے۔
اس آیت میں جواب دیا گیا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی طرف کتب نازل نہیں ہوئیں ، بعض کی طرف وحی فرمائی گئی ،بعض کو کتاب عطاء فرمائی اور بعض کو صحائف دیئے گئے اس کی وضاحت کرتے ہوئے
۱.سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا نام ارشاد فرمایا جنہیں نبوت تو عطا فرمائی لیکن ان کی طرف کتاب نہیں اتاری گئی اور پھر اجمالاً ان کے بعد آنے والے انبیاء علیہم السلام کا تذکرہ فرمایا
۲.پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر فرمایا جنہیں صحیفہ عطا فرمایا گیا اس کے بعد ان انبیاء علیہم السلام کا تذکرہ فرمایا جنہیں کتاب عطا نہیں فرمائی۔
۳۔پھر عیسی علیہ السلام کا تذکرہ فرمایا جنہیں انجیل عطا فرمائی اور اس کے بعد پھر ان انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ فرمایا جنہیں کتاب عطا نہیں فرمائی ان میں حضرت ایوب علیہ السلام اور ان کے بعد دیگر انبیاء کرام کے نام ارشاد فرمائے۔
۴۔اور پھر حضرت داؤد علیہ السلام کا تذکرہ فرمایا جنہیں زبور عطا فرمائی گئی۔کتاب و صحیفہ دئیے جانے یا نہ دیئے جانے کے اعتبار سے اس ترتیب کو دیکھا جائے تو یہ قرآن پاک کے اعجاز کو ظاہر کرتی ہے۔
سورہ الانعام کی آیت ۸۴ کو دیکھا جائے تو اس سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی ذریت پر جو انعامات فرمائے گئے انہیں بیان فرمایا گیا۔ اب اس جہت سے آیت میں مذکور انبیاء علیہم السلام کے اسماء مبارکہ کو دیکھا جائے تو ایک خوبصورت ترتیب حاصل ہوتی ہے اور اس اعتبار سے جوڑے کچھ یوں بنتے ہیں کہ
۱۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو مملکت و نبوت عطاء فرمائی
۲۔ حضرت ایوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کو نجات عطا فرمائی یعنی حضرت ایوب علیہ السلام کو مرض سے اور حضرت یوسف علیہ السلام کو قید سے نجات عطا فرمائی۔
۳۔ حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو اخوت کی نعمت عطا فرمائی اور پھر دونوں کو نبوت عطا فرمائی۔
۴۔ حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت یحیی علیہ السلام کو مرتبہ شہادت عطا فرمایا
۵۔ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام کو سیاحت عطا فرمائی
۶.حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت الیسع علیہ السلام کو بوعد الصدق کی نعمت عطا فرمائی۔
۷.حضرت یونس علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام دونوں نے اپنی قوم سے ہجرت فرمائی ایک کو مچھلی کے پیٹ سے نجات عطا فرمائی اور دوسرے کو عذاب میں مبتلا قوم سے نجات عطا فرمائی۔
یوں ان انبیاء علیہم السلام کے اسماء مبارکہ کی ترتیب جو ان دونوں سورتوں میں بیان ہوئی ہے اس کی حکمت سمجھ میں آتی ہے۔
سورہ یوسف میں بھائیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی خطا کا اظہار کیا تو وہاں کلام میں ‘ان’ جو کہ مخففہ ہے جبکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے سامنے اپنی خطا کے اعتراف میں انہوں نے ‘انا’ کا استعمال کیا جو کہ مشددہ کے ساتھ ہے۔ بظاہر ذہن اس طرف جاتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ان کو اپنی خطاؤں کا اعتراف کرتے ہوئے مشددہ کے ساتھ کلام کرنا چاہیے تھا کیونکہ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو براہ راست تکالیف پہنچائی تھیں۔
اس فرق کی حکمت بیان کرتے یہ جواب دیا ہے کہ ایک طرف ان کے پیش نظر حضرت یوسف علیہ السلام تھے جنہیں رب کائنات نے مصر کی شاہی اور سلطنت عطاء فرمائی اور دوسری طرف حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کی آنکھیں حضرت یوسف علیہ السلام کے فراق میں سفید ہو گئیں اور پھر جب بنیامین کو مصر میں ٹھہرایا گیا تو حضرت یعقوب علیہ السلام کا غم پھر تازہ ہو گیا اور مصائب کی شدت سے آپ گوشہ نشین ہو گئے۔ ان دونوں حالتوں کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ برادران یوسف کو یہ شعور تھا کہ ان کے والد کے حق میں ان سے زیادہ بڑی خطا ہوئی اس لیے انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے سامنے اعتراف کرتے ہوئے مشددہ کے ساتھ کہا اور ایک سبب یہ بھی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے لیے بغیر ان کے مطالبے کے دعائے مغفرت کرتے ہوئے فرمایا کہ آج تم پر کوئی ملامت نہیں اللہ تمہاری مغفرت فرمائے وہ ارحم الراحمین ہے جبکہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کے مطالبے کے باوجود ان کے لیے استغفار کا وعدہ مستقبل میں کرتے ہوئے فرمایا یعنی میں تمہارے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا لہذا حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیان میں مشددہ اور حضرت یوسف علیہ السلام کے بیان میں مخففہ اعجازِ قرآنی کی عمدہ مثال ہے۔
اس کتاب میں مزید ایسے لفظی و بلاغی اعجاز موجود ہیں جو کہ قرآن مجید کے طالب علم کے لیے بہت مفید ہیں بالخصوص جو اس کی زبان سے واقفیت رکھتے ہوں۔ میں نے چند ایک کی طرف جو مجھے سمجھ بھی آئے ان کا ذکر کر دیا ہے۔
ڈاکٹر عطاء المصطفی مظہری صاحب کی یہ کتاب فہم قرآنیات کے سلسلے ایک عمدہ اضافہ ہے۔ جس سے اہل علم بھرپور استفادہ کر سکتے ہیں اور قرآن مجید کے مزید اعجازی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر عطاء المصطفی مظہری صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
ایک دفعہ پھر اس بات کا اعتراف کہ اس کتاب کی بیشتر مباحث پر کوئی رائے یا تبصرہ کرنے کے لیے مطلوبہ علم اور صلاحیت میرے پاس نہیں۔
کمنت کیجے